رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف

یارانِ محفل: تسلیمات
اُ ردو محفل میں نو وارِد ہوں اور اس کے طریقے اور رموز سمجھنے کی کوشش میں مصروف۔ اس سلسلے میں مختلف زمروں میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے اور وہاں سے تاثرات اور خیالات لے کر آتا ہوں۔زیر نظر تحریر میں میری معروضات ایک عام اور معمولی قاری کے مشاہدات اور معلومات پر مبنی ہیں۔ واللہ اس سے زیادہ ان کی کوئی اہمیت یا حیثیت نہیں ہے۔ اسی نظر سے انھیں دیکھئے، سوچئے، رائے زنی کیجئے اور کوتاہیوں کو نظر انداز کر دیجئے۔ یہاں آج غزل کے حوالے سے کچھ عرض ہےکہ یہ میری پسندیدہ صنف سخن ہے اور محفل میں اچھے غزل گو خاصی تعداد میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ نہایت فعال ہیں اور غزل کی قابل رشک پذیرائی کر رہے ہیں۔ غالب نے اپنے ایک دوست کو کیا ہی سچ لکھاتھا کہ :غزل قافیہ پیمائی نہیں ہے بلکہ معنی آفرینی ہے۔: غزل کہنا واقعی ایک نہایت مشکل فن ہے ۔ لوگ اسے آسان سمجھتے ہیں اور غلط سمجھتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو غالب جیسا عظیم شاعر اپنا پورا دیوان مومن کے اس ایک شعر پر نچھاور کرنے کے لئے کیوں کر تیار ہوتا؟
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا !
غزلوں پر آپ کی رائے، تبصرے، تنقید اور تجاویز پڑھ کر خوشی ہوتی ہے اور غزل کا مستقبل کچھ اور روشن نظر آنے لگتا ہے۔ غزل کو پروفیسر رشید احمد صدیقی نے :اردو شاعری کی آبرو: کے لقب سے نوازا ہے اورحقیقت بھی یہی ہے۔ تاہم آپ کے تبصروں میں ایک بات اپنی کثرت اور عموم کی بنا پر تحریر طلب ہے یعنی یہ کہ بیشتر تبصرے چند الفاظ یا جملوں پر مبنی ہوتے ہیں گویا ان کی حیثیت ایک یا دو تالیوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔ یہ صورت حال اصلاح چاہتی ہے۔ ہر قاری کو تبصرے، رائے، تنقید، شائستہ تنقیص کا حق ہے اور کسی کے خیالات یا تبصرے کو کم قیمت یابے وقعت نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس قدر مختصر اور سرسری رائے زنی سے شاعر اور مبصر دونوں کا حق ادا نہیں ہوتا اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔اچھی غزل کہنے میں شاعر کو جو وقت، قوت فکر، علم وفن بروئے کار لانا پڑتا ہے اس کا قرض بھلا ایک عدد:واہ ، واہ؛ سے کیسے ادا ہو سکتا ہے؟ غزل پر رائے آپ مختلف حوالوں سے دے سکتے ہیں۔وضاحت کی کمی، معنی آفرینی، الفاظ کی نشست و برخواست، زبان و بیان کی خوبی یا خرابی، یا اور کچھ جو مناسب معلوم ہو۔ یہ نہ سوچیں کہ میری رائے سے کیا ہوگا؟ آپ کی رائے سے ہی سب کچھ ہوگا۔ اگر آپ ہی خاموش ہو گئے تو کیا شعر گوئی اور کیا نثر نگاری کسی چیز کا کوئی مقصد نہیں رہ جاتا ہے ۔ہمارا سارا تہذیبی، تمدنی، تاریخی، مذہبی، ثقافتی سرمایہ اُردو میں ہی دستیاب و محفوظ ہے۔ صرف اسی وجہ سے بھی اردو کی بقا اور فلاح ہماری اولیں ترجیحات میں ہونی چاہئے۔تبصرے ضرور کیجئے اور اپنی مقدرت اوراستعداد بھر ان میں تفصیل،فکر اور درد مندی شامل حال رکھیں۔ آپ کی سوچی سمجھی دیانت دارانہ رائے سبھی کے لئے (خود آپ کے لئے بھی !) مفید ہے اور فال نیک کا حکم رکھتی ہے۔ تو پھر تکلف کیسا اور دیر کیوں ہو؟ بسم اللہ کیجئے اور لکھنا شروع کیجئے۔ انشا اللہ۔
آج کل محفل میں ظہیر صاحب کی غزل :تاریک دیاروں میں اُجالے کا پتا ہیں: پر جو گفتگو ہو رہی ہے وہ نہایت اہم ہے۔ کیا :پتا ہیں: اور :نگاہیں: میں :ہیں: کا مختلف تلفظ قابل قبول ہے اور :نگاہیں: غزل میں بطور قافیہ استعمال ہو سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب کا واحد ذمہ دار و مکلف ظہیر صاحب کو نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہم سب کو اس بارے میں امکانی حد تک سوچنے، تحقیق کرنے اور آپس میں تبادلہ ء خیال کی سخت ضرورت ہے۔ ہر شخص مصروف ہے (سوائے میرے کہ ملازمت سے سبکدوش ہوں ، بس گلی ڈنڈا کھیلنے کی کسر ضرور باقی ہے !)۔ جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے! یہ سوچ کر کیا بہتر نہیں ہوگا کہ آپ اورمیں سب سر جوڑ کر مسئلہ کا حل تلاش کریں؟ کیا عجب کہ اجتماعی کوشش سے گتھی جلد کھل جائے، گوہر مقصود ہاتھ آجائے اور سب کے لئے فلاح اور برکت کا باعث ہو! امید ہے میری یہ درخواست صدا بصحر ا نہیں ثابت ہوگی ۔ اگر مجھ سے کوئی گستاخی سرزد ہو گئی ہے تو معذرت خواہ ہوں۔ آئیے ہم سب اس نیک کام میں اپنی مقدرت بھر کوشش کریں۔ کوشش ہوگی تو توفیق بھی مل جائے گی۔ انشا اللہ۔
خاکسار: سرور عالم راز

 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
محترمی سرور صاحب ، مجموعی طور پر تو آپ کی بات درست ہے اور اس سے کلیتاً انکار ممکن نہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ اردو شاعری کی صورتحال کچھ اتنی مثبت اور تسلی بخش نہیں بلکہ مجموعی طور پر اردو زبان اور اہلِ اردو کے رجحانات بھی کچھ حوصلہ افزا نظر نہیں آتے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ راہ کی تمام مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود بہت سارے لوگ اپنی اپنی سطح پر کچھ نہ کچھ تعمیری کوششیں ضرور کرتے آئے ہیں اور کررہے ہیں ۔ ان کی حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے اور مجھے خوشی ہے کہ آپ نے بھی ایسا ہی محسوس کیااور اس کا اظہار کیا ۔ امید ہے کہ اب شعر سے وابستہ احباب محفل میں آپ کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس طرف توجہ دیں گے اور کچھ مثبت تعمیری گفتگو جنم لے گی۔ یہ بات درست ہے کہ آج کی دنیا میں ہر شخص مصروف ہے ۔ غور و فکر کرنا اور سنجیدگی سے تبصرے لکھنا وقت اور محنت طلب کام ہے ۔ سو یہ بات تو طے ہے کہ نقد و نظر کی سرگرمیاں ہمیشہ ہی سست رو اور خال خال رہیں گی ۔ لیکن کچھ نہ کچھ ہوتے رہنا بھی غنیمت ہے ۔
 
محترمی سرور صاحب ، مجموعی طور پر تو آپ کی بات درست ہے اور اس سے کلیتاً انکار ممکن نہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ اردو شاعری کی صورتحال کچھ اتنی مثبت اور تسلی بخش نہیں بلکہ مجموعی طور پر اردو زبان اور اہلِ اردو کے رجحانات بھی کچھ حوصلہ افزا نظر نہیں آتے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ راہ کی تمام مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود بہت سارے لوگ اپنی اپنی سطح پر کچھ نہ کچھ تعمیری کوششیں ضرور کرتے آئے ہیں اور کررہے ہیں ۔ ان کی حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے اور مجھے خوشی ہے کہ آپ نے بھی ایسا ہی محسوس کیااور اس کا اظہار کیا ۔ امید ہے کہ اب شعر سے وابستہ احباب محفل میں آپ کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس طرف توجہ دیں گے اور کچھ مثبت تعمیری گفتگو جنم لے گی۔ یہ بات درست ہے کہ آج کی دنیا میں ہر شخص مصروف ہے ۔ غور و فکر کرنا اور سنجیدگی سے تبصرے لکھنا وقت اور محنت طلب کام ہے ۔ سو یہ بات تو طے ہے کہ نقد و نظر کی سرگرمیاں ہمیشہ ہی سست رو اور خال خال رہیں گی ۔ لیکن کچھ نہ کچھ ہوتے رہنا بھی غنیمت ہے ۔
عزیز مکرم: جواب خط کا شکریہ۔ دنیا امیدپرقائم ہے سو تنقید اور حالات کی اصلاح بھی ہو جائے گی۔ ہر کام میں وقت لگتا ہے۔ سو اس میں بھی لگے گا۔ زندگی میں نشیب و فراز آتے ہی رہتے ہیں کہ یہی اس کا نظام ہے۔ بوجوہ ہم نشیب کا شکار زیادہ رہے ہیں۔دعائے خیر کے ساتھ بلکہ اس سے قبل دوا ہو تی رہےتو اچھا ہے۔ آپ جیسے لوگ موجود ہیں تو مایوسی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔انشااللہ۔
 
آج کل محفل میں ظہیر صاحب کی غزل :تاریک دیاروں میں اُجالے کا پتا ہیں: پر جو گفتگو ہو رہی ہے وہ نہایت اہم ہے۔ کیا :پتا ہیں: اور :نگاہیں: میں :ہیں: کا مختلف تلفظ قابل قبول ہے اور :نگاہیں: غزل میں بطور قافیہ استعمال ہو سکتا ہے؟
تکنیکی طور پر تو ایسا کرنا نادرست ہے کیونکہ ہیں میں یائے لین نامی مصوتہ واقع ہے اور نگاہیں میں یائے مجہول.
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں آوازیں جدید اردو میں ایک دوسرے میں ضم ہوتی جا رہی ہیں. جس طرح ق کی آواز ناپید ہو چکی ہے.

چند دن پہلے میں الطاف حسین کا ایک انٹرویو سن رہا تھا جو کہ اردو اہلِ زبان نامی جعلی تشخص کے سب سے بڑے علم بردار رہے ہیں اور وہ خود باوجود کوششِ بسیار ق کی آواز کو تمام الفاظ میں برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے تھے.​
 
اگر ایسا نہ ہوتا تو غالب جیسا عظیم شاعر اپنا پورا دیوان مومن کے اس ایک شعر پر نچھاور کرنے کے لئے کیوں کر تیار ہوتا؟
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا !​
غالب بلاوجہ احساسِ کمتری کا شکار تھے اور نواب مومن کو مالی امداد کی غرض سے خطوط بھی لکھتے تھے، اس لیں انھیں خوش کرنے کے لیے شاید ایسا کہا ہو ورنہ یہ شعر تو کچھ ایسا خاص بھی نہیں ہے.
 

صابرہ امین

لائبریرین
عزیز مکرم: جواب خط کا شکریہ۔ دنیا امیدپرقائم ہے سو تنقید اور حالات کی اصلاح بھی ہو جائے گی۔ ہر کام میں وقت لگتا ہے۔ سو اس میں بھی لگے گا۔ زندگی میں نشیب و فراز آتے ہی رہتے ہیں کہ یہی اس کا نظام ہے۔ بوجوہ ہم نشیب کا شکار زیادہ رہے ہیں۔دعائے خیر کے ساتھ بلکہ اس سے قبل دوا ہو تی رہےتو اچھا ہے۔ آپ جیسے لوگ موجود ہیں تو مایوسی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔انشااللہ۔
آداب محترمی، آپ کا مراسلہ پڑھ کر ایک امید کی کرن نظر آئی ہے کہ اردو کی ترقی و ترویج حوالے سے محفل میں گفتگو ہو گی۔ نا صرف گفتگو ہو گی بلکہ ہم جیسے لوگوں کی تعلیم و تربیت بھی ہو گی۔ استاذی ظہیر احمد ظہیر کا کہنا بجا ہے کہ وقت کی قلت کا اس دور میں شکار ہو جانا لوگوں کے لیے ایک معمولی سی بات ہے۔ ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی لوگ ایک دوسرے کے لیے وقت نہیں نکال سکتے۔ یہ بات اپنی جگہ ہے۔ مگر شاعری کا ناکافی علم بھی بہت سوں کو کچھ کہنے سے روک دیتا ہے۔ آپ سب لوگوں کی موجودگی یقینا تقویت کا باعث ہے۔ واقعی مایوسی کی ضرورت نہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تکنیکی طور پر تو ایسا کرنا نادرست ہے کیونکہ ہیں میں یائے لین نامی مصوتہ واقع ہے اور نگاہیں میں یائے مجہول.
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں آوازیں جدید اردو میں ایک دوسرے میں ضم ہوتی جا رہی ہیں. جس طرح ق کی آواز ناپید ہو چکی ہے.
ریحان ، اس بارے میں میرا بھی یہی موقف رہا ہے ۔ قافیے کے برعکس ردیف کی تکرار ملفوظی اور مکتوبی دونوں طرح سے بلا تغیر ہونا ضروری ہے ۔ چنانچہ ایک ہی غزل میں یائے مجہول و یائے لین کا اختلاط روایتی طور پر جائز نہیں ۔ لیکن نگاہیں اور صدا ہیں کی ردیف میں ملفوظی فرق اتنا خفیف ہے کہ اس معمولی سقم کو روا رکھتے ہوئے میں نے اپنا شعر قائم رکھا ۔ اس بارے میں میرا تفصیلی مراسلہ مذکورہ غزل کے دھاگے میں یہاں موجود ہے ۔ میں ذاتی طور پر قافیہ ردیف میں کشادگی کا قائل ہوں تاکہ اظہار کی راہ میں حائل پابندیاں کچھ تو نرم ہوں ۔ اس ضمن میں میں نے کئی تجربات بھی کیے ہیں جو اس محفل کے صفحات پر شاید آپ کی نظر سے بھی گزرے ہوں ۔ اب یہ تجربات اعتبار پاتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا ۔ ہمار اکام تو اپنے موقف کو پیش کرنا اور اس کے لیے کام کرنا ہے ۔
جہاں تک اس حقیقت کا تعلق ہے کہ کئی عربی حروف اردو دنیا میں آکر اپنا منفرد تلفظ کھو بیٹھے ہیں اور ہر خاص و عام انہیں ایک ہی مخرج سے ادا کرتا ہے تو اس بارے میں کوئی شک ہی نہیں ۔ اور یہی حقیقت صوتی قافیے کی بنیاد ہے ۔ میں آغاز اور الفاظ کو ہم قافیہ سمجھتا ہوں ۔
ویسے نگاہیں اور صدا ہیں کا تلفظ ابھی تک بالکل ہی ایک نہیں ہوا ہے ۔ ان کی ادائیگی میں اب بھی معمولی سا فرق موجود ہے اور یہی فرق وجہِ بحث ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
چند دن پہلے میں الطاف حسین کا ایک انٹرویو سن رہا تھا جو کہ اردو اہلِ زبان نامی جعلی تشخص کے سب سے بڑے علم بردار رہے ہیں اور وہ خود باوجود کوششِ بسیار ق کی آواز کو تمام الفاظ میں برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے تھے.
اگر آپ سیاسی لیڈر الطاف حسین کی بات کررہے ہیں تو یہ شخص کبھی بھی اردو زبان کا دعویدار نہیں رہا اور نہ اسے ایسا سمجھاجاتا ہے۔ اس آدمی نے ایک سیاسی تنظیم مہاجر موومنٹ قائم کی تھی ۔ اردو کے لیے اس کی کسی خدمت سے کم از کم میں واقف نہیں ہوں ۔ ویسے بھی اردو صرف مہاجروں کی زبان نہیں ہے ۔ اردو دنیا کے ہر خطے میں کسی نہ کسی پیمانے پر مستعمل ہے اور اسے کسی ایک خاص مذہب ، علاقے یا گروہ سے منسوب نہیں کیا جاسکتا۔
ریحان ، اردو اہلِ زبان نامی جعلی تشخص سے آپ کی کیا مراد ہے ، میں نہیں سمجھ سکا ۔ اگر مناسب سمجھیں تو اس کی وضاحت فرمائیں اور میرے علم میں اضافہ فرمائیں ۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
غالب بلاوجہ احساسِ کمتری کا شکار تھے اور نواب مومن کو مالی امداد کی غرض سے خطوط بھی لکھتے تھے، اس لیں انھیں خوش کرنے کے لیے شاید ایسا کہا ہو ورنہ یہ شعر تو کچھ ایسا خاص بھی نہیں ہے.
محمد ریحان قریشی ، آپ کا یہ مراسلہ باعثِ حیرت ہوا ۔
مومن خان مومنؔ نہ تو نواب تھے اور نہ ہی نوابزادے ۔ طبابت کرتے تھے اور حکیم مومنؔ کے نام سے بھی مشہور ہیں ۔ یہ غالب کے شہر دہلی ہی میں رہتے تھے اور ان کا گزر بسر بھی غالب کی طرح پنشن پر تھا ۔ یہ قطعی طور پر امیر کبیر نہیں تھے ۔غالبؔ کے خطوط اور ان سے متعلق کئی تحریریں کئی بار میری نظر سے گزری ہیں لیکن مجھے یاد نہیں کہ غالب نے کبھی مومن کو کسی بھی قسم کا کوئی خط لکھا ہو( چہ جائیکہ مالی امداد کی غرض سے)۔ اگر آپ کے علم میں ایسا کچھ ہو تو میں اس کا حوالہ ضرور جاننا چاہوں گا ۔
جہاں تک مومنؔ کے شعر کا تعلق ہے تو اس بارے میں آپ جانتے ہی ہیں کہ کسی بھی شعر کی پسند ناپسند میں شعری ذوق کے علاوہ قاری یا سامع کی طبیعت ، فکری رجحان ،زندگی کے تجربات اور کئی دیگر عوامل کارفرما ہوتے ہیں ۔ جس شعر پر میں سر دھنتا ہوں ضروری نہیں کہ آپ کو بھی پسند آجائے ۔ اس لیے یہ کہنا کہ مومن کا یہ شعر کوئی ایسا خاص بھی نہیں آپ کے نقطۂ نظر سے تو درست ہوسکتا ہے لیکن عین ممکن ہے کہ غالب کے لیے یہ شعر واقعی الہامی درجہ رکھتا ہو ۔ شعر ، موسیقی ، آرٹ وغیرہ میں تو ہر شخص کی پسند ناپسند الگ الگ ہوسکتی ہے اور ہوتی ہے۔
 
محمد ریحان قریشی ، آپ کا یہ مراسلہ باعثِ حیرت ہوا ۔
مومن خان مومنؔ نہ تو نواب تھے اور نہ ہی نوابزادے ۔ طبابت کرتے تھے اور حکیم مومنؔ کے نام سے بھی مشہور ہیں ۔ یہ غالب کے شہر دہلی ہی میں رہتے تھے اور ان کا گزر بسر بھی غالب کی طرح پنشن پر تھا ۔ یہ قطعی طور پر امیر کبیر نہیں تھے ۔غالبؔ کے خطوط اور ان سے متعلق کئی تحریریں کئی بار میری نظر سے گزری ہیں لیکن مجھے یاد نہیں کہ غالب نے کبھی مومن کو کسی بھی قسم کا کوئی خط لکھا ہو( چہ جائیکہ مالی امداد کی غرض سے)۔ اگر آپ کے علم میں ایسا کچھ ہو تو میں اس کا حوالہ ضرور جاننا چاہوں گا ۔
جہاں تک مومنؔ کے شعر کا تعلق ہے تو اس بارے میں آپ جانتے ہی ہیں کہ کسی بھی شعر کی پسند ناپسند میں شعری ذوق کے علاوہ قاری یا سامع کی طبیعت ، فکری رجحان ،زندگی کے تجربات اور کئی دیگر عوامل کارفرما ہوتے ہیں ۔ جس شعر پر میں سر دھنتا ہوں ضروری نہیں کہ آپ کو بھی پسند آجائے ۔ اس لیے یہ کہنا کہ مومن کا یہ شعر کوئی ایسا خاص بھی نہیں آپ کے نقطۂ نظر سے تو درست ہوسکتا ہے لیکن عین ممکن ہے کہ غالب کے لیے یہ شعر واقعی الہامی درجہ رکھتا ہو ۔ شعر ، موسیقی ، آرٹ وغیرہ میں تو ہر شخص کی پسند ناپسند الگ الگ ہوسکتی ہے اور ہوتی ہے۔
مکرمی ظہیر صاحب: آپ کا خط دیکھا اتو اطمینان کی ایک لمبی سانس لی۔ ریحان صاحب کا خط پڑھ کر میں حیران و مضطرب تھا کہ ان کو کیا لکھوں اورکیسے لکھوں۔محفل میں ویسے ہی نو وارد ہوں اوراحتیاط کرتا ہوں کہ کوئی بات ایسی نہ لکھ جائوں جوکسی کی دل آزاری کا باعث ہو، آپ نے وہ لکھ دیا جو میرے دل میں تھا۔ ریحان صاحب کا ذوق سخن کیسا ہی ہو لیکن اتنا ضرور ہے کہ مومن کا شعر سمجھنے میں ان سے کوتاہی ہوئی ہے۔ اللہ بس باقی ہوس۔

سرور راز سرور
ا
 
محمد ریحان قریشی ، آپ کا یہ مراسلہ باعثِ حیرت ہوا ۔
مومن خان مومنؔ نہ تو نواب تھے اور نہ ہی نوابزادے ۔ طبابت کرتے تھے اور حکیم مومنؔ کے نام سے بھی مشہور ہیں ۔ یہ غالب کے شہر دہلی ہی میں رہتے تھے اور ان کا گزر بسر بھی غالب کی طرح پنشن پر تھا ۔ یہ قطعی طور پر امیر کبیر نہیں تھے ۔غالبؔ کے خطوط اور ان سے متعلق کئی تحریریں کئی بار میری نظر سے گزری ہیں لیکن مجھے یاد نہیں کہ غالب نے کبھی مومن کو کسی بھی قسم کا کوئی خط لکھا ہو( چہ جائیکہ مالی امداد کی غرض سے)۔ اگر آپ کے علم میں ایسا کچھ ہو تو میں اس کا حوالہ ضرور جاننا چاہوں گا ۔
جہاں تک مومنؔ کے شعر کا تعلق ہے تو اس بارے میں آپ جانتے ہی ہیں کہ کسی بھی شعر کی پسند ناپسند میں شعری ذوق کے علاوہ قاری یا سامع کی طبیعت ، فکری رجحان ،زندگی کے تجربات اور کئی دیگر عوامل کارفرما ہوتے ہیں ۔ جس شعر پر میں سر دھنتا ہوں ضروری نہیں کہ آپ کو بھی پسند آجائے ۔ اس لیے یہ کہنا کہ مومن کا یہ شعر کوئی ایسا خاص بھی نہیں آپ کے نقطۂ نظر سے تو درست ہوسکتا ہے لیکن عین ممکن ہے کہ غالب کے لیے یہ شعر واقعی الہامی درجہ رکھتا ہو ۔ شعر ، موسیقی ، آرٹ وغیرہ میں تو ہر شخص کی پسند ناپسند الگ الگ ہوسکتی ہے اور ہوتی ہے۔
ایک فارسی مکتوب میری نظر سے گزرا تھا لیکن اب تلاش کرنے پر نہیں مل رہا. خیر یہ تبصرہ لائٹر نوٹ پر تھا. مجھے یہ بات عجیب لگتی ہے کہ لوگ بس ایک شعر کو غالب کے پورے دیوان سے بہتر کہتے ہیں.
غالب کے احساسِ کمتری کا تو سب کو ہی علم ہے. اس وقت کے ناقدین بھی انھیں کچھ خاص پسند کرتے نہیں تھے. وہ خود کہتے ہیں

بگذر از مجموعۂ اردو کہ بے رنگِ منست

میرے اردو مجموعے کو چھوڑو کہ وہ تو بے رنگ ہے.
 

زیک

مسافر
یہاں آج غزل کے حوالے سے کچھ عرض ہےکہ یہ میری پسندیدہ صنف سخن ہے اور محفل میں اچھے غزل گو خاصی تعداد میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ نہایت فعال ہیں اور غزل کی قابل رشک پذیرائی کر رہے ہیں۔
اگر اردو زبان میں ابھی کچھ باقی ہے تو وہ شاعری اور خاص طور پر غزل ہی ہے۔ میں یہاں اردو محفل میں شاعری والے زمروں سے اکثر دور ہی رہتا ہوں کہ میری رائے اس سلسلے میں مبتدی کی حیثیت بھی نہیں رکھتی۔ چونکہ یہ لڑی نثر کے زمرے میں تھی لہٰذا نظر آ گئی۔

بہرحال کہنا یہ تھا کہ اردو نثر کی صورتحال شاعری کی نسبت مجھے کافی بدتر لگتی ہے۔ اس میں زندگی کے بیشتر مضامین پر کوئی نہیں لکھ رہا اور فکشن میں بھی تجربات و اصناف کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ کیا میرا یہ تاثر آپ کی نظر میں درست ہے؟

نوٹ: بیشتر عمر اردو سے انتہائی کم تعلق کی بدولت میرا یہ حال ہو چکا ہے کہ اردو لکھتے وقت انگریزی اردو لغت کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
غالب کے احساسِ کمتری کا تو سب کو ہی علم ہے. اس وقت کے ناقدین بھی انھیں کچھ خاص پسند کرتے نہیں تھے. وہ خود کہتے ہیں
غالب کوان کے وقت کے ناقدین جو بھی سمجھتے ہوں تاریخ نے جو مقام غالب کو دیا وہ بلا وجہ یا اتفاقیہ نہیں ۔
غالب کا احساس کمتری غالب کےااحساس برتری سے زیادہ نہیں ۔ مرزا جیسی بلند فکر والے شخص کے لیے کوئی کمتری یا برتری ایک شاعرانہ مضمون آفرینی کے میدان سے زیادہ نہین۔
دیکھیو غالب سے گر الجھا کوئی۔
۔۔۔
حیرت ہے غالب اور احساس کمتری سے کیا مراد ہوسکتی ہے۔ ۔۔!!!
الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایک فارسی مکتوب میری نظر سے گزرا تھا لیکن اب تلاش کرنے پر نہیں مل رہا. خیر یہ تبصرہ لائٹر نوٹ پر تھا. مجھے یہ بات عجیب لگتی ہے کہ لوگ بس ایک شعر کو غالب کے پورے دیوان سے بہتر کہتے ہیں.
ریحان بھائی ، میں انتہائی ادب کے ساتھ آپ سے اختلاف کروں گا ۔ میرے مطالعے کی حد تک کسی نے بھی کہیں یہ بات نہیں لکھی ہے کہ مومؔن کا محولہ بالا شعر غالبؔ کے پورے دیوان سے بہتر ہے۔ اردو شعر کا مذاق رکھنے والا کوئی بھی ذی شعور ایسا تبصرہ کر بھی کس طرح کر سکتا ہے۔ بات یہ ہے کہ غالؔب نے یہ شعر سن کر اپنے مصاحبین سے جب یہ کہا تھا کہ مومؔن میرا پورا دیوان لے لیں اور مجھے یہ شعر دے دیں تو دراصل یہ داد دینے کا ایک انداز تھا اور یہ بتانا مقصود تھا کہ انہیں یہ شعر بے حد پسند آیا۔ اس شعر پر غالؔب کے اس تبصرے سے نہ تو غالؔب کی شاعرانہ عظمت میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے اور نہ ہی مومؔن کا شاعرانہ مقام بلند تر ہوجاتا ہے ۔ دونوں اپنی اپنی جگہ ہیں ۔ اردو شعر میں غالؔب کا ہمسر نہ تو پیدا ہوا ہے اور نہ شاید کبھی ہوسکے گا۔ غالؔب کے اس تبصرے سے البتہ یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ داد و تحسین کے معاملے میں وہ کس قدر فراخ دل تھے اور اپنے ہم عصروں سے کس طرح پیش آتے تھے ۔
جہاں تک مومن کے مذکورہ شعر کی بات ہے تو میری ناقص رائے میں یہ شعر بہت اچھا ہے ۔ نہ صرف خیال کے اعتبار سے بلند ہے بلکہ اپنی جامعیت ، سادگی ، سلاست اور انتخابِ لفظی کے اعتبار سے بھی اعلیٰ ہے۔ تنقید نگاروں کو جب سہلِ ممتنع کی مثال دینا ہوتی ہے تو اکثر اسی شعر کو پیش کرتے ہیں۔ نیز یہ کہ عشقِ مجازی ہو یا عشقِ حقیقی دونوں ہی کے قتیل اکثر اس شعر پر سر دھنتے نظر آتے ہیں۔ لیکن آخری بات پھر وہی ہے کہ شعر کے معاملے میں ہر آدمی کی پسند ناپسند مختلف ہوسکتی ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مکرمی ظہیر صاحب: آپ کا خط دیکھا اتو اطمینان کی ایک لمبی سانس لی۔ ریحان صاحب کا خط پڑھ کر میں حیران و مضطرب تھا کہ ان کو کیا لکھوں اورکیسے لکھوں۔محفل میں ویسے ہی نو وارد ہوں اوراحتیاط کرتا ہوں کہ کوئی بات ایسی نہ لکھ جائوں جوکسی کی دل آزاری کا باعث ہو، آپ نے وہ لکھ دیا جو میرے دل میں تھا۔ ریحان صاحب کا ذوق سخن کیسا ہی ہو لیکن اتنا ضرور ہے کہ مومن کا شعر سمجھنے میں ان سے کوتاہی ہوئی ہے۔ اللہ بس باقی ہوس۔

سرور راز سرور
ا
سرور بھائی ، الحمدللہ اس محفل کا ماحول مجموعی طور پر بہت دوستانہ اور علم پرور ہے ۔ سو آپ بلا تردد جو چاہیں لکھیے ۔ اول تو آپ کے قلم سے کسی ناگوار بات کا صادر ہونا محال ہے دوسرے یہ کہ شعر و ادب کے دھاگوں میں آنے والے احباب بہت کشادہ دل اور علم دوست طبیعت کے مالک ہیں ۔ آپ کا مرتبہ سمجھتے ہیں اور اساتذہ کی عزت کرنا جانتے ہیں۔ چنانچہ آپ کسی قسم کی فکر نہ کریں۔
 

ارشد رشید

محفلین
ریحان ، اس بارے میں میرا بھی یہی موقف رہا ہے ۔ قافیے کے برعکس ردیف کی تکرار ملفوظی اور مکتوبی دونوں طرح سے بلا تغیر ہونا ضروری ہے ۔ چنانچہ ایک ہی غزل میں یائے مجہول و یائے لین کا اختلاط روایتی طور پر جائز نہیں ۔ لیکن نگاہیں اور صدا ہیں کی ردیف میں ملفوظی فرق اتنا خفیف ہے کہ اس معمولی سقم کو روا رکھتے ہوئے میں نے اپنا شعر قائم رکھا ۔ اس بارے میں میرا تفصیلی مراسلہ مذکورہ غزل کے دھاگے میں یہاں موجود ہے ۔ میں ذاتی طور پر قافیہ ردیف میں کشادگی کا قائل ہوں تاکہ اظہار کی راہ میں حائل پابندیاں کچھ تو نرم ہوں ۔ اس ضمن میں میں نے کئی تجربات بھی کیے ہیں جو اس محفل کے صفحات پر شاید آپ کی نظر سے بھی گزرے ہوں ۔ اب یہ تجربات اعتبار پاتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا ۔ ہمار اکام تو اپنے موقف کو پیش کرنا اور اس کے لیے کام کرنا ہے ۔
جہاں تک اس حقیقت کا تعلق ہے کہ کئی عربی حروف اردو دنیا میں آکر اپنا منفرد تلفظ کھو بیٹھے ہیں اور ہر خاص و عام انہیں ایک ہی مخرج سے ادا کرتا ہے تو اس بارے میں کوئی شک ہی نہیں ۔ اور یہی حقیقت صوتی قافیے کی بنیاد ہے ۔ میں آغاز اور الفاظ کو ہم قافیہ سمجھتا ہوں ۔
ویسے نگاہیں اور صدا ہیں کا تلفظ ابھی تک بالکل ہی ایک نہیں ہوا ہے ۔ ان کی ادائیگی میں اب بھی معمولی سا فرق موجود ہے اور یہی فرق وجہِ بحث ہے۔
جناب ظہیر صاحب - میں اس محفل میں نووارد ہوں اور ابھی بھی ایک دھاگے سے دوسرے دھاگے تک کے گنجلکوں میں الجھا ہوا ہوں - میں آپ کے اس اقتباس اور اس میں دی گئی لڑی اور اس میں دی گئ لڑی وغیرہ وغیرہ سے کسی نتیجے پہ نہیں پہنچ سکا۔ تو اس لیئے جو میں لکھ رہا ہوں ہو سکتا وہ آپ کا مقصد نہ رہا ہو-
اگر ہم اپنے ذاتی احساسات کی بنیاد پر شاعری باالخصوص غزل کے قواعد میں تبدیلیوں کو روا سمجھنے لگیں جیسے کہ آپ نے لکھا آپ قافیئے اور ردیف میں کشادگی کے قائل ہیں یا یہ کہ آپ صوتی قافیہ کو جائز سمجھتے ہیں جیسے کہ آغاز اور الفاظ تو میرا آپ سے سوال ہے کہ پھر اس کی حد کہاں ہوگی - کل کو کوئی یہ بھی کہ سکتا ہے کہ اگر سننے میں وزن کی کمی بیشی کا اندازہ نہ ہوتا ہو تو شاعر کسی یک حرفی لفظ کو دو حرفی بھی باندھ سکتا ہے جیسے لفظ نہ کو ٰ ناٰ بھی کر سکتا ہے - آخری رکن میں ایک حرف کم بھی پڑ رہا ہو تو چونکہ سننے میں پتہ نہیں چلتا لہٰذا وہ بھی جائز ہونا چاہیئے - اور بالکل اسی طرح آپ کے دیئے ہوئے صوتی قافیے تو پھر بھی الگ مطلب رکھتے ہیں کوئ زہر اور ظہر کو ہم قافیہ کر سکتا ہے کوئی اثر اور عصر کو ہم قافیہ باندھ سکتا ہے اور کوئ عرض اور ارض کو ہم قافیہ باندھ سکتا ہے - الغرض اردو شاعری کی شکل ہی بدل جائیگی -
میں نے تو ایسے شاعر بھی دیکھے ہیں جو وزن کی پابندیوں کو بھی اظہار کی آزادی میں رکاوٹ سمجھتے ہیں - تو ذرا سوچیئے کہ پھر بات کہاں جا کر ٹھہرے گی -
میری دانست میں ان روایتوں اور قواعد و اصولین کی پابندی میں رہ کر ہی بات کہنا شاعری کا حسن ہے - غالب جیسا فلسفی شاعر بھی انہی بندشوں کے باوجود سب کچھ کہہ گیا - تو یہ کہنا کہ یہ پابندیاں کچھ نرم ہونی چاہیئے محض سہل طلبی ہے -
کسی گستاخی کی صورت میں پیشگی معذرت -
 

جاسمن

لائبریرین
ریحان ، اس بارے میں میرا بھی یہی موقف رہا ہے ۔ قافیے کے برعکس ردیف کی تکرار ملفوظی اور مکتوبی دونوں طرح سے بلا تغیر ہونا ضروری ہے ۔ چنانچہ ایک ہی غزل میں یائے مجہول و یائے لین کا اختلاط روایتی طور پر جائز نہیں ۔ لیکن نگاہیں اور صدا ہیں کی ردیف میں ملفوظی فرق اتنا خفیف ہے کہ اس معمولی سقم کو روا رکھتے ہوئے میں نے اپنا شعر قائم رکھا ۔ اس بارے میں میرا تفصیلی مراسلہ مذکورہ غزل کے دھاگے میں یہاں موجود ہے ۔ میں ذاتی طور پر قافیہ ردیف میں کشادگی کا قائل ہوں تاکہ اظہار کی راہ میں حائل پابندیاں کچھ تو نرم ہوں ۔ اس ضمن میں میں نے کئی تجربات بھی کیے ہیں جو اس محفل کے صفحات پر شاید آپ کی نظر سے بھی گزرے ہوں ۔ اب یہ تجربات اعتبار پاتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا ۔ ہمار اکام تو اپنے موقف کو پیش کرنا اور اس کے لیے کام کرنا ہے ۔
جہاں تک اس حقیقت کا تعلق ہے کہ کئی عربی حروف اردو دنیا میں آکر اپنا منفرد تلفظ کھو بیٹھے ہیں اور ہر خاص و عام انہیں ایک ہی مخرج سے ادا کرتا ہے تو اس بارے میں کوئی شک ہی نہیں ۔ اور یہی حقیقت صوتی قافیے کی بنیاد ہے ۔ میں آغاز اور الفاظ کو ہم قافیہ سمجھتا ہوں ۔
ویسے نگاہیں اور صدا ہیں کا تلفظ ابھی تک بالکل ہی ایک نہیں ہوا ہے ۔ ان کی ادائیگی میں اب بھی معمولی سا فرق موجود ہے اور یہی فرق وجہِ بحث ہے۔
جی ہاں ۔ نگاہیں۔۔۔ کی "ہیں" اور صدا ہیں۔۔۔ کی "ہیں" میں کچھ صوتی فرق ہے ۔:)
 
آپ صوتی قافیہ کو جائز سمجھتے ہیں جیسے کہ آغاز اور الفاظ تو میرا آپ سے سوال ہے کہ پھر اس کی حد کہاں ہوگی
اس کی حد (ز، ظ، ذ،ض) ، (س، ص، ث) اور (ت،ط) تک ہی ہے کہ ان کی آوازوں کی انفرادیت اردو میں مطلقا ختم ہو چکی ہے. ع اور ق اب بھی کسی حد تک اپنی اصل آوازیں برقرار رکھے ہوئے ہیں، بلکہ ق کا اہتمام تو اردو والے خود اہل عرب سے بھی زیادہ کرتے ہیں.

کوئ زہر اور ظہر کو ہم قافیہ کر سکتا ہے
یہ قافیہ بہر صورت غلط ہوگا، یہاں صرف حروف کی آوازوں کا نہیں، حرکات کا بھی مسئلہ ہے.
کل کو کوئی یہ بھی کہ سکتا ہے کہ اگر سننے میں وزن کی کمی بیشی کا اندازہ نہ ہوتا ہو تو شاعر کسی یک حرفی لفظ کو دو حرفی بھی باندھ سکتا ہے جیسے لفظ نہ کو ٰ ناٰ بھی کر سکتا ہے
یہ تو پہلے ہی ایک معرکتہ الآرا مسئلہ ہے. اردو شاعری میں اصول و ضوابط طے کرنے کا کوئی مرکزی ادارہ تو ہے نہیں، سو جس روش کو اساتذہ نے روا رکھا اسی کو معیار بنایا جاتا ہے. آوازوں کی مقدار میں اپنی طرف سے کمی بیشی کو علمائے عروض نے جائز قرار نہیں دیا، اس لیے تاحال ایسا کرنے کو معیوب ہی سمجھا جاتا ہے. تاہم اس کا مطلب یہ نہیں متاخرین کا حق اجتہاد ختم ہو گیا. کوئی چاہے تو ایسا کر بھی سکتا ہے، ہاں قبول عام نصیب ہونا الگ بات ہے. جب تک ادبا کی اکثریت کا علمائے عروض کی آراء پر اجماع رہے گا، اس قسم کے اجتہادات کو زیادہ سے زیادہ اجتہادی غلطی سے ہی تعبیر کیا جائے گا.

میں نے تو ایسے شاعر بھی دیکھے ہیں جو وزن کی پابندیوں کو بھی اظہار کی آزادی میں رکاوٹ سمجھتے ہیں - تو ذرا سوچیئے کہ پھر بات کہاں جا کر ٹھہرے گی -
یہ بحث بھی اب پرانی ہو چکی. میری اور آپ کی ناپسندیدگی کے باوجود "نثری شاعری"نہ صرف ہو رہی ہے، بلکہ دھڑلے سے ہو رہی ہے. مگر چالیس پچاس سال پر محیط اس مشق میں میر و غالب کے بال برابر پذیرائی بھی کسی کو میسر کیوں نہ آ سکی، یہ الگ بات ہے اور اسی سے کم از کم مجھے تو اطمینان رہتا ہے کہ "روایتی شاعری" کا مستقبل، مستقبل قریب کی حد تک محفوظ ہے.
 
Top