سندھ: توہین رسالت قیدی جیل میں ’ذبح‘

نبیل

تکنیکی معاون
حوالہ: بی بی سی اردو، 4 اپریل 2009



سندھ کے ضلع سانگھڑ میں ایک پچیس سالہ قیدی انیس ملاح کو جیل کے اندر تشدد کے بعد ہلاک کیا گیا ہے۔ جیل کے حکام کا کہنا ہے کہ انیس توہین رسالت کے الزام میں قید تھے۔ انہیں جمعہ کے دن عدالتی احکامات پر میرپور خاص سے سانگھڑ منتقل کیا گیا تھا۔

سانگھڑ جیل کے سپرنٹنڈنٹ سکندر بلوچ نے بی بی سی کو بتایا ہے جمعہ کی شام انیس کی جیل آمد کے بعد قیدی مشتعل ہوگئے۔قیدیوں کےدو گروہوں کےدرمیاں تصادم ہوگیا جس کے نتیجے میں توہین رسالت کا قیدی انیس ملاح ہلاک ہوگیا ہے۔ تصادم میں جیل کا کوئی اور قیدی یا اہلکار زخمی نہیں ہوا۔

انیس ملاح کے قتل کا مقدمہ سانگھڑ جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے۔

دوسری جانب سانگھڑ پولیس کے ضلعی جانچ افسر عابد قائمخانی نے بی بی سی کوبتایا ہے کہ انیس ملاح کو ایک منصوبہ بندی کے تحت جیل کے اندر قتل کیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ قیدیوں کے دو گروپوں کے درمیاں کوئی تصادم نہیں ہوا تھا۔ تمام قیدیوں نے مل کر انیس کو پہلے تشدد کا نشانہ بنایا، ان کاگلہ دبایا گیا، ان پر پستول سے گولیاں فائر کی گئیں اور آخر میں انہیں چھری سے ذبح کر کے گردن الگ کردی گئی ہے۔

مزید پڑھیں۔۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
یہاں تماشا ہونے کا امکان کم ہے۔ اب توہین رسالت کے الزام پر قتل ہمارے معاشرے کا ویسا ہی حصہ بن چکا ہے، جیسا کہ عبادت گاہوں پر خودکش دھماکے۔
 

مغزل

محفلین
یہ سچ کہا آپ نے ۔ پھر کس کو ہے غازی علم دین کیا گورنمنٹ میں تھا۔ ؟؟
تو پھر اس کا عمل جائز کیسے ہیں ، ؟؟
میرے بھائی یہ معاملہ ہی ایسا ہے اس میں آپ کوئی حد نہیں لگا سکتے ۔۔
کوئی ایک ایسا ثبوت تو پیش کیجیے کہ ایسا کرنا کسی اور سے ثابت ہو
اور عام آدمی نے ایسا نہ کیا ہو ۔؟؟
 

نبیل

تکنیکی معاون
محمود، بہتر ہوتا کہ آپ اوپر والی پوسٹ میں مذکورہ خبر کے بارے میں کچھ کہتے۔ کئی لوگوں نے مل کر ایک آدمی کو تشدد کا نشانہ بنایا، اسے گولی ماری اور اس کی گردن کاٹ دی۔ کیا یہ سب اس لیے جائز ہو گیا کہ اس پر توہین رسالت کا الزام تھا؟
جب یہ الزام کسی پر ثابت نہیں ہو سکتا تو اس پر عدالتی کاروائی کا تکلف کیوں کیا جاتا ہے؟ ان ملزمان کو ہجوم کے حوالے کر دیا جانا چاہیے تاکہ وہ خود ہی اسے ٹھکانے لگا دیا کریں۔

اور غازی علم اور عامر چیمہ جیسے لوگوں کے افسانے میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے۔
 

arifkarim

معطل
نبیل بھائی یہ تو کچھ بھی نہیں۔ ہمارے پاکستانی بھائی تو بچوں پر بھی توہین رسالت کا الزام لگا کر عمر قید یا موت کی سزا دلوا سکتے ہیں۔ ظاہر ہے جنگل کا قانون ہے۔ حال ہی میں لیہ میں ہونے والا حیرت انگیز واقعہ، جس سے پوری دنیا کی انسانی حقوق تنظیمیں لرز گئیں لیکن ہمارے علما کے دلوں میں ایمان کی تازگی کی لہر دوڑ گئی:
http://www.thepersecution.org/nr/2009/january.html
 
نبیل بھائی یہ تو کچھ بھی نہیں۔ ہمارے پاکستانی بھائی تو بچوں پر بھی توہین رسالت کا الزام لگا کر عمر قید یا موت کی سزا دلوا سکتے ہیں۔ ظاہر ہے جنگل کا قانون ہے۔ حال ہی میں لیہ میں ہونے والا حیرت انگیز واقعہ، جس سے پوری دنیا کی انسانی حقوق تنظیمیں لرز گئیں لیکن ہمارے علما کے دلوں میں ایمان کی تازگی کی لہر دوڑ گئی:
http://www.thepersecution.org/nr/2009/january.html

This Site is Restricted
 

فرخ منظور

لائبریرین
یہ سچ کہا آپ نے ۔ پھر کس کو ہے غازی علم دین کیا گورنمنٹ میں تھا۔ ؟؟
تو پھر اس کا عمل جائز کیسے ہیں ، ؟؟
میرے بھائی یہ معاملہ ہی ایسا ہے اس میں آپ کوئی حد نہیں لگا سکتے ۔۔
کوئی ایک ایسا ثبوت تو پیش کیجیے کہ ایسا کرنا کسی اور سے ثابت ہو
اور عام آدمی نے ایسا نہ کیا ہو ۔؟؟

غازی علم دین کا واقعہ اس علاقے میں ہوا تھا جو میرا آبائی علاقہ ہے۔ یعنی لاہور میں لوہاری دروازے کے باہر ہسپتال روڈ پر۔ غازی علم دین ایک عام سا مزدور تھا اس نے صرف یہ سنا کہ راج پال نے ایک کتاب "رنگیلا رسول" چھاپی ہے۔ لہٰذا اس نے اس پبلشر کو قتل کر دیا لیکن جو اصل مجرم تھا یعنی جس مصنف نے یہ کتاب لکھی تھی وہ بدستور زندہ رہا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
اور جہاں تک ماورائے عدالت سزا دینے کا تعلق ہے تو پھر وہ لوگ جنہوں نے ایک کم عمر لڑکی کو کوڑے مارے تھے بالکل حق پر ہیں۔ کیونکہ قرآن و سنت سے وہ سزا ثابت ہے اور انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ محمود صاحب آپ کو ان لوگوں کی بھی مدح سرائی کرنا چاہیے۔
 

خلیل بہٹو

محفلین
الزام ثابت کیے بغیر ہجوم کا معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے لینا mob justice ہے اور اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

الزام ثابت ہونے کے باوجود مجرموں کو باعزت بری کردیا جاتا ہے، ایسی مثالیں موجود ہیں۔ خود ہمارے زرداری صاحب اس کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔
 

طالوت

محفلین
غازی علم دیں ۔۔ مگر کوئی اس سارے قصے کو بھی پیش کرے تو بہت سے احباب دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں ۔۔ مگر میں تو صرف تماشہ دیکھوں گا۔۔
وسلام
 

arifkarim

معطل
غازی علم دین کا واقعہ اس علاقے میں ہوا تھا جو میرا آبائی علاقہ ہے۔ یعنی لاہور میں لوہاری دروازے کے باہر ہسپتال روڈ پر۔ غازی علم دین ایک عام سا مزدور تھا اس نے صرف یہ سنا کہ راج پال نے ایک کتاب "رنگیلا رسول" چھاپی ہے۔ لہٰذا اس نے اس پبلشر کو قتل کر دیا لیکن جو اصل مجرم تھا یعنی جس مصنف نے یہ کتاب لکھی تھی وہ بدستور زندہ رہا۔

اوہ، اتنی سادگی۔ خیر Satanic Verses کا ادیب بھی آجکل مغرب میں ’’سر‘‘ کے خطاب کیساتھ گھوم رہا ہے، جبکہ اسکے متعدد پبلشرز ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔ نارویجن پبلشنگ ہاؤس Aschehoug کا چیف ایکزیکٹو بھی ۱۹۹۳میں قاتلانہ حملے کا نشانہ بنا لیکن بچ گیا :(
 

ساقی۔

محفلین
اوہ، اتنی سادگی۔ خیر satanic verses کا ادیب بھی آجکل مغرب میں ’’سر‘‘ کے خطاب کیساتھ گھوم رہا ہے، جبکہ اسکے متعدد پبلشرز ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔ نارویجن پبلشنگ ہاؤس aschehoug کا چیف ایکزیکٹو بھی ۱۹۹۳میں قاتلانہ حملے کا نشانہ بنا لیکن بچ گیا :(

انشا ء اللہ تم دیکھو گے کہ ایسا کوئی بھی مجرم جس نے اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی.یا بہتان باندھے، طبعی موت نہیں مرے گا . خدا کا قہر بن کر یا تو ہم اس پر ٹوٹیں گے یا اللہ خود انہیں عبرت بنا دے گا.
 

ساجد

محفلین
غازی علم دین کے واقعے اور موجودہ قتل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
سوال صرف یہ ہے کہ کیا ایک اسلامی معاشرے میں کسی کو اس کے جرم کی صحت ثابت کئیے بغیر انفرادی طور پہ قتل کیا جا سکتا ہے؟اور اگر جرم ثابت ہو جائے تو کیا اس صورت میں بھی قانون سزا دینے کا حق صرف حکومت کو نہیں دیتا؟
یہ ٹھیک کہ مجرم بھی موجودہ عدالتی نظام کے تحت بری ہو جاتے ہیں تو اس کے لئیے ذمہ دار معاشرہ اور نظام ہے اور اسی کی اصلاح کرنا چاہئیے نا کہ قانون اپنے ہاتھ میں لے کر معاشرے میں مزید انتشار پھیلایا جائے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
جب میں ان مسلم انتہا پسندوں کو دیکھتی ہوں جو کہ آج moj justice کی حمایت کر رہے ہیں، تو مجھے ان میں اور انتہا پسند ہندووں جنتا دل اور شیو سینا وغیرہ میں کچھ فرق نظر نہیں آ رہا ہوتا جو کہ بجائے قانون پر عمل کرنے کے اپنے اسی moj justice کی آڑ میں بابری مسجد کو شہید کر کے ہندو مندر قائم کرنا چاہتے ہیں۔
 
Top