عدیم ہاشمی فاصلے ایسے بھی ہونگے یہ کبھی سوچا نہ تھا

فاصلے ایسے بھی ہونگے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا

رات بھر پچھلی ہی آہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا

عکس تو موجود تھا پر عکس تنہائی کا تھا
آئنہ تو تھا مگر اس میں ترا چہرا نہ تھا

آج اس نے درد بھی اپنے علیحدہ کر لیے
آج میں رویا تو میرے ساتھ وہ رویا نہ تھا

یہ سبھی ویرانیاں اس کے جدا ہونے سے تھیں
آنکھ دھندلائی ہوئی تھی شہر دھندلایا نہ تھا

یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی "عدیم"
بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارہ نہ تھا
 
اس غزل میں لفظ بھی آگے پیچھے ہیں -کوشش رہے گی کہ یادداشت کے سہارے صحیح لکھ سکوں

فاصلے ایسے بھی ہونگے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

خود چڑھارکھے تھے تن پر اجنبیت کے غلاف
ورنہ کب ایک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا

وہ کے خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا

رات بھر پچھلی ہی آہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا

عکس تو موجود تھا پر عکس تنہائی کا تھا
آئینہ تو تھا مگر اس میں تیرا چہرا نہ تھا

آج اس نے درد بھی اپنے علیحدہ کر لیئے
آج میں رویا تو میرا ساتھ وہ رویا نہ تھا

یہ سبھی ویرانیاں اس کے جدا ہونے سے تھیں
آنکھ دھندلائی ہوئی تھی شہر دھندلایا نہ تھا

سینکڑوں طوفان لفظوں کے دبے تھے زیر لب
ایک پتھر تھا خموشی کا جو ہلتا نہ تھا

یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی "عدیم"
بھول جانے کی سوا اب کوئی بھی چارہ نہ تھا۔


(عدیم ہاشمی)
 
فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا --- عدیم ہاشمی

فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

وہ کہ خوشبو کی طرح‌پھیلا تھا میرے چار سو
میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا

یہ سبھی ویرانیاں اس کے جدا ہونے سے تھیں
آنکھ دھندلائی ہوئی تھی شہر دھندلایا نہ تھا

محفلِ اہلِ وفا میں‌ہر طرح کے لوگ تھے
یا ترے جیسا نہیں تھا یا مرے جیسا نہ تھا

آج اس نے درد بھی اپنے علیحدہ کر لیے
آج میں رویا تو میرے ساتھ وہ رویا نہ تھا

یاد کرکے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیم
بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارہ نہ تھا
(عدیم ہاشمی)
 

شیزان

لائبریرین
فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

وہ کہ خُوشبو کی طرح‌پھیلا تھا میرے چار سُو
میں اُسے محسوس کر سکتا تھا، چُھو سکتا نہ تھا
رات بھر پچھلی ہی آہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا گلی میں، کوئی بھی آیا نہ تھا
یہ سبھی ویرانیاں اُس کے جُدا ہونے سے تھیں
آنکھ دُھندلائی ہوئی تھی، شہر دُھندلایا نہ تھا
عکس تو موجود تھا پر عکس تنہائی کا تھا
آئینہ تو تھا مگر اُس میں تیرا چہرا نہ تھا
میں تیری صورت لئے سارے زمانے میں پِھرا
ساری دُنیا میں مگر کوئی تیرے جیسا نہ تھا
خُود چڑھا رکھے تھے تن پر اَجنبیت کے غُلاف
ورنہ کب اِک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا
سینکڑوں طوفان لفظوں کے دبے تھے زیرِ لب
ایک پتھر خامشی کا تھا ، جو ہٹتا نہ تھا
محفلِ اہلِ وفا میں‌ہر طرح کے لوگ تھے
یا ترے جیسا نہیں تھا یا مرے جیسا نہ تھا
آج اُس نے درد بھی اپنے علیحدہ کر لیے
آج میں رویا تو میرے ساتھ وہ رویا نہ تھا
یاد کرکے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیم
بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارہ نہ تھا
مصلحت نے اجنبی ہم کو بنایا تھا عدیم
ورنہ کب اک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا
عدیم ہاشمی
 

شیزان

لائبریرین
وارث بھائی پہلی پوسٹ میں جو کلام ہے۔ اس کی تصحیح فرما دیجئے
بہت سے اشعار درست نہیں ہیں۔
 
واہ واہ!
رجب علی صاحب نے اسی غزل کو کیا خوبصورتی سے گایا ہے۔۔۔ کسی کے پاس mp3 file ہو تو مہربانی فرمائیں۔ آج کل یہ خزانے سننے نصیب ہی نہی ہوتے!
 
Top