صلیب بر دوش - اقبال متین

الف عین

لائبریرین
خود کو بھول بیٹھے ہم، تم ادھر نہیں آئے
اب خودی کو پوجیں گے تم اگر نہیں آئے
یہ تو سچ ہے ہم اپنے ساتھ بھی نہیں اُٹھے
پھر بھی تیری محفل سے بے خبر نہیں آئے
کچھ عدم کی را ہوں میں کھو کے ر ہ گئے شاید
تجھ کو پوچھنے والے پھر ادھر نہیں آئے
اب تو دل کی ویرانی یوں بسی ہے سینے میں
جیسے رات بھی بیتے اور سحر نہیں آئے
راستہ تو سیدھا تھا جانے کیا ہوا ہم کو
تیرے در سے اٹھ کر ہم اپنے گھر نہیں آئے
رات خواب میں ہم نے اپنی موت دیکھی تھی
اتنے رونے والوں میں تم نظر نہیں آئے
ہم نے ان کو دیکھا ہے نام تھا متین ان کا
وہ اِدھر سے گزرے تھے لوٹ کر نہیں آئے
 

الف عین

لائبریرین
تمھیں سے درد چھپانے کی اپنی خو کر لیں
نظر ملاؤ کہ ہم یہ بھی آرزو کر لیں

کچھ اس قدر ہے تری یاد کی مہک دل میں
کہ دل کے زخم چمن بندیِ لہو کر لیں

اِدھر سے گزرے تو جی بھر کے دیکھ لیں اس کو
جو وہ رُکے تو گھڑی بھر کو گفتگو کر لیں

مری نگاہ کو آنکھوں میں اپنی رکھ کر وہ
جو بن پڑے تو پھر آئینہ روبرو کر لیں

یہ راہ و رسمِ وفا بھی ہمیں عزیز ہوئی
کہ تجھ کو دوست کہیں جان کو عدو کر لیں
 

الف عین

لائبریرین
صلیبِ دوش پہ ، زخموں سے چور چور بھی ہیں
ہمارے سینے میں جھانکو کہ اور طور بھی ہیں

خدا نہ دے کسی دشمن کو ایسی محرومی
کہ تیرے پاس بھی ہیں اور تجھ سے دور بھی ہیں

اب اس کو کیا کریں ، کیسے کہیں ، کسے سمجھائیں
وہ جان و دل سہی ، لیکن وہی نفور بھی ہیں

ہمارا کیا ہے ، ہماری وفا کا ذکر ہی کیا
اسی فسانے میں لیکن کہیں حضور بھی ہیں

زمیں پہ بھیج کے وہ ہم کو بھولنے والے
بجھے بجھے سے یہ چہرے ترا ظہور بھی ہیں
 

الف عین

لائبریرین
امڈے بادل کی طرح آنکھوں سے برسے یارو
پھر بھی ہم پیار کی اک بوند کو ترسے یارو

ہم اٹھائے بھی گئے ، ہم کو نکالا بھی گیا
کوڑے کرکٹ کی طرح اپنے ہی گھر سے یارو

ڈوب جانا ہی محبت کا مقدر ہو گا
اب تو ہر موجِ بلا گزرے ہے سر سے یارو

ہم لٹے بھی تو سرِ راہِ وفا ایسے لٹے
کوئی آواز نہ آئی کسی در سے یارو

اُف رے پندار کہ جس وقت بھی سر اپنا جھکا
لوٹ آئی ہے دعا،بابِ اثر سے یارو

ڈوبتی رات ہے ، رستے کا دیا ہے ، میں ہوں
کوئی گزرا تھا سرِ شام ادھر سے یارو
 

الف عین

لائبریرین
جو جیتے رہتے تو عالم کے روبرو ہوتے
زبان خلق پہ ہم حرف آرزو ہوتے
ہمیں نے سی لیے لب اپنے ورنہ اے صیاد
چمن میں پھولوں کے دل بھی لہو لہو ہوتے
وہ اک سچائی جسے سو جتن سے پالا تھا
خود اس کو قتل نہ کرتے تو کو بکو ہوتے
وفا کی بات جو چھڑتی تو دیکھتے تم بھی
ہمیں تھے بزم میں جو وجہِ گفتگو ہوتے
ہم اے نگار جہاں اب تو تجھ سے بھر پائے
تجھے عزیز جو ہوتے تو شعلہ خو ہوتے
ہوئے جو سنگِ در میکدہ تو کیا حاصل
کسی کے ہاتھ سے ٹوٹا ہوا سُبو ہوتے
وفا کڑی تھی مگر شرط زندگی ٹھہری
جو مر بھی سکتے تو مر کر ہی سرخ رو ہوتے
 

الف عین

لائبریرین
میں تو سب جان کے بھی وقت سے بیکل گزرا
آج آیا بھی نہیں تھا کہ ترا کل گزرا
بوند بن کر مری پلکوں سے نہ ٹوٹا تارا
ابر بن کر ترے مہتاب سے آنچل گزرا
وقت کے ہاتھوں ہوا میں بھی تو ریزہ ریزہ
کون اس دور سے اے جان مکمل گزرا
اتنی فرصت ہی ملی تھی کہ میں خود کو رولوں
حیف ایسے میں تری آنکھوں سے کاجل گزرا
یہ بھی انداز ہوا یاد کا تیری آخر
دل میں برچھی کی انی رکھ کے کوئی پل گزرا
جانے کیوں آنکھ مری نم نہ ہوئی اب کے برس
دل کے ویرانے سے بے بر سے ہی بادل گزرا
میں ہی ٹھہرا نہ مرے شام و سحر ہی ٹھہرے
پر وہ لمحہ جو ٹھہر کر بھی مسلسل گزرا
 

الف عین

لائبریرین
دل میں کانٹا سا اک چبھو بیٹھے
کیا بتائیں کہ کس کے ہو بیٹھے
میز پر خط سجا لیے اس کے
جن کی تحریر اشک دھو بیٹھے
ہم سے پوچھے ہے ساری دنیا کچھ
ہم خموشی میں نطق بو بیٹھے
ان کی چاہت کے فاصلے جو بڑھے
وہ رگِ جاں کے پاس ہو بیٹھے
مجھ پہ جاں دینے والے میرے دوست
مجھ کو پایا تو مجھ کو کھو بیٹھے
اس کو چاہا توہم ملے نہ ہمیں
اس کو بھولے تو اس کے ہو بیٹھے
آپ کب تک چلیں گے ساتھ اپنے
ہم متینؔ آپ کو تو رو بیٹھے
 

الف عین

لائبریرین
رات تیری یادوں نے اس قدر ستایا ہے
جتنا مسکرائے ہیں اتنا جی بھر آیا ہے

فصلِ گل جو آئی ہے ، شامِ غم بھی چمکے گی
ہم نے اشک بوئے تھے ، ہم نے دل جلایا ہے

آؤ دام پوچھیں گے ، کوئی شخص سنتے ہیں
اپنی عمر کا حاصل بیچنے کو لایا ہے

کتنی بار چاہا ہے آج جان ہی لیں گے
زندگی یہی ہے یا زندگی کا سایا ہے

ہم وفا کے مارے تھے بار ہا لرز اٹھے
جب چھوا کسی گل کو تو بھی ساتھ آیا ہے



آؤ تم کو سمجھائیں یوں نہیں لکھا کرتے
نامہ برنے خط دے کر اشکِ غم ہی پایا ہے

کل کسی نے رستے میں ہم سے خیریت پوچھی
تو کہاں تھا ایسے میں تو جو یاد آیا ہے

رات گوشۂ دل میں اک کرن جو در آئی
ہم تو یہ سمجھ بیٹھے چاند بھی ہمارا ہے

تم تو میرے ہو جاتے ، سب سے تم کو کیا لینا
سب کا درد میرا ہے ، میرا غم تمھارا ہے

آؤ ان کتابوں کی گرد ہی جھٹک ڈالیں
علم و فن کی ذلت میں یہ بھی اک سہارا ہے
 

الف عین

لائبریرین
جو تم پہ حرف بھی آئے تو اپنا سر دیں گے
تمھارے لوگ ہمیں قتل بھی تو کر دیں گے
ترے خطوط کی دولت تو سونپ دی تجھ کو
یہ جی میں ہے کہ تجھے عظمتِ ہنر دیں گے
پڑھی ہے اس نے کہانی مری ، رسالے میں
اب اس پہ لوگ رسالے بھی بند کر دیں گے
اسے پکارو ، کہیں دل میں چھپ گیا ہے وہ
یہ گھر اسی کا ہے ، ہم ا سکو سارا گھر دیں گے
دھڑک رہا ہے دل باغباں بھی غنچوں میں
پہ پھول تو تری زلفوں میں بھی شر ر دیں گے
یہی سمجھ کے بڑے مطمئن ہیں دیوانے
قفس کھلا ہے تو صیّاد بال و پر دیں گے
وفا کی راہ میں ، ہم اٹھ گئے ، تو تم ہی کہو!
وہ کون ہوں گے جو ہر سرکو سنگِ در دیں گے
 

الف عین

لائبریرین
مجھے بتاؤ یہ گھپ اندھیرے دلوں سے باہر کہاں چھپیں گے
کہ آج چہرہ تو ہو بہو ہے ، عداوتوں اور دوستی کا
وہ میرے پہلو میں بیٹھ کر بھی نہ جانے کس کے خیال میں تھا
مری وفائیں لرز گئی تھیں یہ حال تھا اس کی بے رخی کا
ذرا کتابوں کی گرد جھاڑو ذرا مری میز صاف کر دو
قلم کو تر سی ہوئی یہ پوریں حساب مانگے ہیں زندگی کا
چلو کہ بازار میں بکے ہے وہ حسنِ جنسِ وفا کہ جس کو
خرید لینا بھی بے بسی کا فروخت کرنا بھی بے بسی کا
مجھے ستاروں میں پھینک ڈالو زمیں چبا کر نہ تھوک ڈالے
کہ میں تو صحرا ہوں تا سمندر سراب ہوں اپنی آگہی کا
ترے خطوں میں پکارتا ہے ترا بدن میرے جسم ہی کو
مگر یہ دل ہے ازل سے تنہا کہ جیسے ماتم ہو زندگی کا
رُکی تھی پل بھر کو عمرِ گزراں مگر صدی جیسے درمیاں تھی
وہ میرا ہو کر بھی اجنبی تھا عجیب عالم تھا بیکسی کا
 

الف عین

لائبریرین
کسی کا غم ہو وہ دل کے قریب آتا ہے
مرے وجود کا احساس تو دلاتا ہے

سنا رہا ہوں کچھ اس طرح سے فسانۂ غم
کہ لفظ لفظ مرے غم کا بوجھ اُٹھاتا ہے

میں آنسوؤں کی یہ چلمن ذرا ہٹاؤں بھی
وہ کوئی شخص ہے آنکھوں سے دل میں آتا ہے

یہ جی میں ہے کہ کہیں راہ میں ہی کھو جاؤں
ترا مکان تو ہر راستے میں آتا ہے

بہت دنوں میں محبت کو یہ ہوا معلوم
وہ جتنا پاس ہو اتنا ہی دور جاتا ہے

ہیں ٹوٹی نیند کی کچھ کرچیاں سی آنکھوں میں
یہ کون ایسے میں دستِ کرم بڑھاتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
کوئی صلیب اُٹھائے ملے ، تو لٹکا دو
مری گلی سے جو گزرو تو میرا گھر ڈھا دو
یہ آنکھیں خشک ہیں ، تم آنسوؤں سے چھلکا دو
بہت اُداس ہے اس زندگی کو بہلا دو
یہ لوگ بھاگتے پھرتے ہیں رات خوابوں میں
ذرا انھیں بھی سنبھالو اے گھر کی بنیادو
میں اپنی جاگتی آنکھوں سے ڈر گیا ہوں بہت
تمھارے پاس جو نیندیں ہیں میری لوٹا دو
یہ سارے پاس کے منظر تو کچھ عجیب سے ہیں
جو ہو سکے تو انھیں دور کر کے دُھندلا دو
وہ ،یوں بھی بارِ سماعت کہاں اُٹھاتا ہے
ذرا سنبھل کے مرے دشتِ دل کی فریادو
برہنہ پا بھی ہوں ، تپتی ہوئی زمین بھی ہے
بہت کڑی ہے ابھی دھوپ کچھ تو سایا دو
یہ کن مزاروں پہ یوں سر جھکائے بیٹھے ہو
متین تم ہو کہاں دفن یہ تو بتلا دو
 

الف عین

لائبریرین
رسم پابندیِ آداب اُٹھا دی جائے
اُس کے در پر جو کھڑے ہیں تو صدا دی جائے

آئینے عکس نہ دکھلاتے تو کچھ بات بھی تھی
اب تو تصویر ہی کمرے سے ہٹا دی جائے

میں اسے درد کی صورت بھی نہ پہچان سکوں
مجھ کو جینے کی کچھ ایسی بھی سزا دی جائے

میں تو ٹوٹی ہوئی اک چیخ کا سناٹا ہوں
میری آواز کہیں ہو تو سنا دی جائے
 

الف عین

لائبریرین
کوئی کوندہ سا لپک کر غم جاں بن تو گیا
رات اُمڈ کر نہ گھٹا چھائی نہ کھل کر برسا

وہ جو خوابوں کے جزیروں سے نکل کر بھاگا
میری آنکھیں ابھی نم تھیں تو پلٹ کر آیا

روح پیاسی تھی بہت خون مگر پی نہ سکی
لو جھلس دے گی مرے جسم کو معلوم نہ تھا

اس پہاڑی پہ بھلا آگ لگا دی کس نے
دیکھتے دیکھتے منظر وہ سبھی راکھ ہوا

نیند ٹوٹی ہے کہیں دور لتا ؔ گاتی ہے
تو کہاں ہے کہ اس آواز سے رشتہ ہے ترا

آنکھیں بھیگی تھیں کہ دروازے پہ آہٹ سی ہوئی
وہ کوئی تھا ہی نہیں صرف ہوا کا جھونکا
 

الف عین

لائبریرین
درد لے جاتا ، زیاں لے جاتا
کون یہ تحفۂ جاں لے جاتا
میں کہ لرزاں تھا جھکی شاخوں میں
مجھ کو جھونکا بھی کہاں لے جاتا
مجھ کو کیوں ڈھانپ دیا، شاید میں
جل نہ سکتا تو دھواں لے جاتا
اتنا ارزاں ہے یہ بازارِ وفا
میں کہاں جنسِ گراں لے جاتا
تیرا کمرہ ہے ، مگر تو ہی نہیں
تو ہی آتا ، یہ سماں لے جاتا
تو مرا دوست ہے اے کاش کہ تو
آہ دے جاتا ، فغاں لے جاتا
اتنا پندار تو ہوتا مجھ میں
تو مکیں تھا ، میں مکاں لے جاتا
میں تو اس کا ہی تھا اقبال ؔمتین
اس کا جی چاہے جہاں لے جاتا
 

الف عین

لائبریرین
ہم سے مل کر، ہم سے ملنا مت بھولو
تم غنچہ ہو ، کھلنا گویا مت بھولو
ساتھ چلو ، لیکن اتنا تو یاد رکھو
سایہ سایہ نہیں ہے رکنا مت بھولو
چہرہ دھولو، بالوں میں کنگھی کر لو
آنسوؤں پی کر شام کو ہنسنا مت بھولو
گہرا پانی ، سرد ہوا اور کالی را
پھر بھی اونچائی سے اتر نا مت بھولو
دن کے سارے ہنگاموں سے بچ نکلو
شام ہمارے دل میں چھپنا مت بھولو
میں اس کا ہوں ، میں نے کب انکار کیا
وہ کس کا؟ اور وہ بھی کتنا مت بھولو
خواب بھی دیکھو ، سوچو اُس کو، رو بھی لو
یاد آئے تو، اس کو اتنا مت بھولو
ہمری اتنی بات سنو ، اقبالؔ متین
ہم کو اپنے دل میں رکھنا مت بھولو
 

الف عین

لائبریرین
کیا حسیں رات بنا دی تو نے
چاندنی مجھ کو پلا دی تو نے
میں نے ہنس ہنس کے چھپائے آنسو
مجھ کو جینے کی دعا دی تو نے
کس سے کہتا کہ میں تیرا ہی تو تھا
کچھ نہ کہنے کی سزا دی تو نے
میں تجھے دیکھ کے رو بھی نہ سکا
لو چراغوں کی بڑھا دی تو نے
کیسا یہ ، ہو، کا سماں ہے سر شام
دل میں کیا راکھ اڑا دی تو نے
مجھ سے جب بارِ امانت نہ اُٹھا
وہ امانت ہی اٹھا دی تو نے
یہ بھی کیا طرزِ وفا ہے کوئی
رات لمبی تھی، گھٹا دی تو نے
شہر سنسان تھا اقبالؔ متین
رات کس کس کو صدا دی تو نے
 

الف عین

لائبریرین
دور تلک بارش کا سماں
بھیگی آنکھیں ، قلب تپاں
پاؤوں میں چاندی کی چین
آنکھوں میں سونے کا سماں
ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈی
گوری کے قدموں کے نشاں
ہونٹوں پر صحرا کی پیاس
آنکھوں میں برسات نہاں
میں بھی اس کا تھا لیکن
اس کے دل میں کوئی کہاں
اُس کی آنکھیں جھیل ہی جھیل
میرے آنسو آبِ رواں
تجھ کو پا لینے کی ہوس
تجھ کو کھونے کے امکاں
سنتے ہو اقبالؔ متین
وہ تو نہیں ، تم سا ناداں
 

الف عین

لائبریرین
یہ کھڑکیاں تھیں ، یہ دیوار تھی، یہاں در تھا
اسی زمین پہ یارو کبھی میرا گھر تھا
درون دل کوئی ویرانہ بس گیا ہو گا
وگر نہ باغ میں ایسا نہ کوئی منظر تھا
میں خود کو سنگِ درِ دوست بھی سمجھ بیٹھا
وگرنہ میں تو مہ و مہر سے بھی بر تر تھا
یہ لوگ مجھ کو ہٹا کر ہوئے ہیں خوش کیا کیا
کہ جیسے میں ہی ترے راستے کا پتھر تھا
غموں کے پاس سوا درد کے نہ تھا کچھ بھی
امید تھی کہ تہی دست میں ، سمندر تھا
متین وہ بھی اسی راستے سے گزرا ہے
متین میں بھی اسی راستے کی ٹھوکر تھا
 
Top