محمداحمد
لائبریرین
غزل
اب کِسے معلُوم کیا کیا جل گیا
ایک گھر تھا ٹُوٹا پُھوٹا جل گیا
گھر کی دیواریں ہیں آئنہ بدست
خوبرُو لڑکی کا چہرہ جل گیا
شہر والوں نے کبھی پُوچھا نہیں
جل گئی کشتی کہ دریا جل گیا
حسرتیں مُرجھا گئیں اِس بار بھی
آتشِ گُل سے دریچہ جل گیا
اُس طرف کی بھی خبر لیجے کبھی
ابر بتلاتے ہیں صحرا جل گیا
آتشِ نا دیدہ ہے یہ ہجر بھی
یُوں بُجھا یہ دل کہ گویا جل گیا
کشتیوں میں آگ لے آئے تھے ہم
اِس لئے عاصمؔ جزیرہ جل گیا
لیاقت علی عاصمؔ
اب کِسے معلُوم کیا کیا جل گیا
ایک گھر تھا ٹُوٹا پُھوٹا جل گیا
گھر کی دیواریں ہیں آئنہ بدست
خوبرُو لڑکی کا چہرہ جل گیا
شہر والوں نے کبھی پُوچھا نہیں
جل گئی کشتی کہ دریا جل گیا
حسرتیں مُرجھا گئیں اِس بار بھی
آتشِ گُل سے دریچہ جل گیا
اُس طرف کی بھی خبر لیجے کبھی
ابر بتلاتے ہیں صحرا جل گیا
آتشِ نا دیدہ ہے یہ ہجر بھی
یُوں بُجھا یہ دل کہ گویا جل گیا
کشتیوں میں آگ لے آئے تھے ہم
اِس لئے عاصمؔ جزیرہ جل گیا
لیاقت علی عاصمؔ