احمد ندیم قاسمی ریت سے بت نہ بنا اے مرے اچھے فنکار

ریت سے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار

اک لمحہ کو ٹھہر میں تجھے پتھر لادوں
میں تیرے سامنے انبار لگادوں لیکن
کون سے رنگ کا پتھر تیرے کام آئے گا
سرخ پتھر جسے دل کہتی ہے بے دل دنیا
یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیل پتھر
جس میں صدیوں کے تحیر کے پڑے ہوں ڈورے

کیا تجھے روح کے پتھر کی ضرورت ہوگی
جس پر حق بات بھی پتھر کی طرح گرتی ہے
اک وہ پتھر ہے جو کہلاتا ہے تہذیبِ سفید
اس کے مرمر میں سیاہ خوں جھلک جاتا ہے
اک انصاف کا پتھر بھی تو ہوتا ہے مگر
ہاتھ میں تیشہ زر ہو تو وہ ہاتھ آتا ہے

جتنے معیار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں
شعر بھی رقص بھی تصویر و غنا بھی پتھر
میرے الہام تیرا ذہن ِ رسا بھی پتھر
اس زمانے میں ہر فن کا نشان پتھر ہے
ہاتھ پتھر ہیں تیرے میری زبان پتھر ہے

ریت سے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ریت سے بُت

ریت سے بُت نہ بنا اے میرے پیارے فنکار!
ایک لمحے کو ٹھہر ، میں تجھے پتھر لا دوں
میں تیرے سامنے انبار لگا دوں لیکن
کون سے رنگ کا پتھر تیرے کام آئے گا؟

سُرخ پتھر ، جسے دل کہتی ہے بے دل دُنیا!
یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیلا پتھر
جس میں صدیوں سے تحریر کے پڑے ہوں ڈورے
یا تجھے رُوح کے پتھر کی ضرورت ہو گی؟
جس پہ حق بات بھی پتھر کی طرح گرتی ہے۔
ایک وہ پتھر ہے جسے کہتے ہیں تہذیبِ سفید
اس کے مرمر میں سیاہ خون جھلک جاتا ہے۔
ایک انصاف کا پتھر بھی تو ہوتا ہے مگر
ہاتھ میں تیشہء زر ہو تو وہ ہاتھ آتا ہے۔

جتنے معیار ہیں اس دور کے، سب پتھر ہیں۔
جتنے افکار ہیں اس دور کے، سب پتھر ہیں۔
شعر بھی ، حُسن بھی، تصویر و غنا بھی پتھر،
میرا الہام تیرا ذہن رسا بھی پتھر۔
اس زمانے میں تو ہر فن کا نشاں پتھر ہے۔
ہاتھ پتھر ہیں تیرے، میری زباں پتھر ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
پتھر - احمد ندیم قاسمی

پتھر

ریت سے بُت نہ بنا اَے مرے اچھے فنکار
ایک لمحے کو ٹھہر میں تجھے پتھر لا دوں
میں ترے سامنے انبار لگا دوں لیکن
کون سے رنگ کا پتھر ترے کام آئے گا
سرخ پتھر جسے دِل کہتی ہے بےدِل دنیا
یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نِیلا پتھر
جس میں صدیوں سے تحریر کے پڑے ہوں ڈورے
کیا تجھے روح کے پتھر کی ضرورت ہوگی
جس پہ حق بات بھی پتھر کی طرح گرتی ہے
ایک وہ پتھر ہے جسے کہتے ہیں تہذیب سفید
اس کے مَرمَر میں سیاہ خون جھلک جاتا ہے
ایک انصاف کا پتھر بھی تو ہوتاہے مگر
ہاتھ میں تیشہِ زر ہو ، تو وہ ہاتھ آتا ہے
جتنے معیار ہیں اس دور کےسب پتھر ہیں
جتنے افکار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں
اس زمانے میں تو ہر فن کا نشانہ پتھر ہے
ہاتھ پتھر ہیں ترے، میری زباں پتھر ہے
ریت سے بت نہ بنا اے مرے اچھے فنکار

احمد ندیم قاسمی
 

نیلم

محفلین
ریت سے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار

اک لمحہ کو ٹھہر میں تجھے پتھر لادوں
میں تیرے سامنے انبار لگادوں لیکن
کون سے رنگ کا پتھر تیرے کام آئے گا
سرخ پتھر جسے دل کہتی ہے بے دل دنیا
یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیل پتھر
جس میں صدیوں کے تحیر کے پڑے ہوں ڈورے

کیا تجھے روح کے پتھر کی ضرورت ہوگی
جس پر حق بات بھی پتھر کی طرح گرتی ہے
اک وہ پتھر ہے جو کہلاتا ہے تہذیبِ سفید
اس کے مرمر میں سیاہ خوں جھلک جاتا ہے
اک انصاف کا پتھر بھی تو ہوتا ہے مگر
ہاتھ میں تیشہ زر ہو تو وہ ہاتھ آتا ہے

جتنے معیار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں
شعر بھی رقص بھی تصویر و غنا بھی پتھر
میرے الہام تیرا ذہن ِ رسا بھی پتھر
اس زمانے میں ہر فن کا نشان پتھر ہے
ہاتھ پتھر ہیں تیرے میری زبان پتھر ہے

ریت سے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار
 
Top