صلیب بر دوش - اقبال متین

الف عین

لائبریرین
شعرو سخن کی آن کہیں میں ، افسانے کی جان کہیں
لیکن میرے گھر میں میری ’ ہو بھی تو پہچان کہیں

کیسے کیسے لوگوں کی میں صورت ٹک ٹک تکتا ہوں
ان کی انا کو اپنے عجز کا سمجھوں بھی بہتان کہیں

اس جا میرا کچّا گھر تھا، آج محل یہ کس کا ہے
میری دھُن میں بسے ہوئے ہیں کمرے اور دالان کہیں

میرے عہد کا کیا پوچھے ہو، ذہن میں کچھ ہے دل میں کچھ
میّا جی کی کوکھ کہیں ہے ، پتا کہیں ، سنتان کہیں

سارے رشتے سارے ناتے سب ہیں آن واحد کے
دوست نما دشمن سے ہزیمت اور مرا تاوان کہیں

کتنی اونچی شاخوں پر میں چڑھ چڑھ کر حیران ہوا
بچپن بیت گیا سنتا ہوں اب ڈھونڈھوں اوسان کہیں

تم جس شخص کا رستہ تکتے بیٹھے ہو اقبال متین
اب اس کی کیا بات کریں ہم وہ تو ہے مہمان کہیں
 

الف عین

لائبریرین
غرورِ حسن و جفا اس کا سب شُنیدہ تھا
مگر وہ سامنے آیا ، تو آبدیدہ تھا

چٹان کی طرح سنگلاخ تھی زمیں ساری
مگر وہ غنچہ تہہِ سنگ نو دمیدہ تھا

مجھے قبول کہ تھا بے حساب اُس کا کرم
اسے بھی علم کہ دامن مرا دریدہ تھا

غموں کے ساتھ محبت کے کتنے پیماں تھے
غموں کا ساتھ مگر دستِ نا رسیدہ تھا

وہ اعتبارِ ہنر ساتھ کیوں لیے پھرتا
کہ اس کی جھولی میں ہر لفظ نا چشیدہ تھا
 

الف عین

لائبریرین
بستر کی ہر ایک شکن میں تم خوشبو ہو جانا تھا
اب تو پو پھٹنے کو آئی اب تو تم سو جانا تھا

ہم کو اپنا اک اک پل بھی ساتھ نہیں رہنے دینا
مجھ سے میرا سب کچھ لے کر تم مجھ میں کھو جانا تھا

کیسی باتیں سوچ رہی ہو اب وہ زمانے بیت گئے
جاتے جاتے اپنے غم کا چہرہ تو دھو جانا تھا

وہ جیسا بھی تھا میرا تھا میرے گھر آ جاتا تھا
اپنی انا کے گھاؤ چھپائے مجھ کو اس کا ہو جانا تھا

میرے پاس سے اٹھنے والا پھر میرے پاس آ بیٹھا
اس کی وحشت بوجھ تھی دل پر لیکن مجھ کو جانا تھا

درو دریچے کھلے پڑے ہیں دیواروں پر کائی جمی ہے
تم کو یہ گھر یاد تو ہو گا آنا تھا رو جانا تھا

وہ دیکھو اقبال تمھارا پیڑ کے نیچے بیٹھا ہے
ننگا بُچا پیڑ ہے یارو بیچ کوئی بو جانا تھا
 

الف عین

لائبریرین
اب دل دکھا کے کارِ خرد ہو سو کچھ کریں
آنکھوں میں تیرتے ہوئے اشکوں کو کچھ کریں

وہ پاس تھا تو ہم کو دکھائی نہ کچھ دیا
دیواروں کو جو پاس ہی رکھ لیں تو کچھ کریں

دامن کے ساتھ جیب کی دھجی بھی ٹانک دیں
پھر اس کے بعد کارِ رفو جو ہو کچھ کریں

ہم سے حسد میں اس نے سکوں اپنا کھو لیا
اب اس کے پاس کیا ہے مداوا جو کچھ کریں

یہ رت جگے بھی اپنی ہی آنکھوں کو سونپ دو
یہ تہمتیں بھی اپنے ہی سرلے لو ، کچھ کریں

آنکھوں میں دل میں ذہن میں ہر ایک سانس میں
وہ جس طرح بھی رہتا ہے رہنے دو کچھ کریں

قاتل وہی تھا جس نے سزا دی مجھے متین
اب خون بہا بھی مجھ سے ہی لے لو تو کچھ کریں
 

الف عین

لائبریرین
اس کا کیا ہے وہ تو ، ہنسی کے کتنے روپ بنا لے گا
تم کو رلانا جب چاہے گا ہنسی ہنسی میں رلا لے گا

اب یہ میرے بس میں نہیں ہے ملنا اور بچھڑ جانا
دیوانہ دل جب چاہے گا تیری قربت پالے گا

دیکھو چڑھتی دھوپ کا سورج کیسے ڈھلے گا تیزی سے
اب تو میرا سایہ مجھ کو رستے ہی میں جالے گا

وہ کوّا دیوار سے اُڑ کر آنگن میں جو آ بیٹھا
دیدے گول گھما لے گا تو چونچ بڑھا کر کیا لے گا

گوری نے چڑیا کو اُڑا کر خالی ہانڈی اوندھا دی
باپ نے سیکل باہر رکھ لی اب منا بستہ لے گا

میں بھی اس کے پاس نہیں ہوں وہ بھی مجھ سے دور نہیں
اب ایسے میں کیا جانے وہ کیا دے گا کیا کیا لے گا

دیواروں پر کائی جمی ہے سیلن جیسی سیلن ہے
سو کھے کنویں مںا ڈول پڑا ہے دل کس سے بدلا لے گا

یہ جو اندر جبڑے پھاڑے ، دانت نسوڑے بیٹھا ہے
اب یہ بھو کا شیر مجھے تو سوتے میں ہی کھا لے گا

تم کو تو اقبال متین کتنا ہم نے سمجھایا
گھر کی چوکھٹ بھولنے والا کب دروازہ پالے گا
 

الف عین

لائبریرین
لوگ ہمیں تکتے ہی رہتے ہم کچھ ایسا کر جاتے
تہمت اپنے سرلے لیتے اور خوشی سے مر جاتے

درو دریچے بند ہوئے سب سڑکیں اب سنسان ہوئیں
کوئی یاد دلا دیتا توہم بھی اپنے گھر جاتے

ساقی نے اتنا تو کیا ہے گرد نہ جمنے دی ورنہ
مٹی کے یہ خالی پیالے مٹی ہی سے بھر جاتے

اس کے ہو کر رہنا ہے تو اس پر سب قربان کریں
دے دیتے ہونٹوں کا تبسم لے کر چشم تر جاتے

پھر نہ کہیں پر آگ بھڑکتی پھر نہ کہیں سے شور اٹھتا
ان جسموں کے سارے ٹکڑے سب کو اک جاں کر جاتے

سب اپنے ہیں ہم بھی سب کے پر نشّو کی بات کہاں
اس کے دل میں رہتے تھے ہم اس کے بعد کدھر جاتے

عمر کی اس منزل میں کب تک بھٹکو گے اقبال متین
آج کی شب تو یار کم از کم تم اپنے ہی گھر جاتے
 

الف عین

لائبریرین
شاطر تھا وہ شومی مجلس بہت بڑا بیوپاری تھا
میں نے شوشہ چھوڑ دیا تھا وہ بھی کب انکاری تھا

ہائے سیاست کے سب چہرے دست و گریباں ہوتے تھے
کوئی کسی کا باپ نہ بیٹا جو کچھ تھا سرکاری تھا

مانگے کی موٹر سے منہ میں پائپ دبا کر اترا تھا
اندر جتنا خالی تھا وہ اوپر اتنا بھاری تھا

جس کی بیٹی قتل ہوئی تھی بد کاروں کے ہاتھوں سے
ہوم منسٹر کا چاچا تھا گاؤں کا وہ پٹواری تھا

شاردا مجھ سے ملنے آئی ، میں نے کیڈبری دی اسے
شاردا لے کر بھاگ گئی تھی، غصے میں گردھاری تھا

دیکھو بھی اقبال متین کہ ہر شئے عمر کے ساتھ بھلی
تم مسجد کی چوکھٹ پر تھے ، تم پر نشّہ طاری تھا
 

الف عین

لائبریرین
وہ مجھ کو کھو کے زمانے میں خود ہی رسوا تھا
وہ شخص اپنی ہی نفرت میں آپ تنہا تھا

میں کس کے آگے محبت کا ہاتھ پھیلاتا
مری ہتھیلی میں میرا نصیب اس کا تھا

جہاں پرندوں نے پر اپنے نوچ ڈالے تھے
وہاں کچھ اور نہ تھا آندھیوں کا دھوکا تھا

وہ کون ہاتھ میں پتھر اُٹھائے بیٹھا ہے
اسے بتاؤ کہ کل میں یہاں سے گزرا تھا

وہ ایک کشتی تو ساحل پہ آ کے ٹھری تھی
مگر ہوا کا وہ جھونکا ادھر نہ آیا تھا

ٹھہر گیا تھا کسی جھیل کی طرح تو بھی
میں غم کی آخری سرحد پہ ایک دریا تھا

تجھے خیال تو ہوتا ترا متین اقبال
ترا بدن تری پوشاک تیرا سایا تھا
 

الف عین

لائبریرین
تو میرے درد کو دنیا نئی نئی دینا
مرے خدا مجھے کچھ اور آگہی دینا

جو حسرتیں ہی مری زندگی کا حاصل ہیں
تو حسرتوں کے اندھیروں کو زندگی دینا

جو تو نے اپنے کرم سے دیا ہے اپنوں کو
مری مژہ کو ان اشکوں کی بھی نمی دینا

یہ غم کدہ تو سنورتا رہا ہے برسوں سے
اسے جو راس نہ آئے وہی خوشی دینا

میں تجھ سے کچھ بھی نہیں مانگتا مرے مالک
مرے قلم کو مرے خوں کی چاشنی دینا

جہاں سے دل کو بچا کر میں تجھ تلک لاؤں
وہیں پہ سینے میں نیزے کی اک انی دینا

متین تیرا نہیں ہے تو اور کس کا ہے
بہشت دینا تو دوزخ کی آگ بھی دینا
 

الف عین

لائبریرین
آدمی ہوتا ہوا بھی کوئی اوتار لگے
وہ گزر جائے جہاں سے وہیں بازار لگے

شب کے سناٹے میں پر تول رہی تھی دنیا
پو پھٹے ایک کرن دوشِ زمیں بار لگے

کوئی دیوارِ سرِ راہ رکاوٹ بن جائے
کوئی رستہ سر منزل مجھے دیوار لگے

ا سکے کوچے میں مری شانِ انا بھی دیکھو
کتنے ارمانوں کے جمگھٹ ہیں سرِ دار لگے

اس کے اقرار میں انکار کا پہلو نکلے
اس کا انکار بھی اک طرح سے اقرار لگے

ہائے اس شخص کا اندازِ کرم بھی دیکھو
میرے پاس آئے تو خود اپنے سے بیزار لگے

جھک کے ملتے رہے ہم اہلِ زمانہ سے مگر
دو قدم پیچھے بھی رہتے ہوئے سردار لگے

وہ جو اک شخص نے چاہا مجھے اقبال متین
اس کے گھر جاؤں تو وہ در پئے آزار لگے
 

الف عین

لائبریرین
کبھی بادل کبھی اڑتے ہوئے آنچل مانگے
دل عجب شئے ہے کہ اشکوں میں بھی کاجل مانگے

تو اگر سامنے آ جائے تو نظریں جھک جائیں
تو نہیں ہو تو یہ دل تجھ کو مسلسل مانگے

بھری برسات میں صحرا کا بگولا ہوں میں
خشک صحرا میں محبت میری جل تھل مانگے

تو اگر ساتھ ہو میں ڈھونڈنے نکلوں خود کو
تو نہیں ہو تو مرا دل تجھے پل پل مانگے

دار پر چڑھ کے سچائی پہ لرزتا ہوا دل
کیا قیامت ہے کہ ہر جھوٹ پہ مقتل مانگے

سادگی اس کی کبھی نظروں میں کھب جائے متین
اس کا پیراہنِ رنگیں کبھی جھل جھل مانگے
 

الف عین

لائبریرین
تم کہاں جا کے مری زحمتِ جاں کو سمجھو
مجھ میں بس جاؤ، مرے دردِ نہاں کو سمجھو

ایسی افتاد تھی لب سی لیے ہم نے لیکن
ہم پہ جو بیت گئی اس کی زباں کو سمجھو

ہم کو خوش آیا ہے یوں جاں کا زیاں اب کے برس
چپ رہو تم بھی اگر جاں کے زیاں کو سمجھو

یہ بھی سچ ہے کہ بتوں میں بھی دھڑکتے دل ہیں
تم حرم میں بھی کبھی حسنِ بتاں کو سمجھو

شکر کرنا ہے تو پھر پھوٹ کے رولو اک شب
خشک آنکھوں کی مگر طرزِ فغاں کو سمجھو

مجھ سے کل رات کوئی نیند میں کہتا تھا متین
خواب دیکھو نہ کبھی اس کے زیاں کو سمجھو
 

الف عین

لائبریرین
اب آنسوؤں کا نہ پلکوں سے واسطہ رکھنا
مرے خطوط کے پرزے بھی اب اٹھا رکھنا

میں آ سکوں کہ نہیں آ سکوں خدا جانے
تم اپنے گھر کا دریچہ مگر کھلا رکھنا

تمہیں امید ہے جب شب کی شب وہ آئے گا
تو پھر ہوا میں بھی دہلیز پر دیا رکھنا

وہ ایک شخص جو ہر حسن میں نظر آئے
اس ایک شخص کو دل میں بہت چھپا رکھنا

میں تیرے رستے کی مٹی ہوں بچھ کے بکھروں گا
تو خاکِ راہ کو پلکوں پہ بھی سجا رکھنا

چھپا کے اپنے کو میرے سخن کے پردے میں
گلا رندھے بھی تو خود کو ضرور لار کھنا

ملے کہیں جو وہ آشفتہ سر متین اقبال
تو اس کو روکنا ، پچکارنا بٹھا رکھنا
 

الف عین

لائبریرین
ہم برے ہیں بھی تو ہر دل میں اتر جاتے ہیں
دشمنوں کو بھی دعا دے کے گزر جاتے ہیں

سب ہمارے ہیں ہمیں بھی کوئی اپنا سمجھے
کہہ نہیں سکتے مگر سوچ کے ڈر جاتے ہیں

اور کیا دو گے چلو زخم ہی سی لیں مل کر
آج کل اچھے بھلے لوگ بھی مر جاتے ہیں

اپنی چوکھٹ پہ ٹھٹک جاتے ہیں دستک کی طرح
اپنے آنگن میں بھی مانندِ سحر جاتے ہیں

جب کبھی وہ نہیں دیتا ہے ہمیں اذنِ سفر
لے کے ہم کاسۂ اوصافِ ہنر جاتے ہیں

دیکھنے والے تجھے دیکھ کے جی لیتے ہیں
چاہنے والے تجھے دیکھ کے مر جاتے ہیں

ہم کو اقبال متین اتنا بتاتے جانا
کب تری آنکھوں سے اشکوں کے شر ر جاتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
کچھ نظر اور جھکا کر ملنا
مجھ کو پلکوں میں چھپا کر ملنا

شہر دل شہر خموشاں تو نہیں
پھر بھی تم پاؤں دبا کر ملنا

پیر اشکوں سے دھلا دوں گا میں
تم مرے گھر کبھی آ کر ملنا

نیند آنکھوں میں بھلی لگتی ہے
مجھ کو نیندوں میں بسا کر ملنا

مجھ کو آواز نہ دینا ہر گز
میری تنہائی پہ چھا کر ملنا

وہ جو چپ چاپ سا بیٹھا ہے وہاں
اس کی آنکھوں میں سما کر ملنا

ہاں وہی شخص ہے اقبال متین
آئینہ اس کو دکھا کر ملنا
 

الف عین

لائبریرین
ہوائیں تیز ہیں بادل نہ جانے کس جگہ برسے
بغیچہ میرا شاید آج بھی اک بوند کو ترسے

بھری بستی نے دیکھا ہے وہ آیا تو ادھر ہی تھا
مگر کچھ لوگ اس کو پوچھتے پھرتے تھے کس ڈر سے

وہ لڑکی چھپ کے ، آنچل سر پہ اوڑھے بولتی تھی کچھ
چھپا ئی عمر بھی تیری کہو میرے ستم گر سے

بھرم رکھوں میں اس کا بھی وہ جانِ شعر و نغمہ ہے
وہ سو پردوں سے نکلا ہے مجھے لے کر مرے گھر سے

وہ جب چاہے مرا سارا سراپا اوڑھ لیتا ہے
وہ جب چاہے کرن کی طرح اٹھ جاتا ہے بستر سے

کھڑا تھا میں جہاں ثابت قدم ، اس کی گلی تھی وہ
لہو بہتا تھا ٹخنے سے ،لگی تھی چوٹ پتھر سے

متین اقبال اشکوں کی زباں اس کو بھی سمجھا دیں
وہ اکثر ہنس کے ملتا ہے ہمارے دیدۂ تر سے
 

الف عین

لائبریرین
اپنے آنگن میں اپنی بچی کو سمیٹے بیٹھی ہے
اب میں تیرا کیا ہو تا ہوں تو میری کیا ہوتی ہے

کیسی سہانی چھب ہے جاناں پیارا مکھڑا شیشے میں
مجھ کو چھپتا دیکھ کے تو بھی حیرت ہے ہنس لیتی ہے

اک دن اس نے ہاتھ پہ میرے ہاتھ رکھا اور رونے لگی
میں تو مرد جہاں دیدہ ہوں ، وہ بھی کیسی لڑکی ہے

اس ندیا کے سوکھے تٹ سے اس کا بھلا کیا رشتہ ہے
اس منڈوے کی بیل نہیں وہ پھر بھی چنبیلی کھلتی ہے

میں نے کب کا اس کی گلی میں آنا جانا چھوڑ دیا
دل میں چھپ کر یاد تو اس کی میرے غم سے ملتی ہے

وہ دیکھو وہ آنے والی کوئی ہو اقبال متین
میں جانوں وہ تو نہیں لیکن کچھ تو تیری جیسی ہے
 

الف عین

لائبریرین
بونے اپنا رستہ ناپیں کندھوں پر بستر رکھ کر
رات ڈھلے وہ سو جائیں گے ، پیٹ میں اپنے سر رکھ کر

ساتھ اگر رہنا ہے تم کو اتنی بات سمجھ رکھو
روزن روزن چہرے ہیں یاں ، پچھتا ؤ گے گھر رکھ کر

تجھ سے روٹھ کے جانے والے جان ہی اپنی ہار گئے
میں بھی رستہ دیکھ رہا ہوں رستے میں پتھر رکھ کر

ندی کنارے پر بکھرے ہیں پھر بھی شکاری تاک میں ہیں
ایک پرندہ سوچ میں ہے کچھ ، چونچ میں اپنی پر رکھ کر

اب کے برس برسات کا پانی جل تھل کر کے سوکھ گیا
خون کے دھبے دھو لیتے تم دامن اپنا تر رکھ کر

اس کی گلی کا چپہ چپہ چاپ مری پہچانے ہے
میں تو خود کو ڈھونڈ رہا تھا سامنے اس کا در رکھ کر

تم بھی اٹھو اقبال متین اب آئینے سب ٹوٹ گئے
پاگل دل کا کیا کرنا ہے سامنے یہ منظر رکھ کر
 

الف عین

لائبریرین
کس کو آتا دیکھ رہا ہوں ، کون یہاں اب اپنا تھا
یہ رستہ سنسان ہے کب سے میں ہی روز بھٹکتا تھا

آتی جاتی رُت کے سائے اس کو ڈھونڈنے نکلے ہیں
وہ خود ہی تو ہر موسم میں موسم بن کر پھرتا تھا

میرا بغیچہ پو پھٹنے پر میرا رستہ تکتا ہے
میں سودائی بادِ صبا کا پتی پتی چنتا تھا

اتنا تم بھی سوچو لوگو وہ کب میرا میت ہوا !
میں ہی اس کی دیواروں سے مٹی بن کر جھڑتا تھا

میں تو یارو قطرہ قطرہ جی لیتا ہوں جھر جھر کر
وہ بھی میرے اندر رہ کر ہریالی پر چلتا تھا

میں تو اتنا جان کے چپ تھا ، میں اس کا رکھوالا ہوں
وہ بھی ایک جھروکا بن کر ہر رہرو کو تکتا تھا

جھوٹ ہے یہ اقبال متین اب تم سے اس کو انس نہیں
تم جب رستے میں ملتے تھے ، وہ بھی خود سے ملتا تھا
 

الف عین

لائبریرین
کوئی سنے نہ سنے میں ہی اپنی کر دیکھوں
تری گلی کو چلوں اور تیرا گھر دیکھوں

بہت قریب سے دیکھا تجھے مگر جاناں
اب اپنے جذبِ دروں کو بھی کارگر دیکھوں

شعورِ درد یہی ہے تو زندگی معلوم
دعا کروں بھی تو کس بات میں اثر دیکھوں

میں اپنے زعمِ انا میں بہت بلند اڑا
بلندیوں سے ذرا کھائی میں اتر دیکھوں

صداقتیں تو بہت سی ہیں سب کو دکھلانے
فرازِ دار تک آؤں تو اپنا سر دیکھوں

مہک مہک مجھے زخمِ جگر کی یاد آئے
بغیچہ گھر کا مہکتا ہوا اگر دیکھوں

کنارِ آب پرندوں کے جھنڈ دیکھے ہیں
کنارِ آب ہی بکھرے یہ بال و پر دیکھوں

میں تم کو لے کے کہاں تک چلوں متین اقبال
جو رک سکوں تو میں تم کو بھی اک نظر دیکھوں
 
Top