کاشفی

محفلین
غزل
(سید محمد میر سوز دہلوی)
سچ کہیو قاصد آتا ہے وہ ماہ
الحمدللہ ، الحمدللہ

ہے دل کو لگتی پر کیوں کے مانوں
کھا جا قسم تو میاں تجھ کو واللہ

بعضوں کا مجھ پر یہ بھی گماں ہے
یعنی بتاں سے چلتا ہے بد راہ

جھوٹے کے منہ پر آگے کہوں کیا
استغفراللہ، استغفراللہ

کل اس طرف سے گزرا ستم گر
میں نے کہا کیوں آؤں میں ہمراہ

جھنجھلا کے آخر بولا ہے بانکا
تو کون، میں کون، اے واہ اے واہ

وہ دن گئے بھول جب کھیلتے تھے
لڑکوں میں مل کر ہے دوست یا شاہ

اب کھینچتے ہو تیغے کو ہر دم
بانکے بنے ہو اللہ اللہ

تیری جفا سے جو مجھ پر گزرا
سب جانتا ہوں من جانب اللہ

اے آہ تو بھی مت دے رفاقت
اے اشک مت جل بس حسبی اللہ

کل جس طرح سے دیکھا ہے اس کو
کیا ذکر کیجیے اللہ اللہ

تیرے سوا کون اب ہے جہاں میں
الحکم للہ و الملک اللہ

کاہے کو اتنا ہوتا ہے ناخوش
کر سوز کو قتل بس قصّہ کو تاہ
 
Top