امن وسیم

محفلین
صفحہ نمبر ۳ کے موضوعات

❔ نمازکی نیت
❔ فاتحہ خلف امام
❔ قیام میں ہاتھ باندھنے کی جگہ
❔ ظہر کی نماز کا وقت
❔ اذان کے بعد دعا
❔ وتر نماز پڑھنے کا طریقہ
❔ رفع یدین
❔ رفع یدین نہ کرنے کا ثبوت
❔ رفع یدین کب شروع ہوا
❔ سجدہ سہو
❔ جمعہ کی نماز اور وتر
❔ جرابوں پر مسح
❔ نبی صلی ٱللَّه علیہ وسلم کیلیے نماز تہجد
❔ بیت المقدس اور تحویل قبلہ
❔ قضا نمازوں کا فدیہ
❔ اردو میں تسبیحات
❔ نماز میں درود
❔ اپنی زبان میں نماز پڑھنا
❔ جمعہ اور پہیہ جام ہڑتال
 

امن وسیم

محفلین
نماز کی نیت
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: کیا نماز کی نیت اپنی علاقائی زبان میں کی جا سکتی ہے؟ (جاوید عزیز)

جواب: نیت دل کا عمل ہے، اسے زبان سے ادا کرنا کوئی ضروری نہیں ہے۔ بہرحال ، نیت کے الفاظ آدمی جس زبان میں چاہے ادا کر سکتا ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
فاتحہ خلف الامام
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ کی تلاوت کرنی چاہیے یا نہیں؟ (احسن خان)

جواب: اگر آپ امام کی آواز سن رہے ہیں تو پھر اسے سورۂ فاتحہ پڑھتے ہوئے سنیں، ورنہ آپ خود پڑھیں۔

___________
 

امن وسیم

محفلین
قیام میں ہاتھ باندھنے کی جگہ
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: نماز میں قیام کرتے ہوئے ہاتھ کہاں باندھنے چاہییں؟ (احسن خان)

جواب: ناف سے اوپر سینے تک جہاں بھی ہاتھ باندھے جائیں، درست ہو گا۔

___________
 

امن وسیم

محفلین
ظہر کی نماز کا وقت
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: ظہر کی نماز کا وقت کب شروع ہوتا اور کب تک باقی رہتا ہے؟ (علاؤ الدین دسانی)

جواب: ظہر کی نماز کا وقت سورج کے نصف النہار سے ڈھلنے سے لے کر مرأی العین پر پہنچنے تک ہوتا ہے۔ مرأی العین سے وہ وقت مراد ہے جب سیدھے کھڑے ہوئے آدمی کی آنکھوں میں سورج کی ترچھی شعاعیں پڑنے لگتی ہیں۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
اذان کے بعد دعا
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: اذان کے بعد جو دعا پڑھی جاتی ہے، کیا اس میں ہاتھ اٹھانے ضروری ہیں؟ اور کیا یہ دعا جمعہ کی دوسری اذان کے بعد بھی پڑھنی چاہیے؟ (عبد الوحید خان)

جواب: اذان کے بعد پڑھی جانے والی دعا میں ہاتھ اٹھانے ضروری نہیں ہیں۔ جمعہ کی دوسری اذان کے فوراً بعد خطبہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس خطبے کا سننا فرض ہے۔ لہٰذا خطبہ شروع ہونے کے بعد کوئی دعا نہیں پڑھی جا سکتی۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
وتر نماز پڑھنے کا طریقہ
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: وتر پڑھنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ (احسن خان)

جواب: وتر کی نماز کی رکعات لازماً طاق ہوتی ہیں۔ اس کی ادائیگی کا بہترین وقت تہجد ہی کا وقت ہوتا ہے۔ پڑھنے کا طریقہ کوئی خاص مختلف نہیں ہے۔ آپ تہجد کے نوافل چار، چھ، آٹھ جتنے بھی پڑھنا چاہتے ہیں، وہ پڑھیں۔ اس کے بعد وتر کی ایک، تین یا جتنی طاق رکعتیں بھی آپ پڑھنا چاہیں، وہ عام طریقے سے پڑھیں، سوائے اس کے کہ آخری رکعت میں سورۂ فاتحہ اور قرآن کی آیات کی تلاوت کے بعد تکبیر کہہ کر دوبارہ ہاتھ باندھیں اور دعاے قنوت پڑھیں، پھر رکوع میں چلے جائیں اور عام طریقے سے نماز کو مکمل کریں۔ وتر کے طریقے میں اگر آپ کو اختلاف نظر آئے (مثلاً اہل حدیث کے ہاں) تو اس سے پریشان نہ ہوں، کیونکہ ایسا نہیں کہ اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے، بلکہ یہ نماز مختلف طریقوں سے پڑھی جا سکتی ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
رفع یدین
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: نماز میں رفع یدین کرنا چاہیے یا نہیں؟ (احسن خان)

جواب: نماز میں رکوع سے پہلے اور بعد میں بعض دفعہ رفع یدین کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، یعنی آپ نے یہ رفع یدین نماز کے مستقل اور لازمی عمل کے طور پر نہیں کیا۔ چنانچہ یہ کیا بھی جا سکتا ہے اور چھوڑا بھی جا سکتا ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
رفع یدین نہ کرنے کا ثبوت
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: کیا نماز میں رفع یدین کرنا ضروری ہے؟ اور اگر ضروری نہیں تو کیا رفع یدین نہ کرنا حدیث سے ثابت ہے؟ (مدثر رضا)

جواب: نماز کا ماخذ حدیث نہیں، بلکہ سنت ہے، کیونکہ امت نے نماز کو سنت سے اخذ کیا ہے نہ کہ حدیث سے۔ نماز ایک دینی عمل کے طور پر سنت سے حتمی طور پرثابت ہے۔
یہاں پہلے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ سنت سے ہماری کیا مراد ہے اور حدیث سے کیا مراد ہے؟

’’سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی تجدید واصلاح کے بعد اور اُس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے ۔‘‘ (میزان۱۴)


’’ سنت ...کے بارے میں یہ بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اِس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ وہ جس طرح صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے ، یہ اِسی طرح اُن کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور قرآن ہی کی طرح ہر دور میں مسلمانوں کے اجماع سے ثابت قرار پائی ہے، لہٰذا اِس کے بارے میں اب کسی بحث و نزاع کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔
دین لاریب ، اِنھی (قرآن اور سنت) دو صورتوں میں ہے ۔ اِن کے علاوہ کوئی چیز دین ہے، نہ اُسے دین قرار دیا جاسکتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کے اخبار آحاد جنھیں بالعموم ’’حدیث‘‘ کہا جاتا ہے ، اِن کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اِن سے جو علم حاصل ہوتا ہے ، وہ کبھی درجۂ یقین کو نہیں پہنچتا ، اِس لیے دین میں اِن سے کسی عقیدہ و عمل کا اضافہ بھی نہیں ہوتا۔ دین سے متعلق جو چیزیں اِن میں آتی ہیں ، وہ درحقیقت ، قرآن و سنت میں محصور اِسی دین کی تفہیم و تبیین اور اِس پر عمل کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کا بیان ہیں۔ حدیث کا دائرہ یہی ہے۔ چنانچہ دین کی حیثیت سے اِس دائرے سے باہر کی کوئی چیز نہ حدیث ہو سکتی ہے اور نہ محض حدیث کی بنیاد پر اُسے قبول کیا جا سکتا ہے۔
اِس دائرے کے اندر ، البتہ اِس کی حجت ہر اُس شخص پر قائم ہو جاتی ہے جو اِس کی صحت پر مطمئن ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل یا تقریر و تصویب کی حیثیت سے اِسے قبول کر لیتا ہے ۔ اِس سے انحراف پھر اُس کے لیے جائز نہیں رہتا ، بلکہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ کا کوئی حکم یا فیصلہ اگر اِس میں بیان کیا گیا ہے تو اُس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے ۔‘‘ (میزان۱۴۔۱۵)


نماز کا ماخذ سنت ہے نہ کہ حدیث۔ سنت سے جو نماز اس امت کو ملی ہے اس میں وہ (رکوع سے پہلے اور بعد کا) رفع یدین موجو د نہیں، جس کے بارے میں ہمارے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے۔ البتہ وہ احادیث جو نماز کے معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ بیان کرتی ہیں، ان میں آپ کے اس رفع یدین کو اختیار کرنے کا ذکر موجود ہے۔ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ رفع یدین اصل نماز کا حصہ نہیں ہے، البتہ اسے اختیار کیا جا سکتا ہے اور رفع یدین کرنا اجر کا باعث ہو گا، لیکن نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ اگر رفع یدین نماز کا لازمی حصہ ہوتا، جیسا کہ رکوع و سجدہ نماز کا لازمی حصہ ہے تو یہ چیز بھی ہمیں امت کے عملی تواتر سے اسی طرح ملتی، جیسا کہ رکوع و سجدہ ملے ہیں۔ چنانچہ پھر اس صورت میں اس میں کوئی اختلاف نہ ہوتا، لیکن اس کی خبر چونکہ ہمیں حدیث سے ملی ہے اور جو چیز احادیث سے ملتی ہے، اس میں اختلاف ہونے کا امکان ہوتا ہے، جیسا کہ ہم اس معاملے میں بھی دیکھ رہے ہیں۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
رفع یدین کب شروع ہوا

*سوال* : آپ نے فرمایا ہے کہ رفع یدین کا مسئلہ اس وقت سے اٹھا ہے جب تواتر سے ملنے والے عمل کے بجائے حدیث کو نماز کا اصل مبنٰی بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ کیا آپ اس وقت کی نشان دہی کر سکتے ہیں ؟ اور وہ کون لوگ تھے جنھوں نے ایسا کیا ؟

*جواب* : میری بات ایک اصولی حقیقت پر مبنی ہے۔ اُسے آپ اِسی حوالے سے دیکھیں۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ امت نے نماز بخاری و مسلم کی احادیث سے نہیں سیکھی، بلکہ یہ دین کے اُس عملی تواتر سے سیکھی ہے، جس پر اصل دین یعنی قرآن و سنت کھڑے ہیں۔ اِس بات کا مطلب یہ ہے کہ جیسے امام بخاری رحمہ اللہ کو میسر آنے والی کوئی صحیح حدیث قرآن کی آیت میں تبدیلی نہیں کر سکتی، اِسی طرح کوئی صحیح حدیث نماز کی اُس شکل میں اضافہ یا کمی بھی نہیں کر سکتی ، جو شکل ہمیں نبی ﷺ کی جاری کردہ سنت سے ملی ہے۔ اگر نماز اپنی اصل میں راویوں کے ذریعے سے ملنے والی احادیث پر کھڑی ہوتی، تو پھر جونہی کسی راوی سے ہمیں کوئی حدیث ملتی ہم نماز کی شکل اُس حدیث کے مطابق کر لیتے۔ حدیث اور سنت کے فرق کے حوالے سے آپ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ حدیث ہمیں راوی سے ملتی ہے اور سنت ہمیں امت (کے عملی تواتر ) سے ملتی ہے، اِس لحاظ سے دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے
________________
 

امن وسیم

محفلین
سجدۂ سہو
Talib Mohsin

سوال: نماز میں ایک سے زیادہ غلطیاں ہو جائیں تو ایک ہی سجدۂ سہو کیا جائے گا یا زیادہ؟ (عارف جان)

جواب: نماز کے آخر میں غلطی ہونے پر دو سجدے کیے جاتے ہیں۔ غلطی ایک ہو یا زیادہ سجدۂ سہو کا طریقہ یہی ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
جمعہ کی نماز اور وتر
Talib Mohsin

سوال: جمعہ کی فرض نماز کیا ہے؟ کیا عشا میں وتر پڑھنا ضروری ہے؟ (کامران)

جواب:

’’جمعہ کے دن مسلمانوں پر لازم کیا گیا ہے کہ نماز ظہر کی جگہ وہ اِسی دن کے لیے خاص ایک اجتماعی نماز کا اہتمام کریں گے۔ اِس نماز کے لیے جو طریقہ شریعت میں مقرر کیا گیاہے، وہ یہ ہے:
یہ نماز دو رکعت پڑھی جائے گی،
نماز ظہر کے برخلاف اِس کی دونوں رکعتوں میں قراء ت جہری ہوگی،
نماز کے لیے تکبیر کہی جائے گی،
نماز سے پہلے امام حاضرین کی تذکیر و نصیحت کے لیے دو خطبے دے گا۔ یہ خطبے کھڑے ہو کر دیے جائیں گے۔ پہلے خطبے کے بعد اور دوسرا خطبہ شروع کرنے سے قبل امام چند لمحوں کے لیے بیٹھے گا،
نماز کی اذان اُس وقت دی جائے گی، جب امام خطبے کی جگہ پر آجائے گا،
اذان ہوتے ہی تمام مسلمان مردوں کے لیے ضروری ہے کہ اُن کے پاس اگر کوئی عذر نہ ہو تو اپنی مصروفیات چھوڑ کر نماز کے لیے حاضر ہو جائیں،
نماز کا خطاب اور اُس کی امامت مسلمانوں کے ارباب حل وعقد کریں گے اور یہ صرف اُنھی مقامات پر ادا کی جائے گی جو اُن کی طرف سے اِس نماز کی جماعت کے لیے مقرر کیے جائیں گے اور جہاں وہ خود یا اُن کا کوئی نمائندہ اِس کی امامت کے لیے موجود ہو گا۔‘‘ (میزان۳۳۲)


وتر کی نماز اصل میں تہجد کی نماز ہے۔ تہجد کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے فرض تھی اور باقی مسلمانوں کے لیے نفل نماز ہے۔ اس کا اصل وقت طلوع فجر سے پہلے کا ہے۔ یہ نماز طاق پڑھی جاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی زیادہ سے زیادہ رکعتیں گیارہ پڑھی ہیں۔ نفل ہونے کے باوجود صحابہ یہ نماز پڑھتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ صبح اٹھ نہیں سکو گے تو اسے سونے سے پہلے پڑھ لو۔ طاق کرنے کے لیے عربی لفظ وتر ہے اور اس کی کم از کم تین رکعت پڑھی جا سکتی ہیں، اس وجہ سے عشا کے ساتھ پڑھی جانے والی تین رکعت وتر کہلانے لگیں۔
حضور کی تاکید کی وجہ سے مسلمان اس کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔ کسی بھی فقیہ نے اسے فرض قرار نہیں دیا۔ بہتر یہی ہے کہ اس کا اہتمام کیا جائے ۔ تہجد کے وقت نہ سہی عشا کے ساتھ تو بآسانی پڑھی جا سکتی ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
جرابوں پر مسح
Talib Mohsin

سوال: بعض لوگ جرابوں (موزے) پر مسح کر لیتے ہیں۔ کیا وضو ہو جاتا ہے؟ (محمد کامران مرزا)

جواب: کپڑے کی جراب اور چمڑے کی جراب میں فرق کرنے کا سبب فقہا میں یہ رہا ہے کہ بعض فقہا کے نزدیک وہ روایت جس میں جرابوں پر مسح کا ذکر ہوا ہے، اتنی قوی نہیں ہے یا ان تک وہ روایت نہیں پہنچی ہے۔ غالباً متأخرین میں دونوں کی ساخت کا فرق بھی اختلاف کا سبب بنا ہے۔ چنانچہ یہ استدلال کیا گیا ہے کہ صرف انھی جرابوں پر مسح کیا جا سکتا ہے جن میں نمی اندر نہ جا سکتی ہو۔
ہمارے نزدیک چمڑا ہو یا کپڑا مسح کی اجازت رخصت کے اصول پر مبنی ہے۔ جرابوں کی ساخت کی نوعیت اس رخصت کا سبب نہیں ہے۔ رخصت کا سبب رفع زحمت ہے۔ جس اصول پر اللہ تعالیٰ نے پانی کی عدم دستیابی یا بیماری کے باعث اس بات کی اجازت دی ہے کہ لوگ تیمم کر لیں، اسی اصول پر قیاس کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کی حالت میں جرابیں پہنی ہوں تو پاؤں پر مسح کرنے کی اجازت دی ہے۔ اصول اگر رخصت، یعنی رفع زحمت ہے تو اس شرط کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ جرابیں چمڑے کی بنی ہوئی ہوں۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
نبی ﷺ کے لیے نماز تہجد کا حکم
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تہجد کے حکم کے ساتھ’نَافِلَۃً لَّکَ‘ کے الفاظ آئے ہیں، جن کا مطلب یہ ہے کہ تہجد آپ کے لیے بھی نفل ہی تھی، لیکن علما نے اسے آپ کے لیے فرض کیوں قرار دیا ہے ؟ اور تہجد کے اس حکم کی حکمت کیا تھی؟ (حفیظ الرحمن ملک)

جواب: آپ کا یہ خیال درست نہیں ہے کہ ’نَافِلَۃً لَّکَ‘ کے الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ یہ نماز تمھارے لیے نفل ہے۔ آیت کے زیر بحث الفاظ اور ان کا ترجمہ درج ذیل ہے:

وَمِنَ الَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ.(الاسراء ۱۷: ۷۹)
’’اور رات کے وقت میں تہجد بھی پڑھو، یہ تمھارے لیے مزید براں ہے۔‘‘


’’’نافلۃٗ اصل پر جو شے زائد ہو اس کو کہتے ہیں۔ اس کا استعمال کسی نعمت و رحمت پر زیادتی کے لیے ہوتا ہے، کسی بار اور مصیبت پر زیادتی کے لیے نہیں ہوتا۔ یعنی یہ نماز ان پنجوقتہ نمازوں پر تمھارے لیے مزید ہے۔ ’لک‘ سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ہے یہ نماز آپ کے لیے ضروری تھی۔ چنانچہ آپ نے زندگی بھر اس کا اہتمام رکھا۔ نمازوں کے اس اہتمام کی تاکید، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، شیطانی قوتوں کے مقابلہ کے لیے حصول قوت کے مقصد سے تھی۔ اسی مقصد کے لیے یہ تہجد کے اہتمام کی تاکید ہوئی اور اس کی نسبت سے فرمایا گیاکہ ’نَافِلَۃً لَّکَ‘ یعنی یہ تمھارے لیے مزید کمک کے طور پر ہے جو راہ حق کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے تمھارے صبر و ثبات میں مزید اضافہ کرے گی۔ عام امتیوں کے لیے یہ نماز اگرچہ ضروری نہیں ہے، لیکن جو لوگ شیطانی قوتوں کا مقابلہ کرنے اور حق کو دنیا میں برپا کرنے کے لیے اٹھیں ان کے لیے خدا کی نصرت حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ، یہی نماز ہے۔ چنانچہ امت کے صالحین نے جنھوں نے اس دنیا میں دین کی کوئی خدمت کرنے کی توفیق پائی ہے، اس نماز کا ہمیشہ اہتمام رکھا ہے۔‘‘(تدبر قرآن ۴/ ۵۳۱)

پس یہ نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دن رات کی پانچ نمازوں کے علاوہ ایک اضافی نماز تھی، جسے پڑھنا آپ پر اسی طرح لازم تھا جیسے باقی پانچ نمازوں کو پڑھنا لازم تھا اور اس کا حکم شیطانی قوتوں سے مقابلے کے لیے مزید کمک مہیا کرنے کی خاطر دیا گیا تھا۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
بیت المقدس اور تحویل قبلہ
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: قرآن میں کس جگہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ آپ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں، اگر نہیں دیا گیا تو آپ نے ایسا کیوں کیا؟ (بابا علی)

جواب: یہ بات تو قرآن مجید سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز نہیں پڑھی۔
ارشاد باری ہے:

۱۔ سَیَقُوْلُ السُّفَہَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰہُمْ عَنْ قِبْلَتِہِمُ الَّتِیْ کَانُوْا عَلَیْہَا.(البقرہ۲: ۱۴۲)
’’(ابراہیم کی بنائی ہوئی مسجد کو ، اے پیغمبر ، ہم نے تمھارے لیے قبلہ ٹھہرانے کا فیصلہ کیا ہے تو) اب اِن لوگوں میں سے جو احمق ہیں ، وہ کہیں گے : اِنھیں کس چیز نے اُس قبلے سے پھیر دیا جس پر یہ پہلے تھے؟ ‘‘

۲۔ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْہَآ اِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ.(البقرہ۲: ۱۴۳)
’’اور اِس سے پہلے جس قبلے پر تم تھے، اُسے تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے ٹھہرایا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھر جاتا ہے۔‘‘

۳۔ قِبْلَۃً تَرْضٰہَا فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ.(البقرہ۲: ۱۴۴)
’’(اے پیغمبر) ، سو ہم نے فیصلہ کر لیا کہ تمھیں اُس قبلے کی طرف پھیر دیں جو تم کو پسند ہے، لہٰذا اب اپنا رخ مسجد حرام کی طرف پھیر دو۔ ‘‘

آیات نمبر۱ اور ۲ اور ان کے ترجمے میں موجود خط کشیدہ الفاظ میں بیت اللہ کا ذکر نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کس قبلے کا ذکر ہے؟
آیت نمبر ۳ میں بیت اللہ کی طرف آپ کا رخ پھیر دینے کا ذکر ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ کے رخ کو کدھر سے اِدھر پھیرا جا رہا ہے۔
قرآن کی یہ آیت کہ ’سَیَقُوْلُ السُّفَھَآءُ‘ (عنقریب یہ بے وقوف(یہود) کہیں گے)، بتاتی ہے کہ یہ یہود کا پسندیدہ قبلہ ہے۔ چنانچہ ظاہر ہے کہ یہ بیت المقدس ہی ہے۔
اور احادیث بھی بتاتی ہیں کہ وہ بیت المقدس ہی ہے۔
قرآن مجید کے اس مقام کی مختصر وضاحت یہ ہے کہ مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے، البتہ آپ اس بات کا اہتمام ضرور کرتے تھے کہ آپ اس رخ پر کھڑے ہوں جس پر خانہ کعبہ اور بیت المقدس، دونوں ہی قبلے آپ کے سامنے آ جائیں، اس کی وجہ یہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک اہل کتاب سے مختلف کوئی طریقہ اختیار نہ کیا کرتے تھے، جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو اس کا حکم یا اس کی اجازت نہ مل جاتی تھی۔
پھر جب آپ مدینہ میں آئے تو وہاں دونوں قبلوں کو بہ یک وقت سامنے رکھنا ممکن نہ تھا، لہٰذا آپ نے اپنے اصول کے مطابق بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا شروع کر دی، لیکن آپ کا جی یہ چاہتا تھا کہ آپ خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھیں۔ پھر جیسا کہ درج بالا آیات سے معلوم ہوتا ہے، کچھ ہی عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ حکم دے دیا کہ آپ کعبہ ہی کواپنا قبلہ بنائیں۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
قضا نمازوں کا فدیہ
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: کیا کسی آدمی کی وفات کے بعد اس کی طرف سے ہم اس کی چھوڑی ہوئی نمازوں کے عوض صدقہ دے سکتے ہیں؟ (ثمر کاظمی)

جواب: نہیں اس کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ جیسے کوئی بوڑھا آدمی جو روزہ نہ رکھ سکتا ہو، وہ اپنے روزہ چھوڑنے کے عوض فدیہ دے سکتا ہے۔ اس طرح کا کوئی فدیہ چھوڑی ہوئی نماز کے لیے نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ یہ بات دین میں ثابت نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ کسی کے لیے کوئی دوسرا شخص نیک عمل نہیں کر سکتا۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
اردو میں تسبیحات
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: کیا ہم نماز کے دوران میں سجدے اور رکوع میں اردو میں تسبیحات کر سکتے ہیں، نیز کیا یہ ضروری ہے کہ سجدے میں ’سبحان ربی الاعلٰی‘ تین دفعہ ہی کہا جائے؟ (احسن خان)

جواب: رکوع اور سجدے میں اردو زبان میں دعائیں کی جا سکتی ہیں ۔
سجدے میں ’سبحان ربی الاعلٰی‘ تین دفعہ کہنا لازم نہیں ہے۔ اس سے زیادہ بھی کہا جا سکتا ہے اور زیادہ ہی کہنا چاہیے اور کم بھی کہا جا سکتا ہے۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
نماز میں درود
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: کیا درود نماز کا لازمی حصہ ہے؟ (جاوید عزیز)

جواب: درود نماز کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ آپ نماز کو تشہد کے بعد ختم کر سکتے ہیں، لیکن ہمیں چاہیے کہ ہم نماز میں درود ضرور پڑھیں۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
اپنی زبان میں نماز پڑھنا
Rafi Mufti سوال و جواب

سوال: کیا مسجدوں میں نماز، نمازیوں کی اپنی زبان میں پڑھائی جا سکتی ہے؟ (دانش جمال)

ْجواب: نہیں، یہ درست نہیں ہے، کیونکہ نماز میں سورۂ فاتحہ اور قرآن مجید کے کچھ حصے کی تلاوت کا حکم ہے۔ یہ دونوں عربی زبان میں ہیں۔ لہٰذا یہ چیزیں تو عربی ہی میں پڑھنی ہوں گی، کیونکہ ترجمۂ قرآن، قرآن نہیں ہوتا۔
البتہ، وہ اذکار اور دعائیں جو امام اور مقتدی اپنے اپنے طور پر پڑھتے ہیں، وہ ہماری راے کے مطابق اپنی زبان میں پڑھی جا سکتی ہیں۔

____________
 

امن وسیم

محفلین
جمعہ اور پہیہ جام ہڑتال
Talib Mohsin

سوال: جمعے کی نماز کے بعد پہیہ جام ہڑتال کی کال کو سورۂ جمعہ کی اس آیت کی روشنی میں دیکھنا چاہیے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ جب جمعے کی اذان ہو جائے تو سب کام چھوڑ کر مسجد میں حاضر ہو جاؤ اور جب نماز مکمل ہوجائے تو اللہ کے فضل کی تلاش میں نکل جاؤ۔ (انعام اللہ خان)

جواب: جمعے کے حوالے سے مذکورہ آیت بالکل درست ہے، لیکن اس سے جو نتیجہ آپ نکال رہے ہیں، وہ متکلم کے منشا سے تجاوز ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جمعہ پڑھتے ہی کاروبار کے لیے نکلنا ضروری ہے یا نہ نکلنا غلط ہے۔ مراد صرف یہ ہے کہ اس کے بعد تم اپنے معمولات میں مصروف ہو جاؤ۔
پہیہ جام ہڑتال ایک سیاسی سرگرمی ہے، اس کے حسن و قبح کو سیاسی اور اجتماعی مصالح کے تحت دیکھنا چاہیے۔

____________
 
Top