نیرنگ خیال
لائبریرین
ہماری سادہ طبع کو شر سے یوں خار جیسے بلبل کو صیاد سے۔۔۔۔ ہوہوہوہوہوہوپیوستہ رہ تو شر سے امیدِ اشعار رکھ
دیورا اٹھائی نہیں ڈھائی گئی ہے ۔۔۔۔ اور ڈھانے والوں میں باسیانِ کوچۂ آلکساں کو بھی الزام دیا جارہا ہے کہ اتنی دیر سے سایۂ دیوار میں لیٹے ہوئے نہ صرف بغیر سائلنسر کے خراٹے لے رہے تھے بلکہ پڑوس میں کوچۂ ملنگاں کی نیند بھی اجیرن کر رکھی تھی۔
دیوار گرائی جا رہی ہے۔۔۔ اب یہ بھی نہیں کہہ سکتے۔۔۔
ہوگا کسی دیوار کے سائے میں پڑا میر
کیا ربط محبت سے اس آرام طلب کو