آپ سب سے درخواست ہے کہ آپ لوگ نذیر ناجی کا کالم غور سے پڑھیں، اور پھر ٹھنڈے دل و دماغ سے اس پر غور اور سوچ و بچار کریں۔ ہمیں بطور قوم بہت سی چیزوں کا ادراک کرنا ہے۔
********************
صوبہ سرحد اور فاٹا میں حکومتی عملداری صرف ایک تہائی تک محدود
نذیر ناجی صاحب کے کالم کے بعد آپ لوگوں سے گذارش ہے کہ بی بی سی کا یہ کالم ضرور بالضرور پڑھیں۔ اس سے صحیح زمینی صورتحال آپ پر بالکل واضح ہو جائے گی اور آپ کو پتا چلے گا کہ طالبان کس طرح مسلسل پیشقدمی کرتے رہے اور قوم کو رائیٹ ونگ میڈیا تھپک تھپک کر سلاتا رہا کہ ہمیں طالبان سے کوئی خطرہ نہیں۔
اللہ اللہ کر کے برف نے پگھلنا شروع کیا ہے۔ شکر الحمد للہ۔
مگر منزل بہت دور ہے۔ اور ہم نے بطور قوم پہلے ہی سانپ کی فطرت پہچاننے میں بہت دیر کر دی ہے۔
ذرا توجہ کیجئے، ایک سوات اور مالاکنڈ کو طالبانی فتنے سے نجات دلاتے دلاتے پتا نہیں کتنے معصوم شہری مزید ہلاک ہو گئے ہیں اور ہو رہے ہیں، اور دس لاکھ سے زائد اپنے گھر بار چھوڑ کر بے گھر ہوئے بیٹھے ہیں اور سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے آئے دن بھوک سے ہی مرتے جا رہے ہیں۔
اب تصور کیجئے اگر ہمیں طالبان کو مکمل طور پر بقیہ تمام علاقوں میں کچلنا ہے تو پھر کتنے مزید ہزاروں معصوم شہری مارے جائیں گے اور پتا نہیں شاید چالیس پچاس لاکھ لوگ اور اپنے گھروں کو چھوڑ کر ملک کے دوسرے علاقوں میں پناہ لے رہے ہوں گے۔
دیکھا آپ نے کہ ہم لوگ بطور قوم طالبان کی سانپ والی فطرت پہچانتے پہچانتے کتنی دیر کر چکے ہیں اور اس کا کتنا بڑا خمیازہ ہمیں بطور قوم اٹھانا پڑ رہا ہے اور مستقل میں مسلسل اٹھانا پڑتا رہے گا؟
دیکھئیے، سوات ڈیل کا ایک طرف تو بہت فائدہ ہوا کہ طالبان بالکل بے نقاب ہو گئے اور پہچانے گئے اور قوم ان کے فتنے کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ مگر اسکا ایک منفی پہلو بھی تھا اور وہ یہ کہ طالبان نے سوات میں منظم ہو کر گرفت اتنی مضبوط کر لی اور مورچے ایسے کھودے اور لینڈ مائینز کا ایسا جال بچھایا ہے کہ جس کے بعد انہیں علاقے سے نکالنے کے لیے دس لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہو گئے ہیں اور پتا نہیں کتنے معصوم مارے جا چکے ہیں۔
چنانچہ اگر طالبان کے خلاف یہی جنگ سوات امن ڈیل سے قبل شروع کی جاتی تو یہ دس لاکھ لوگ بے گھر نہ ہوتے۔
میں اس تمام چیز کا الزام رائیٹ ونگ میڈیا کے سر پر رکھتی ہوں جس نے سوات ڈیل سے قبل تک ہر ہر موقع پر طالبانی جرم کا دفاع کیا اور تمام برائی کا الزام افغانستان اور انڈین را کی طرف موڑ کر طالبان کو بچاتے رہے اور قوم کو تھپکی دے کر سلاتے رہے کہ طالبان سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں۔
اگر یہی میڈیا شروع دن سے طالبانی فطرت کو قوم کے سامنے پیش کرتا رہتا تو طالبان کے خلاف یہ جنگ آج نہیں، بلکہ آج سے کئی سال قبل ہی شروع ہو چکی ہوتی اور اس فتنے کا سر اسی وقت کچلا جا چکا ہوتا۔
افسوس کہ بطور قوم ہم نے اس فتنے کو پہچاننے میں اتنی دیر لگا دی ہے کہ اسکے خمیازے میں مزید تیس چالیس لوگ بے گھر ہوں گے اور سیکنڑوں معصوم مزید مارے جائیں گے۔
اسی لیے قران کہتا ہے کہ فتنے کو مارو اور اس حد تک مارو کہ وہ بالکل ختم نہ ہو جائے۔ اور اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو یہ فتنہ بڑھتا ہی چلا جائے گا اور جتنا نقصان آج ہونا ہے، اس سے کہیں گنا زیادہ نقصان مستقبل میں اٹھانا پڑے گا۔
یاد رکھئیے، طالبان کے خلاف آپریشن کو اگر نامکمل چھوڑ دیا گیا اور اس فتنے کو مکمل طور پر ابھی نہیں کچلا گیا، یا پھر انہیں کسی قسم کی ڈھیل دی گئی اور آج کا کام کل پر ڈالا گیا تو کل کو تیس چالیس کی بجائے کڑوڑوں لوگ بے گھر ہوتے دکھائی دیں گے۔
طالبان کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ مگر رائیٹ ونگ میڈیا نے ابھی سے ڈھکے چھپے الفاظ میں آپریشن کی مخالفت شروع کر دی ہے اور جلد ہی وہ اس پوزیشن میں ہوں گے کہ پھر سے کھل کر اپنا پروپیگنڈہ کر رہے ہوں۔ میں بس دعا کرتی ہوں کہ اس دفعہ قوم ان کے جال میں نہ آئے اور ان کے دھوکے میں آ کر اپنا مزید نقصان نہ کروا بیٹھے۔ امین۔