شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سارا

محفلین
اس ہجر کے اوپر بھی اک وصل کا پردہ ہے
آغاز کسی کا ہے‘ انجام کسی کا ہے

کیا کام ہے دامن کا‘ کیا کام ہے اس دل کا
اک بخیہ گری کا ہے‘ اک شیشہ گری کا ہے۔۔
 

سارا

محفلین
آنسو بھی ہیں آنکھوں میں لب پر ہیں دعائیں
بگڑتے ہوئے حالات میرے سنور کیوں نہیں جاتے

ہے کون زمانے میں اب ہمدرد میرا
ناداں ہیں جو کہتے ہیں گھر کیوں نہیں جاتے۔۔
 

سارا

محفلین
وہ رنگ و روپ سلامت نہ چشم و لب میں کشش
رکھے گا تو میری تصویر کس نمائش میں

دھنک بھی دور خلا میں چٹخ کے ٹوٹ گئی
چھتوں پہ پھول بھی آئے نہ اب کے بارش میں۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
ہم نفسو اجڑ گئيں مہر و وفا کي بستياں
پوچھ رہے ہیں اہل دل مہر و وفا کو کيا ہوا

عشق ہے بے گداز کيوں، حسن ہے بے نياز کيوں
ميري وفا کہاں گئي ان کي جفا کو کيا ہوا
 

سارا

محفلین
بڑے درختوں کی شاخوں کا کیا بگڑ سکتا
ہوا کا زور تو چڑیوں کے آشیاں تک تھا

مجھے زمین کے مسافر کیا شکست دیتے
میرا ضمیر بلندی میں آسماں تک تھا۔۔۔
 

سارا

محفلین
اس میں شامل ہے مرے بخت کی تاریکی بھی
تم سیاہ رنگ جو پہنو گے تو یاد آؤں گا

شال پہنائے گا اب کون دسمبر میں تمہیں
بارشوں میں کبھی بھیگو گے تو یاد آؤں گا۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
ہنسوں تو اہل عالم سب شريک خندہ ہوتے ہیں
جو روؤں تو کوئي ہمدم نہیں جز رنج تنہائي

خوشي ميں حصہ لينے کے لئے تيار ہے دنيا
مگر کوئي نہیں سرمايہ غم تمنائي
 

شمشاد

لائبریرین
جو گاؤں تو جواب نغمہ کہساروں سے سنتا ہوں
بھروں آہیں تو رہ جاتي ہیں معدوم فضا ہو کر

صدائےبازگشت آتي ہے سن کر نغمہ عشرت
مگر نالوں سے کترا جاتي ہے نا آشنا ہو کر
 

شمشاد

لائبریرین
سناتا ہوں خوشي تو مرجع جہاں ہوں میں
مگر مغموم ہوتا ہوں سب آنکھيں چراتے ہیں

زمان عيش ہي میں دوست ہیں دنيا کے باشندے
يہ ميری داستان درد کب سننے کو آتے ہیں
 

سارا

محفلین
تیری رحمتوں کے دیار میں تیرے بادلوں کو پتا نہیں
ابھی آگ سرد ہوئی نہیں آبھی اک آلاؤ جلا نہیں

میری بزم دل تو اجڑ چکی‘ مرا فرشِ جاں تو سمٹ چکا
سبھی جا چکے مرے ہم نشیں مگر اک شخص گیا نہیں

دروبام سب نے سجا لیے‘ سبھی روشنی میں نہا لیے
مری انگلیاں بھی جھلس گئیں مگر اک چراغ جلا نہیں

غمِ زندگی تیری راہ میں‘شبِ آرزو تیری چاہ میں
جو اجڑ گیا وہ بسا نہیں‘جو بچھڑ گیا وہ ملا نہیں۔۔

‘اعتبار ساجد‘
 

شمشاد

لائبریرین
بساط محفل عشق و مسرت میں وہ وسعت ہے
کہ طول و عرض ميں اس کے سما سکتي ہے اک دنيا

مگر اس تنگنائے غم ميں اے دنيا کے باشندوں
گزرتا ہے ہجوم بے کسي میں ہر بشر تنہا
 

شمشاد

لائبریرین
غم کے ہاتھوں مرے دل پر جوسماں گزرا ہے
حادثہ ايسا زمانے ميں کہاں گزرا ہے

زندگي کا ہے خلاصہ وہي اک لمحہ شوق
جو تري ياد ميں اے جان جہاں گزارا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
کسي کي تابش رخسار کا کہو قصہ
کسي کے گيسوئے عنبر فشاں کي بات کرو

نہيں ہوا جو طلوع آفتاب تو في الحال
قمر کي بات کرو کہکشاں کي بات کرو

رہے گا مشغلہ ياد رفتگاں کب تک
چمن کي فکر کرو آشياں کي بات کرو

خدا کے ذکرکا موقع نہيں يہاں سالک
ديار ہند ميں حسن بتاں کي بات کرو
 

شمشاد

لائبریرین
وہ يہ کہہ رہے ہیں ہم کو ترے حال کي خبر کيا
تو اٹھا سکا نگاہیں نہ بتا سکا زباں سے

جو انہيں وفا کي سوجھي تو نہ زيست نے وفا کي
ابھي آ کے وہ نہ بيٹھےکہ ہم اٹھ گئے جہاں سے
 

شمشاد

لائبریرین
چاند کبھي تو تاروں کي اس بھيڑ سے نکلے
اور مري کھڑکي ميں آئے
بالکل تنہا اور اکيلا
ميں اس کو باہوں ميں بھرلوں
ايک ہي سانس سب کي سب وہ باتيں کرلوں
جو ميرے تالو سے چمٹي
دل ميں سمٹي رہتي ہيں
سب کچھ ايسے ہي ہوجائے جب ہے نا
چاند مري کھڑکي ميں آئے، تب ہے نا​

(امجد اسلام امجد)
 

تیشہ

محفلین
اسکا آنا ، اسکا ملنا اب تک مجھ میں باقی ہے
اک سرگوشی جھوم رہی ہے آج بھی کان کی بالی میں ۔ ۔

کل جب کوئی سارے شہر کو تیری بات بتا دے گا
چڑیا کی چہکار ہنسے گی دو پتوں کی تالی میں ۔ ۔

جھونکے جیسا شخص ، کہیں جو پل بھر نہیں ٹھہرتا تھا
آج سحر وہ قید ہوا ہے من کھڑکی کی جالی میں ۔
 

شمشاد

لائبریرین
اپنی رسوائی تیرے نام کا چرچہ دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں
(پروین شاکر)
 

فریب

محفلین
مجھ سے بچھڑ کے خوش رہتے ہو
میری طرح تم بھی جھوٹے ہو

اک دیوار پہ چاند ٹکا تھا
میں یہ سمجھا تم بیٹھے ہو

اجلے اجلے پھول کھلے تھے
بالکل جیسے تم ہنستے ہو

مجھے شام بتا دیتی ہے
تم کیسے کپڑے پہنے ہو

دل کا حال پڑھا چہرے سے
ساحل سے لہریں گنتے ہو

تم تنہا دنیا سے لڑو گے
بچوں سی باتیں کرتے ہو

(بشیر بدر)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top