داغ لطف آرام کا نہیں ملتا - داغ دہلوی

کاشفی

محفلین
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)

لطف آرام کا نہیں ملتا
آدمی کام کا نہیں ملتا

کیسے حاضر جواب ہو کہ جواب
میرے پیغام کا نہیں ملتا

اُس نے جب شام کا کیا وعدہ
پھر پتہ شام کو نہیں ملتا

جستجو میں بہت ہے وہ کافر
بھید اسلام کا نہیں ملتا

مل گیا میں تمہیں وگرنہ غلام
کوئی بے دام کا نہیں ملتا

چرخ پر جا کے عرض حال کروں
رستہ اس بام کا نہیں ملتا

نہ ملے رنگ رنگ میں جب تک
دل مئے آشام کا نہیں ملتا

ظرف بےمثل ہے دل پرخوں
جوڑا اس جام کا نہیں ملتا

تلخیء رشک کیا گوارا ہو
زہر بھی کام کا نہیں ملتا

داغ کی ضد سے ہے تلاش اُنہیں
کوئی اس نام کا نہیں ملتا
 

فرخ منظور

لائبریرین
خوبصورت انتخاب ہے کاشفی صاحب۔ اس شعر میں شاید مئے ہونا چاہیے۔

نہ ملے رنگ رنگ میں جب تک
دل مے آشام کا نہیں ملتا
 
Top