رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف

ارشد رشید

محفلین
آپ نے بہت اچھے جوابات دیئے - اور اس سے میرے مسلک کی تائید ہوتی ہے کہ اس طرح کے تجربے کرنا ناپسندیدہ ہی رہا ہے اور رہے گا اور انکو آج تک پذیرائی نہیں ملی ہے اور یہ بات خوش آئند ہے -
البتہ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ ز ذ اور ض وغیرہ کی حد تک یہ روا ہو سکتا ہے کیونکہ پھر اس طرح لفظ کی شکل ہی بدل جاتی ہے - آپ اگر غور کیجیئے تو ان لفظوں کی ادائیگئ میں آج بھی معمولی سا ہی سہی مگر فرق رکھا جا تا ہے - زُمرہ کہیں تو ز کی آواز زیادہ سیٹی کے ساتھ نکلتی ہے مگر ذمی کہیں تو کم -
 

ارشد رشید

محفلین

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کیا یہ مصرعہ غالب نے استاد ابراھیم ذوق پر چوٹ کے لیے نہیں کہا تھا؟
نبیل بھائی ، میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ غاؔلب نے اپنے کئی اشعار میں استاد ذوؔق پر چوٹیں کی ہیں لیکن یہ شعر ان میں سے نہیں ہے ۔ غالب نے اس شعر میں اپنی اردو شاعری کو جو بے رنگ کہا ہے وہ دراصل اپنے فارسی کلام پر اظہارِفخر کا ایک انداز ہے ۔ پورا شعر یوں ہے:
فارسی بیں تا ببینی نقش ہائے رنگ رنگ
بگذر از مجموعۂ اردو کہ بے رنگِ من است
یہ بات تاریخی طور پر درست ہے اور غاؔلب کے سوانح نگاروں نے اسے وضاحت سے بیان بھی کیا ہے کہ پچیس تیس سال کی عمر کے بعد غالب نے شعر اور نثر دونوں میں فارسی کو اپنا بنیادی ذریعۂ اظہار بنالیا تھا ۔ اردو شاعری مشاعروں وغیرہ کے لیے کرتے تھے ۔ نثری تصنیفات تو تقریباً تمام کی تما م فارسی ہی میں ہیں۔ اكثر نقادوں كا خیال هے كه غالب بنیادی طور پر فارسی كے شاعر تھے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اس کی حد (ز، ظ، ذ،ض) ، (س، ص، ث) اور (ت،ط) تک ہی ہے کہ ان کی آوازوں کی انفرادیت اردو میں مطلقا ختم ہو چکی ہے. ع اور ق اب بھی کسی حد تک اپنی اصل آوازیں برقرار رکھے ہوئے ہیں، بلکہ ق کا اہتمام تو اردو والے خود اہل عرب سے بھی زیادہ کرتے ہیں.


یہ قافیہ بہر صورت غلط ہوگا، یہاں صرف حروف کی آوازوں کا نہیں، حرکات کا بھی مسئلہ ہے.

یہ تو پہلے ہی ایک معرکتہ الآرا مسئلہ ہے. اردو شاعری میں اصول و ضوابط طے کرنے کا کوئی مرکزی ادارہ تو ہے نہیں، سو جس روش کو اساتذہ نے روا رکھا اسی کو معیار بنایا جاتا ہے. آوازوں کی مقدار میں اپنی طرف سے کمی بیشی کو علمائے عروض نے جائز قرار نہیں دیا، اس لیے تاحال ایسا کرنے کو معیوب ہی سمجھا جاتا ہے. تاہم اس کا مطلب یہ نہیں متاخرین کا حق اجتہاد ختم ہو گیا. کوئی چاہے تو ایسا کر بھی سکتا ہے، ہاں قبول عام نصیب ہونا الگ بات ہے. جب تک ادبا کی اکثریت کا علمائے عروض کی آراء پر اجماع رہے گا، اس قسم کے اجتہادات کو زیادہ سے زیادہ اجتہادی غلطی سے ہی تعبیر کیا جائے گا.


یہ بحث بھی اب پرانی ہو چکی. میری اور آپ کی ناپسندیدگی کے باوجود "نثری شاعری"نہ صرف ہو رہی ہے، بلکہ دھڑلے سے ہو رہی ہے. مگر چالیس پچاس سال پر محیط اس مشق میں میر و غالب کے بال برابر پذیرائی بھی کسی کو میسر کیوں نہ آ سکی، یہ الگ بات ہے اور اسی سے کم از کم مجھے تو اطمینان رہتا ہے کہ "روایتی شاعری" کا مستقبل، مستقبل قریب کی حد تک محفوظ ہے.
راحلؔ بھائی ، ارقادری صاحب کے سوالات کا جامع اور شافی جواب دینے کے لیے آپ کا بہت بہت شکریہ!
اتنے سارے مختلف النوع سوالات جو ارقادری صاحب نے ایک ہی مراسلے میں اٹھائے ہیں ان پر وقتاً فوقتاً پچھلے چھ سات سالوں میں کئی دھاگوں میں ایک سے زیادہ مرتبہ بات ہوچکی ہے۔ میں تو سوچ رہا تھا کہ ارقادری صاحب کو مشورہ دوں کہ اگر وہ جوابات میں دلچسپی رکھتے ہوں تو ان دھاگوں کوتلاش کر لیں ۔ذرا محنت تو ہوگی لیکن انہیں بہت کچھ پڑھنے کو مل جائے گا۔ محفل کا سافٹویئر اپگریڈ ہوا تو میرے تمام بک مارک غائب ہوگئے ورنہ میں نشاندہی کردیتا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آپ نے بہت اچھے جوابات دیئے - اور اس سے میرے مسلک کی تائید ہوتی ہے کہ اس طرح کے تجربے کرنا ناپسندیدہ ہی رہا ہے اور رہے گا اور انکو آج تک پذیرائی نہیں ملی ہے اور یہ بات خوش آئند ہے -
البتہ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ ز ذ اور ض وغیرہ کی حد تک یہ روا ہو سکتا ہے کیونکہ پھر اس طرح لفظ کی شکل ہی بدل جاتی ہے - آپ اگر غور کیجیئے تو ان لفظوں کی ادائیگئ میں آج بھی معمولی سا ہی سہی مگر فرق رکھا جا تا ہے - زُمرہ کہیں تو ز کی آواز زیادہ سیٹی کے ساتھ نکلتی ہے مگر ذمی کہیں تو کم -

ان سے زیادہ مماثلت تو الف اور عین میں ہے اور اسکا فرق تو اردو بولنے والے اور بھی کم کرتے ہیں - مگر یہ کلیہ ہو تو پھر شاعر عام کو بھی آم ہی لکھنا شروع کریں گے بلکہ انڈیا میں تو ایسا ہو بھی رہا ہے -
ارقادری صاحب ، سب سے پہلے تو بزمِ سخن میں خوش آمدید! امید ہے کہ آپ تادیر رونق افروز رہیں گے ۔
شعر و ادب کے موضوعات پر گفتگو دراصل تبادلۂ خیالات کا نام ہے ۔ اپنے موقف کی وضاحت کرنا اور اس کی حمایت میں دلائل پیش کرنا ہر ایک کا حق ہے ۔ مخالف کے نقطۂ نظر کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا ایک الگ بات ہے اور ظاہر ہے کہ اس میں کوئی زور زبردستی نہیں ۔ آپ کے مراسلات کو پڑھنے کے بعد میری مؤدبانہ درخواست یہ ہے کہ آپ کچھ دن محفل کے پرانے دھاگے کھنگال لیں ۔ ان موضوعات پر بہت کچھ کئی مرتبہ لکھا جاچکا ہے اس کا اعادہ وقت کا ضیاع ہی ہے ۔ اور بدقسمتی سے وقت کی ہر شخص کے پاس قلت ہے۔ الف اور عین کے مسئلے پر میں نے پہلے بھی یہاں لکھا ہے۔ محترم سرورؔ عالم راز کی ویبگاہ پر ان کا ایک تحقیقی مضمون اسی مسئلے پر موجود ہے اسے دیکھ لیجیے۔ ویبگاہ کا پتہ میں نے دو ہفتے پہلے ان کے تعارفی دھاگے میں دیا ہے۔

ارقادری صاحب ، آخر میں ڈرتے ڈرتے ایک بات عرض کروں گا کہ اردو سے محبت کا تقاضا ہے آپ اپنا نام اردو میں لکھیں۔ ویسے مجھے ان لوگوں سے ادبی موضوعات پر بات کرتے ہوئے بہت جھجک بلکہ الجھن ہوتی ہے کہ نہ تو جن کا نام معلوم ہو اور نہ ان کا ادبی پس منظر ۔ امید ہے کہ آپ اپنے نام ، ادبی سرگرمیوں اور اس کےکچھ پس منظر سے تعارف کا شرف ضرور بخشیں گے۔:):):)
 

ارشد رشید

محفلین
ارقادری صاحب ، سب سے پہلے تو بزمِ سخن میں خوش آمدید! امید ہے کہ آپ تادیر رونق افروز رہیں گے ۔
شعر و ادب کے موضوعات پر گفتگو دراصل تبادلۂ خیالات کا نام ہے ۔ اپنے موقف کی وضاحت کرنا اور اس کی حمایت میں دلائل پیش کرنا ہر ایک کا حق ہے ۔ مخالف کے نقطۂ نظر کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا ایک الگ بات ہے اور ظاہر ہے کہ اس میں کوئی زور زبردستی نہیں ۔ آپ کے مراسلات کو پڑھنے کے بعد میری مؤدبانہ درخواست یہ ہے کہ آپ کچھ دن محفل کے پرانے دھاگے کھنگال لیں ۔ ان موضوعات پر بہت کچھ کئی مرتبہ لکھا جاچکا ہے اس کا اعادہ وقت کا ضیاع ہی ہے ۔ اور بدقسمتی سے وقت کی ہر شخص کے پاس قلت ہے۔ الف اور عین کے مسئلے پر میں نے پہلے بھی یہاں لکھا ہے۔ محترم سرورؔ عالم راز کی ویبگاہ پر ان کا ایک تحقیقی مضمون اسی مسئلے پر موجود ہے اسے دیکھ لیجیے۔ ویبگاہ کا پتہ میں نے دو ہفتے پہلے ان کے تعارفی دھاگے میں دیا ہے۔

ارقادری صاحب ، آخر میں ڈرتے ڈرتے ایک بات عرض کروں گا کہ اردو سے محبت کا تقاضا ہے آپ اپنا نام اردو میں لکھیں۔ ویسے مجھے ان لوگوں سے ادبی موضوعات پر بات کرتے ہوئے بہت جھجک بلکہ الجھن ہوتی ہے کہ نہ تو جن کا نام معلوم ہو اور نہ ان کا ادبی پس منظر ۔ امید ہے کہ آپ اپنے نام ، ادبی سرگرمیوں اور اس کےکچھ پس منظر سے تعارف کا شرف ضرور بخشیں گے۔:):):)

جنا ب ظہیر صاحب -
سب سے پہلے تو میں آپ کو اپنا نام بتاؤں مرا نا م ارشد رشید ہے مگر اس بزم میں ارشد نام پہلے بھی کئی تھے تو میں مخففات پہ اکتفا کیا -

دوسری بات یہ کہ یہ بزم کوئ دس سال سے زیادہ پرانی ہے مرے اندازے کے مطابق - تو پھر یہ تو کسی نئے آنے والے کے لیئے نا ممکن ہے کہ کچھ لکھنے سے پہلے وہ سب لڑیاں کھنگالے کہ آیا یہ بات پہلے یہاں ہو چکی ہے یا نہیں تو اس کا مطلب پھر میں یہی لوں گا کہ میں خاموش ہی رہوں تو بہتر ہے -

تیسری بات یہ کہ اس گنجینیہ طلسم میں آپ نئے آنے والے سے یہ توقع رکھیں کہ دو ہفتے پہلے آپ نے کسی تعارفی دھاگے میں کسی کا کوئ لنک دیا تھا وہ اسکو جاکر ڈھونڈھ کر پہلے وہ پڑھ لے - اگر آپ ایسا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے پیغام میں اس لڑی کا لنک دینا چاہیئے ورنہ مجھ سا کم عقل نو وارد اس کو ڈھونڈھ نہیں سکتا -

اور آخری بات یہ کہ میں آئندہ سے خاموش قاری بن کر رہنے کی کوشش کروں گا جب تک ممکن ہوا-
 
اس طرح کے تجربے کرنا ناپسندیدہ ہی رہا ہے اور رہے گا
مطلقا ایسا کہنا میری ناقص رائے میں ٹھیک نہیں۔ ہر تجربہ ایک سا تو نہیں ہوتا، کئی تجربات کو پذیرائی ملی بھی ہے، آزاد نظم اس کی مناسب مثال معلوم ہوتی ہے۔ تجربے کو پذیرائی ملنے کے مختلف عوامل ہوتے ہیں، کلاسیکی اصولوں سے قربت بھی ان میں سے ایک وجہ ہو سکتی ہے۔
مگر یہ کلیہ ہو تو پھر شاعر عام کو بھی آم ہی لکھنا شروع کریں
آپ یہاں قوافی کی بحث کو املا کے ساتھ خلط کر گئے۔ عام کو آم لکھنا یقینا غلط ہے کیونکہ دونوں الگ الگ مستقل الفاظ ہیں ۔۔۔ تاہم آم کو عام کا قافیہ بنانے میں تو کلاسیکی اصولوں کے حساب سےبھی کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح آغاز اور الفاظ کو قافیہ بنانے کا جواز یہ ہے کہ ز اور ظ کی آواز اردو میں ایک ہی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ الفاظ کو الفاز لکھا جائے ۔۔۔
ع کے باب میں بھی شعرا کا ایک معتبر طبقہ کچھ صورتوں میں الف کی طرح برتنے کو جائز سمجھتا ہے۔ مثلا اگر کوئی حرف ع سے شروع ہو رہا ہو تو ان کے نزدیک وصالِ الف کی طرح ع کا بھی پچھلے حرف سے اتصال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن قوافی بناتے وقت کچھ دیگر دقتیں درپیش ہوتی ہیں جن میں سب سے اہم حرف روی سے پہلے والے حرف کی حرکت ہے، جیسے منع کو حرا کا قافیہ نہیں بنایا جا سکتا، کیونکہ بھلے ہی عوامی تلفظ میں ن مفتوح ہو، منع میں اصلاً ن ساکن ہوتی ہے، اور عربی الاصل اکثر الفاظ جو ع پر ختم ہوتے ہیں، میں ع سے ماقبل حرف ساکن ہوتا ہے۔
یا پھر سماع اور جلا کو بھی قافیہ نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ یہاں اگر سماع کی ع کو حذف کر دیا جائے گا تو سما بچ رہے گا، جو خود ایک مستقل لفظ ہے۔

خیر، آمدم برسر مطلب، تجربات تو اردو شاعری میں روز اول سے ہی ہو رہے ہیں، خود امیر خسرو کی شاعری کو ہی ایک تجربہ کہا جا سکتا ہے۔ بس یہ ہے کہ کس تجربے کو قبول عام نصیب ہوتا ہے، اس کا انحصار کافی حد تک ادبا اور قارئین کے اجتماعی ذوق پر ہوتا ہے، یہ کسی ایک دو لوگوں یا گروہوں کے اختیار میں نہیں۔ سو لوگ تجربے کرتے رہتے ہیں، اور کرنے بھی چاہیئں تاکہ شعر و ادب پر جمود طاری نہ ہو۔ غلط تجربہ بھی کم ازکم بحث و تمحیص کی راہیں تو کھولتا ہی ہے۔
 
آخری تدوین:
اور آخری بات یہ کہ میں آئندہ سے خاموش قاری بن کر رہنے کی کوشش کروں گا جب تک ممکن ہوا-
ایسا تو کوئی بھی نہیں چاہے گا ۔۔۔ آپ بھرپور طریقے سے سرگرم رہیں۔۔۔ پرانے دھاگے ابھی نہ بھی کھنگال سکیں تو کبھی کسی نے حوالہ دیا تو آپ کو ڈھونڈنے میں آسانی رہے گی۔
 

الف عین

لائبریرین
قادری صاحب کا شکریہ کہ سرور بھائی کے اصل موضوع پر واپس آنے میں تعاون کیا۔
سرور بھائی نے نگاہیں اور صدا ہیں کے قوافی پر بحث کا آغاز کیا تھا۔ بھائی قادری نے اس کو سارے ہی صوتی قوافی کی طرف رخ موڑ دیا۔ عزیزی راحل کا موقف درست ہے۔ صوتی قوافی ت، ط؛ ز، ض، ظ ، اور ا،ع وغیرہ اردو میں ایک ہی طرح بولے جاتے ہیں، ان کو قوافی بنانا میں بھی جائز سمجھتا ہوں۔ البتہ حرکات کا اختلاف میں بھی درست نہیں مانتا۔ اگرچہ نگاہیں کی ہیں اور ہَیں میں بہت باریک فرق ہے، لیکن زمیں اور نگاہیں کی 'یں' میں( بلکہ ی میں، معروف و مجہول) زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس فرق کو ممکن ہے کہ کہیں قابل قبول سمجھا جا سکے۔ میرے نزدیک بھی یہ گناہ صغیرہ ہی ہو گا!
قادری صاحب میرے وطن انڈیا کو نہ جانے کیوں بدنام کر رہے ہیں، یہاں اردو لکھنے والوں نے املا کو کبھی نہیں بدلا۔ہاں، اردو شاعری اردو رسم الخط سے نا بلد لوگ دیوناگری میں لکھتے ہیں تو ظاہر ہے کہ زاہر، ذاہر، ظاہر( بلکہ جاہر بھی) سب یکساں ںظر آئیں گے۔ ہاں، ہندی کی طرز پر کہیں کہیں صدا اور آسماں کا قافیہ بھی 'سنا'( یعنی صرف مشاعروں میں ) ہے جو بہر حال غلط ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
قادری صاحب تلاش کے خانے میں اس قسم کے مناسب الفاظ لکھ کر Advancs search میں بزم سخن فورم منتخب کر کے تلاش کر سکتے ہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
کیا یہ مصرعہ غالب نے استاد ابراھیم ذوق پر چوٹ کے لیے نہیں کہا تھا؟

نبیل بھائی ، میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ غاؔلب نے اپنے کئی اشعار میں استاد ذوؔق پر چوٹیں کی ہیں لیکن یہ شعر ان میں سے نہیں ہے ۔ غالب نے اس شعر میں اپنی اردو شاعری کو جو بے رنگ کہا ہے وہ دراصل اپنے فارسی کلام پر اظہارِفخر کا ایک انداز ہے ۔ پورا شعر یوں ہے:
فارسی بیں تا ببینی نقش ہائے رنگ رنگ
بگذر از مجموعۂ اردو کہ بے رنگِ من است
یہ بات تاریخی طور پر درست ہے اور غاؔلب کے سوانح نگاروں نے اسے وضاحت سے بیان بھی کیا ہے کہ پچیس تیس سال کی عمر کے بعد غالب نے شعر اور نثر دونوں میں فارسی کو اپنا بنیادی ذریعۂ اظہار بنالیا تھا ۔ اردو شاعری مشاعروں وغیرہ کے لیے کرتے تھے ۔ نثری تصنیفات تو تقریباً تمام کی تما م فارسی ہی میں ہیں۔ اكثر نقادوں كا خیال هے كه غالب بنیادی طور پر فارسی كے شاعر تھے۔
برادرم نبیل، آپ نے درست فرمایا، یہ شعر دراصل ایک قطعے کا ہے جس کا مخاطب استاد ذوق ہی ہے۔ غالب نے ذوق کا نام تو اس قطعے میں نہیں لیا لیکن خطاب ذوق ہی سے ہےاور بڑا جلالی خطاب ہے، اس کے اولیں اشعار ہی سے بات واضح ہو جاتی ہے:

اے کہ در بزمِ شہنشاہِ سخن رس گفتہ ای
کی بہ پُر گوئی فلاں در شعر ہمسنگِ من است
راست گفتی لیک می دانی کہ نبود جائے طعن
کمتر از بانگِ دہل گر نغمۂ چنگِ من است

اے کہ تُو نے سخن رس بادشاہ کی بزم میں کہا کہ فلاں (غالب) پُر گوئی (کلام کی مقدار) میں میرے برابر و مقابل کہاں؟ ہاں تُو نے سچ کہا لیکن تُو جانتا ہے کہ اگر میرے ساز کے نغموں کی آواز(تمھاے) ڈھول کی آواز سے کم ہے تو یہ کوئی طعنے کی بات نہیں ہے۔

اب چونکہ ذوق فارسی شاعری نہیں کرتے تھے اور غالب اپنی فارسی شاعری کو کلاسیکی شعرا کے ہم پلہ سمجھتے تھے اور ذوق کا کل سرمایہ اردو شاعری ہی تھا اس لیے حریف پر وہ چوٹ کی جس کا جواب اس کے پاس نہیں تھا یعنی جس اردو شاعری کی تو ڈینگیں مار رہا ہے میں تو اس کو کچھ سمجھتا ہی نہیں میرا اصل کام تو فارسی شاعری ہے:

فارسی بیں تا ببینی نقش ہائے رنگ رنگ
بگذر از مجموعۂ اردو کہ بے رنگِ من است

اور ایک مصرعے میں یہ کہہ دیا کہ گفتار اور شاعری میں جو چیز تیرے لیے باعثِ فخر ہے وہ میرے لیے باعث ننگ ہے۔ بعد کے اشعار میں اپنی فارسی شاعری کی خوب تعریف بھی کی ہے اور ذوق پر چوٹیں بھی کی ہیں۔ اور پھر آخری شعر میں پھر یہی ننگ والا مصرع دہرا کر تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی:

مقطعِ ایں قطعہ زیں مصرع مُصرّع باد و بس
ہر چہ در گفتار فخر تُست آں ننگِ من است

اس قطعے کا مقطع کا یہی مکرر مصرع ہونا چاہیے اور بس یہی کافی ہے کہ شاعری میں جو کچھ تیرے لیے باعث فخر ہے وہ میرے لیے باعثِ ننگ ہے۔

یہ قطعہ اس ربط پر پڑھا جا سکتا ہے۔
 
آخری تدوین:

شاہد شاہنواز

لائبریرین
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
ایک شعر کے بدلے میں پورا دیوان؟ وہ بھی غالب کا؟ آخر اس میں ایسی کیا بات ہے؟
اس شعر میں لفظ گویا کے دو معنی لیے جاسکتے ہیں اور غور کرو تو دونوں ہی اپنی جگہ درست ہیں۔
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا یعنی بالکل ایسے جیسے تم میرے پاس آجاتے ہو ۔۔۔ آگے وہی، کہ جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا ۔۔۔ اور دوسرا معنی تم میرے پاس بولنے لگ جاتے ہو ۔۔۔ جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا ۔۔۔ شاید یہی خوبصورتی غالب کو بھی نظر آئی ہو۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
جو باتیں پابندِ بحور شاعری یا آپ کی شاعری میں آتی ہیں، وہ برائے تنقید نہیں ہوتیں، اس لیے کسی بھی شاعر کو ان پر تنقید بری لگ سکتی ہے ۔۔۔ تنقید اور ادبی مباحث تو شاید اصلاحِ سخن کے زمرے میں ہیں ۔۔۔ پھر بھی احباب رہنمائی فرما سکتے ہیں ۔۔۔
 

علی وقار

محفلین
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
ایک شعر کے بدلے میں پورا دیوان؟ وہ بھی غالب کا؟ آخر اس میں ایسی کیا بات ہے؟
اس شعر میں لفظ گویا کے دو معنی لیے جاسکتے ہیں اور غور کرو تو دونوں ہی اپنی جگہ درست ہیں۔
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا یعنی بالکل ایسے جیسے تم میرے پاس آجاتے ہو ۔۔۔ آگے وہی، کہ جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا ۔۔۔ اور دوسرا معنی تم میرے پاس بولنے لگ جاتے ہو ۔۔۔ جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا ۔۔۔ شاید یہی خوبصورتی غالب کو بھی نظر آئی ہو۔۔۔
معانی کے لحاظ سے تو یہ شعر پہلو دار ہے ہی مگر اس شعر کی اصل خوبی اس کا سہل ممتنع ہونا ہے۔ میں دوستوں سے اکثر یہ کہتا ہوں کہ دو مصرعوں میں وہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو کہ ایک سات سال کے بچے کو بھی آتے ہوں گے مگر محض گیارہ سادہ الفاظ کی حُسنِ ترتیب سے وجود میں لایا گیا یہ شعر سہل ممتنع کی ایک بہترین مثال اور مومن کا شعری کارنامہ ہے۔ ظہیر بھائی اسی لڑی کے ایک مراسلے میں واضح کر چکے ہیں اور میرا بھی یہی خیال ہے کہ غالب نے مومن کے شعر کی تعریف میں مبالغہ آرائی کی ہے اور اسے ان کا بڑا پن تصور کیا جانا چاہیے وگرنہ غالب کے دیوان کی اہمیت تو سب پر واضح ہے۔ اس لیے یہ تو ایک مذاق تصور کیا جائے گا کہ اس شعر کا تقابل غالب کے کلام یا دیوان سے کیا جائے۔
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
اس معنیٰ میں تو کوئی خوبصورتی نظر نہیں آتی۔
:) :) :)

یہاں تک پہنچنے میں وقت لگتا ہے۔ :)

دراصل عاشق لوگ سادہ لوح ہوتے ہیں اور اُن کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ محبوب اُن سے کلام کرے۔:)

ع۔ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔
 
:) :) :)

یہاں تک پہنچنے میں وقت لگتا ہے۔ :)

دراصل عاشق لوگ سادہ لوح ہوتے ہیں اور اُن کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ محبوب اُن سے کلام کرے۔:)

ع۔ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔
میرے خیال میں لفظ "گویا" یہاں تمثیل ہی کے لیے ہے۔ گویائی کے معنی کے لیے نہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میرے خیال میں لفظ "گویا" یہاں تمثیل ہی کے لیے ہے۔ گویائی کے معنی کے لیے نہیں۔
عبید بھائی ، بات آپ کی ٹھیک ہے لیکن "گویا" کے ذو معنی لفظ نے اس شعر میں ایک لطیف پہلو بھی پیدا کردیا ہے ۔ اس بات کو اگر قبلہ نین صاحب بیان کرتے تو یوں کہتے کہ شاعر کھسک گیا ہے ، اکیلے میں اسے آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
عبید بھائی ، بات آپ کی ٹھیک ہے لیکن "گویا" کے ذو معنی لفظ نے اس شعر میں ایک لطیف پہلو بھی پیدا کردیا ہے ۔ اس بات کو اگر قبلہ نین صاحب بیان کرتے تو یوں کہتے کہ شاعر کھسک گیا ہے ، اکیلے میں اسے آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔ :)
ویسے تو میں شعرا ء کے بارے میں ایسی باتیں کہنے سے ذرا نہیں ہچکچاتا۔۔۔ لیکن یہاں معاملہ یہ ہے کہ مجھے بھی نواب امیر الامراء رئیس الروساء حکیم الحکماء مومن خان مومن کا یہ شعر پسند ہے۔۔۔ اس لیے میں خاموشی سے کھسکنے میں عافیت سمجھتا ہوں۔
 
Top