امیر مینائی شمشیر ہے سناں ہے کسے دوں کسے نہ دوں ۔ امیر مینائی

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

شمشیر ہے سناں ہے کسے دوں کسے نہ دوں
اِک جانِ ناتواں ہے کسے دوں کسے نہ دوں

مہمان اِدھر ہما ہے اُدھر ہے سگِ حبیب
اِک مشتِ استخواں ہے کسے دوں کسے نہ دوں

درباں ہزار اس کے یہاں ایک نقدِ جاں
مال اس قدر کہاں ہے کسے دوں کسے نہ دوں

بلبل کو بھی ہے پھولوں کی گلچیں کو بھی طلب
حیران باغباں ہے کسے دوں کسے نہ دوں

سب چاہتے ہیں اس سے جو وعدہ وصال کا
کہتا ہے اک زباں ہے کسے دوں کسے نہ دوں

شہزادے دختِ رز کے ہزاروں ہی خواستگار
چپ مرشدِ مغاں ہے کسے دوں کسے نہ دوں

یاروں کو بھی ہے بوسے کی غیروں کو بھی طلب
ششدر وہ جانِ جاں ہے کسے دوں کسے نہ دوں

دل مجھ سے مانگتے ہیں ہزاروں حسیں امیر
کتنا یہ ارمغاں ہے کسے دوں کسے نہ دوں

(امیر مینائی)

 

فرخ منظور

لائبریرین
مجھے دے دیں ۔ ۔۔ :battingeyelashes:

دینا کیا ہے شمشیر اور سناں کیا ہے ؟

شکریہ بوچھی بقول فیض
ہم خستہ تنوں سے محتسبو
کیا مال منال کا پوچھتے ہو
جو عمر سے ہم نے بھر پایا
سب سامنے لائے دیتے ہیں
دامن میں ہے مشتِ خاکِ جگر
ساغر میں ہے خونِ حسرتِ مے
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا
لو جام الٹائے دیتے ہیں
:)
 
حضرت کن الفاظ میں تبصرہ کروں۔
یوں لگ رہا ہے کہ میں آج تک یہ غزل نہ سن کر ادب کے ایک شاہکار سے محروم رہا۔
حضرت
مہمان اِدھر ہما ہے اُدھر ہے سگِ حبیب

اس میں " ہما" کا کیا مطلب ؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
حضرت کن الفاظ میں تبصرہ کروں۔
یوں لگ رہا ہے کہ میں آج تک یہ غزل نہ سن کر ادب کے ایک شاہکار سے محروم رہا۔
حضرت
مہمان اِدھر ہما ہے اُدھر ہے سگِ حبیب

اس میں " ہما" کا کیا مطلب ؟

شکریہ خٹک صاحب! ہما دراصل ایک فرضی اور افسانوی پرندہ ہے۔ جس کے بارے میں روایت ہے کہ یہ پرندہ جس کسی کے سر پر بھی سایہ کر دے وہ انسان بادشاہ بن جاتا ہے۔ اسی لئے بادشاہوں کو "ظلِّ ہما" یعنی ہما کا سایہ بھی کہا جاتا تھا۔
 

فاتح

لائبریرین
اس شعر کا موقع محل سمجھ نہیں آیا۔ :confused:
حبیب جالب سے کسی نے کہا کہ اس نظم کا موقع نہیں تھا تو اس نے کہا "میں موقع پرست نہیں";)
ارے حضور آپ آج کل چھکوں کے حسن میں گم ہیں اور ان کے بے پایاں حسن کے بیچ ہمیں یا ہمارے اشعار کہاں سمجھنے کی کوشش کیجیے گا۔:grin:
قبلہ! عرض یہ کرنے کی "اپنی سی کوشش" کی تھی کہ ہم نہ صرف کم مایہ اور کم سخن ہیں بلکہ یہی عالم ہمارے داد دینے کا ہے کہ عموماً غزلوں کے ایک دو اشعار ہی اس درجہ پسند آتے ہیں کہ بے اختیار منہ سے کلمۂ داد نکل جائے لیکن اس غزل کا تو ہر شعر ہی ایک تحفۂ نایاب ہے لہٰذا اب یہ سوچتا ہوں کہ کس شعر کو داد دوں اور کس شعر کو نہ دوں۔ بہرحال۔۔۔
نہ سہی گر مرے اشعار میں معنی نہ سہی
آپ کے اس مراسلے نے ہم میں یہ احساس تفاخر تو جگا ہی دیا کہ ہم بھی کسی طور غالب سے کم نہیں کہ اپنا لکھا خود سمجھتے ہیں یا خدا۔:laughing:
 
Top