ای بک تشکیل روپ کا کندن۔۔۔۔۔ منیر انور

الف عین

لائبریرین
وہ تعلق ہی نبھ نہ سکتا تھا
لاکھ چاہا تھا، لاکھ سوچا تھا

ہجر کی دھوپ ہی مقدر تھی
میں نے ہر زاویے سے دیکھا تھا

اُس کا انکار ٹھیک تھا لیکن
اُس کا لہجہ سنا تھا ؟ کیسا تھا

وقت ہجرت کا زخم بھر دے گا
کس قدر واجبی دلاسہ تھا

اُس کے دل میں اُتر گیا ہو گا
ایک آنسو، کہ دل سے نکلا تھا

وہ فقط مجھ سے دور تھا انورؔ
ورنہ ہر شخص اُس کا اپنا تھا
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
جب بھی ملنے کے زمانے آئے
بد گمانی میں سلگتے آئے

کس کو الزامِ تباہی دیں ہم
کئی پتھر، کئی شعلے آئے

بھول بیٹھے ہیں اڑانیں اپنی
ہم ترے ہاتھ میں ایسے آئے

ان کے انداز میں اغماض بڑھا
میری پلکوں پہ ستارے آئے

کتنے برسوں کا سفر خاک ہوا
اس نے جب پوچھا کہ کیسے آئے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
دیکھ کتنا ترا خیال کیا
تجھ سے کوئی نہیں سوال کیا

خوشبوؤں کو تری مثال کہا
چاندنی کو ترا جمال کیا

ایک سادہ سی مسکراہٹ نے
زندگی بخش دی، نہال کیا

کوئی تازہ ہوا تھی وہ جس نے
سانس کا زیر و بم بحال کیا

آرزو، نارسائی، ناکامی
اس ڈگر نے عجیب حال کیا

ہم نے ہر حال میں گذاری ہے
ہم نے ہر حال میں کمال کیا

ہم کو محفل میں بے وفا کہہ کر
آپ نے کون سا کمال کیا

ہم نے انورؔ کسی کی حسرت میں
خود کو کس درجہ پائمال کیا
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
ہے مکمل انہی سے ذات مری
میرے بچّے ہیں کائنات مری

میں بس انسانیت کا قائل ہوں
پوچھتے کیا ہو ذات پات مری

زیست جینا محال کر دے گی
یاد آئے گی بات بات مری

اس نے بھی میرا ہاتھ چھوڑ دیا
جس کے ہاتھوں میں تھی حیات مری

اُس نے بس مسکرا کے دیکھا تھا
کھِل اٹھی ساری کائنات مری

کس قدر بے مثال سپنا تھا
چین سے کٹ گئی ہے رات مری

تیرے لہجے سے حوصلہ پا کر
گنگنانے لگی حیات مری

جیت کر بھی وہ رو دیا انورؔ
اُس سے دیکھی گئی نہ مات مری
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
ہر ایک زخمِ تمنا بھلا لگا ہم کو
بہت عزیز ہے چاہت کا سلسلہ ہم کو

ہزار بحرِ حوادث کو مات دی لیکن
کسی کی آنکھ کا آنسو ڈبو گیا ہم کو

قریب تھا تو مسلسل گریز کرتا تھا
بچھڑ کے ہم سے مگر، سوچتا رہا ہم کو

حضور آپ کا فرمان ٹھیک تھا لیکن
حضور آپ کا لہجہ بہت کَھلا ہم کو

خزاں رُتوں کے تسلسل میں گھر گیا انورؔ
دِکھا رہا تھا بہاروں کا راستا ہم کو
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
کئے جاتے ہیں جو وعدے پہ وعدہ
ہمیں معلوم ہے ان کا ارادہ

یہاں انساں ہیں کم منصب زیادہ
کوئی مخدوم کوئی خان زادہ

کوئی رستہ نہیں دیتا کسی کو
رہے بالکل نہیں ہیں دل کشادہ

بہت سا پیار کب مانگا ہے میں نے
مگر اے زندگی تھوڑا زیادہ

ارادہ ہے ہمی جا کر منا لیں
انا کا چاک کر ڈالیں لبادہ

ہمیں اب مشورے دینے لگا ہے
جو ہم سے کر رہا تھا استفادہ

اسے شہہ مات ہو جائے گی انورؔ
اگر ہم نے بڑھایا اک پیادہ
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
غیر جب آپ کا رہبر ہو گا
ہر جزیرے پہ سمندر ہو گا

جو بھی ہیں مسئلے ان پر فوراً
بات ہو جائے تو بہتر ہو گا

آج تک تو نہ ہوا یوں لیکن
آج کے بعد یہ اکثر ہو گا

وحشتوں کو جو سنبھالا نہ گیا
شہر کا اور ہی منظر ہو گا

آج عنقا ہے یہاں تابِ سخن
آج جو بولے گا باہر ہو گا

لوگ پاگل تو نہیں ہیں انورؔ
یہ کوئی اور ہی چکر ہو گا
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
غم کو خود پر سوار مت کرنا
زخم کو اشتہار مت کرنا

ایک حد میں رہو تو اچھا ہے
حد کی دیوار پار مت کرنا

اپنی پرواز بھول جاؤ گے
غیر پر انحصار مت کرنا

سر اٹھانا محال ہو جائے
خود کو یوں زیرِ بار مت کرنا

وقت کب انتظار کرتا ہے
وقت کا انتظار مت کرنا

بات کرنا تو سامنے کرنا
پیٹھ پیچھے سے وار مت کرنا

حوصلے سے سہارنا غم کو
درد کو بے وقار مت کرنا

چاہتوں کے حساب میں انورؔ
ایک پل بھی ادھار مت کرنا
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
ان سے تکرار ہو گئی آخر
راہ دیوار ہو گئی آخر

آخر کار دل بدل ہی گیا
بات تلوار ہو گئی آخر

اک غلط فہمی، اک شکر رنجی
دل کا آزار ہو گئی آخر

آئے دن ایک ہی تماشہ ہے
خلق بے زار ہو گئی آخر

اختیارات کی لڑائی میں
تار دستار ہو گئی آخر

ہم تو سمجھے تھے بات ختم ہوئی
ذہن پر بار ہو گئی آخر

وقت پر کب سنی گئی ان سے
آہ بے کار ہو گئی آخر

عرض، اک عرض ہی تو تھی انورؔ
نذرِ انکار ہو گئی آخر
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
شناور ڈوب جانا چاہتے ہیں
مسافر اب ٹھکانہ چاہتے ہیں

ہمارے چاہنے والے ہمیں سے
بچھڑنے کا بہانہ چاہتے ہیں

نئی اقدار اپنائیں خوشی سے
پرانی کیوں مٹانا چاہتے ہیں

اب آگے راستہ مشکل نہیں ہے
مگر ہم لوٹ جانا چاہتے ہیں

کہیں جانے کی اندھی خواہشوں میں
کہیں سے لوٹ آنا چاہتے ہیں

عجب اِک اضطراری کیفیت ہے
اُسے بھی بھول جانا چاہتے ہیں

روایت کے گھنے جنگل میں انورؔ
کوئی رستہ بنانا چاہتے ہیں
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
شناور ڈوب جانا چاہتے ہیں
مسافر اب ٹھکانہ چاہتے ہیں

ہمارے چاہنے والے ہمیں سے
بچھڑنے کا بہانہ چاہتے ہیں

نئی اقدار اپنائیں خوشی سے
پرانی کیوں مٹانا چاہتے ہیں

اب آگے راستہ مشکل نہیں ہے
مگر ہم لوٹ جانا چاہتے ہیں

کہیں جانے کی اندھی خواہشوں میں
کہیں سے لوٹ آنا چاہتے ہیں

عجب اِک اضطراری کیفیت ہے
اُسے بھی بھول جانا چاہتے ہیں

روایت کے گھنے جنگل میں انورؔ
کوئی رستہ بنانا چاہتے ہیں
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
دُکھوں کی رات میں اک یاد کے حوالے سے
ہمارے ساتھ رہے روشنی کے ہالے سے

سفر نیا تو نہیں ہے مگر نہ جانے کیوں
ہمارے پاؤں میں اُگنے لگے ہیں چھالے سے

کہا یہ اُس نے کہ ہے مستند کہا میرا
کہی نہ بات کسی مستند حوالے سے

بچھڑ کے مجھ سے اُسے ماننا پڑا یہ بھی
وہ معتبر تھا اگر، تھا مرے حوالے سے

بہت اداس، بڑے مضمحل سے لوٹے ہیں
سوال کرنے گئے تھے کلاہ والے سے

ذرا سا اپنے گریباں میں جھانکئے انورؔ
گِلہ درست نہیں آسمان والے سے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
تیرے آنچل کو ستاروں سے سجانا چاہوں
میں بَہَر طَور تجھے اپنا بنانا چاہوں

وہ تو گردش ہے مِرے پاؤں میں ساتھی ورنہ
کون کہتا ہے تِرے شہر سے جانا چاہوں

مانتا ہوں کہ بہت عیب ہیں مجھ میں لیکن
دل کسی کا کسی پہلو نہ دکھانا چاہوں

یہ کھلونے میری وقعت سے بہت مہنگے ہیں
اپنے بچے کو یہی بات سجھانا چاہوں

جل رہا ہے میرے ہمسائے کا گھر، اور میں بس
اپنی دیوار کو شعلوں سے بچانا چاہوں

بے زری جرم بھی ہے، جرم کی تمہید بھی ہے
حاکم وقت کو بس اتنا بتانا چاہوں

منصفو، محتسبو، مجھ کو سزا دو کہ میں پھر
زخم احساس زمانے کو دکھانا چاہوں

اُس کو ضد ہے کہ نئے ڈھنگ سے چاہوں اُس کو
میں اُسی لَے میں، وہی گیت سنانا چاہوں

بھول کر خالق دَوراں کی مشیّت انورؔ
ریت پر نقش بنا کے، نہ مٹانا چاہوں
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
اب مری راہ سے ہٹا سپنے
اب کسی اور کو دکھا سپنے

ہم نے وہ راستہ ہی چھوڑ دیا
جس پہ بکھرے تھے جا بجا سپنے

زندگی سے نظر چراتا کون
کون بے کار دیکھتا سپنے

اتنا آسان بھی نہیں ہوتا
جاگنا اور دیکھنا سپنے

چین سے کٹ رہی تھی زندہ تھے
کون آنکھوں میں بو گیا سپنے

ہم نے پوچھا تھا بے کلی کا سبب
دل نے ہنستے ہوئے کہا سپنے

میں تو کب کا بھلا چکا ہوتا
تیرا لہجہ دکھا گیا سپنے

زندگی تلخ تر حقیقت ہے
تو یہ کیا دیکھنے چلا سپنے

آج انورؔ بہت اداس ہوں میں
آج یاد آئے بے بہا سپنے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
ہمارے ساتھ چلے، حوصلہ کسی کا نہیں
بس ایک شخص تھا، وہ بھی ہوا کسی کا نہیں

ابھی تو بزم میں بس ذکر ہی چلا تھا ترا
وہیں کہیں سے کسی نے کہا، کسی کا نہیں

عجیب شخص ہے باتیں کمال کرتا ہے
گلہ کرے گا، کہے گا، گلہ کسی کا نہیں

تمہارے سکّوں میں کر دوں ادائیگی تم کو
مگر یہ دل کہ برا سوچتا کسی کا نہیں

ہمیں یقیں تو نہیں ہے یہ لوگ کہتے ہیں
تمہارے شہر میں ہوتا بھلا کسی کا نہیں

جو بات ہم نے سرِ بزم اُن سے کہہ دی ہے
یہ بات کوئی کہے، حوصلہ کسی کا نہیں

ہمیں یقین کی حد تک گمان ہے انورؔ
وہ شخص آج بھی اپنے سوا کسی کا نہیں
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
تذبذب

مرے بائیں ہاتھ کی پشت پر
یہ جو چاند سا ہے سجا ہوا
تری خوشبوؤں میں بسا ہوا
تری چاہتوں میں گندھا ہوا

اسے ماہِ مہر و وفا کہوں؟
تری حسرتوں کی صدا کہوں؟
ترے انتظار میں جو کٹے
اسے ان دنوں کا صلہ کہوں؟

اسے کیا کہوں؟؟
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
تھوڑی سی مٹی کی، اور دو بوند پانی کی کتاب
ہو اگر بس میں تو لکھیں زندگانی کی کتاب

رتجگے، تنہائیاں، پانے کا، کھو دینے کا ذکر
لیجئے، پڑھ لیجئے میری جوانی کی کتاب

کہہ رہی ہے شہر کی بربادیوں کی داستاں
ادھ جلے کچھ کاغذوں میں اک کہانی کی کتاب

زندگی بھر کفر کے فتووں کی زد میں تھا وہ شخص
معتبر ٹھہری ہے اب جس آنجہانی کی کتاب

وقت کے ظلمت کدے میں ہے بھلا کس کو دوام
اب کہاں سے لاؤں میں تیری نشانی کی کتاب

دیکھئے جس کو لئے پھرتا ہے انورؔ دوش پر
اپنی ناکامی کسی کی کامرانی کی کتاب
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
بے تکان دعوے ہیں پیار کے رفاقت کے
ہاں مگر محبت میں رنگ ہیں سیاست کے

وہ جہاں بٹھاتے ہیں، لوگ بیٹھ جاتے ہیں
اور کچھ نہیں صاحب، ہیں کمال طاقت کے

دوستی نہیں کوئی، دشمنی نہیں کوئی
ہم کرم گزیدہ ہیں آپ کی محبت کے

اور ہیں تقاضے کچھ عدل کے، اصولوں کے
اور کچھ طریقے ہیں آپ کی عدالت کے

شاہِ محترم! ہم کیا اور ہماری رائے کیا
اک جہاں میں چرچے ہیں آپ کی شرافت کے

اُن پہ آجکل انورؔ اک جنون طاری ہے
آیئے ہمی روکیں سلسلے عداوت کے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
کہا یہ میں نے کہ اپنی آنکھوں میں خواب رکھنا
کہا یہ اُس نے کہ آنکھ رکھنا، عذاب رکھنا

یہ میں نے پوچھا تھا لوگ کیوں مر رہے ہیں اتنے
جواب آیا، تم ان کے خوں کا حساب رکھنا

کہا یہ میں نے زمین پر امن ہو سکے گا؟
کہا کہ ہاتھوں میں علم رکھنا، کتاب رکھنا

کہا یہ میں نے کہ زندگی کس طرح کٹے گی
کہا یہ اُس نے کہ چاہتیں بے حساب رکھنا

کہایہ میں نے، ہوائیں ہیں تند و تیز کتنی
وہ ہنس کے بولی کہ کشتیاں زیرِ آب رکھنا

کہا یہ اُس نے کہ دائرے سے نکل کے دیکھیں؟
کہا کہ پہلے کوئی سفر انتخاب رکھنا

کہا یہ اُس نے کہ بھِیڑ میں ہم بچھڑ نہ جائیں
کہا کہ جوڑے میں ایک تازہ گلاب رکھنا

کہا یہ اُس نے کہ ہم اگر سچ کا ساتھ دیں تو؟
کہا یہ میں نے کہ زخم سہنے کی تاب رکھنا
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
کم مائیگی


اک دن میں اک نظم کہوں گا تیری خاطر
اور اس نظم میں
اپنے دل کی ساری باتیں
اک اک کر کے کہہ ڈالوں گا
میں نے تجھ کو کیسے کیسے کس کس رنگ میں دیکھا ہے
تیرے لئے میرے دل میں کیا کیا جذبات فروزاں ہیں
یہ اور ایسی کتنی باتیں
جو میں تجھ سے کہنا چاہوں
تجھ سے کہوں گا
میرے ذہن میں لہریں لیتا سوچ سمندر
جب میری مرضی کے لفظ عطا کر دے گا
تب اس نظم کے ہر اک لفظ میں تیری خوشبو بس جائے گی
میری گواہی بن جائے گی
٭٭٭
 
Top