صلیب بر دوش - اقبال متین

الف عین

لائبریرین
دل سے احساس کا نشتر لے جا
آئینہ خانے سے پتھر لے جا
مجھ کو جینے دے تری یاد ہوں میں
میرے صحرا میں گُلِ تر لے جا
آگ سینے میں لگا کر رکھ دے
اشک جتنے ہیں اُٹھا کر لے جا
ریت کے تو دوں پہ بارش برسا
اور آنکھوں سے سمندر لے جا
راہ کی خاک ہوں پلکوں پہ سجا
آ، مجھے بھی کبھی گھر گھر لے جا
کبھی دل میں کبھی آنکھوں میں چھپا
اور چھپ جاؤں تو باہر لے جا
پو بھی پھٹنے کو ہے اقبالؔ متین
نیند کے شانوں پہ بستر لے جا
 

الف عین

لائبریرین
اس کو نغموں میں سمیٹوں تو بُکا جانے ہے
گر یہ شب کو جو نغمے کی صدا جانے ہے
میں تری آنکھوں میں اپنے لیے کیا کیا ڈھونڈوں
تو مرے درد کو کچھ مجھ سے سوا جانے ہے
اس کو رہنے دو مرے زخموں کا مرہم بن کر
خونِ دل کو جو مرے رنگِ حنا جانے ہے
میری محرومیِ فرقت سے اُسے کیا لینا
وہ تو آہوں کو بھی مانندِ صبا جانے ہے
ایک ہی دن میں ترے شہر کی مسموم فضا
میرے پیراہنِ سادہ کو ریا جانے ہے
میں کبھی تیرے دریچے میں کھِلا پھول بھی تھا
آج کیا ہوں ، ترے گلشن کی ہوا جانے ہے
مجھ سے کہتا ہے مرا شوخ کہ اقبالؔ متین
تم رہے را ت کہاں ، یہ تو خدا جانے ہے
 

الف عین

لائبریرین
پسِ دیوار بھی ، دیوار اُٹھائے ہوئے ہیں
میرے ساتھی ، مرے لاشے کو چھپائے ہوئے ہیں
کس سے پوچھوں کہ مرے نام کی تختی ہے کہاں ؟
میرے سینے میں تو ویرانے سمائے ہوئے ہیں
اُن سے کہہ دو جو مکیں ہیں مرے گھر میں کہ مجھے
لوگ پھر بیچنے بازار میں لائے ہوئے ہیں
ظلمتیں اُن کا اجارہ ہیں ، چلو یوں ہی سہی
ہم بھی لو دل کے چراغوں کی بڑھائے ہوئے ہیں
آسماں پر نہ ستارے نہ زمیں پر جگنو
کون پھر ماتھوں پہ کرنیں سی سجائے ہوئے ہیں
ہم تو پت جھڑکی صدا ہیں ہمیں دیکھو نہ سنو
ہم کو سو چو کہ بہاروں کو سجائے ہوئے ہیں
ریت پر میں بھی گھروندا لیے بیٹھا ہوں متین
وہ بھی ہر قطرۂ بارش میں سمائے ہوئے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
ہواؤں کی طرح ، گلشن ، دریچے ، دشت دیکھوں بھی
وطن چھوٹا ہی ہے ، تو کارِ بود و ہست دیکھوں بھی
اُتر کر آ بھی جا، کرنوں کے رستے ، سب کھُلے رکھّوں
تو مجھ کو دیکھتا ہے میں بھی تیرا است دیکھوں بھی
سمندر ہوں تو میرے ہیں ، خذف ریزے بھی، موتی بھی
صدف بن جاؤں تو، راز کشاد و بست دیکھوں بھی
قلم میرا، مجھی سے خونِ دل مانگے ہے کاغذ پر
میں آنکھیں موند لوں ، جذبِ دروں کی جست دیکھوں بھی
مرے اشعار کو، اپنے ہی افسانوں سے شکوہ ہے
میں افسانہ چھپا لوں ، شاعری کا تخت دیکھوں بھی
انا کی کیچ میں گھر بار سارا دھنس گیا میرا
میں اوجِ فن تری رفعت سے اپنے پست دیکھوں بھی
محبت ہی محبت باندھ کر دے دی ہے یاروں نے
میں یہ گٹھری ، اٹھا لوں اور اپنا دست دیکھوں بھی
 

الف عین

لائبریرین
کچھ عجب طرح کا طوفان اُٹھا ہے دل میں
دل کی دھڑکن ہے کہ آسیب بلا ہے دل میں
اب کہاں ڈھونڈنے جاتے ہو بھلا تم اس کو
وہ تو آنکھوں کی نمی بن کے چھپا ہے دل میں
خشک آنکھوں کو ابھی رونے کی حسرت ہے بہت
اس کو تھمنے دو جو کہرام مچا ہے دل میں
اتنے سناٹے میں آواز کا دم گھٹتا ہے
اور ایسے میں بھی اک حشر بپا ہے دل میں
وہ جدا ہو کے کچھ اس درجہ قریب آ پہنچا
اب تو بس ایک وہی ہے کہ بسا ہے دل میں
اتنی سنسان ڈگر ہے کہ تکے جاتا ہوں
کوئی رستہ ترے رستے سے ملا ہے دل میں
تو گیا ہے تو مجھے میرا پتا دے جاتا
خود مجھے جیسے کوئی ڈھونڈ رہا ہے دل میں
دشتِ جاں میں ہے شبِ تار بھی آندھی بھی متین
ایک غم ہے کہ دیا جس کا جلاہے دل میں
 

الف عین

لائبریرین
گمان و وہم نہیں ہیں ، مرا یقیں ہیں اب
مرے قدم ، مرے احساس کی زمیں ہیں اب
میں جام اُٹھا کے یہی سو چتا رہا اکثر
نشہ بھی لے گئے وہ لوگ جو نہیں ہیں اب
کبھی جو ساتھ تھے میرے ، مری رگِ جاں تھے
دلوں کو چھوڑ کے محلوں میں جاگزیں ہیں اب
ہمیں نہ پا سکا آسیبِ ظلمتِ دوراں
ہر ایک خالی مکاں میں ہمیں مکیں ہیں اب
کچھ ایسی چرب زبانی سے جہل چھُپتا ہے
یہ لوگ اپنے لیے مارِ آستیں ہیں اب
فرید و نشو و پپن کے ساتھ ہے عمران
پتا تو دے گئے ہوتے ، جہاں کہیں ہیں اب
چلو متین ؔ وہیں جا کے پھر انھیں ڈھونڈھیں
وہ صورتیں جو زمین بن کے دل نشیں ہیں اب
 

الف عین

لائبریرین
وہ شخص کیا ہوا وہ اُس کا گھر کہاں ہو گا
اب اس دیار میں ، مجھ سے بسر کہاں ہو گا

میں جس کے سائے میں جا بیٹھتا تھا دن دن بھر
کوئی بتائے کہ اب وہ شجر کہاں ہو گا

نظر جھُکا کے چرا لے گیا جو ہوش و خرد
پھر اس کا سامنا اب عمر بھر کہاں ہو گا

ورق ورق ہیں کتابوں کے سینے شق پھر بھی
اس انتشار میں عرض ہنر کہاں ہو گا

چراغِ راہ وہی ہے ، گلی کا موڑ وہی
وہ میرا یار، وہ آشفتہ سر کہاں ہو گا

مٹی مٹی تری تحریر چوم لیتا ہوں
ان آنسوؤں کا مقدر مگر کہاں ہو گا

سفید خون میں سُرخی ملا کے جی لیں گے
علاج اس کے سوا چارہ گر کہاں ہو گا

یہ کیسی بے گھری اب ساتھ ہوگئی میرے
وہ کھڑکیاں کہاں ہوں گی وہ در کہاں ہو گا

عروجِ فن پہ کمندِ زیاں جو پھینک سکے
ہمارے ایسا بھی صاحب نظر کہاں ہو گا

متین بے سر و سامانیاں ہی ساتھ رکھو
شعورِ عجز ہنر در بدر کہاں ہو گا
 

الف عین

لائبریرین
ایک بھیگی غزل مغنی تبسم کے نام

بہت رونے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا آخر
جو یاد وں کے جھروکوں کو بھی شاید دھو گیا آخر
نہ ماتم ہے ، نہ سناٹا عجب سرگوشیاں سی ہیں
مری چوکھٹ پہ سر رکھ کر وہ لڑکا سو گیا آخر
میں خود اشکوں کے دریاؤں کی پہنائی کا حاصل تھا
مگر وہ ایک قطرہ بارِ ہستی دھو گیا آخر
مجھے بھیگی ہوئی آنکھوں میں رہنے کا سلیقہ ہے
میں گیلے کاغذوں میں لفظ سارے بو گیا آخر
وہ رستہ جو تری تربت سے ہو کر مجھ تلک آیا
وہ رستہ وقت کی پہنائیوں میں کھو گیا آخر
متین اقبال آنکھیں پونچھ لو، تکیہ چھپا رکھو
وہ دیکھو اپنے آنگن میں سویرا ہو گیا آخر
 

الف عین

لائبریرین
سجا کے جہل کی سو تختیاں مکانوں پر
تو آ گیا ہے تو تالے لگا زبانوں پر
وفا کے شہر میں یہ کیسا ہو کا عالم ہے
کسی کا نام ہی کندہ کریں چٹانوں پر
بہت قریب سے گزرا ہے زندگی کا جلوس
میں پھینک آؤں کمندِ زیاں زمانوں پر
مجھے نہ تاک کہ میں آبِ خشک دریا ہوں
وہ مہتاب ہے اس کو رجھا اڑانوں پر
نہ دل کے راز ، نہ آپس کے غم نہ دردِ حیات
علامتوں کی ہے یلغار سی فسانوں پر
میں اپنے اشک بھی نذرِ حضور کر نہ سکا
مچی تھی لوٹ کچھ اس طرح آستانوں پر
میں اپنا زدِ سفر چھوڑ کر چلوں بھی متینؔ
کوئی تو آئے گا اجڑے ہوئے ٹھکانوں پر
 

الف عین

لائبریرین
دیارِ یار پہ دل کا گمان ہو گا بھی
مری زمیں کا کوئی آسمان ہو گا بھی
میں تجھ کو بھول کے اتنا تو یاد رکھ لیتا
تری گلی میں ہی ، میرا مکان ہو گا بھی
مری انا کو ترا لطف بھی نہ راس آیا
ترا ہی دھیان کہیں درمیان ہو گا بھی
بہت کڑی ہے اگر زندگی کی دھوپ تو کیا
کہیں تو یادوں کا اک سائبان ہو گا بھی
بہت پر بریدہ سہی، قلب خوں چکیدہ سہی
مگر یہ فاصلۂ دو جہان ہو گا بھی
میں آگ پی کے بھی جاں سوختہ نہیں ہوتا
سرشکِ غم ترا نم ، پاسبان ہو گا بھی
نہ غم نہ ضبطِ فغاں ،نے بھرم نہ تنہائی
متین کوئی تو اب درمیان ہو گا بھی
 

الف عین

لائبریرین
کچھ اتنا بے نیاز ہوں جینے کے باب میں
جس طرح دریا خود کو چھپا لے سراب میں
آ زندگی تلاش کریں کوئی اور زہر
اپنے لیے تو کچھ نہ رہا اب شراب میں
وہ عالمِ فراق تھا اللہ کی پناہ
ہر شے جھلس رہی تھی شبِ ماہتاب میں
تجھ کو ہی دیکھتی رہیں آنکھیں تو کیا کریں
اک تو ہی بس گیا تھا جہانِ شباب میں
میں بھی جہاں سے اس طرح اٹھ جاؤں گا متین ؔ
جس طرح ترک رکھ کے اٹھا ہوں کتاب میں
 

الف عین

لائبریرین
خونی چہرے پہ بھی وہ سانولا پن ہے کہ نہیں
یہ مری جان مری ارض دکن ہے کہ نہیں

ایسی نا قدری کہ بے رحمی بھی شر ما جائے
میں نہ جانوں کوئی میرا بھی وطن ہے کہ نہیں

مجھ سے دربانِ ادب نے یہ کہا چپ کے سے
روشنائی میں بھی چاندی کا چلن ہے کہ نہیں

وسعتیں جتنی ہیں سینے میں اٹھا کر رکھ لیں
پھر یہ سوچیں کہ کہیں دل میں چبھن ہے کہ نہیں

ان سلا سل سے کبھی بوئے وفا تو آئے
زندگی یوں بھی سلا خوں کا چمن ہے کہ نہیں

جانے کس نے اسے یہ بات بتا دی ہو گی
دل سیہ ہے تو رہے رُخ پہ پھبن ہے کہ نہیں

کوئی آئے مرا سر کاٹ کے دے دے مجھ کو
اور یہ پوچھے تری پوشاک میں تن ہے کہ نہیں

ہم تو اقبال متین آپ سے اتنا سیکھیں
لفظ چن لیں تو یہ سوچیں بھی سخن ہے کہ نہیں
 

الف عین

لائبریرین
تو دکھائے جو سماں دیکھتا جاؤں میں بھی
دلِ آشفتہ کے اسرار نہ پاؤں میں بھی

پھر مجھے صورتِ فسوں سازِ کا شعلہ دے جا
شہر غم، پھر کوئی قندیل جلاؤں میں بھی

گریۂ شب کو ستاروں کی نمی کیا دے گی
ابر چھٹ جائے تو دل میں اتر آؤں میں بھی

وہ جو سیلاب تھا آنکھوں میں اتر کر ہی رہا
بند ٹوٹے تو ترا شہر بہاؤں میں بھی

تجھ کو دیرینہ تعلق تھا میرے رونے سے
تو بھی رو دے کہ تری نیند چراؤں میں بھی

سب کے سب اپنی انا ساتھ لیے بیٹھے ہیں
ان کے کیا نام ہیں کچھ پوچھ تو آؤں میں بھی

کوئی آواز تو اس کوچۂ دلدار سے آئے
کس کی آواز میں آواز ملاؤں میں بھی

تو ملے بھی تو بہ انداز دگر تجھ سے ملوں
تو جو کھو جائے تو پھر خود کو نہ پاؤں میں بھی

مجھ سے اقبال متین روز ہی ملتا ہے مگر
اس کو ملنے کے کچھ آداب سکھاؤں میں بھی
 

الف عین

لائبریرین
خوابوں میں بھی ساتھ رہیں ، جو آوازیں
نیند سے اٹھا کر ان کو ہی دو آوازیں

کل کی نہ سو چو ، کل کس کا ہے ، آج کے دن
مٹی نم ہے ، مٹی میں بو ، آوازیں

چیخ کہیں ہو اتنا چپ چپ مت سن لو
سناٹوں میں ڈھونڈھنے نکلو آوازیں

کیسی محبت کس کی تمنا کس کا دل
سایہ سایہ ہر سائے کو آوازیں

اور امڈتے بادل رکھ لو سینے میں
بے برسے اشکوں میں بھگو لو، آوازیں

چلتے ہیں اقبال متین ، اب رات ڈھلی
رستوں میں دیں ، گھر والوں کو آوازیں
 

الف عین

لائبریرین
عید کا چاند بلندی سے دکھا تا میں بھی
چھت کہاں ہے کہ کوئی پنچھی اُڑاتا میں بھی

میں کہاں نکلوں کہ سینے میں دبی آہ ہوں میں
میں ہوا ہوں تو ترے در ہی پہ آتا میں بھی

راستے جتنے بھی تھے ختم ہوئے سب ورنہ
مجھ کو جینے کی کوئی راہ سمجھاتا میں بھی

مجھ کو جنت کی تمنا ہے عقبیٰ کی ہوس
تو بلاتا بھی تو کیا دوڑ کے آتا میں بھی

میرے رعشے نے مجھے پینے کے آداب دئے
ورنہ لبریز کئی جام اُٹھاتا میں بھی

اب مجھے اپنے دریچے کی ہواؤں میں نہ ڈھونڈ
کیا گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آتا میں بھی

آؤ اقبال متین اس کو اجڑتا دیکھیں
وہ جو آ جاتا تو کیا پھول کھلاتا میں بھی
 

الف عین

لائبریرین
گھر سے باہر نکلے ہو تو گھر تک واپس آؤ بھی
جیون ہی جب گھات میں ہو تو کہیں کہیں رک جاؤ بھی

اس کا کیا ہے وہ تو سب کا تم ہی اکیلے پھرے ہو
اب تم اپنے اکیلے پن کو اپنا میت بناؤ بھی

آنکھیں تم تھیں اور وہ اکثر نام تمہارا لیتا تھا
جانے والا اب نہ رکے گا ، سوچو بھی آ جاؤ بھی

تم کو کیسے بھلا سکتا ہے ، میخانہ تو تم سے تھا
دیکھو جام و سبو چپ چپ ہیں آؤ ہاتھ بڑھاؤ بھی

کل ہی تو اقبال متین جس نیم کے نیچے بیٹھے تھا
آج اس کا سایہ بھی نہیں ہے ، کوئی پیڑ اگاؤ بھی
 

الف عین

لائبریرین
خیالِ و خواب بھی وہ ، حرز رائگاں بھی وہ
صریرِ خامۂ انگشتِ خوں چکاں بھی وہ

جو کچھ کہوں تو سرشکِ سرِ مژہ بھی وہی
میں چپ رہوں تو مرے درد کی زباں بھی وہ

نہ راستے ہیں ، نہ منزل ہے اور نہ زادِ سفر
ہے سنگ میل بھی وہ، گردِ کارواں بھی وہ

مرا قیام مجھے زندگی سے کاٹ نہ لے
کہ اب یقین بھی میرا وہی ، گماں بھی وہ

نقیب طالعِ ہنگامِ دشمناں بھی وہ
ستم طرازیِ دشنامِ دوستاں بھی وہ

وہی ہے تیرگی دشتِ جان و قلبِ حزیں
ستارۂ شب ہجراں کی کہکشاں بھی وہ

متینؔ اس کے لیے دام آگہی نہ بچھا
وہ تیری جان بھی ہے جان کا زیاں بھی وہ
 

الف عین

لائبریرین
تو ہے دیا تو روشنی تیری ، راہ دکھانے والا میں
تو ندیا کا بہتا پانی ، ناؤ ترانے والا میں

آتی جاتی پت جھڑ رت کو سبز بنانے والا تو
ذہن و دل کے ویرانوں میں پھول کھلانے والا میں

آنسو بن کر آنکھوں سے پلکوں پر آنے والا تو
تجھ کو اپنے دل میں رکھ کر سب سے چھپانے والا میں

منظر منظر تیرا پیکر ، نفس نفس تیری ہی شبیہہ
تیرے بدن کو اپنے بدن کا راز بنانے والا میں

بر ساتوں میں آگ لگا کر مجھ کو جلانے والا تو
بھیگ بھیگ کر اپنے غم کی راکھ بجھانے والا میں

رات رات بھر مجھ میں چھپ کر باتیں کرنے والا تو
تجھ کو اپنے باہر لا کر پیار جتانے والا میں

عرضِ وفا پر چھپ چھپ ہنسنے والا تو
تیری ہنسی کو سہن سہن کر اشک بہانے والا میں
 

الف عین

لائبریرین
کتابیں میری ساری جل رہی تھیں خواب کیسا تھا
سوا نیزے پہ سورج تھا تو پھر مہتاب کیسا تھا

سوادِ شب ردائے تیرگی کی وسعتیں اوڑھے
بھٹکتا پھر رہا تھا کرمکِ شب تاب کیسا تھا

شناور میں بھی تھا ، بھوکے نہنگوں کے سمندر میں
مرے اطراف لیکن خون کا گرداب کیسا تھا

میں اپنی زندگی کو لمحہ لمحہ کھوج بھی لیتا
مگر وہ قطرہ قطرہ پیاس کا زہراب کیسا تھا

مجھے نیندوں کے لٹتے قافلوں کی لاج رکھنی تھی
وگرنہ تجھ کو رونے دیدۂ خوناب کیسا تھا

وہ نس نس میں سما کر بھی گریزاں مجھ سے کیونکر تھا
وہ میرا ہو گیا تھا اور پھر نا یاب کیسا تھا

متین اقبال اتنی بات تم نے بھی نہیں سمجھی
محبت کا وہ دریا اس قدر پایاب کیسا تھا
 

الف عین

لائبریرین
شعرو سخن کی آن کہیں میں ، افسانے کی جان کہیں
لیکن میرے گھر میں میری ’ ہو بھی تو پہچان کہیں

کیسے کیسے لوگوں کی میں صورت ٹک ٹک تکتا ہوں
ان کی انا کو اپنے عجز کا سمجھوں بھی بہتان کہیں

اس جا میرا کچّا گھر تھا، آج محل یہ کس کا ہے
میری دھُن میں بسے ہوئے ہیں کمرے اور دالان کہیں

میرے عہد کا کیا پوچھے ہو، ذہن میں کچھ ہے دل میں کچھ
میّا جی کی کوکھ کہیں ہے ، پتا کہیں ، سنتان کہیں

سارے رشتے سارے ناتے سب ہیں آن واحد کے
دوست نما دشمن سے ہزیمت اور مرا تاوان کہیں

کتنی اونچی شاخوں پر میں چڑھ چڑھ کر حیران ہوا
بچپن بیت گیا سنتا ہوں اب ڈھونڈھوں اوسان کہیں

تم جس شخص کا رستہ تکتے بیٹھے ہو اقبال متین
اب اس کی کیا بات کریں ہم وہ تو ہے مہمان کہیں
 
Top