الف عین

لائبریرین
زبور عجم کی افتتاحیہ دعا
علامہ اقبال ترجمہ: رؤف خیر
یا رب درون سینہ دل باخبر بدہ
پہلو میں دل دیا ہے تو دل باخبر بھی دے
دربادہ نشہ را نگرم آں نظر بدہ
دیکھوں مزاج نشہ مئے وہ نظر بھی دے
ایں بندہ را کہ بانفس دیگراں نزیست
سانسوں پہ دوسروں کی گزاروں نہ زندگی
یک آہ خانہ زاد ‘ مثال سحربدہ
یک آہِ خانہ زاد مثالِ سحر بھی دے
سلیم مرا بہ جوئے تنک مایۂ مپیچ
رکھیو نہ سیل فکر مرا جو ہڑوں میں قید
جولانگہے بہ وادی و کوہ و کمر بدہ
میداں بھی اس کو وادی و کوہ و کمر بھی دے
سازی اگر حریف یم بے کراں مرا
جب بحر بے کراں کے مقابل کیا مجھے
بااضطراب موج سکون گہر بدہ
پھر موج مضطرب کو سکونِ گہر بھی دے
شاہین من بہ صید پلنگاں گذاشتی
شاہین کو بنایا شکاری جو شیر کا
ہمت بلند و چنگل ازیں تیز تر بدہ
ہمت بلند پنجے ذرا تیز تر بھی دے
رفتم کہ طائران حرم راکنم شکار
جاتا ہوں طائران حرم کے شکار کو
تیرے کہ ناخدہ فتد کارگر بدہ
اب خوش نشان تیر مجھے کارگر بھی دے
خاکم بہ نور نغمۂ داؤد برفروز
چمکا دے نور نغمۂ داؤد سے مجھے
ہر ذرّہ مرا پر وبال شرر بدہ
میرے روئیں روئیں کو شرر بار کر بھی دے
 
Top