شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
نہيں ملتا کسي مضمون سے ہمارا مضمون
طرز اپني ہے جدا سب سے جدا کہتے ہيں

پہلے تو “داغ“ کي تعريف ہوا کرتي تھي
اب خدا جانے وہ کيوں اس کو برا کہتے ہيں
 

سارا

محفلین
بے جواز کیا کرتے رازِ دل بتاتے کیا
کہانی مختصر سی تھی سناتے کیا چھپاتے کیا

بستی جل کے راکھ ہوئی کچھ تدبیر نہ کی ہم نے
درد کے سوا کیا تھا جلاتے کیا‘ بچاتے کیا۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
نہ دل ھي ٹھہرا ، نہ آنکھ جھپکي ، نہ چين پايا، نہ خواب آيا
خدا دکھائے نہ دشمنوں کو ، جو دوستي ميں عذاب ديکھا

نظر ميں ہے تيري کبريائي، سما گئي تيري خود نمائي
اگر چہ ديکھي بہت خدائي ، مگر نہ تيرا جواب ديکھ
 

شمشاد

لائبریرین
سارا نے کہا:
بے جواز کیا کرتے رازِ دل بتاتے کیا
کہانی مختصر سی تھی سناتے کیا چھپاتے کیا

بستی جل کے راکھ ہوئی کچھ تدبیر نہ کی ہم نے
درد کے سوا کیا تھا جلاتے کیا‘ بچاتے کیا۔۔

بہت خوبصورت شعر ہیں یہ۔ بہت خوب سارا جی۔
 

شمشاد

لائبریرین
ًخواب ميں بھي نہ کسي شب وہ ستم گر آيا
وعدہ ايسا کوئي جانے کہ مقرر آيا

مجھ سے مے کش کو کہاں صبر، کہاں کي توبہ
لے ليا دوڑ کے جب سامنے ساغر آيا

غير کے روپ ميں بھيجاہے جلانے کو مرے
نامہ بر ان کا نيا بھيس بدل کر آيا

سخت جاني سے مري جان بچے گي کب تک
ايک جب کند ہوا دوسرا خنجر آيا

داغ تھا درد تھا غم تھا کہ الم تھا کچھ تھا
لے ليا عشق ميں جو ھم کو ميسر آيا

عشق تاثير ہي کرتا ھے کہ اس کافر نے
جب مرا حال سنا سنتے ہي جي بھر آيا

اس قدر شاد ہوں گويا کہ ملي ہفت اقليم
آئينہ ہاتھ ميں آيا کہ سکندر آيا

وصل ميں ہائے وہ اترا کے مرا بول اٹھنا
اے فلک ديکھ تو يہ کون مرے گھر آيا

راہ ميں وعدہ کريں جاؤں ميں گھر پر تو کہيں
کون ہے، کس نے بلايا اسے، کيونکر آيا

داغ کے نام سے نفرت ھے، وہ جل جاتے ھيں
ذکر کم بخت کا آنے کو تو اکثر آيا
 

سارا

محفلین
شکریہ۔۔۔

قتل چھپتے تھے کھبی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ

رزق‘ ملبوس‘مکان‘ سانس‘ مرض‘قرض‘ دوا
منقسم ہو گیا انسان انہی افکار کے بیچ۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
کعبے کي سمت جا کے مرا دھيان پھر گيا
اس بت کو ديکھتے ہي بس ايمان پھر گيا

چھپ کر کہاں گئے تھے وہ شب کو کہ ميرے گھر
سو بار آ کے ان کا نگہبان پھر گيا

لائے تھے کوئے يار سے ہم داغ کو ابھي
لو اس کي موت آئي وہ نادان پھر گيا
 

شمشاد

لائبریرین
اب دل ہے مقام بے کسي کا
يوں گھر نہ تباہ ہو کسي کا

کس کس کو مزا ہے عاشقي کا
تم نام تو لو بھلا کسي کا

گلشن ميں ترے لبوں نے گويا
رس چوم ليا کلي کلي کا

ليتے نہيں بزم ميں مرا نام
کہتے ہيں خيال ہے کسي کا

جيتے ہيں کسي کي آس پر ہم
احسان ہے ايسي زندگي کا

بنتي ہے بري کبھي جو دل پر
کہتا ہون برا ہو عاشقي ک

ماتم سے مرے وہ دل میں خوش ہیں
منہ پر نہیں نام بھي ہنسي کا

ہم بزم ميں ان کي چپکے بیٹھے
منہ ديکھتے ہيں ہر آدمي کا

جو دم ہے وہ ہے بسا غنيمت
سارا سودا ہے جيتے جي کا

آغاز کو کون پوچھتا ہے
انجام اچھا ہو آدمي کا

روکيں انہيں کيا کہ ہے غنيمت
آنا جانا کبھي کبھي کا

ايسے سے جو داغ نے نباہي
سچ ہے کہ يہ کام تھا اسي کا
 

شمشاد

لائبریرین
اے دل وہ عاشقي کے فسانے کدھر گئے؟
وھ عمر کيا ھوئي ، وھ زمانے کدھر گئے؟

ويراں ہیں صحن و باغ، بہاروں کو کيا ہوا
وھ بلبليں کہاں وہ ترانے کدھر گئے؟
 

شمشاد

لائبریرین
قرار چھین ليا بے قرار چھوڑ گئے
بہار لے گئے ياد بہار چھوڑ گئے

ہماري چشم حزيں کا خيال کچھ نہ کيا
وھ عمر بھر کے لئے اشکبار چھوڑ گئے
 
شمشاد نے کہا:
ًخواب ميں بھي نہ کسي شب وہ ستم گر آيا
وعدہ ايسا کوئي جانے کہ مقرر آيا

مجھ سے مے کش کو کہاں صبر، کہاں کي توبہ
لے ليا دوڑ کے جب سامنے ساغر آيا

غير کے روپ ميں بھيجاہے جلانے کو مرے
نامہ بر ان کا نيا بھيس بدل کر آيا

سخت جاني سے مري جان بچے گي کب تک
ايک جب کند ہوا دوسرا خنجر آيا

داغ تھا درد تھا غم تھا کہ الم تھا کچھ تھا
لے ليا عشق ميں جو ھم کو ميسر آيا

عشق تاثير ہي کرتا ھے کہ اس کافر نے
جب مرا حال سنا سنتے ہي جي بھر آيا

اس قدر شاد ہوں گويا کہ ملي ہفت اقليم
آئينہ ہاتھ ميں آيا کہ سکندر آيا

وصل ميں ہائے وہ اترا کے مرا بول اٹھنا
اے فلک ديکھ تو يہ کون مرے گھر آيا

راہ ميں وعدہ کريں جاؤں ميں گھر پر تو کہيں
کون ہے، کس نے بلايا اسے، کيونکر آيا

داغ کے نام سے نفرت ھے، وہ جل جاتے ھيں
ذکر کم بخت کا آنے کو تو اکثر آيا

زبردست شمشاد ، کیا اعلی غزل پوسٹ کی ہے ۔ معاملہ بندی میں داغ کی استادی کو بھلا کون للکار سکتا ہے۔

لطف آگیا۔
 
دیکھیں گے سیر دشت طلب سینکڑوں سورج
اس برف کو اک بار پگھلنا تو پڑے گا
جس شخص کو منزل نظر آتی ہو نہ رستہ
وہ قافلہ سالار ، بدلنا تو پڑے گا
(حمیدہ شاہین )
 

شمشاد

لائبریرین
اجنبي مجھ کو بنادو کہ ميں زندہ ہوں ابھي
فاصلے اور بڑھا دو کہ ميں زندہ ہوں ابھي

اک انوکھي سی سزا دو کہ ميں زندہ ہوں ابھي
ميرا احساس مٹا دو کہ ميں زندہ ہوں ابھي

اپني جانب سے جفاؤں کا سہارا لے کر
مجھ کو ترغيب وفا دو کہ ميں زندہ ہوں ابھي

تم سے کچھ اور تو ہرگز نہ ديا جائے گا
صرف مرنے کي دعا دو کہ ميں زندہ ہوں ابھي

ميرے ہونےسے اندھيروں کا پتہ ملتا ھے
مجھے راہوں سے ہٹا دو کہ میں زندہ ہوں ابھي
 

شمشاد

لائبریرین
محب علوی نے کہا:
شمشاد نے کہا:
ًخواب ميں بھي نہ کسي شب وہ ستم گر آيا
وعدہ ايسا کوئي جانے کہ مقرر آيا

مجھ سے مے کش کو کہاں صبر، کہاں کي توبہ
لے ليا دوڑ کے جب سامنے ساغر آيا

غير کے روپ ميں بھيجاہے جلانے کو مرے
نامہ بر ان کا نيا بھيس بدل کر آيا

سخت جاني سے مري جان بچے گي کب تک
ايک جب کند ہوا دوسرا خنجر آيا

داغ تھا درد تھا غم تھا کہ الم تھا کچھ تھا
لے ليا عشق ميں جو ھم کو ميسر آيا

عشق تاثير ہي کرتا ھے کہ اس کافر نے
جب مرا حال سنا سنتے ہي جي بھر آيا

اس قدر شاد ہوں گويا کہ ملي ہفت اقليم
آئينہ ہاتھ ميں آيا کہ سکندر آيا

وصل ميں ہائے وہ اترا کے مرا بول اٹھنا
اے فلک ديکھ تو يہ کون مرے گھر آيا

راہ ميں وعدہ کريں جاؤں ميں گھر پر تو کہيں
کون ہے، کس نے بلايا اسے، کيونکر آيا

داغ کے نام سے نفرت ھے، وہ جل جاتے ھيں
ذکر کم بخت کا آنے کو تو اکثر آيا

زبردست شمشاد ، کیا اعلی غزل پوسٹ کی ہے ۔ معاملہ بندی میں داغ کی استادی کو بھلا کون للکار سکتا ہے۔

لطف آگیا۔

پسندیدگی کا شکریہ محب۔
 
کئی چاند تھے سر آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو مرے ہی جگر میں تھا نہ تمہاری زلف سیاہ تھی
( احمد مشتاق )


اس شعر سے “ کئی چاند تھے سر آسماں “ لے کر شمس الرحمن فاروقی نے اپنا تاریخ ساز ناول کا عنوان رکھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
میں سف۔ر میں ہ۔وں میرے س۔ات۔ھ ج۔۔۔۔۔دائی تیری
ہم۔س۔۔ف۔ر غ۔م ہ۔ے ت۔و پھر تیرا پتہ کس س۔ے کریں

کِھل اٹ۔ھ۔ے گل ی۔ا کِھ۔ل۔ے دس۔۔تِ حن۔۔ائی ت۔۔ی۔رے
ہ۔ر ط۔رف تُ۔۔و ہے تو پھ۔ر تیرا پتہ کس س۔ے کری۔۔۔ں

تیرے لب، تیری نگاہیں، تیرے عارض، تیری زلف
اتنے زنداں ہیں تو اس دل کو رہا کس س۔ے ک۔ری۔۔۔۔ں
 

شمشاد

لائبریرین
دیکھ کر اس حسیں پیکر کو
نشہ سا آ گیا سمندر کو

ڈولتی، ڈگمگاتی سے ناؤ
پی گئی آ کے سارے سمندر کو

خشک پیڑوں میں جان پڑنے لگی
دیکھ کر روپ کے سمندر کو

بہار پیاسے کی جستجو میں ہے
ہے صدف کی تلاش گوہر کو

کوئی تو نیم وا دریچوں سے
دیکھے اس رتجگے کے منظر کو

اک دیوی ہے منتظر ‘ فارغ ‘
وا کیئے پت سجائے مندر کو
 

ماوراء

محفلین
غم ہے بے ماجرا کئی دن سے
جی نہیں لگ رہا کئی دن سے

بے شمیمِ ملال و حیراں ہے
خیمہ گاہِ صبا کئی دن سے

دل محلے کی اس گلی میں بَھلا
کیوں نہیں غُل مچا کئی دن سے

وہ جو خوشبو ہے اس کے قاصد کو
میں نہیں مِل سکا کئی دن سے

اس سے بھی اور اپنے آپ سے بھی
ہم ہیں بےواسطہ کئی دن سے​
 

ماوراء

محفلین
ہیں سبھی سے جن کی گہری یاریاں
سُن میاں ہوتی ہیں ان کی خواریاں
ہے خوشی عیاروں کا اک ثمر
غم کی بھی اپنی ہیں کچھ عیاریاں​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top