قرآن شریف میں آیۃ “بسم اللہ الرحمن الرحیم“ کتنی دفعہ آئی ہے؟

سلیم احمد

محفلین
کیا بسم اللہ الرحمن الرحیم سورہ کا حصہ ہوتی ہے یعنی کیا یہ پہلی آیت ہے یا بسم اللہ کو سورہ میں شامل نہیں کیا جاتا ۔ مختلف جگہوں پر مختلف طریق پر نظر آیا ہے۔ یعنی
بسم اللہ الرحمن الرحیم کو

  • بعض نے ایک نمبر آیت کے طور پر لکھا ہے
  • بعض نے قریبا ہر سورہ میں بغیر نمبر کے لکھا ہے۔
  • بعض نے صرف سورہ فاتحہ میں ایک نمبر آیت کے طور پر لکھا ہے اور بعد میں آنے والی سورہ میں بسم اللہ کو بغیر نمبر کے لکھا ہے۔
  • وغیرہ
 

شمشاد

لائبریرین
زیادہ تر یہی کہا گیا ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ فاتحہ کی آیت ہے۔ اور یہ آیت قرآن میں دو دفعہ آئی ہے۔ ایک سورۃ فاتحہ میں اور دوسری دفعہ سورۃ نمل میں۔

یہاں ہمارے عربی کے اُستاد نے بتایا تھا کہ جب بھی آپ بھی قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگیں تو اگر تو آپ کسی سورۃ سے شروع کر رہے ہیں تو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر شروع کریں۔ اور اگر آپ کسی سورۃ کے بیچ میں سے تلاوت شروع کرنے لگے ہیں تو اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھکر تلاوت شروع کریں۔
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ شمشاد، لیکن اس موضوع کا عنوان بھی کچھ تبدیل کر دیتے تو اچھا تھا۔ مجھے خیال ہوا کہ شاید اپنا تعارف کرنے کے لئے بسم اللہ لکھ کر کسی نے تعارف شروع کیا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ فقہی مسئلہ ہے، اور مجھے ڈر ہے کہ کوئی بحث نہ شروع ہو جائے، صرف آپ کی تشفی کیلیے:

- احناف کے نزدیک بسم اللہ کسی بھی سورۃ کے شروع میں قرآن کا حصہ نہیں ہے (سورۃ نمل کے درمیان میں ہے سو قرآن کا حصہ ہے)، مثلاً احناف جب نماز میں الحمد شریف پڑھتے ہیں تو پہلی رکعت میں بسم اللہ پڑھتے ہیں لیکن سورہ فاتحہ کا حصہ سمجھ کر نہیں بلکہ تسمیہ کا حصہ سمجھ کر۔ دوسری اور مابعد کی رکعتوں میں جب الحمد پڑھتے ہیں تو بغیر بسم اللہ کے پڑھتے ہیں۔ اور نہ ہی بسم اللہ کو کوئی آیت نمبر لگاتے ہیں۔

- اہلِ حدیث اور فقہ جعفریہ کے نزدیک، بسم اللہ سورۃ فاتحہ کے شروع میں قرآن کا حصہ ہے ، سو اسکی تلاوت ہر رکعت میں واجب ہے۔ اور سورۃ فاتحہ کے شروع میں اس کو آیت نمبر ا کا نشان بھی لگایا جاتا ہے۔
 

قیس

محفلین
السلام علیکم، دوستان گرامی میں اس سلسلہ میں کسی کی نہیں سنتا، کیونکہ بسم اللہ الرحمن الرحیم میرے نزدیک کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس کہ نعوذ بااللہ قرآن کریم میں کوئی تبدیلی واقع ہونے کا ڈر ہو۔ باقی ایسے مسائل ہمارے نام نہاد علماء و فقہا کے حلوں اور دیگر اشیائَے خورد و نوش تک رسائی کا شاخاسانہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک یا خلفاء راشدین کے دور مبارک یا پھر قرون اولی میں ایسی کوئی بحث نہیں ملتی ۔ کیونکہ انکے لئے قرآن کریم کتاب اللہ کے علاوہ زندگی کا لائحہ عمل تھا۔ باقی اگر علم کے حوالہ سے بحث کرنی ہے تو سیرت نبوی پر غور کیجئے حقیقت آشکار ہو جائے گی۔ ان حقیقتوں کو جاننے کے لئے آیت کریمہ رب زدنی علماء کا کثرت سے استعمال کریں۔ انشاء اللہ غیبی طور پر وہ حقیقتیں آشکار ہوں گی کہ آنکھوں سے اشک نہ رک رکیں گے۔ والسلام
 

یوسف-2

محفلین
ہر سورۃ کے آغاز میں بسم اللہ، اس سورۃ کا حصہ ہے یا نہیں ہے، گو کہ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ مگر اس سے قرآن کی ’’اصل حیثیت‘‘ پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ الحمد سے لے کر والناس تک اُسی صورت میں موجود ہے، جس طرح کہ یہ نازل ہوا تھا۔
اصل میں ابتدا مین جب قرآنی مصحف کو تحریری صورت میں یکجا کیا گیا تھا تو نہ تو اس پر اعراب موجود تھے، نہ ہی ہر آیت پر نمبر شمار لگائے گئے تھے۔ بلکہ بعض اسکالرز کے مطابق تو ابتدائی نصخوں میں تو تمام حروف بھی ’’غیر منقوط‘‘ (بغیر نقطوں والے) تھے۔ لیکن جلد ہی حفاظ کو یاد شدہ قرآن کے عین مطابق بعض حروف میں نقطے لگا کرغیر منقوط حروف سے الگ کردیا گیا تاکہ بعد میں آنے والے مسلمان قرآن کو اصل قرآت کے ساتھ پڑھ سکیں۔
اسی طرح یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ قرآن مین اعراب بھی بہت بعد میں لگائے گئے۔ لیکن ان اعراب کے لگانے سے قرآن کی اصل قرآت پر کوئی فرق نہین پڑا۔

یہی معاملہ آیات کے نمبر شمار کا ہے۔ جب قرآنی آیات پر نمبر شمار لگائی گئیں تو الگ الگ ادوار یا علاقوں میں تین مختلف طریقےاختیار کئے گئے۔ ایک میں ہر صورت کے آغاز میں لکھی ہوئی بسم اللہ کو بھی نمبر شمار دیا گیا۔ دوسری میں ایسا نہین کیا گیا اور تیسری میں یہ بھی اختلاف ہے کہ بعض لوگوں میں اس امر پر بھی اختلاف تھا کہ ایک آیت مقام الف پر ختم ہوتی ہے یا مقام ب پر ۔ اس طرح قرآن کے کل آیات کی تعداد بھی تین مختلف بیان کی جاتی ہے۔ لیکن ان تین مختلف ’’کل نمبر شمار‘‘ کے بوجود ان سب میں قرآنی آیات، الفاظ، بلکہ حروف تک سب میں یکساں ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب
 

زلفی شاہ

لائبریرین
السلام علیکم، دوستان گرامی میں اس سلسلہ میں کسی کی نہیں سنتا، کیونکہ بسم اللہ الرحمن الرحیم میرے نزدیک کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس کہ نعوذ بااللہ قرآن کریم میں کوئی تبدیلی واقع ہونے کا ڈر ہو۔ باقی ایسے مسائل ہمارے نام نہاد علماء و فقہا کے حلوں اور دیگر اشیائَے خورد و نوش تک رسائی کا شاخاسانہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک یا خلفاء راشدین کے دور مبارک یا پھر قرون اولی میں ایسی کوئی بحث نہیں ملتی ۔ کیونکہ انکے لئے قرآن کریم کتاب اللہ کے علاوہ زندگی کا لائحہ عمل تھا۔ باقی اگر علم کے حوالہ سے بحث کرنی ہے تو سیرت نبوی پر غور کیجئے حقیقت آشکار ہو جائے گی۔ ان حقیقتوں کو جاننے کے لئے آیت کریمہ رب زدنی علماء کا کثرت سے استعمال کریں۔ انشاء اللہ غیبی طور پر وہ حقیقتیں آشکار ہوں گی کہ آنکھوں سے اشک نہ رک رکیں گے۔ والسلام
علماء و فقہاء کے نزدیک بسم اللہ شریف کے قرآن پاک کے حصہ ہونے یا ہونے میں اختلاف رہا ہے لیکن یہ کسی بھی دور میں بہت بڑا مسئلہ نہیں رہا اور نہ ہی اس مسئلہ پر کوئی فتنہ و فساد ہوا ہے۔ اگرایسا ہوا ہے تو قیس صاحب اس کی وضاحت ضرور فرمائیں اور اگر ایسا نہیں ہوا تو اس قسم کے سخت ریمارکس دینے کا کیا مقصد؟ کیا آپ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو نام نہاد فقہاء سے تعبیر کر رہے ہیں جن کے نزدیک بسم اللہ قرآن شریف کا جز ہے یا امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کو جو تابعی ہیں ،جن کے نزدیک یہ قرآن کا جز نہیں ہے۔ نام نہاد علماء و فقہاء سے کیا مراد ہے؟؟؟؟
میں فورم کی انتظامیہ سے ملتمس ہوں کہ آپ ان الفاظ کو حذف کر دیں اور ان صاحب کو سمجھائیں کہ اس فورم کے اصول و ضوابط کیا ہیں۔ تاکہ مزید بدمزگی سے بچا جا سکے۔
یہ فقہی مسئلہ ہے، اور مجھے ڈر ہے کہ کوئی بحث نہ شروع ہو جائے، صرف آپ کی تشفی کیلیے:

- احناف کے نزدیک بسم اللہ کسی بھی سورۃ کے شروع میں قرآن کا حصہ نہیں ہے (سورۃ نمل کے درمیان میں ہے سو قرآن کا حصہ ہے)، مثلاً احناف جب نماز میں الحمد شریف پڑھتے ہیں تو پہلی رکعت میں بسم اللہ پڑھتے ہیں لیکن سورہ فاتحہ کا حصہ سمجھ کر نہیں بلکہ تسمیہ کا حصہ سمجھ کر۔ دوسری اور مابعد کی رکعتوں میں جب الحمد پڑھتے ہیں تو بغیر بسم اللہ کے پڑھتے ہیں۔ اور نہ ہی بسم اللہ کو کوئی آیت نمبر لگاتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ احناف بسم اللہ شریف کو ہر سورت سے پہلے قرآن پاک کا حصہ نہیں مانتے۔ لیکن نماز کی ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ شریف پڑھتے ہیں۔ مگر شوافع کی طرح جماعت میں بسم اللہ بالجہر کے قائل نہیں۔

- اہلِ حدیث اور فقہ جعفریہ کے نزدیک، بسم اللہ سورۃ فاتحہ کے شروع میں قرآن کا حصہ ہے ، سو اسکی تلاوت ہر رکعت میں واجب ہے۔ اور سورۃ فاتحہ کے شروع میں اس کو آیت نمبر ا کا نشان بھی لگایا جاتا ہے۔
 

رانا

محفلین
دوستوں کی معلومات کے لئے یہ بات شئیر کررہا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے نزدیک بسم اللہ ہر سورت کا حصہ ہے۔ اسی لئے جماعت احمدیہ کے زیراہتمام چھاپے جانے والے قران شریف کے نسخوں میں ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ کو آیت نمبر ایک شمار کیا جاتا ہے۔
یوسف ثانی صاحب نے بہت اچھی بات کہی ہے کہ اس سے قران کی اصل حقیقت میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ وہ جس طرح ابتدا میں نازل ہوا تھا ویسا ہی آج ہمارے پاس اللہ کے فضل سے موجود ہے۔
 

وجی

لائبریرین
سورۃ التوبہ کہ شروع میں بسم اللہ نہیں ہے اسکے بارے میں کہاجاتا ہے کہ قرآن کی سورتیں جب نازل ہوتی تھیں تو بسم اللہ کو استعمال کیا جاتا تھا کہ پہلی سورۃ مکمل ہوگئی ہے اور اب دوسری شروع ۔ تو یہ کہاجاسکتا ہےکہ بسم اللہ سورۃ کی آیت نہیں ہے ہاں قرآن کا حصہ ہے یانہیں اس پر یہ کہاجاسکتا ہے کہ اگر اعراف قرآن کا حصہ اب بن گئے ہیں اسی طرح بسم اللہ بھی قرآن کا حصہ ہے
 

ام اویس

محفلین
بسم الله سورة فاتحہ کا حصہ ہے یا نہیں یہ الگ بحث یا مسئلہ ہے ۔

البتہ بسم الله کا ذکر قرآن مجید میں دو دفعہ ہے
1-

وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسْمِ اللهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ

اردو:

نوح نے کہا کہ اللہ کا نام لے کر کہ اسی کے کرم سے اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے اس میں سوار ہو جاؤ بیشک میرا پروردگار بخشنے والا ہے مہربان ہے۔

سورة ۱۱- ہود ۔ آیت نمبر 41

2-

إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

اردو:

وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے کہ شروع اللہ کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔

سورة ۲۷ ۔ النمل ۔ آیت نمبر ۳۰

بطور آیت بسم الله الرحمن الرحیم سورة نمل ہی میں مذکور ہے
 
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
بسم الله سورة فاتحہ کا حصہ ہے یا نہیں یہ الگ بحث یا مسئلہ ہے ۔
البتہ بسم الله قرآن مجید میں دو دفعہ ہے
1-

وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسْمِ اللهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ

اردو:

نوح نے کہا کہ اللہ کا نام لے کر کہ اسی کے کرم سے اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے اس میں سوار ہو جاؤ بیشک میرا پروردگار بخشنے والا ہے مہربان ہے۔

سورة ۱۱- ہود ۔ آیت نمبر 41

2-

إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

اردو:

وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے کہ شروع اللہ کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔

سورة ۲۷ ۔ النمل ۔ آیت نمبر ۳۰
بالکل درست فرمایا آپ نے۔
آپ کو کچھ عرصے بعد دیکھا،خوش آمدید، امید ہے سب خیریت ہو گی۔

ماشاءاللہ آپ کا قرآن کا مطالعہ کافی وسیع ہے۔ اس ضمن میں آپ سے ایک سوال ہے۔ کیا آپ نے کبھی اناجیلِ اربعہ کو قرآن کے تحت رکھ کر سمجھنے کی کوشش کی؟

مراسلۂ بالا کے لحاظ سے دریافت کروں تو بسم اللہ کا مضمون انجیل میں کہاں مذکور ہے؟
 

ام اویس

محفلین
بالکل درست فرمایا آپ نے۔
آپ کو کچھ عرصے بعد دیکھا،خوش آمدید، امید ہے سب خیریت ہو گی۔

ماشاءاللہ آپ کا قرآن کا مطالعہ کافی وسیع ہے۔ اس ضمن میں آپ سے ایک سوال ہے۔ کیا آپ نے کبھی اناجیلِ اربعہ کو قرآن کے تحت رکھ کر سمجھنے کی کوشش کی؟

مراسلۂ بالا کے لحاظ سے دریافت کروں تو بسم اللہ کا مضمون انجیل میں کہاں مذکور ہے؟

الحمد لله با خیریت

مجھے قرآن مجید سے محبت ہے فی الحال تو اسی کے گرد گھومتی ہوں ۔ اناجیل اربعہ یا انجیل کے بارے میں بالکل علم نہیں ۔
 
خالصتاً طباعت اور اشاعت کے نکتہ نظر سے ۔ میری تحقیق کے مطابق ، بسم اللہ الرحمن الرحیم، سورۃ فاتحہ کی پہلی آیت ہے، یہ آپ اوپن برہان سمیت کسی بھی قرآن کی ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں اور کتابی مصحف میں بھی۔ سورۃ توبہ کے علاوہ، تمام سورۃ سے پہلے یہ آیت پڑھی اور لکھی بھی جاتی ہے لیکن یہ ان سورتوں کی پہلی آیت شمار نہیں کی جاتی ہے۔ دیکھئے تنزیل القرآن اور اسی طرح کی دوسری ویب سائٹس ۔ سورۃ النمل میں یہ آیت سورۃ کے متن میں آئی ہے۔

عام طور پر اس آیت کو سورتوں سے پہلے پڑھنے سے قرآں کے احکامات میں کسی قسم کا فرق نہیں پرتا ہے۔ یہ درست ہے

واللہ اعلم بالصواب
والسلام
 
آخری تدوین:
Top