لیاقت علی عاصم غزل ۔ اب کِسے معلُوم کیا کیا جل گیا ۔ لیاقت علی عاصم

محمداحمد

لائبریرین
غزل

اب کِسے معلُوم کیا کیا جل گیا
ایک گھر تھا ٹُوٹا پُھوٹا جل گیا

گھر کی دیواریں ہیں آئنہ بدست
خوبرُو لڑکی کا چہرہ جل گیا

شہر والوں نے کبھی پُوچھا نہیں
جل گئی کشتی کہ دریا جل گیا

حسرتیں مُرجھا گئیں اِس بار بھی
آتشِ گُل سے دریچہ جل گیا

اُس طرف کی بھی خبر لیجے کبھی
ابر بتلاتے ہیں صحرا جل گیا

آتشِ نا دیدہ ہے یہ ہجر بھی
یُوں بُجھا یہ دل کہ گویا جل گیا

کشتیوں میں آگ لے آئے تھے ہم
اِس لئے عاصمؔ جزیرہ جل گیا

لیاقت علی عاصمؔ
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بہت شکریہ تمام احباب کا۔

خاص طور پر بلال کا کہ اب یہ بلانے پر ہی تشریف لاتے ہیں۔
ہاہاہا
اب کیا بتاؤں کہ فیض کے بقول
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
بات اگر یہاں تک ہوتی تو بات بھی تھی مگر غمِ فزکس اور غمِ جاناں ایک دوسرے کے پیرالل آ جائیں تو بس پھر
وقتِ فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے
;)
 
Top