سلیم کوثر غزل ۔ مجھے خبر تھی میرے بعد وہ بکھر جاتا ۔ از سلیم کوثر

بنگش

محفلین
:مجھے خبر تھی میرے بعد وہ بکھر جاتا
سو اس کو کس کے بھروسے پہ چھوڑ کر جاتا
وہ خوشبؤں میں گھرا تھا کہ مثل سایہء ابر
میان صحن چمن میں ادھر اّدھر جاتا
وہ کوئ نشہ نہیں تھا کہ ٹوٹتا مجھ میں
وہ سا نحہ بھی نہیں تھا کہ جو گزر جاتا
وہ خواب جیسا کوئ تھا نگار خانہ ء حسن
میں جتنا دیکھتا وہ اتناہی سنور جاتا
بس ایک خیال کی لؤ میں دھلا ہوا وہ بدن
میں جتنا سوچتا وہ اتنا ہی نکھر جاتا
رکا ہوا تھا میوا سانس میرے سینے میں
اسے گلے نہ لگاتا تو گھٹ کے مر جاتا
اک ایسے عالمء وارفتگی سے گزرا ہوں
جہاں سمیٹتا خود کو تو میں بکھر جاتا
شکست ہو گيا پندار آئینہ ورنہ
یقین کر میں تیرے عشق سے مکر جاتا
نہ جانے کتنے محازوں پہ جنگ تھی میری
بس ایک وعدہ نبھانے میں میں اپنے گھر جاتا
۔از۔۔۔
 

مغزل

محفلین
بہت شکریہ بنگش صاحب ۔۔ صاحبہ
سدا خوش رہیں۔ یہاں پڑھنے کا الگ لطف
مگر گزشتہ اتوار ناچیز نے یہ غزل سلیم کوثر صاحب کی رہائش پر جناب سے سنی ۔
میں بتا نہیں سکتا کہ کیا فضا بن گئی تھی۔۔ سبحان اللہ سبحان اللہ ۔۔ ان کی کچھ
ویڈیو میں یوٹیوب پر اپ لوڈ کرلوں تو انشا اللہ یہاں ربط پیش کروں گا۔
سلامت رہیں۔
 

مغزل

محفلین
حضرت میں نے آتے ہی کیا غلطی کر دی کہ آپ نے مجھے صاحبہ بنا دیا

در اصل آپ نے نام تو لکھا نہیں جس سے مجھے آپ کی صنف کی خبر ہو۔
صرف بنگش (جو کہ خاندانی نام ہے ) سے معلوم نہیں‌ہوتا کہ صاحبہ ہیں یا صاحب
سو دونوں ہی لکھ دیئے ۔ میری معذرت قبول کیجئے ۔
والسلام
 

جیا راؤ

محفلین
اک ایسے عالمء وارفتگی سے گزرا ہوں
جہاں سمیٹتا خود کو تو میں بکھر جاتا
شکست ہو گيا پندار آئینہ ورنہ
یقین کر میں تیرے عشق سے مکر جاتا


خوبصورت !
 
Top