کاشفی
محفلین
سلام
جوش ملیح آبادی لکھنوی
طبع میں کیا، تیغِ بُرّان میں روانی چاہیئے
گل فشانی تا کُجا، اب خون فشانی چاہیئے
بستہء زنجیرِ محکومی! خبر بھی ہے تجھے؟
مہرومہَ پر تجھ کو عزم حکمرانی چاہیئے
مرقدِ شہزادہء اکبر سے آتی ہے صدا
حق پہ جو مٹ جائے، ایسی نوجوانی چاہیئے
شاہ فرماتے ہیں "جا لے جا خدا کے نام پر"
موت جب کہتی ہے "اکبر کی جوانی چاہیئے"
سن کے جس کا نام نبضیں چھوٹ جائیں موت کی
دین کے ساونت کو وہ زندگانی چاہیئے
عمر فانی سے تو برگ کاہ تک ہے بہرہ مند
مرد کو ذوق حیات جاودانی چاہیئے
کون بڑھتا ہے لہو تھوڑا سا دینے کے لئے؟
اے عزیزو! دین کی کھیتی تو پانی چاہیئے
جن کے سینوںمیں ہو سوزِ تشنگانِ کربلا،
اُن جواں مردوں کی تلواروں میںپانی چاہئیے
جوش، ذکرِ جراتِ مولیٰ پہ شیون کے عیوض
رُخ پہ شانِ فخر و نازِ کامرانی چاہئیے
جوش ملیح آبادی لکھنوی
طبع میں کیا، تیغِ بُرّان میں روانی چاہیئے
گل فشانی تا کُجا، اب خون فشانی چاہیئے
بستہء زنجیرِ محکومی! خبر بھی ہے تجھے؟
مہرومہَ پر تجھ کو عزم حکمرانی چاہیئے
مرقدِ شہزادہء اکبر سے آتی ہے صدا
حق پہ جو مٹ جائے، ایسی نوجوانی چاہیئے
شاہ فرماتے ہیں "جا لے جا خدا کے نام پر"
موت جب کہتی ہے "اکبر کی جوانی چاہیئے"
سن کے جس کا نام نبضیں چھوٹ جائیں موت کی
دین کے ساونت کو وہ زندگانی چاہیئے
عمر فانی سے تو برگ کاہ تک ہے بہرہ مند
مرد کو ذوق حیات جاودانی چاہیئے
کون بڑھتا ہے لہو تھوڑا سا دینے کے لئے؟
اے عزیزو! دین کی کھیتی تو پانی چاہیئے
جن کے سینوںمیں ہو سوزِ تشنگانِ کربلا،
اُن جواں مردوں کی تلواروں میںپانی چاہئیے
جوش، ذکرِ جراتِ مولیٰ پہ شیون کے عیوض
رُخ پہ شانِ فخر و نازِ کامرانی چاہئیے