جب آئینہ دیکھا تو وہ چونک اُٹھا​
کوئی اور چہرہ تھا، وہ خود نہ تھا​
کہا اُس نے "شاید کہ یہ خواب ہے"​
یہ آئینہ ہے یا کہ زہراب ہے​
پھر اُس نے ہی چٹکی اَک اپنے بھری​
یہی ایک ترکیب تھی آخری​
یہی ایک احساس اُس کو ہوا​
میں سویا نہیں ہوں، میں ہوں جاگتا​
 
یہ تمہید تو اب بہت ہو چکی​
کوئی ابتدا بھی تو کر دو بھئی​
ہر اک مثنوی میں کہانی کہیں​
کہانی ہر اک کی زبانی کہیں​
بہت خوب ہے یہ نئی شاعری​
کہ محفل میں بننے لگی مثنوی​
مگر پہلے حمد و ثنا ہم کریں​
کہ تعریفِ ربّ العُلیٰ ہم کریں​
پڑھیں حمد کے بعد نعتِ رسولﷺ​
کریں ذکر یوں ہم صفاتِ رسولﷺ​
جو لازم ہے اس طرح ملزوم ہو​
نئی مثنوی یوں ہی منظوم ہو​

کسی ملک میں ایک تھا بادشاہ​
ہمارا تمہارا خدا بادشاہ​
یہاں سے ہی آگے بڑھاؤ کوئی​
فعولن فعولن نبھاؤ کوئی​
خدابادشاہ تو ہے حق کا خدا​
مگر وہ زمانے کا تھا باد شاہ​
وہ انساں کو انساں کہاں جانتا تھا​
وہ دنیا میں خود کو خدا مانتا تھا​
زمیں کے خزانے سنبھالے ہوے تھا​
بہت وحشی گنڈے وہ پالے ہوے تھا​

اسے سلطنت پر تھا بے حد غرور​
کہ پاس اس کے تھے خوب حور و قصور​
فقیروں کی فریاد سنتا نہ تھا​
غریبوں کی روداد سنتا نہ تھا​
رعیت کا کرتا نہ بالکل خیال​
نہ تھا اس روش پر اسے کچھ ملال​

پھر اک دن یہ قصہ اچانک ہوا​
عجب واقعہ اک بھیانک ہوا​

سحر ایک دن جب وہ سو کر اٹھا​
تو آئینہ دیکھا، جو معمول تھا​
(کسی اور کو دیکھ لیتا اگر​
برا دن ہی جاتا جو اس کا گزر​
تو اس کو ہی الزام دیتا تھا وہ​
اسی کو برے نام دیتا تھا وہ​
تو ترکیب اس کی نکالی یہ ایک​
کہ خود کو ہی دیکھے، رہے ِ ٰ َفالِ نیک)​
تو حیرت کا اس کی ٹھکانہ نہ تھا​
جو شیشے میں دیکھا تو چہرہ نہ تھا​
وہ دائیں سے بائیں کو چلنے لگا​
انگوٹھوں سے آنکھیں مسلنے لگا​
سمجھ میں اسے کچھ نہ آیا ذرا​
نہ آئینے نے کچھ دکھایا ذرا​
جب آئینہ دیکھا تو وہ چونک اُٹھا​
کوئی اور چہرہ تھا، وہ خود نہ تھا​
کہا اُس نے "شاید کہ یہ خواب ہے"​
یہ آئینہ ہے یا کہ زہراب ہے​
پھر اُس نے ہی چٹکی اَک اپنے بھری​
یہی ایک ترکیب تھی آخری​
یہی ایک احساس اُس کو ہوا​
میں سویا نہیں ہوں، میں ہوں جاگتا​
مزمل شیخ بسمل محمداحمد متلاشی امجد علی راجا
 
خلیل بھیا! بادشاہ کو جگا کر آگے کا کام مشکل کر دیا :)

عجب سی تھی حالت پریشان تھا​
وہ چہرہ ہوا گُم جو پہچان تھا​
کسی کو بتانا بھی ممکن نہ تھا​
مگر غم چھپانا بھی ممکن نہ تھا​
اسی فکر میں اس کو آیا خیال​
وزیر ایک موجود ہے بےمثال​
بھروسے کے لائق ہے، قابل بھی ہے​
وفادار بھی ہے وہ عاقل بھی ہے​
تغافل ذرا سا بھی بھاری ہوا​
"بلائو اسے" حکم جاری ہوا​
وہ حاضر ہوا شاہ کے روبرو​
بہت دیر ہوتی رہی گفتگو​
وہ چپ چاپ سوچوں میں کھویا رہا​
بہت سوچ کر وہ یوں گویا ہوا​
اگر جان بخشیں تو پھر کچھ کہوں​
وگرنہ یہ بہتر ہے میں چپ رہوں​
کہا شاہ نے ہے اجازت تمہیں​
کسی طور غم سے نکالو ہمیں​
وہ بولا، بہت آپ مشہور ہیں​
مگر سچ ہے یہ، آپ مغرور ہیں​
ہوئی بادشاہت عطا آپ کو​
مگر دردِ دل نہ ملا آپ کو​
فقیروں کی فریاد سنتے نہیں​
غریبوں کی روداد سنتے نہیں​
کسی کو بھی تو معاف کرتے نہیں​
حضور آپ انصاف کرتے نہیں​
رعایا کا بلکل نہیں ہے خیال​
اور اس پر غضب ہے نہیں کچھ ملال​
مہرباں جو سب پہ ہو انسان ہے​
نہ اچھا ہو انساں تو حیوان ہے​
نہ منصب سنبھالا گیا آپ سے​
گناہِ کبیرہ ہوا آپ سے​
خلیفہ خدا نے بنایا تجھے​
حضور آپ خود ہی خدا بن گئے​
جلا کر بھلے مجھ کو کردو کباب​
نہیں بادشاہت کے لائق جناب​
خدا آپ سے جو خفا ہو گیا​
تھا بےنور چہرہ، کہیں کھو گیا​
 
استادِ محترم الف عین، محترم محمد اسامہ سَرسَری، محترم محمد خلیل الرحمٰن اور محترم خرم شہزاد خرم

ابھی تک اس مثنوی کو ہر شاعر اپنی مرضی سے آگے بڑھا رہا ہے، اور ماشاءاللہ کیا خوب بڑھا رہا ہے، امید ہے کہ ایک اچھی مثنوی پایہ تکمیل تک پہنچے گی۔ اور اگر میں غلطی پر نہیں تو بہت مدت بعد کوئی مثنوی لکھی جا رہی ہے۔

جب اسامہ سَرسَری بھیا نے مجھے دعوت دی تو جہاں تک مثنوی پہنچ چکی تھی وہ پڑھنے کے بعد ایک کہانی ذہن میں تخلیق ہوئی۔ میری شمولیت اسی کہانی کے مطابق تھی۔ آپ سب سے کہانی شیئر کرنا چاہوں گا تا کہ اگر سب متفق ہوں تو مثنوی کو ادھر ادھر گھمانے کی بجائے اسی کہانی کو آگے بڑھایا جائے۔ جہاں تک مثنوی پہنچ چکی اس سے آگے ۔ ۔ ۔

بادشاہ وزیر کی باتیں سن کر آگ بگولہ ہو گیا، داروغہ زندان کو حکم دیا گیا کہ اس گستاخ کو قید خانے کے اندھیروں کی نظر کر دیا جائے، اسے موت سے بھی اذیت ناک زندگی دی جائے۔ ایسا ہی ہوا۔

بادشاہ کے مظالم بڑھتے گئے، لوگوں کی بددعائوں میں اضافہ ہوتا گیا، اور ایک دن ۔ ۔ ۔ ایک دن سب کی دعائیں قبول ہوئیں اور دوسری سلطنت کے راجہ نے حملہ کردیا۔ فوجی مرنے لگے، نئی بھرتیوں کے لئے کوئی تیار نہ ہوا کہ اس ظالم بادشاہ کا تخت و تاج بچانے کے لئے ہم اپنی جان قربان نہیں کر سکتے (اس بات کا ذکر لازمی ہے)۔

راجہ نے بادشاہ کو شکست دی، اور اسے جیل میں قید کردیا۔ بادشاہ نے وہاں بھوک دیکھی، پیاس دیکھی، تکلیف دیکھی، بے بسی اور لاچاری نے اس کا سارا غرور خاک میں ملا دیا۔ سارا تکبر اور غرور زمین پر آ گرا۔ اس کے اندر کا انسان جاگا، دوسروں کا دکھ درد محسوس کرنے لگا، ان کی مدد کرنے لگا، اسے بادشاہت کی لالچ نہ رہی بلکہ انسانیت کی خدمت کا جذبہ اسے ایسا کرنے پر مجبور کرتا رہا۔

لوگوں نے بادشاہ میں اتنی تبدیلی دیکھی تو وہ بادشاہ کی قدر کرنے لگے، دل سے اس کی عزت کرنے لگے۔ اس سے نفرت کرنے والے اس کی وفادار اور جاں نثار بن گئے۔ سب نے مل کر بغاوت کا فیصلہ کیا، اور بادشاہ کو اس کا کھویا ہوا منصب واپس دلانے کی قسم کھائی۔

بغاوت کا علم بلند ہوا، اور بادشاہ کے وفادار جیل توڑ کو بادشاہ سمیت فرار ہو گئے۔ ایک جنگل ان کا ٹھکانا بنا، کچھ ساتھی بادشاہ کے ساتھ رہ گئے اور باقی اپنے اپنے علاقوں کی طرف لوٹ گئے تا کہ بادشاہ کے لئے رعایا کی ہمدردی حاصل کرسکیں، اور انہیں اپنے مقصد سے شامل کر سکیں۔
مختلف علاقوں سے لوگ چھپ چھپ کر ملنے آنے لگے اور یہ دیکھ کر حیران ہوگئے کہ بادشاہ پہلے جیسے نہ تھا، وہ ایک اچھا انسان تھا، جسے اپنے بادشاہ ہونے کا گھمنڈ نہ تھا بلکہ اپنے سپاہی ہونے پر فخر تھا۔

لوگ ساتھ ملتے گئے، اور کارواں بنتا گیا ۔ ۔ ۔ پھر آسمان نے عوام کی یکجہتی کی طاقت کا وہ نظارہ کیا جس نے راجہ کی حکومت کو تہس نہس کردیا۔ بہت سے جاں نثاروں نے اپنی جان قربان کی لیکن بادشاہ کو اس کا منصب واپس دلوا دیا۔

اس کے بعد بادشاہ نے اس ذمہ داری سے حکومت کی کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ عوام کی ترقی کے لئے بہت اقدامات کئے گئے، تعلیم کے فروغ کے لئے مدارس بنوائے گئے، طب خانے بنوائے گئے، مفت تعلیم، مفت علاج، روزگار کے بھرپور مواقع۔ (یہاں ترقی کی جو جو بات دل میں آئے لکھیں، خوب لکھیں)

اس مقام پر آکر آپ سب کو وزیر یاد آ رہا ہوگا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا؟

بادشاہ کو جب جیل میں ڈالا گیا تو وزیر نے ہی اسے سہارا دیا، بادشاہ نے اس کی ہر بات کو تسلیم کیا اور اس کے رہنمائی میں خود کو سدھارا۔ تحریک میں وزیر پیش پیش رہا، جنگ میں اپنی آنکھوں سے بھی محرورم ہوگیا، اور پتہ ہے فتح کے بعد بادشاہ نے جب وزیر کو وزیر اعظم بنایا تو کیا کہا؟

تم نے اپنی آنکھیں کھو دیں لیکن میری آنکھیں کھول دیں

تالیاں
کہانی پسند آئی ہو تو ضرور بتائیئے گا ۔ ۔ ۔
 
امجد صاحب آپ نے ماشاءاللہ بہت عمدہ انداز سے کہانی پیش کی ہے۔
بلکہ یہ کہنا بجا ہے کہ آپ نے سب کے لیے یہ کام آسان کردیا۔
جزاکم اللہ خیرا۔
 
امجد صاحب آپ نے ماشاءاللہ بہت عمدہ انداز سے کہانی پیش کی ہے۔
بلکہ یہ کہنا بجا ہے کہ آپ نے سب کے لیے یہ کام آسان کردیا۔
جزاکم اللہ خیرا۔
جزاک اللہ اسامہ بھیا! کہانی پسند کرنے پر شکرگزار ہوں۔ اب بہتر ہوگا کہ کہانی کو مختلف ایکٹس میں تقسیم کردیا جائے اور ہم سب اپنے اپنے حصے کے ایکٹ پر ہی لکھیں، اس طرح وقت بھی بچ جائے گا اور ذمہ داری بھی کم ہو جائے گی۔ اس کی تقسیم آپ کرلیں یا استادِ محترم الف عین صاحب سے گزارش کریں، میری طرف سے بھی کہ وہ lead کریں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم سب، یا ہم میں سے کچھ دوست ایک ہی ایکٹ پر لکھ رہے ہوں اور ایک کے علاوہ سب کی محنت ضائع جائے۔
 
Top