شفق خلش :::: آئیں اگر وہ یاد تو مرتے نہیں ہیں ہم - Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین



غزلِ
شفیق خلش

آئیں اگر وہ یاد تو مرتے نہیں ہیں ہم
حالت خراب دل کی، گو کرتے کہیں ہیں کم

دل خُون ہے اگرچہ شب و روز ہجر میں
آنکھوں کو اپنی، شرم سے کرتے نہیں ہیں نم

ایسا جلادیا ہمیں فُرقت کی دُھوپ نے
کوشش رہے ہزار نِکھرتے کہیں ہیں ہم

اک پل نہ ہوں گوارہ کسی طور یوں ہمیں
دل پر سوار ہو کے اُترتے نہیں ہیں غم

رکھتے ہیں سطحِ آب سے اُونچا ہم اپنا سر
ڈوبے پہ یوں نہیں، کہ اُبھرتے نہیں ہیں ہم

قبل اِس کے جاں سے جائیں، وہ آجائیں ایک بار
ہے شرط، ورنہ موت سے ڈرتے کہیں ہیں ہم

ہوگا نصیب قُرب دمِ مرگ، یار کا
کب آئی ایسی موت پہ مرتے نہیں ہیں ہم

پُہنچے ِترے خیال میں جب جب بھی عرش پر
گزُرے زماں وہیں پہ، اُترتے کہیں ہیں ہم

ذکرِ خُدا کچُھ آپ پر لازم بھی ہو خلش
ہر وقت بس صنم کا ہی، بھرتے نہیں ہیں دم

شفیق خلش

 
آخری تدوین:
Top