صلیب بر دوش - اقبال متین

الف عین

لائبریرین
پسِ پندار کوئی شعلہ نم روتا ہے
میں نے خود جس کو تراشا وہ صنم روتا ہے

اب تو کم کم ہی تری یاد کبھی آتی ہے
اب تو میرا دلِ ناشاد بھی کم روتا ہے

ضبط گر یہ ہے نوازش تری ، لیکن جاناں
میں ہنسا لیتا ہوں جب خود کو تو غم روتا ہے

میں تو سائل ہوں ترے در پہ ٹھہر جاؤں گا
کیسے مرے بیٹوں کو دیواروں کا خم روتا ہے

میں نے جی لینے کا کیا ڈھنگ نکالا دیکھو
میں نہیں روتا ہوں جب میرا قلم روتا ہے

تار چھیڑوں بھی تو جھنکار سے محروم رہوں
اور جو مضراب سے چھولوں بھی تو سم روتا ہے

ظلم کی جب کوئی تاریخ نہیں لکھ سکتا
خون ہر سانس سے بہتا ہے ، ستم روتا ہے

فن کو فن کار کا انعام سمجھنے والوں
نقشِ مانی پہ بھی ژولیدہ رقم روتا ہے

کچھ مرے دیدہ پر آب پہ موقوف نہیں
ان کے ہاتھوں گلِ شاداب کا نم روتا ہے

وہی حضرت تو بنے پھرتے ہیں اقبال متین
جن کے ترانے پہ خود ان کا بھرم روتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
میں دور دور رہا بھی تو تیرے پاس رہا
مگر یہ سچ ہے کہ جاناں بہت اداس رہا

نہ بچ کے جا سکا تیرے بدن کی خوش بو سے
ہوا کا جھونکا بھی آشفتہ حواس رہا

ملی نہ فرصتِ یک لمحہ اس کو اپنے سے
نظر شناس رہا وہ ، نہ غم شناس رہا

بہت عزیز تھی مجھ کو بھی اپنی برنائی
مگر وہ دردِ تہہ جام بے سپاس رہا

مگر وہ زعم ترے سامنے پنپ نہ سکا
مگر یہ رنج انا کی مری اساس رہا

یہ التفات بھی کیا کم ہے اک زمانے میں
تو ننگے پاؤں رہا میں بھی سبز گھاس رہا

متین روزنِ دل سے ذرا سا جھانک تو لے
وہ تو ہی ہے جو کسی وقت اپنا داس رہا
 

الف عین

لائبریرین
وعدہ کر کے نہ آنے والا آج بھی اب تک آیا نہیں
اس کو دیکھو آس کا مارا پگلا جی، گھبرا یا نہیں

بات ہماری جھوٹ لگے تو اس کی گلی میں جا کر پوچھ
شام ہوئی گھر سے نکلا تھا، بھور بھئی گھر آیا نہیں

کاجل گالوں پر پھیلا ہے ، پیشانی بھی گیلی ہے
صبح کا چاند او ر شام کا سورج کون گہن گہنایا نہیں

ندی کنارے بھیڑ لیر ہے ، بجرا کوئی کھیتا ہے
ڈوبنے والا ڈوب رہا ہے تو دیکھنے کو آیا نہیں

کون اسے چھپ چھپ کر دیکھے کون اسے دل میں رکھ لے
وہ تو ایسا ہر جائی ہے آج تلک پچھتا یا نہیں

بستی بستی آگ لگے ہے ، مسجد مندر سب جلے
ایک زمین پر ایک گگن ہے ، اوم نہیں خدایا نہیں

اب یوں چپ چپ رہنا چھوڑو ہمری سنو اقبال متین
کوئی کسی کا میت نہیں یاں ، اپنا نہیں جو، پرایا نہیں
 

الف عین

لائبریرین
ملے ہیں خود تو اب تم کو بھول جائیں گے
زمین تنگ نہیں ہے تمہیں بتائیں گے

ابھی تو مردہ پرندے کو پھینک آؤ کہیں
جو نوچ رکھے ہیں وہ پر بھی کل اُڑائیں گے

تم ان کی گرمیِ گفتار دیکھتے رہنا
ہم اپنے حسن سخن کے بھی گل کھلائیں گے

ابھی تو دوست حنائی گلو تک آیا ہے
میں ساز چھیڑ کے رو دوں تو گنگنائیں گے

وہ رہ گیا ہے کہاں ساتھ آنے والا تھا
ہم آپی آپ چلے ہیں تو لوٹ آئیں گے

ابھی تو روزن در سے گلی میں جھانکا ہے
کھلے جو در تو نظر بھی نہیں اٹھائیں گے

غرور حسن سے میری انا تو ٹکرائے
رموز عشق وہ پھر بھی سمجھ نہ پائیں گے

اب اور کچھ نہ سہی ، سانس ہی پہ سب کچھ ہے
ہم اس وجود کی آلایشیں اٹھائیں گے

یہ سچ ہے اب بھی کلیجے کی کور کٹتی ہے
یہ سچ نہیں ہے وہ ہر سانس میں سمائیں گے

شعور و حزن و قلم پھر ہنر کی ناقدری
ہمارے ساتھ ہی رہتے ہیں ساتھ جائیں گے

متین شاخ پہ اک پھول بھی نہیں ہے ابھی
بہار آئے تو دامن بھی سی کے لائیں گے
 

الف عین

لائبریرین
اٹھی تھی میری طرف ، جھک پڑی تو روئی ہے
وہ اک نظر ہی مرے دل کے پاس سوئی ہے

عجیب طرح کے منظر دکھا گیا مجھ کو
مرے بغیچے میں تیرے سوا بھی کوئی ہے

یہ جھٹ پٹے کا سماں دھل کے یوں نکھر آیا
زمیں کے درد کو جیسے حیات روئی ہے

سیاہیوں میں دمک سی ہے تیرے چہرے کی
یہ رات تو نے مرے آنسوؤں سے دھوئی ہے

مجھے تو دیکھ عقوبت کو دیکھنے والے
وہی ہوں جس نے تری کائنات کھوئی ہے

ثمر نہ دے گا تو مجھ کو اتار ہی لے گا
وہ جس نے فصل کٹا کر صلیب بوئی ہے

متین عشق کی اجرت ہی مانگ لی ہوتی
یہ زندگی تو ہر اک گام پر فروعی ہے
 

الف عین

لائبریرین
۴ہم میں ہی ایسی خامی ہے کچھ ، اک اک کر کے ہر گھر چھوٹا
یا ہم سچ کے آدھاری ہیں ، یا جیون کا پل پل جھوٹا

سب اچھے ہیں ہم نے سب کو آنکھوں میں دل میں رکھا
ایک ہوا کا جھونکا آیا آنکھیں بھیگی دل بھی ٹوٹا

ہنستے بولتے اٹھ جانے کا دکھ تھا چاہنے والوں کو
اپنا بھی تھا طور طریقہ آنسو بن کر بگیا لوٹا

سوکھی سوکھی اس دھرتی پر کتنے ارماں بو لیتے ہو
یاد رکھو بھی غم ہی ملے گا پھوٹے گا جب بوٹا بوٹا

چلتے چلتے تھک کر گولی خشک زباں کے نیچے رکھنا
یہ تو نہیں جینے کا سلیقہ کون رکے گا گر دم ٹوٹا

جس دریا کے تٹ پر بیٹھا کوئی موجیں گنتا تھا
آج سنا واں ڈوب مرا وہ بھیڑ کہے تھی، چشمہ چھوٹا

ایک پرندہ شاخ سے چمٹا مرا ہوا ہے گرا نہیں ہے
یہ بھی شاید ریت ہے کوئی ، شاخ ہری ہے پر نہ پکھوٹا

صاحب جی، اقبال متینؔ اب کتنے رستے ناپو گے تم
دیکھو جی اب بیٹھ رہو بھی ، یہ چھوٹا تھا یا وہ چھوٹا
 

الف عین

لائبریرین
ایک کچی کلی چٹکی میں مسل کر آئے
وہ بغیچے میں مرے ہاتھوں کو مل کر آئے

ساری محفل میں سبھی تیرے ہیں لیکن جاناں
بات جب ہے کہ تو گھر تک مرے چل کر آئے

دم دلاسہ تو سبھی دیتے ہیں دینے والے
کوئی سچ ہے تو کسی دل سے نکل کر آئے

میں تو مٹی کی طرح جھڑتا ہوں اپنے گھر میں
جو بھی آئے در و دیوار میں ڈھل کر آئے

قتل ہو کر بھی تو رسوائے زمانہ ہیں ہم
سرخ رو ہوکے جو آئے وہ سنبھل کر آئے

خوف کے دھبے ہیں دھل جائیں گے دھلتے دھلتے
اس سے کہہ دو کہ وہ پوشاک بدل کر آئے

ہم بھی رو رو کے ابھی سوئے تھے اقبال متین
وہ بھی کمرے سے دبے پاؤں نکل کر آئے
 

الف عین

لائبریرین
بے شجر دھوپ میں تپتا ہوا آنگن ٹھہرا
آج تو میرا قلم ہی مرا دشمن ٹھہرا

کون آیا تھا گئی رات کے سناٹوں میں
صبح دم میرا بغیچہ بھی مجھے بن ٹھہرا

ہائے کس چہرے کی میں بات کروں گا تجھ سے
مجھ کو جو شخص ملا میرا ہی درپن ٹھہرا

سب مرے چاہنے والے مجھے رو رو بیٹھے
میرا فن ان کے لیے ذات کا قدغن ٹھہرا

تیرے کھو جانے سے کیا چیز نہ کھوئی ہم نے
زندگی ساتھ رہی بھی تو نہ تن من ٹھہرا

میں کہاں جا کے تری رحمتِ پرساں دیکھوں
جب مرا شیشۂ دل مجھ کو ہی آہن ٹھہرا

کس نے اقبال متیں تجھ کو بھی اپنا سمجھا
ہر اندھیرا تو ترے نام سے روشن ٹھہرا
 

الف عین

لائبریرین
میرے اشکوں کی مری آہوں کی بن آئی ہے
یہ تری فوج ہے جو چھوڑ کے رن آئی ہے

بات کرنی ہمیں آئی نہیں جب تو آیا
اور اب پلکوں پہ سوغاتِ سخن آئی ہے

جب کبھی آنکھوں نے پڑھ لی ہے حنا کی تحریر
مجھ کو لینے تری خوشبوئے بدن آئی ہے

میں تو ہر سوچ کو لفظوں میں اٹھا لایا ہوں
کون وہ ایسی کٹھن شئے مرے فن آئی ہے

رنگِ تصویر بتاں جب کھلا گلشن گلشن
اپنی شادابی جاں ، سوختہ تن آئی ہے

لوگ کہتے تھے مری جان پہ بن آئے گی
لوگ کہتے ہیں مری جان پہ بن آئی ہے

وہ تو تک تک کے تجھے جان گنوا بیٹھا ہے
اب ترے چہرے پہ یہ کیسی پھبن آئی ہے

مجھ کو اقبال متین زورِ تموّج ہے عبث
باڑھ آئی ہے تو پھرتا بہ دہن آئی ہے
 

الف عین

لائبریرین
پو پھٹے میرے بغیچے کا عجب منظر ہے
کوئی پھولوں میں بسائے ہوئے چشمِ تر ہے

یوں چلا جاتا ہے رستہ ہوں میں جیسے اس کا
اس طرح آتا ہے دل جیسے اسی کا گھر ہے

ٹوکتا رہتا ہے ہر ایک قدم پر مجھ کو
وہ مرا دوست نہیں ہے جو مرے اندر ہے

کون دیکھے مری پہچان یہی ’’لفظ،، تو ہیں
دوست دہلیز تک آ کر بھی نہ سمجھے در ہے

اور کیا ہو گا نگاہوں کی بلندی سے پرے
ہم تو یہ سوچ کے چپ ہیں یہیں خیر و شر ہے

ہائے ! کیا بات لیے بیٹھے ہو اقبال متین
وہ بڑے لوگ ہیں بے چاروں کے دل میں سر ہے
 

الف عین

لائبریرین
سمٹ رہی تھی وہاں رات پیکرِ جاں میں
عجیب ہو کا سماں تھا دیارِ جاناں میں

وہ ٹکٹکی ہی نہ تھی لفظ جس سے بول اٹھے
کوئی صدا ہی نہ تھی اب تو دشتِ امکاں میں

کہاں گیا وہ ترے ساتھ کا تعلقِ جاں
کہ سب اندھیرے تھے پنہاں جبینِ تاباں میں

حیاتِ زار ہوئی دیکھتے رہے ہم بھی
کہ کوئی بھی تو پشیماں نہ تھا دل و جاں میں

میں تیرا راز تھا تیرے وجود سے پہلے
تری تو چھب بھی نہ تھی جب دیارِ خوباں میں

مرض ضرور ہے آشفتگی نے جان لیا
مگر امید نہیں رہ گئی تھی درماں میں

وہ طے شدہ تھا جسے پوچھنے چلے تھے متین
نہیں نہیں میں ملا کچھ نہ اس کی ہاں ہاں میں
 

الف عین

لائبریرین
ذہن و دل بے سرو ساماں تھے جدھر سے گزرے
آگ ہی آگ تھی جب دیدۂ تر سے گزرے

زندگی تجھ سے گلہ بانٹ ہی لیتے غم جاں
خس و خاشاک لیے برق و شر ر سے گزرے

میں نے سب دے کے بھی کیا رکھ لیا اللہ جانے
میرے بیٹے میرا غم پوچھتے در سے گزرے

مجھ کو کچھ اور نہیں چاہیے میرے مولا
سائباں ایسا تو ہو دھوپ نہ سر سے گزرے

ہائے وہ شخص جو بیٹھا رہے دروازے پر
ہائے وہ شخص جو سو بار ادھر سے گزرے

ایسی کیا بات تھی خود کو بھی نہ پہچان سکے
اپنا گھر ڈھونڈتے ہم اپنے ہی گھر سے گزرے

کوئی آیا نہ گیا ، اٹھو بھی اقبال متین
ایک سایہ تو کہیں راہ گزر سے گزرے
 

الف عین

لائبریرین
٭
دل کے ہر درد کو چپ چاپ ہی سہتے رہنا
اور ندیا کی طرح خواب میں بہتے رہنا

اس کی کیا بات ہے ، آئے کہ نہیں آئے وہ
وہ ضرور آئے گا ہر ایک سے کہتے رہنا

وہ صبا ہے تو بغیچے سے گزر جائے گا
تم جہاں رہتے ہو بس تم وہیں رہتے رہنے
 

الف عین

لائبریرین
٭
اپنے ہی حسن کی وہ اس لیے شیدائی تھی
اس کی آنکھوں میں مری آنکھوں کی بینائی تھی

ڈھونڈتی پھرتی تھی غنچوں میں گلوں میں مجھ کو
پو پھٹے بادِ صبا باغ میں سودائی تھی

دور ٹھیری تھی کوئی رات کی تاریکی میں
میں نے پہچان لیا شام کی تنہائی تھی
٭
 
Top