ای بک تشکیل روپ کا کندن۔۔۔۔۔ منیر انور

الف عین

لائبریرین
انتساب!



وہ کہتی تھی ’’پاپا آپ تھک گئے ہوں گے میں آپ کو کہانی سناتی ہوں !‘‘
’’ روپ کا کندن ‘‘ اسی محبت، اسی معصومیت، اسی چہکار، سمن منیر کے نام کرتا ہوں جو کہانیاں بُنتی ہوئی ایک حادثے میں خود کہانی بن گئی !
 

الف عین

لائبریرین
تمہیں یقین تھا، ہم دوستی نبھا لیں گے
مجھے گمان تھا جس کا وہی ہوا آخر
میں اس کے ہاتھ سے نکلا ہوا زمانہ تھا
وہ میری کھوج میں نکلا، بکھر گیا آخر
 

الف عین

لائبریرین
پیش لفظ

میں نے شعر کب کہنا شروع کیا ۔۔ معلوم نہیں ۔۔ شعری ذوق کب اور کیسے مجھ میں جڑیں پکڑ گیا ۔۔ یہ بھی علم نہیں ۔۔ میں شعر کیوں کہتا ہوں ۔۔ اس پر بھی کبھی غور نہیں کیا ۔۔ شعر بس ہو جاتے ہیں مجھ سے ۔۔ کہیں بہت گہرائی میں کوئی ہلچل، کوئی تحریک اپنا ظہور شعر کی صورت کرتی ہے ۔۔۔ موزونیت طبع پروردگار کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک ہے جو اس نے مجھے عطا کر رکھی ہیں ۔۔ اور اس کا شکر، اس کی باتیں بیان کرنا بندے کی قدرت سے باہر ہے ۔۔
محبت مجھے ورثے میں ملی ہے ۔ مجھے نہیں یاد کہ میرے باپ نے کبھی کسی سے نفرت کی ہو ۔ وہ ایک نفیس، برد بار اور دوسروں کی مجبوریوں کو سمجھنے والے اعلیٰ ظرف انسان تھے ۔ میری ماںکو اگر کچھ ناپسند تھا تو صرف جھوٹ ۔
میں اپنے ماحول اور اپنے رشتوں سے خوشیاں کشید کرنے کا قائل ہوں ۔ ناگوار روّیے اور تکلیف دہ لہجے یاد رکھنے کی چیزیں ہیں ہی نہیں ۔۔ کسی سے کوئی مسرت حاصل ہوئی تو میں نے اسے یاد رکھا، اوڑھا، برتا، لوٹایا اور تقسیم کیا ۔۔ کوئی دکھ ملا تو میرے اندر کہیں موجود خود کار نظام نے اسے میرے خون میں تحلیل کر دیا ۔۔ مسرت کی دمک، خون کے ساتھ رگوں میں گردش کرتے ان کہے دکھوں کی مسلسل اور تیز آنچ ہمارا روپ نکھارتی ہے، کندن کر دیتی ہے۔۔ لفظ اور لہجے میرے محسوسات میں ہیجانی تبدیلیوں کا موجب بنتے ہیں ۔۔ میں نے جو سوچا، جو سمجھا، جیسے محسوس کیا، لکھ دیا۔
کچھ ایسی محبتیں ہیں جن کے بغیر اس کتاب کا شائع ہونا ممکن نہیں تھا۔۔ میں ان پر خلوص چاہتوں اور حوصلہ افزائیوں کے لئے شکریہ نہیں کہوں گا کہ یہ مجھے بہت چھوٹا لفظ لگتا ہے ۔
ایک منظر میں کبھی فراموش نہیں کر سکا ۔میں گھر کے لان میں کچھ کام کر رہا ہوں ۔ ایک معصوم سی چڑیا کی چہکار بلند ہوتی ہے ۔
’’ پاپا آپ تھک گئے ہوں گے، میں آپ کو کہانی سناتی ہوں ‘‘
’’ روپ کا کندن ‘‘ اسی محبت، اسی معصومیت، اسی چہکار، سمن منیر کے نام کرتا ہوں جو کہانیاں بُنتی ہوئی ایک حادثے میں خود کہانی بن گئی ۔۔۔!

منیر انور ۔۔لیاقت پور 10-01-2013
فون: 0333 7471917
muniranwar117@yahoo.com
 

الف عین

لائبریرین
روپ کا کندن

دنیا ایک روپ نگر ہے۔ روپ کے رسیا اِس روپ نگر میں روپ بھرتے اور بدلتے رہتے ہیں۔۔ایک ظاہری روپ ہے جو سب کو نظر آتا ہے۔ ایک روپ باطن کا بھی ہوتا ہے جو ہر کَس و ناکس پر نہیں کھلتا۔۔ طویل مدت کی شناسائی انسان کے اندر جھانکنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ منیر انور، برادر عزیز سید عقیل احمد کا دوست ہونے کے ناطے میرے چھوٹے بھائی کی طرح ہے اور میں اسے تیس پینتیس سال سے جانتا ہوں۔
فرماں بردار فرزند، پیکر ِ ایثار بھائی، وفا شناس دوست، اچھا رفیق حیات اور مشفق والد ہونے کے ساتھ ساتھ وہ صحیح معنوں میں ایک با اصول، حیران کن حد تک دیانتدار،اور کمٹ منٹ کو ہر قیمت پر پورا کرنے والا انسان ہے۔۔ را ئے کا بے لاگ اظہار اور کھلے دل سے اعترافِ خطا اس کے تسلیم شدہ اوصاف ہیں۔ پاکستانیت اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اکثر سخنور '' عذرِ مستی '' رکھ کر شاعری میں بہت سی حدود کا خیال کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے لیکن پورے شعوری التزام کے ساتھ منیر انور کی شاعری میں کسی چیز سے اجتناب اگر ملتا ہے تو وہ اللہ رب العزت سے گستاخی اور '' ولگیریٹی '' ہے۔
منیر انور کی اولیں محبت موسیقی ہے۔ اچھی دھنوں اور دلکش آوازوں میں گائی ہوئی غزلوں نے اْسے شاعری کی طرف راغب کیا۔۔ خود اس کے بقول ’’ اس نے ابتدا میں شاعری پڑھی کم، سنی بہت زیادہ۔ شاعری سنتے سنتے ہی کسی ساعتِ سعید میں اس پر انکشاف ہوا کہ شعر تو وہ بھی کہہ سکتا ہے۔ باقاعدہ شاگردی اِس باب میں کسی کی اختیار نہیں کی البتّہ جناب شفق حیدرآبادی اور دیگر ادبی ذوق سے متصف دوستوں کے مشوروں کو خوش دلی سے قبول کرنے کا شعار اپنائے رکھا :
ہم کو سہنا ہی پڑا ذات کا دکھ
درد میں ڈوبی ہوئی رات کا دکھ
پتھرو، آؤ، سہارو، دیکھو
ایک شیشے سے ملاقات کا دکھ
حلقۂ ادب لیاقت پور کی نشست میں سنائی ہوئی اس کی یہ غزل مجھے بے طرح چونکانے کا موجب ہوئی۔ جناب شفق حیدرآبادی کی وفات، پھر افضال انجم اور مرحوم اعجاز خاور کی لاہور منتقلی سے '' حلقۂ ادب '' بند ہو گیا۔۔۔ مکروہاتِ دنیا نے سب ادب پسند دوستوں کو اس طرح الجھایا کہ ہماری ملاقاتیں ’’ صحبت غیر میں گاہے، سر راہے گاہے‘‘ کی نوبت تک رہ گئیں۔
منیر انور ایک اچھا بزنس مین بنا۔ بزنس کے حوالے سے دو ایک بار بیرون ملک بھی ہو آیا۔ اِس نوعیت کی غیر شاعرانہ مصروفیات کی تاب اس کی شاعری نہ لاسکی۔یہ نہیں معلوم کہ شاعری کی دیوی منیر انور سے روٹھی یا منیر انور نے اس سے منہ موڑا۔ بہر حال'' ماندگی '' کا ایک برسوں پر محیط وقفہ آیا جس میں وہ دکھائی بھی دیا اور سنائی بھی۔ مگر ادبی رہگزار سے کوسوں پرے یوں جیسے کبھی وہ اس راہ کا مسافر تھا ہی نہیں۔
کمپیوٹر متعارف ہوا تو اپنی غزلوں کی مشینی کتابت کے لیے میں نے مارکیٹ پر نظر دوڑائی۔ معلوم ہوا کہ دوائے دل کی دوکان تو ہمارا عزیز۔ منیر انور بھی کھولے بیٹھا ہے۔یوں میں اور مستقیم نوشاہی اس کے پاس جا پہنچے۔ ملاقاتوں میں باقاعدگی آئی تو ہم نے۔اِس'' آہوئے رم خوردہ'' کو پھر سے ''سوئے حرم '' لانے کی کوششوں کا آغاز کر دیا۔
منیر انور۔ اول و آخر شاعر تو تھا۔ جینوئین شاعر۔ کب تک ہماری محبت بھری مساعی کا ابطال کرتا، اسے ہتھیار ڈالتے ہی بنی۔ نشاۃ ثانیہ کا دور آیا۔ ’’ماندگی ‘‘ کا طویل وقفہ۔ '' یعنی آگے چلیں گے دم لے کر '' کا مصداق بنا۔اور اب '' روپ کا کندن '' شائقینِ ادب کے ہاتھوں میں ہے۔
میرے نزدیک منیر انور کی شاعری کا سب سے بڑا وصف اس کی نغمگی ہے۔ یہ شاید موسیقی سے اس کی بے اندازہ رغبت کا فیض ہے۔مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ ارادتاً اس نے شعر بہت ہی کم کہے ہیں۔۔ مترنم یا غیر مترنم بحر کے شعوری انتخاب کا جھنجھٹ بھی وہ نہیں پالتا۔۔ شعر، ایسا سمجھئے کہ بس ہو جا تے ہیں اس سے۔اور جو بھی ہوتے ہیں بلا کا ترنم ہوتا ہے ان میں۔ اس کے کئی شعر میں نے پہروں گنگنائے ہیں اور بعض مرتبہ تو کشید کردہ کیف کی ''رایلٹی'' کے طور پر اسے کافی بھی پیش کی۔ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ؟ ترنم ریزی کے حوالے سے ان کے چند اشعار کو آزما کر تو دیکھئے :
٭
دیکھ کتنا ترا خیال کیا
تجھ سے کوئی نہیں سوال کیا
ایک سادہ سی مسکراہٹ نے
زندگی بخش دی، نہال کیا
٭
میں نے کچھ سوچ کر نہیں پوچھا
ایک چبھتا ہوا سوال تو تھا
٭
جیت کر بھی وہ رو دیا انور
اس سے دیکھی گئی نہ مات مری
والد گرامی کی پنجابی شاعری سے دلچسپی کے علاوہ منیر انور کا کوئی آبائی ادبی پس منظر سرے سے نہیں ہے۔ ادب سے لگاؤ اسے فطری طور پر عطا ہوا۔ افسانے اور مضامین بھی وہ اچھے لکھتا ہے۔ چونکہ اس وقت اس کی شاعری زیر بحث ہے لہٰذا بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اس کی شاعری میں نغمگی کے ہمراہ بیان پر بڑی قدرت ملتی ہے۔۔۔۔ '' بیان پر قدرت '' ظاہر ہے زبان کا رمز آشنا ہی رکھتا ہے۔۔ذیل کے اشعار پر خوبیِ بیان کے حوالے سے نظر ڈالیں تو ممکن ہے آپ بھی میرے ہم خیال ہو جائیں ؎
٭
جانے والوں کی مجبوری ہوتی ہے
رونے والوں کو کتنا سمجھایا ہے
اول آخر، ماتھے پر بل رہتے ہیں
جانے کس مٹی سے بن کر آیا ہے
٭
تمھیں یقین تھا، ہم دوستی نبھا لیں گے
مجھے گمان تھا جس کا وہی ہوا آخر
میں اس کے ہاتھ سے نکلا ہوا زمانہ تھا
وہ میری کھوج میں نکلا، بکھر گیا آخر
٭
جہاں سبھی تھے، وہاں پر نہیں تھا میں لیکن
جہاں کوئی بھی نہیں تھا وہاں تو ہونا تھا
وہ پاس رہتے ہوئے فاصلوں کا قائل تھا
اس اہتمام کو پھر داستاں تو ہونا تھا
منیر انور کی بعض غزلوں میں ردیفیں ہمیں ایسی ملتی ہیں جن سے پنجہ آزمائی آسان نہ تھی۔۔ دیکھئے تو، کس آسانی اور قابل تعریف خوبصورتی کے ساتھ وہ ان ''مقامات ِ آہ و فغاں'' سے سرفراز گزرا ہے:
٭
ہر قدم ایک نئی چال، بہت مشکل ہے
جال پھیلے ہیں تہِ جال بہت مشکل ہے
حوصلہ رکھنے کو کہنا تو ہے آساں لیکن
حوصلہ رکھنا بہرحال، بہت مشکل ہے
٭
تھوڑی سی مٹی کی اور دو بوند پانی کی کتاب
ہو اگر بس میں تو لکھیں زندگانی کی کتاب
رت جگے، تنہائیاں، پانے کا، کھو دینے کا ذکر
لیجئے، پڑھ لیجئے۔ میری جوانی کی کتاب
٭
یہاں شجر کا شجر داؤ پر ہے نادانو
تمھارے لب پہ وہی شاخ و برگ و بار کی بات
منیر انور کی شاعری اس کی شخصیت کا ہو بہو عکس ہے۔اس کے احساسات کا جمال، اس کے طرز فکر کی خُو بُو اور اس کی افتاد طبع کا رنگ ڈھنگ، سب کا سب اس کے شعروں میں مجسم ہو گیا ہے۔۔ کہا جاسکتا ہے کہ ''روپ کا کندن '' میں منیر انور کے اپنے روپ کا اجالا ہر سو اس طرح بکھرا ہوا ہے جیسے۔
'' چاندنی رات میں کہسار پہ کندن بکھرے ''

سیّد ضیاء الدین نعیم۔راولپنڈی
 

الف عین

لائبریرین
پیمبر آخری حضرت محمدؐ
دلوں کی روشنی حضرت محمدؐ

ہوئی ہے ختم ان پر پیشوائی
مجسم رہبری حضرت محمدؐ
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
ہم کو سہنا ہی پڑا ذات کا دُکھ
درد میں ڈُوبی ہوئی رات کا دُکھ

پتھرو، آؤ، سہارو، دیکھو
ایک شیشے سے ملاقات کا دُکھ

ہم کو آزادی کی خواہش نے دِیا
راکھ ہوتے ہوئے باغات کا دُکھ

اے خُدا اور مجھے قوت دے
سہہ سکوں اُن کی عنایات کا دُکھ

تُو مِلا بھی تو مجھے بخش گیا
غیر آسودہ ملاقات کا دُکھ

رہ بدلنے کی شکایت تو نہیں
دُکھ اگر ہے تو حسابات کا دُکھ

تُو ہے اِک شہر، تجھے کیا معلوم
کیساہوتا ہے مضافات کا دُکھ

بِن ترے ساتھ رہے گا میرے
غیر تکمیل شدہ ذات کا دُکھ

چَین لینے نہیں دیتا انورؔ
بَین کرتی ہوئی برسات کا دُکھ
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
مناظر، شہر، قصبے اجنبی ہیں
تخاطب، لفظ، لہجے اجنبی ہیں

یہ کیسی بے مروت سرزمیں ہے
یہاں سب کے رویے اجنبی ہیں

سمندر لگ رہا ہے اپنا اپنا
مگر اس کے جزیرے اجنبی ہیں

زمانے ہو گئے ہیں ساتھ رہتے
مگر ہم پھر بھی کتنے اجنبی ہیں

وہی الفاظ ہیں مانوس سارے
مگر مفہوم اب کے اجنبی ہیں

لکیریں اپنے ہاتھوں کی پریشاں
مقدر کے ستارے اجنبی ہیں

ہوئی منزل گریزاں جب سے انورؔ
زمیں ناراض، رستے اجنبی ہیں
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
ہو چکا زیست کا فیصلہ، ہو چکا
جو ترا تھا، کسی اور کا ہو چکا

جگنوؤں کی ضیاء چِھن گئی دوستو
تتلیوں کا زمانہ ہوا ہو چکا

اب بھلا کیا بتائیں کہ کیسے ہوا
وہ جو ہونا تھا اک حادثہ، ہو چکا

بوڑھے لرزیدہ ہاتھوں میں کشکول ہے
اور بیٹے کا قاتل رہا ہو چکا

وقت پر اُس کا دامن تھا انورؔ خفا
اور اب اشک گِر کر فنا ہو چکا
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
ہمارے حوصلے گھائل نہیں تھے
تمہیں اس بات پر مائل نہیں تھے

ہمیں آسانیاں راس آ گئی تھیں
زمانے راہ میں حائل نہیں تھے

ترے در پر صدا دیتے دوبارہ
ہم اس انداز کے سائل نہیں تھے

کسی جوڑے کی ہم رونق تھے یارو
کسی کے پاؤں کی پائل نہیں تھے

ہم اپنے حلقۂ یاراں میں انورؔ
کسی تفریق کے قائل نہیں تھے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
ترا مزاج تکبر کا شاخسانہ تھا
تعلقات کا منظر بدل ہی جانا تھا

گئے تھے ہم بھی فقط رسم ہی نبھانے کو
اور اس کا طرزِ عمل بھی منافقانہ تھا

کسی کے اونچے در و بام محترم تھے مگر
ہمیں ہوا کے لئے راستہ بنانا تھا

یہ خاک بغض و عداوت سے پاک رکھنی تھی
زمین دل پہ شجر پیار کا اگانا تھا

میں جانتا ہوں اُسے مجھ پہ اعتبار نہ تھا
اگرچہ میرے گواہوں میں اک زمانہ تھا

یہ تُو نے ترکِ مراسم کی بات کیوں چھیڑی
ہمیں تو یوں بھی ترا شہر چھوڑ جانا تھا

کئی چراغ منڈیروں پہ جل بجھے انورؔ
اُسے نہ آنا تھا، شاید اُسے نہ آنا تھا
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
زندگی ستاتی ہے
کس قدر تھکاتی ہے

اب بھی آس کی دل میں
شمع ٹمٹماتی ہے

ہجر کے تسلسل سے
آنکھ جھلملاتی ہے

آرزو کی نادانی
خون تو رلاتی ہے

برف کے حوالوں سے
تیز دھوپ آتی ہے

اِس طرح تو انساں کی
رُوح ڈوب جاتی ہے

زندگی بہر صورت
زندگی سے آتی ہے

موسموں کی تبدیلی
رنگ تو دکھاتی ہے

جستجو مگر انورؔ
زندگی بناتی ہے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
کٹی پتنگ کی مانند ڈولتے ہو تم
مجھے وطن سے نکالے گئے لگے ہو تم

یہ اور بات کہ اب مصلحت شعار ہوئے
قریب میرے بھی ورنہ کبھی رہے ہو تم

کوئی رفیق نہ منزل نہ کوئی رخت سفر
یہ کس خمار میں، کس سمت کو چلے ہو تم

فضائیں اس کی تمہیں اب بھی یاد کرتی ہیں
کہ جس دیار میں کچھ دن رہے بسے ہو تم

کوئی امید نہ وعدہ نہ حوصلہ کوئی
یقین ہی نہیں آتا چلے گئے ہو تم

تمہارے روپ کا کندن بتا رہا ہے ہمیں
کسی کی آگ میں اک عمر تک جلے ہو تم

سکوں کا ایک بھی لمحہ نہیں نصیب انورؔ
مرا خیال ہے محور سے ہٹ گئے ہو تم
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
حضور! کوئی نہیں ہے، جناب! کوئی نہیں
ہماری خشک زمیں پر سحاب کوئی نہیں

کہاں پہ، کس نے، ہمیں کس قدر تباہ کیا
سوال کتنے ہیں لیکن جواب کوئی نہیں

وہ اک کتاب ہی کافی ہے رہنمائی کو
کہ اس سے بڑھ کے جہاں میں کتاب کوئی نہیں

تو پھر یہ دھوپ سی کیسی رُکی ہے صحنوں میں
ہمارے سر پہ اگر آفتاب کوئی نہیں

میں اس کی بزم سے اٹھا تو سب ہی اٹھ آئے
اسے گماں تھا مرا ہم رکاب کوئی نہیں

پھر اس کی سمت اڑائے لئے چلا ہے ہمیں
دلِ تباہ سے بڑھ کر خراب کوئی نہیں

کچھ اس طرح وہ خفا ہیں کہ آجکل انورؔ
سوال کوئی نہیں ہے جواب کوئی نہیں
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
خواب، بس ایک خواب لگتا ہے
تیرا ملنا سراب لگتا ہے

دل نے اب صبر کر لیا شاید
اب وہ کانٹا گلاب لگتا ہے

طعن، تلخی، کجی، کڑی تحدید
بات کرنا عذاب لگتا ہے

میں بھی اب سوچتا ہوں سود و زیاں
وہ بھی محوِ حساب لگتا ہے

ایسے لوگوں میں گھر گیا ہوں جنہیں
دل دکھانا ثواب لگتا ہے

آج گھر سے نکلنا ٹھیک نہیں
آج موسم خراب لگتا ہے

اب ہمیں ہی نہیں فراغ انورؔ
وہ تو اب دستیاب لگتا ہے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
ہاں موسمِ بہار بھی باقی نہیں رہا
ہاں تیرا انتظار بھی باقی نہیں رہا

جذبوں کی وہ تپش ہی دلوں میں نہیں رہی
چہروں کا وہ نکھار بھی باقی نہیں رہا

بارود، آگ، خون کی برسات، الاماں
اب حسنِ کوہسار بھی باقی نہیں رہا

جو بھی ملا، اُسی سے مراسم بڑھا لئے
اس دل کا اعتبار بھی باقی نہیں رہا

کچھ تو سنبھل گیا ہے دلِ نامراد بھی
رنگِ جمالِ یار بھی باقی نہیں رہا

انورؔ مری سرشت ہے کم گوئی اور کچھ
لفظوں پہ اختیار بھی باقی نہیں رہا
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
ہمیں اب آپ سے کہنا نہیں کچھ
مگر ہے دال میں کالا کہیں کچھ

بہت ہے زندگی تجھ سے محبت
ہمارا ساتھ دے اے نازنیں کچھ

ہمیں کچھ حوصلہ سا ہو گیا ہے
ہوئی ہے صاف جب اُن کی جبیں کچھ

یقیناً آپ سچ فرما رہے ہیں
مرے ہی پاس کہنے کو نہیں کچھ

مری مجبوریاں تم جانتے ہو
مرے پیشِ نظر یہ بھی رہیں کچھ

بہاریں روٹھتی جاتی ہیں انورؔ
فساد آمادہ ہیں اہلِ زمیں کچھ
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
ہر قدم ایک نئی چال، بہت مشکل ہے
جال پھیلے ہیں تہِ جال، بہت مشکل ہے

حوصلہ رکھنے کو کہنا تو ہے آساں لیکن
حوصلہ رکھنا بہرحال بہت مشکل ہے

تم سے کہہ دینے کی خواہش تو بڑی ہے یارو
شرحِ بے مہریِ احوال بہت مشکل ہے

اُس کے دم سے ہی منظم تھیں ہماری سانسیں
اب تو سُر ہے نہ کوئی تال، بہت مشکل ہے

آندھیاں تیز، بہت تیز ہیں غم کی انورؔ
بچ سکیں آج پر و بال، بہت مشکل ہے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
مقدّر بٹ رہا ہے
چلو کچھ تو ہوا ہے

خود اپنی داستاں میں
اُسے شامل کیا ہے

ہوا بے شک چلی ہے
دِیا جلتا رہا ہے

کہیں منزل بھی ہو گی
مسافر کو پتا ہے

ابھی روشن ہیں شمعیں
ابھی بس میں ہوا ہے

تری بستی کا موسم!
انوکھا ہے، نیا ہے

یہ کربِ کج ادائی
مسلسل حادثہ ہے

کہا تم لوٹ جاؤ
کہا، اب کیا بچا ہے

وہی پہنچے گا انورؔ
وہی، جو چل پڑا ہے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
رویے سخت ہوتے جا رہے ہیں
ہمیں کچھ لوگ پھر بہکا رہے ہیں

محبت، امن، احساں، بھائی چارہ
انہی لفظوں سے پھر بہلا رہے ہیں

اجازت ہو تو دم لے لیں ذرا سا
ابھی تو اک سفر سے آ رہے ہیں

کوئی آفت مزید آئے گی شاید
پرندے گھونسلوں سے جا رہے ہیں

یہی سننے کو شاید رہ گیا تھا
یہ آخر آپ کیا فرما رہے ہیں

وہی اک ذات بس حاجت روا ہے
مگر ہم ہیں کہ دھوکے کھا رہے ہیں

بہت ہی مختصر سی داستاں ہے
اندھیرے روشنی پر چھا رہے ہیں

کئی نفرت گزیدہ لوگ انورؔ
ہماری انجمن میں آ رہے ہیں
٭٭٭
 
Top