داغ زمانہ ہے خفا مجھ سے کہ تم سے - داغ دہلوی

کاشفی

محفلین
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)

زمانہ ہے خفا مجھ سے کہ تم سے
گلِے پر ہے گلا مجھ سے کہ تم سے

ستم سے باز آؤ ، ورنہ اک دن
یہ پوچھے گا خدا مجھ سے کہ تم سے

مجھے معلوم تھا یا تم کو معلوم
وہ راز افشا ہوا مجھ سے کہ تم سے

نہ کہنا پھر کہ ہم قاتل نہیں ہیں
ہوا خونِ حنا مجھ سے کہ تم سے

رقیبوں سے یہ کہتا ہوں سرِ بزم
وہ بیٹھے ہیں خفا مجھ سے کہ تم سے

چھپا کیوں چاند بدلی میں شبِ وصل
اسے آئی حیا مجھ سے کہ تم سے

خدا جانے محبت کو سرِ حشر
پڑیگا واسطا مجھ سے کہ تم سے

مرا کہنا نہ مانا داغ تم نے
انہوں نے کی دغا مجھ سے کہ تم سے
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ! بہت خوب انتخاب ہے۔ شکریہ کاشفی صاحب۔ اس شعر میں "واسطہ" کی بجائے "واسطا" ہونا چاہیے کیونکہ قافیہ "واسطا" کا متقاضی ہے۔
خدا جانے محبت کو سرِ حشر
پڑیگا واسطہ مجھ سے کہ تم سے
 
Top