خود کو بھول بیٹھے ہم، تم ادھر نہیں آئے
اب خودی کو پوجیں گے تم اگر نہیں آئے
یہ تو سچ ہے ہم اپنے ساتھ بھی نہیں اُٹھے
پھر بھی تیری محفل سے بے خبر نہیں آئے
کچھ عدم کی را ہوں میں کھو کے ر ہ گئے شاید
تجھ کو پوچھنے والے پھر ادھر نہیں آئے
اب تو دل کی ویرانی یوں بسی ہے سینے میں
جیسے رات بھی بیتے اور سحر نہیں آئے
راستہ تو سیدھا تھا جانے کیا ہوا ہم کو
تیرے در سے اٹھ کر ہم اپنے گھر نہیں آئے
رات خواب میں ہم نے اپنی موت دیکھی تھی
اتنے رونے والوں میں تم نظر نہیں آئے
ہم نے ان کو دیکھا ہے نام تھا متین ان کا
وہ اِدھر سے گزرے تھے لوٹ کر نہیں آئے