فارسی نثری اقتباسات مع اردو ترجمہ

از کتابفروشی پرسیدند: وضع کسب و کارت چگونه است؟
گفت: بسیار بد، چون آنهایی که پول دارند اهل مطالعه نیستند و آنهایی هم که سواد دارند پول ندارند !!!

ترجمہ:

ایک کتاب فروش سے پوچھا گیا: تمہارے کاروبار کی حالت کیسی ہے؟
اس نے کہا: بسیار بد ہے کیونکہ وہ لوگ جن کے پاس پیسے ہوتے ہیں، وہ اہلِ مطالعہ نہیں ہوتے اور وہ بھی جو علم و دانش رکھتے ہیں، ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے۔
 

حسان خان

لائبریرین
'سَواد' کا ترجمہ 'علم و دانش' درست کیا ہے، لیکن اگر دقیقاً کہا جائے تو معاصر فارسی میں یہ لفظ خواندگی یا خوان (پڑھ) اور لکھ پانے کی قُدرت کو کہتے ہیں، جس کے لیے انگریزی میں 'لٹریسی' استعمال ہوتا ہے۔ اور جو شخص 'خواندہ' ہو اُس کو فارسی میں 'باسَواد' کہتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
"دوکتور عبدالله عبدالله، رئیسِ اجرائیهٔ حکومتِ افغانستان، گفت، اگر با رفتنِ او امنیّت در این کشور تأمین شود، آماده هست، که استعفا بِدِهد. امّا در عینِ زمان افزود، بُحرانِ جاری در افغانستان با استعفای وَی حل نمی‌شود."
مأخذِ خبر
تاریخ: ۴ جون ۲۰۱۷ء

"حکومتِ افغانستان کے رئیسِ اجرائیہ داکتر عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ اگر اُن کے چلے جانے سے اِس ملک میں امن و امان آ جائے گا تو وہ استعفا دینے کے لیے آمادہ ہیں۔ لیکن در عینِ حال اُنہوں نے اضافہ کیا کہ افغانستان میں جاری بُحران اُن کے مستعفی ہونے سے حل نہیں ہو گا۔"
× رئیسِ اجرائیہ = چیف ایگزیکٹیو
× لیکن در عینِ حال۔۔۔ = لیکن ساتھ ہی۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
ظہیرالدین محمد بابر اپنی مشہور کتاب 'بابرنامہ' میں امیر علی شیر نوائی کے بارے میں لکھتے ہیں:

"علی‌شېربېک نظیری یۉق کیشی اېردی. ترکی تیل بیله تا شعر ایتیبدورلر، هېچ کیم آنچه کۉپ و خۉب ایتقان اېمس."
.Alisherbek naziri yo'q kishi erdi. Turkiy til bila to she’r aytibdurlar, hech kim oncha ko‘p va xo‘b aytqon emas


فارسی ترجمہ:
"علی‌شیربیک شخصِ بی‌نظیری بود. به زبانِ ترکی هیچ کس به اندازهٔ او بسیار و خوب شعر نگفته‌است."
(مترجمہ: شفیقہ یارقین، از افغانستان)


اردو ترجمہ:
"علی شیر بیگ ایک بے نظیر شخص تھے۔ زبانِ تُرکی میں جب سے شاعری کہی گئی ہے، اُن کے قدر زیادہ و خوب اشعار کسی شخص نے نہیں کہے ہیں۔"
 

حسان خان

لائبریرین
عبدالقادر بداؤنی اپنی کتاب 'مُنتخَب التواریخ' کے دیباچے میں حمد و نعت کے بعد لکھتے ہیں:

"هزاران هزار آفرین و تحسین بر آل گزین و اصحاب حق‌بین او باد، خصوصاً خلفای راشدین - رضوان الله علیم اجمعین - که برای اعلام دین و اعلان کلمهٔ حق مبین جان‌ها باخته و سرها فدا ساخته، ساحت ملک شرع را از خار کفر و خاشاک بدعت پاک گردانیدند."

"ہزاروں ہزار آفرین و تحسین ہو اُن کی آلِ گُزین اور اُن کے اصحابِ حق بین پر، خصوصاً خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کہ جنہوں نے اِعلام دین و اِعلانِ کلمۂ حقِ مبین کے لیے جانوں کو گنوا کر اور سروں کو فدا کر کے قلمروِ مُلکِ شریعت کو خارِ کفر و خاشاکِ بدعت سے پاک کر دیا۔"
 

حسان خان

لائبریرین
"و آنانی که نامِ تو را می‌شناسند، بر تو توکُّل خواهند داشت، زیرا ای خداوند تو طالبانِ خود را هرگز ترک نکرده‌ای."
(کتابِ مقدّس، عهدِ عتیق، مزامیر، باب ۹، آیت ۱۰)

"اور جو اشخاص تمہارے نام کو پہچانتے ہیں، وہ تم پر توکُّل رکھیں گے، کیونکہ اے خداوند تم نے اپنے طالِبوں کو ہرگز ترک نہیں کیا ہے۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فارسی و تُرکی کے مشہور شاعر سید محمد حُسین بہجت شہریار تبریزی ایک جا کہتے ہیں:
"از کودکی با دو کتاب انس گرفتم، قرآن مجید و دیوان خواجه و حالا هم که پیر شده‌ام به جز صدای قرآن و به جز صدای حافظ هر صدای دیگری گوشم را آزار می‌دهد."
"اپنی طفلی سے مجھے دو کتابوں سے اُنس و اُلفت رہی ہے، قرانِ مجید اور دیوانِ خواجہ حافظ شیرازی، اور اِس وقت بھی کہ جب میں پِیر ہو چکا ہوں، قرآن کی آواز اور حافظ کی آواز کے علاوہ ہر دیگر آواز میرے کان کو آزار دیتی ہے۔"
× پِیر = بوڑھا

مأخذ
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"صدها ساکنِ شهرِ اوفا، مرکزِ جمهوریِ باشقِردستانِ روسیه به حمایت از زبانِ اصلی‌اشان - باشقِردی - گردِهمایی کردند. اعتراض‌گران روزِ شانزدهمِ سینتیَبْر طلب نمودند، که در مکتب‌هایِ ابتداییِ این جمهوری زبانِ باشقِردی آموزانده شود."
تاریخ: ۱۷ ستمبر ۲۰۱۷ء
مأخذِ خبر

"رُوسی وفاق میں شامل جمہوریۂ باشقِردسان کے مرکز شہرِ اُوفا کے صدہا باشندوں نے اپنی اصلی زبان 'باشقِردی' کی حمایت میں مظاہرہ کیا۔ اعتراض گروں نے ۱۶ ستمبر کے روز مطالبہ کیا کہ اِس جمہوریہ کے ابتدائی مکاتب میں زبانِ باشقِردی تدریس کی جائے۔"
 

حسان خان

لائبریرین
"...شیعه و معتزله در اصول به هم متفق‌اند و با فلسفی نیز در بیشتر متفق‌اند و اینها همه دشمنان سنت و جماعت‌اند و مشایخ صوفیه همه سنت و جماعت می‌باشند که غیر از طایفهٔ اهل سنت این علم را ادراک ‌نمی‌کنند و هر که نزد مرشد می‌آید به طلب این علم تا او را به سنت و جماعت نمی‌آرد به ارشاد او مشغول نمی‌شود یعنی «پاک شو اول و پس دیده بر آن پاک انداز»."

"۔۔۔شیعہ و معتزلہ اصولِ دین میں باہم متفق ہیں اور فلاسفہ کے ساتھ بھی اکثر موارد میں متفق ہیں، اور یہ سب سنّت و جماعت کے دشمن ہیں، [جبکہ] تمام مشائخِ صوفیہ پیروِ مذہبِ سنّت و جماعت ہیں، کیونکہ طائفۂ اہلِ سنّت کے سوا کوئی اِس علم (علمِ تصوف) کو ادراک نہیں کرتا۔ اور جو بھی شخص اِس علم کی طلب میں مرشد کے نزد آتا ہے، جب تک وہ مرشد اُس شخص کو مذہبِ سنّت و جماعت میں نہیں لے آتا، اُس کی رہنمائی میں مشغول نہیں ہوتا۔ ‌یعنی: «اوّلا [خود] پاک ہوؤ اور پھر اُس پاک [چیز] پر نظر ڈالو»۔"

رساله: نفثة‌المصدورِ اوّل
مؤلف: ابومحمد صائن‌الدین علی بن محمد تُرکه خُجندی اصفهانی (سالِ وفات: ۸۳۵ھ)

× فارسی مصرع حافظ شیرازی کا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
شاہ اسماعیل صفوی کی تمام شاعری تُرکی زبان میں ہے، اور فارسی میں اُس سے منسوب فقط چند ابیات مِلتی ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ فارسی ضرور جانتا ہو گا اور اُس نے ایک غزل کے مقطعے میں سعدی شیرازی کا بھی نام لیا ہے۔
ایرانی سلطنت کے پادشاہ شاہ اسماعیل صفوی کا شعری دیوان مادری زبان تُرکی میں ہے، جبکہ اُس کے متحارب دشمن خلیفۂ عثمانی سلطان سلیم خان اوّل کا دیوانِ اشعار فارسی میں ہے۔ ہے نا دلچسپ چیز؟ :)

اِس چیز سے اختلاف نہیں کہ خواہ شاہ اسماعیل صفوی کا شخصی کردار جیسا بھی ہو، لیکن وہ شاعر خوب تھا۔
"برای تقریباً هزار سال سلاطین و درباریان هر دو طرف زبان هم‌دیگر یعنی ترکی را به خوبی می‌فهمیدند اما زبان مکاتبات بین آن‌ها اغلب فارسی و گاه ترکی بود. موضوع زبان «رسمی» به صورتی که امروزه سیاسی و تبدیل به «مادهٔ منفجره» شده اصولاً مطرح نبود. زبان اصلی ایران فارسی و زبان اصلی عثمانی ترکی بود اما حتیٰ شاه اسماعیل صفوی که شعر به فارسی و ترکی می‌گفت با سلطان سلیمی می‌جنگید که شعر به فارسی می‌گفت و حتیٰ دیوان شعر فارسی هم داشت. آن‌ها حتیٰ در زمان جنگ به فارسی مکاتبه می‌کردند."

کتاب: ایران و آذربایجان: در بسترِ تاریخ و زبان
سالِ اشاعت: ۲۰۱۶ء
نویسنده: عباس جوادی

"تقریباً ایک ہزار سال تک دونوں طرف کے (یعنی ایران و اناطولیہ کے) سلاطین و درباریان ایک دوسرے کی زبان یعنی تُرکی کو بخوبی سمجھتے تھے، لیکن اُن کے مابین مکاتبات اغلب فارسی میں اور گاہے تُرکی میں ہوا کرتے تھے۔ "سرکاری و رسمی" زبان کا موضوع، جس طرح اِمروز ایک سیاسی مسئلے اور بارودی مادّے میں تبدیل ہو چکا ہے، اُس زمانے میں سِرے سے موجود نہ تھا۔ ایران کی اساسی زبان فارسی اور دیارِ آلِ عثمان کی اساسی زبان تُرکی تھی، لیکن شاہ اسماعیل صفوی، جو فارسی و تُرکی میں شعر کہتا تھا، سلطان سلیم کے ساتھ جنگ کرتا تھا جو فارسی میں شاعری کہتا تھا اور حتیٰ کہ اُس کا فارسی شعری دیوان بھی تھا۔ وہ حتیٰ جنگ کے زمانے میں فارسی میں مکاتبہ کرتے تھے۔"

× شاہ اسماعیل صفوی کی تقریباً تمام شاعری تُرکی زبان میں ہے، اور اُس سے منسوب فقط چند ایک فارسی ابیات ہی مجھے کہیں نظر آئی ہیں، لہٰذا اُسے فارسی شاعر کہنا و سمجھنا درست نہیں ہے۔ مصنّف نے "ہزار سال تک" اِس لیے کہا ہے کیونکہ غزنویوں سے لے کر قاجاریوں تک، یعنی تقریباً ایک ہزار سال تک ایران کی حکومت تُرک شاہی سلسلوں ہی کے دست میں رہی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"...پایه‌های سلسهٔ صفویه در میان آتش و خون نهاده شد و مریدان متعصب اسماعیل نه تنها به عیسویان قفقاز ابقا نکردند بلکه مسلمانان تبریز را نیز از دمِ تیغِ بی‌دریغ گذرانیدند و هر کس را که لعن ابوبکر و عمر و عثمان را می‌شنید و نمی‌گفت «بیش باد، کم مباد» به زخم تبر می‌کشتند."

کتاب: ایران از دیدهٔ سیاحانِ اروپایی: از قدیم‌ترین ایام تا اوایلِ عهدِ صفویه
مؤلف: حسن جوادی
سالِ اشاعت: ۱۳۷۸هش/۱۹۹۹ء

"۔۔۔صفوی شاہی سلسلے کی بنیادیں آتش و خون کے درمیان رکھی گئیں، اور شاہ اسماعیل کے متعصب مریدوں نے نہ صرف قفقاز کے مسیحیوں پر رحم نہ کیا بلکہ تبریز کے مسلمانوں کو بھی اپنی تیغِ بے دریغ کی دھار کا شکار بنایا اور جو بھی شخص ابوبکر و عمر و عثمان پر لعن سن کر "زیادہ ہو، کم نہ ہو!" نہیں کہتا تھا اُسے وہ تبر کی ضرب سے قتل کر دیتے تھے۔"
 

حسان خان

لائبریرین
سام میرزا صفوی نے اپنے تذکرے 'تحفهٔ سامی' میں محمد فضولی بغدادی کا بھی ذکر کیا ہے:

مولانا فضولی - از دارالسلام بغداد است و از آنجا بِه ازو شاعری پیدا نشده و به هر دو زبان یعنی ترکی و عربی شعر می‌گوید و اکثر شعر او منقبت ائمهٔ دین است رضی الله عهنم این مطلع قصیده ازوست

بیت:
بر آنم که از دل‌بران برکنم دل
نه سهل است کاری چنین ربٍّ سهِّل
این مطلع ترکی نیز از اوست

بیت:
ای مصور یار تمثالینه صورت برمدنك
زلف و رخ چکدن ولی تاب و طراوت برمدنك


کتاب: تحفۂ سامی
مؤلف: سام میرزا صفوی
تاریخِ احتمالیِ اتمامِ تألیف: ۹۵۸ھ

ترجمہ:
مولانا فضولی - دارالسّلام بغداد سے ہیں اور وہاں سے اُن سے بہتر کوئی شاعر ظاہر نہیں ہوا ہے اور وہ دونوں زبانوں میں یعنی تُرکی و عربی میں شعر کہتے ہیں اور اُن کی اکثر شاعری ائمّۂ دین رضی اللہ عہنم کی منقبت پر مشتمل ہے۔ یہ مطلعِ قصیدہ اُن کا ہے:
بیت:
میرا ارادہ ہے کہ میں دلبروں سے [اپنے] دل کا تعلق قطع کر دوں۔۔۔ [لیکن] اِس طرح کا کوئی کام آسان نہیں ہے۔ اے میرے رب! [اِسے] آسان کر دے۔
یہ تُرکی مطلع بھی اُن کا ہے:
بیت:
اے مصوِّر! تم نے تمثالِ یار کو [درستی سے] صورت نہیں دی؛ تم نے زُلف و رُخ تو کھینچ دیے، لیکن تاب و طراوت نہیں دی۔

ای مصور یار تمثالینه صورت برمدنك
زلف و رخ چکدن ولی تاب و طراوت برمدنك
معاصر آذربائجانی املاء میں محمد فضولی بغدادی کی مندرجۂ بالا تُرکی بیت کو یوں نہیں لکھا جائے گا، لیکن میں نے متنِ کتاب میں تصرُّف کرنا اور تبدیلی کرنا مناسب نہ سمجھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"اکثریت قشون‌های شاه اسماعیل صفوی و بخصوص امرای ارتش ترک بودند. وقتی آنها با ارتش سلطان سلیم عثمانی میجنگیدند مشکل نژاد و زبان مادری نداشتند. هر دو طرف مخاصمات صفوی و عثمانی از نظر قومی اکثرا ترک بود. مسئله آنها بیشتر حفظ و تحکیم قدرت خود بود که رنگ مذهبی شیعه و سنی هم گرفت ونه قوم و زبان. مسئله قوم و زبان و ملت و ملیت در کشورهای ما در قرن بیستم بالا گرفت و قبل از آن نبود و یا اهمیت چندانی نداشت."

کتاب: ایران و آذربایجان: در بسترِ تاریخ و زبان
سالِ اشاعت: ۲۰۱۶ء
نویسنده: عباس جوادی

"شاہ اسماعیل صفوی کی افواج کی اکثریت، اور خصوصاً فوج کے اُمَراء تُرک تھے۔ جس وقت وہ سلطان سلیم عثمانی کی فوج کے ساتھ جنگ کر رہے تھے، اُن کے پیشِ نظر نژاد یا مادری زبان کا مسئلہ نہ تھا۔ صفوی و عثمانی ہر دو متخاصم حریف قومی لحاظ سے اکثراً تُرک تھے۔ اُن کے نزدیک مسئلہ زیادہ تر اپنے اقتدار کی حفاظت و استحکام تھا جس نے شیعہ و سنی کا مذہبی رنگ بھی اختیار کر لیا تھا، قوم و زبان کا رنگ نہیں۔ قوم و زبان و ملّت و ملّیت کے مسائل ہمارے ملکوں میں بیسویں صدی میں اُبھرے اور اُس سے قبل نہیں تھے یا پھر اُن کی کوئی زیادہ اہمیت نہ تھی۔"
 

حسان خان

لائبریرین
صفوی سلطنت کے بانی شاہ اسماعیل صفوی کے زمانے میں ایک مجہول الاسم اطالوی وینسی سوداگر صفوی قلمرو میں آیا تھا اور ۱۵۰۷ء سے ۱۵۱۰ء تک کا دورانیہ اُس نے صفویوں کے دیار میں، خاصّتاً آذربائجان میں، گذارا تھا اور پھر واپس جا کر ایک سفرنامہ لکھا تھا۔ وہ شاہ اسماعیل صفوی کی اُس کے غالی و متعصب قِزِلباش مریدوں وَ سپاہیوں کے مابین فوق العادہ محبوبیت کے بارے میں لکھتا ہے:

"این صوفی را پیروان و خاصه لشگریانش چون خدایی می‌پرستند و عدهٔ زیادی بدون زره وارد جنگ می‌شوند. چون معتقدند که مرشدشان اسماعیل آن‌ها را حفظ خواهد کرد. بعضی از آنان بدون زره به پیکار می‌روند تا شهید شوند و با سینه‌های عریان فریاد می‌زنند، شیخ، شیخ.
در سرتاسر ایران نام خدا فراموش شده و نام اسماعیل بر زبان‌هاست. مثلاً اگر کسی هنگام سواری بر زمین بیفتد به عوض اسم خدا نام او را هم به عنوان خدا و هم به عنوان پیغمبر به زبان می‌آورد. همان‌طور که مسلمانان می‌گویند: «لا اله الا الله محمداً رسول الله»، ایرانیان می‌گویند: «لا اله الا الله اسماعیل ولی الله». همه کس و مخصوصاً سپاهیانش او را جاودانی می‌شمارند ولی من خودم شنیدم اسماعیل از اینکه او را خدا و یا پیغمبر می‌خوانند ناخشنود است."


کتاب: ایران از دیدهٔ سیاحانِ اروپایی: از قدیم‌ترین ایام تا اوایلِ عهدِ صفویه
مؤلف: حسن جوادی
سالِ اشاعت: ۱۳۷۸هش/۱۹۹۹ء

"اِس صوفی (شاہ اسماعیل صفوی) کو اُس کے پَیرو، خصوصاً اُس کے سپاہی، کسی خدا کی طرح پرستش کرتے ہیں، اور کئی افراد زِرہ کے بغیر جنگ میں داخل ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ معتقد ہیں کہ اُن کا مرشد اسماعیل اُن کی حفاظت کرے گا۔ اُن میں سے بعض زِرہ کے بغیر پیکار کے لیے جاتے ہیں تاکہ شہید ہو جائیں اور عُریاں سینوں کے ساتھ 'شیخ! شیخ!' کی فریاد مارتے ہیں۔
کُل ایران میں خدا کا نام فراموش ہو گیا ہے اور اسماعیل کا نام زبانوں پر ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص سواری کے دوران زمین پر گر جاتا ہے تو وہ نامِ خدا کے عِوض میں اسماعیل کا نام، خدا کے طور پر بھی اور پیغمبر کے طور پر بھی، زبان پر لاتا ہے۔ جس طرح مسلمان کہتے ہیں: "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ"، ایرانی کہتے ہیں: "لا الہ الا اللہ اسماعیل ولی اللہ"۔ تمام اشخاص، اور خصوصاً اُس کے سپاہی، اُس کو جاودانی شمار کرتے ہیں، لیکن میں نے خود سنا کہ اسماعیل اِس چیز سے ناخُشنود ہے کہ اُس کو خدا یا پیغمبر پکارا جائے۔"

× مذکورہ سفرنامے کا انگریزی ترجمہ موجود ہے، اور اُس کے صفحہ ۲۰۶ میں یہ اقتباس دیکھا جا سکتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
قرنِ شانزدہم کی تیسری دہائی میں اور شاہ اسماعیل صفوی اور شاہ طہماسب صفوی کے زمانے میں ایک پرتغالی سیاح آنتونیو تنرئیرو (Antonio Tenreiro) نے صفوی سلطنت کا سفر کیا تھا۔ وہ اپنے سفرنامے میں قِزِلباشوں کے بارے میں لکھتا ہے:

"در سرتاسر قلمروی صوفی با به نوع افراد برخوردیم. آنها مطابق قوانین صوفی، که «رفوی» خوانده می‌شود، زندگی می‌کنند. مطابق این قوانین علی بیشتر از محمد مورد احترام است. آنها تاج سرخ بر سر دارند و ترکی حرف می‌زنند، و آنها «قزلباش» خوانده می‌شوند که در زبان آنان به معنی «سرخ سران» می‌باشد. به نظر من این مردم نه پیروی دین مسلمانی هستند و نه پیروی کافری و یا چیزی دیگر."

مترجم: حسن جوادی

مأخذ

"صوفی (شاہ اسماعیل صفوی) کی قلمرو میں ہر جگہ ہمیں افراد کا ایک گروہ نظر آیا۔ وہ صوفی کے قوانین، کہ 'رفوی' کہلائے جاتے ہیں، کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔ اِن قوانین کے مطابق علی محمد سے زیادہ موردِ احترام ہے۔ وہ سر پر سُرخ تاج پہنتے ہیں اور تُرکی میں گفتگو کرتے ہیں، اور اُنہیں 'قزلباش' پکارا جاتا ہے جو اُن کی زبان میں 'سُرخ سران' کا معنی رکھتا ہے۔ میری نظر میں یہ مردم نہ دینِ مسلمانی کے پیرو ہیں اور نہ کافری یا کسی دیگر چیز کے پیرو۔"

× 'رفوی' کا لفظ میں نے پہلی بار دیکھا ہے۔ شاید اُس پرتغالی سیاح نے 'رافضی' سنا ہو، جس کو اُس نے نادانستگی سے مُحرّف کر کے 'رفوی' کر دیا ہو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
افغانستان میں ۱۹۷۳ء تک حکمرانی کرنے والے بارکزئی سلسلے کے بانی امیر دوست محمد خان (وفات: ۱۸۶۳ء) کی والدہ قِزِلباش تھیں اور لہٰذا وہ تُرکی زبان سے واقف تھا۔ ظاہراً، تُرکی زبان سے اُس کی یہ واقفیت، اُس کی جان کے محفوظ رہنے کا بھی سبب بنی تھی:

"امیر دوست محمد خان چون از مادر قزلباش بود با زبان ترکی آشنایی داشت. زمانی که به حالت اضطرار از رود آمو می‌گذشت از سخن کشتی‌رانان دریافت که قصد غرق نمودن او را در وسط دریا دارند. بدین جهت از نشستن در کشتنی امتناع نمود و از مرگ حتمی نجات یافت."

کتاب: سراج التواریخ، جلد ۲، ص ۱۵۲
مصنّف: مُلّا فیض محمد کاتب هزاره

"امیر دوست محمد خان کی مادر چونکہ قِزِلباش تھی اِس لیے وہ زبانِ تُرکی سے آشنائی رکھتا تھا۔ جس وقت وہ اضطراری حالت میں دریائے آمو سے گذر رہا تھا، وہ کشتی رانوں کی گفتگو سے سمجھ گیا کہ وہ اُس کو دریا کے وسط میں غرق کرنے کا قصد رکھتے ہیں۔ اِس وجہ سے اُس نے کشتی میں بیٹھنے سے امتناع کیا اور حتمی موت سے نجات پا گیا۔"

× میں نے مندرجۂ بالا اقتباس محمد احسان پژوهش کی کتاب 'قزلباشانِ افغانستان (تاریخ و فرهنگ)' سے نقل کیا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"قبل از ورود قزلباش‌ها در عرصهٔ تاریخ، شیعیان اقلیتی بودند محکوم و بی‌قدرت و قادر نبودند اعمال مذهبی خویش را آشکار انجام دهند و همیشه تحت تعقیب و شکنجه و زندان بودند و پنهان و در تقیه می‌زیستند. تنها با شمشیر قزلباش بود که به یک قدرت بزرگ حاکم در کشور فارس مبدل گردید و با مخالفان خویش پیکارها نمود و آنان را در همه عرصه‌ها محکوم به شکست ساخت. قزلباشان به قدری در مذهب تشیع راسخ العقیده بودند که در هندوستان و ترکستان همواره کلمهٔ قزلباش با کلمهٔ شیعه مترادف گردید. چنانکه در قرن سیزدهم هجری صاحب کتاب «بستان السیاحه» نوشته‌است: «در ملک توران و هندوستان هر کسی شیعی‌مذهب و از اهل ایران باشد او را قزلباش می‌گویند و در ملک شام و روم مطلق شیعه را به این نام خوانند.»"

کتاب: قزلباشانِ افغانستان (تاریخ و فرهنگ)
نویسندہ: محمد احسان پژوهش
سالِ چاپِ اول: ۱۳۷۹هش/۲۰۰۰ء
سالِ چاپِ دوم: ۱۳۸۴هش/۲۰۰۵ء

"تاریخ کے صفحات میں قِزِلباشوں کے ورود سے قبل، شیعہ ایک محکوم و بے قدرت اقلیت تھے، اور اپنے مذہبی اعمال و مراسم بہ طورِ آشکار انجام انجام دینے پر قادر نہ تھے، اور ہمیشہ تعقّب و شکنجہ و زندان کے زیر میں رہتے تھے، اور بطورِ پنہانی اور تقیّے میں زندگی بسر کرتے تھے۔ یہ فقط قزلباشوں کی شمشیر ہی تھی کہ جس کے ساتھ وہ کِشورِ فارس پر حکومت کرنے والی ایک قدرتِ بزرگ میں تبدیل ہوئے، اور اپنے مخالفوں کے ساتھ پیکاریں کیں، اور اُنہیں تمام میدانوں میں شکست سے دوچار کیا۔ قزلباشان مذہبِ تشیّع میں اِس قدر راسخ العقیدہ تھے کہ ہندوستان و ترکستان میں لفظِ قزلباش ہمیشہ لفظِ شیعہ کا مترادف ہو گیا۔ جیسا کہ قرنِ سیزدہمِ ہجری میں صاحبِ کتابِ «بستان السیاحہ» نے لکھا ہے: «مُلکِ توران و ہندوستان میں جو کوئی بھی شیعی مذہب ہو اور اہلِ ایران میں سے ہو، اُس کو قزلباش کہتے ہیں، اور مُلکِ شام و رُوم میں مطلقاً شیعہ کو اِس نام سے پکارتے ہیں۔»"
 

حسان خان

لائبریرین
"برای قزلباشان که عبارت از قبایل مختلف و اساسا ترکمن بودند و به طرفداری از شیعه اثناء عشری و طبق عادت طریقت صفویه کلاه های سرخ بر سر می‌گذاشتند، اولین پادشاه صفوی نه فقط سرکرده و شاه آنان، بلکه «مرشد کامل»، «نائب امام زمان» و شاید حتی بیشتر از آن، شخصیتی مقدس با الوهیتی فراانسانی بود که در مبارزه با «کافران سنّی» و دیگر کفار شکست ناپذیر و روئین‌تن بود. خود شاه اسماعیل هم به این تصورات باور کرده بود و با رفتار و اشعار خود هم به آن دامن می‌زد. اعتقاد سربازان ایرانی به شکست ناپذیری «ظل الله» اسماعیل صفوی تا درجه‌ای بود که حتی یکی از سرداران شاه اسماعیل به نام دورموش خان از قبیله شاملو پیش از نبرد چالدران به شاه پیشنهاد کرد که بگذارد سلطان سلیم با راحتی خاطر به آرایش نظامی خود بپردازد تا به او ثابت شود که صرفنظر از نوع سلاح، تعلیم ارتش و نظام و با وجود کمبود نسبی سرباز، شاه ایران بر هر نیروئی برتر عالب خواهد آمد زیرا رسالتی که از سوی امام غائب و حضرت علی گرفته، او را شکست ناپذیر کرده است. و شاه اسماعیل هم این پیشنهاد را پذیرفت."

کتاب: ایران و آذربایجان: در بسترِ تاریخ و زبان
سالِ اشاعت: ۲۰۱۶ء
نویسنده: عباس جوادی

"قِزِلباشوں کے لیے، جو مختلف قبائل سے عبارت تھے اور اساساً تُرکمن تھے اور اثناعشری شیعیت کی طرفداری میں اور طریقتِ صفویہ کی عادت کے مطابق سر پر سُرخ کُلاہیں پہنتے تھے، اوّلین صفوی پادشاہ (شاہ اسماعیل صفوی) نہ فقط اُن کا رئیس و شاہ، بلکہ «مُرشدِ کامل»، «نائبِ امامِ زمان» اور شاید حتیٰ اِس سے بھی بیشتر، ایک فوقِ انسانی الوہیت رکھنے والی ایک مقدس شخصیت تھا جو «سُنّی کافروں» اور دیگر کُفار کے ساتھ پیکار و مبارزہ میں شکست ناپذیر اور قوی تن تھا۔ خود شاہ اسماعیل نے بھی اِن تصوّرات پر یقین کر لیا تھا اور اپنی طرزِ سلوک اور اپنے اشعار کے ساتھ بھی وہ اِن تصوّرات کو ہوا دیتا تھا۔ «ظل اللہ» شاہ اسماعیل صفوی کی شکست ناپذیری پر ایرانی سپاہیوں کا اعتقاد اِس حد تک تھا کہ حتیٰ شاہ اسماعیل کے ایک سردار دورموش خان نے، جو قبیلۂ شاملو سے تعلق رکھتا تھا، جنگِ چالدران سے قبل شاہ کو مشورہ دیا تھا کہ وہ سلطان سلیم کو آسودہ خاطری کے ساتھ اپنا فوجی انتظام کرنے دے تاکہ اُس پر ثابت ہو جائے کہ نوعِ اسلحہ اور تربیت و ترتیبِ فوج سے صرفِ نظر، اور سپاہیوں کی نِسبی کمی کے باوجود، شاہِ ایران ہر برتر قوّت پر غالب آ جائے گا کیونکہ اُس نے امامِ غائب اور حضرتِ علی کی طرف سے جو مأموریت حاصل کی ہے، اُس نے شاہ کو ناقابلِ شکست کر دیا ہے۔ اور شاہ اسماعیل نے بھی اِس مشورے کو قبول کر لیا۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"در سال های ۱۳۰۰ میلادی طریقت صفویه در اردبیل رونق یافت و این طریقت با کوشش نوادگان شیخ صفی اردبیلی جنید و حیدر و سپس شاه اسماعیل بین قبایل ترک آناتولی محبوبیت بسیاری یافت و زمینه تشکیل قزلباشان را فراهم آورد که بدنه سیاسی و نظامی قدرت صفویه شدند. در این مدت بود که ده ها و احتمالا صد ها هزار نفر از قبایل ترکمن آناتولی برای حمایت از صفویه از آناتولی به ایران و بخصوص آذربایجان کوچ کرده و در اینجا مقیم شدند."

کتاب: ایران و آذربایجان: در بسترِ تاریخ و زبان
سالِ اشاعت: ۲۰۱۶ء
نویسنده: عباس جوادی

"چودہویں عیسوی صدی کے سالوں میں طریقتِ صفویہ نے اردَبیل میں رونق حاصل کی اور یہ طریقت شیخ صفی اردَبیلی کے اخلاف جُنید، حیدر اور پھر شاہ اسماعیل کی کوششوں سے اناطولیہ کے تُرک قبائل کے درمیان محبوبیتِ بِسیار حاصل کر گئی اور اِس نے قِزِلباشوں کی تشکیل کا پس منظر فراہم کیا، جو صفویہ کی سیاسی و فوجی طاقت کا محور بنے۔ اِسی مُدت میں اناطولیہ کے دسیوں بلکہ احتمالاً صدہا ہزار تُرکمن قبائلی صفویہ کی حمایت کے لیے اناطولیہ سے ایران، بالخصوص آذربائجان کی جانب کُوچ کر گئے اور یہاں مقیم ہو گئے۔"

× 'تُرکمن' سے مراد 'تُرکمنستان' کے مردُم نہیں ہیں، بلکہ اُس زمانے میں تُرک قبائلیوں کو تُرکمن کہا جاتا تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
"فضولی را می‌توان از بزرگ‌ترین چهره‌های ادبی جهان اسلام به حساب آورد. از دیگر سوی تسلط او به زبان‌های سه‌گانهٔ جهان اسلام و پدید آوردن آثاری در هر سه زبان یعنی عربی، ترکی و فارسی او را به صورت حلقهٔ واسط بین سه فرهنگ درآورده است."
(علی‌اصغر شعردوست)

"فضولی کو جہانِ اسلام کے بزرگ ترین ادبی چہروں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ از طرفِ دیگر، جہانِ اسلام کی زبان ہائے سہ گانہ پر اُن کے تسلُّط، اور ہر تین زبانوں یعنی عربی، تُرکی اور فارسی میں تألیفات کی انشاء نے اُن کو تین ثقافتوں کے مابین حلقۂ واسِط بنا دیا ہے۔"
 
آخری تدوین:
Top