دیوانِ میر حسن

شمشاد

لائبریرین

کمی جس جا کرے بارش تو یہ کہدیجو دہقان کو
کہ اپنی کشت پر لیجائے میری چشم گریان کو

بھلا اے اشک دریا جوش کیا کہیے تری دولت
جو سنتے تھے سو دیکھا اپنی آنکھون ہمنے طوفان کو

زمین پر اُگنے سے سنبل کے ہمکو یون ہوا ظاہر
کہ گاڑا ہے فلک نے یان کسی خاطر پریشان کو

بھڑک معلوم ایسے رنگ گل مین باغبان سچ کہ
لگی ہے آگ نالہ سے یہ کسکی اس گلستان کو

کھلے ہے وہ صبا سے اور یہ تیری تیغ کے دم سے
مقابل گل سے کیونکر کیجے اپنے زخم خندان کو

نہین ملتا کوئی ہمدم کہ نالے کیجئے ملکر
لگی قسمت سے میری یک قلم آتش فشان کو

دلِ صد پارہ میرے کی تو پہلے فکر کر ناصح
رفو کیجو پھر اسکے بعد تو چاکِ گریبان کو

حسن جی چاہتا ہے روئے پڑھ کوئی غزل ایسی
بھرا ہو جسکے ہر مصرع مین سوز و درد حرمان کو​
 

شمشاد

لائبریرین

صبا اب سوگ ہے کس کا چمن مین عندلیبان کو
پڑین ہین برگ گل سے جو یہ منھ پر لیکے دامان کو

رہی یہ چشم نت تمسے ولے افسوس اے آنکھون
کبھی تمنے نہ دھویا دل سے میرے داغ ہجران کو

اِدھر یہ منھ کا پڑنا ہے اُدھر وہ سر اُٹھاتے ہین
مین تھابنون اشک کو یا رب کہ روکون آہ و افغان کو

نہین تقصیر کانٹون کی مرا چھالا ہے پانؤن کا
برنگ کہربا کھینچے ہے خود خار مغیلان کو

فریب وعدہ بس دیجے کسی اور ہی کو اب جا کر
میان ہم خوب سمجھے ہین تمھارے عہد و پیمان کو

مری ہی زیست وابستہ اسی سے اسکو رہنے دو
نکل جاوے مرا جی ہی اگر کھینچو گے پیکان کو

نہین معلوم یہ کسکا ہے اتنا منتظر یا رب
کہ مین موندتے نہین دیکھا حسن کی چشم حیران کو​
 

شمشاد

لائبریرین

وصل مین جسکو بیقراری ہو
ہجر مین کیسی اُسکی خواری ہو

اُسکے بھاوین ہی کچھ نہین ہرگز
خواہ نالہ ہو خواہ زاری ہو

روبرو ہو نہ ایک تیغِ فراق
اور خنجر ہو یا کٹاری ہو

یون پھنساوین نہ دل کو ہم جبراً
اہ گر عشق اختیاری ہو

کیا کرے آہ و نالہ وہ دل کھول
جِسکا وقتِ نفس شماری ہو

تو مژدہ تر نہ کر کہ میرے لئے
اور خنبر کی آبداری ہو

ہو حیات دوبارہ ہمکو حسن
پھر اگر وصل ایک باری ہو​
 

شمشاد

لائبریرین

وفادار ہو یا جفا کار تم ہو
جو کچھ ہو سو ہو پر مرے یار تم ہو

اُجاڑو مرے دل کو یا پھر بساؤ
مِری جان اِس گھر کے مختار تم ہو

جدا سب سے ہو اور سب سے ملے ہو
غرض کیا کہون ایک عیار تم ہو

خدا جائیے دلپہ کیا گذرے آخر
یہ اہلِ وفا ہے ستمگار تم ہو

بنے اس طبیعت سے کیونکر کسی کی
ذرا جی مین منصف تو دلدار تم ہو

خفا ہوتے ہین ہم تو خوش ہوتے ہو تم
جو خوش ہوتے ہم ہین تو بیزار تم ہو

نہین بے سبب یہ حسن سرد آہین
کہین ان دنون مین گرفتار تم ہو​
 

شمشاد

لائبریرین

دوستان مجھکو تم اُس شوخ تلک جانے دو
عشق کرنے کا مزہ بھی تو ذرا پانے دو

عرض سو بار سُنی ہو گی کہ بیٹھا ہے کوئی
پر نہ آیا کبھی جی مین کہ کہے آنے دو

دل سمجھنے کا نہین ناصحون کے کہنے سے
آپ ہی سمجھے گا آخر اُنھین سمجھانے دو

منع جو عشق سے کرتے ہین وہ بندے ہی نہین
صاحبی کرتے ہین اُنکے تئین فرمانے دو

بوے پیراہن یوسف کے سوا کنعان کو
مصر سے کوئی جو کچھ لاوے تو مت لانے دو

جب تلک دیکھے نہ وہ آن کے تب تک یارو
اُسکے کوچہ سے مری لاش نہ اُٹھوانے دو

کل کہا اُس سے کسی نے کہ حسن مرتا ہے
ہنس کے کہنے لگا مین کیا کرون مر جانے دو​
 

شمشاد

لائبریرین

جگر کے ٹکڑے کرنے کو اور اپنے جی کو کھونے کو
غرض بیٹھے ہین کوچے مین ترے دل دیکے رونے کو

عماراتِ جہان کی پائداری پر تو اے منعم
نظر سے مت گرا دینا کسی کے دل کے کونے کو

ترے ہی بزم مین اِس خوف سے تو رو نہین سکتے
مبادا تو کہےبیٹھا ہے میرا گھر ڈبونے کو

خدا جانے پلک سے کیونکہ لگتی ہے پلک ہمدم
کبھی آنکھون سے ہمنے تو ندیکھا اپنے سونے کو

شب وصل صنم تھی اور کیا کیا آرزوئین تھین
دھری تھی یہ کہان کے ایسی دشمن صبح ہونے کو

اِدھر اے ابرمین رو رو کے دامن تر کرون اپنا
اُدھر تو مستعد رہ دامنِ صحرا بھگونے کو

حسن مت بستر و بالین کو تو ہر وقت ڈھونڈا کر
تری خاطر پھرون گا مین لیئے کیدھر بچھونے کو​
 

شمشاد

لائبریرین

غمِ نگار سے جو دل کہ داغدار نہو
درخت خشک ہے اُسمین کبھی بہار نہو

نروئین گر ترے غم سے یہ چشم خون پالا
تو کوہ و دشت کے دامن مین لالہ زار نہو

اس آہ و نالہ سے جلجاوے جان و دل یکسر
رفیق میرا اگر چشم اشکبار نہو

تبسمِ نمکین کو وہ تری کیا جانے
کہ جسکا تیر نگہ سے جگر فگار نہو

عجب مزے سے کٹین بلبلون کے لیل و نہار
چمن مین غنچہ و گل کے جو ساتھ خار نہو

کہا حسن سے مین اک روز کیون تو روتا ہے
ملیگا یار ترا اتنا بیقرار نہو

دیا جواب یہ ہنس کر کہ اے تسلی بخش
مین کیا کرون جو مرا دلپہ اختیار نہو​
 

شمشاد

لائبریرین

مجھکو عاشق کہکے اُسکے روبرو مت کیجیو
دوستان گر دوست ہو تو یہ کبھو مت کیجیو

جس ادا کا کشتہ ہون مین وہ رہے میرے ہی ساتھ
اُس ادا کو مبتذل اے خوبرو مت کیجیو

وقت رخصت دلنے اتنا ہی کہا رو کر کہ بس
اب پھر آنے کی مرے تو آرزو مت کیجیو

مین تو یونہین تمسے دیوانہ سا بکتا ہون کہین
اُسکے آگے دوستان یہ گفتگو مت کیجیو

زلف کے کوچہ سے ہو گلشن مین گذرے ہے صبا
آج وان جا کر گلون کو کوئی بو مت کیجیو

کل کے جھگڑے مین بھلا ہے کسکے یارو حق بطرف
واجبی جو ہو سو کہیو میری رو مت کیجیو

وان حسن ہر گز نہین ہے ڈھیل پھر جانے مین کچھ
آشنائی پر بھروسا اُسکی تو مت کیجیو​
 

شمشاد

لائبریرین

ہوئے ہین عشق کے بیمار دیکھیے کیا ہو
بہت برا ہے یہ آزار دیکھیے کیا ہو

چھٹے قفس سے اگر ہمصفیر و تم تو چلو
ابھی تو ہم ہین گرفتار دیکھیے کیا ہو

نہ قلق جاتا ہے دل کا نہ جی کی بیتابی
یہ کچھ بھلے نہین آثار دیکھیے کیا ہو

ہم اک کرشمہ ابرو سے جسکے مرتے تھے
اب اُسنے کھینچی ہے تلوار دیکھیے کیا ہو

دل اور جان کو لاتا تو ہون ترے آگے
تجھے اب ان مین سے درکار دیکھیے کیا ہو

ہمین تو یان بھی نتھا صبر اُس نے محشر پر
دیا ہے وعدہ دیدار دیکھیے کیا ہو

بلایا تمنے رقیبون کو آہ اپنے حضور
کھڑے ہین ہم پس دیوار دیکھیے کیا ہو

اِدھر مرے ہے حسن غم سے اور اُدھر ہائے
تڑپ رہا ہے دلِ زار دیکھیے کیا ہو​
 

شمشاد

لائبریرین

کہیو صبا یہ ساقیِ غفلت شعار کو
دون کس روش جواب مین ابکی بہار کو

فرہاد و قیس سے مین گیا عشق مین الگ
صحرا کو چھوڑا ایدھر اودھر کوہسار کو

کیا ملک دل کی ہمسے کبر پوچھتا ہے تو
مدت ہمین تو چھوڑے ہوے اُس دیار کو

ناقہ سے دور رہگیا آخر نہ قیس تو
کہتے نہ تھے کہ پانؤن سے مت کھینچ خار کو

اس سے بھی کام اپنا نہ نکلا کسی طرح
ہم خوب طرح دیکھ چکے انتظار کو

کیا جانے دیکھنے کے لئے کس عذاب کے
رکھا ہے میری آنکھون مین جانِ نزار کو

پھر پھر فلک تو ہجر ہی لاتا ہے تو بھی دل
رکھ طاق پر اب آرزوے وصل یار کو

سرسبز جس طرح سے رکھا جیتے جی فلک
رکھیو نہ سبز یون تو ہمارے مزار کو

سو بار اُسکے کوچہ مین لے لے گیا حسن
آیا نہ پر قرار دلِ بیقرار کو

غیر کو تم نہ آنکھ بھر دیکھو
کیا غضب کرتے ہو اِدھر دیکھو

خاک مین مت ملاؤ دل کو مرے
جی مین سمجھو ٹک اپنا گھر دیکھو

دیکھنا زلف و رخ تمہیں ہر وقت
شام دیکھو نہ تم سحر دیکھو

گل ہوے جاتے ہین چراغ کی طرح
ہمکو ٹک جلد آنکر دیکھو

آپ پر اپنا اختیار نہین
جبر ہے ہمپر کسقدر دیکھو

رام باتون مین تو وہ ہو نہ سکا
نقش و افسون بھی کوئی کر دیکھو

لخت دل تم نہ سمجھو مژگان پر
عاشقی کا یہ ہے ثمر دیکھو

وصل ہوتا نہین بھلا کیونکر
اپنی ہستی سے تو گذر دیکھو

دیکھتے ہی نہین تو کیا کہیے
کہیے تب حال کچھ اگر دیکھو

ڈھلتے ہو تم بتان اُدھر دل سے
آجکل جسکے ہاتھ زر دیکھو

عشقبازی سے باز آؤ حسن
چھوڑ دو اپنا یہ ہنر دیکھو​
 

شمشاد

لائبریرین

مجھے چون ابر تصویر اب نہین رخصتِ گریہ
مری آنکھون مین در نہ کھیچ رہی ہے صورتِ گریہ

گئے وے دن جو آنسو بھی ان آنکھون سے نکلتے تھے
بجائے اشک ابتو رہگئی ہے حسرتِ گریہ

جلے جبتک ندل تب تک نہ نکلے چشم سے آنسو
مجھے چون شمع ہے آتش سے غم کی قوتِ گریہ

نہین کچھ مین نے دیکھا انسے حیرت کے سوا ناحق
مری آنکھون پہ مردم باندھتے ہین تہمتِ گریہ

نہ آگ اسکی بجھائی اور ندھویا کچھ غبار اپنا
ہمارے دلپر اور ہمپر ہے پھر کیا منتِ گریہ

جلون مین حال پر دل کے کہ رؤون چشم گریان کو
اِدھر یہ حدت نالہ اُدھر وہ شدتِ گریہ

مزا ہے تجھکو ہنسنے کا تجھے رونے سے کیا میرے
تو اے بیدرد کیا جانے کسی کی لذتِ گریہ

مجھے ہر دم وہ روتے دیکھ یون ہنس ہنس کے کہتا ہے
کہ دیوانے تری کیجے کہانتک عزتِ گریہ

مرے ہونے نہونے پر نہین موقوف یہ رونا
تجھے تو اِن دنون کچھ ہو گئی ہے عادتِ گریہ

حسن مین خواب مین بھی دیکھتا ہون چشم کو گریان
ہوئی ہے مجھکو رفتہ رفتہ یانتک الفتِ گریہ​
 

شمشاد

لائبریرین

وہ پیار اب رہا نہ ترا اور نہ چاہ وہ
باتین ہی ایک رہ گئین کہنے کو آہ وہ

پوچھا جو حال اُسنے تو مین اور چپ ہوا
تا ضد مین آ کے لگ ہی پڑے خوانخواہ وہ

بیچین ہمکو اپ ہی کرتا ہے ناز سے
رکھتا ہے اور سر پہ ہمارے گناہ وہ

کہیو صبا کہ جسکو تو بٹھلا گیا تھا سو
چون نقش پا پڑا تری دیکھے ہے راہ وہ

مدت سے اُسکی ابرو سے واقف ہی ہم نہین
شمشیر کی رہی نہین ہمکو نگاہ وہ

احوال کہکے اپنا سبک ہون مین کس لئے
کیا دیکھتا نہین مرا حالِ تباہ وہ

پکا ہے اک اُسکو سمجھتا ہون خوب مین
اُستاد اپنے کام مین ہے رشکِ ماہ وہ

توڑی نہین ہے صاف رکھی ہے ابھی لگی
آتا ہے اس طرف بھی نکل گاہ گاہ وہ

تو ہی نباہ اُس سے جو چاہے تو کر حسن
اسپر نہ پھولیو کہ کریگا نباہ وہ​
 

شمشاد

لائبریرین

مجھسے اب وہ نرہی اُس بِت عیار کی آنکھ
پھر گئی آہ زمانہ کی طرح یار کی آنکھ

کس سے تو آنکھ ملاتا ہے نظر مین میری
مین سمجھتا ہون تری اب وہ نہین پیار کی آنکھ

تا کہ عبرت کرین اور غیر ندیکھین تجھکو
جی مین آتا ہے نکلوائیے دو چار کی آنکھ

خفگی نظرون مین ظاہر ہے تری مجھسے نہ چل
وہ تو چتون مین نہین چھپتی ہے بیزار کی آنکھ

سامنے لی ہے یہ کس گل نے جمائی اسکے
جھکی پڑتی ہے جو یون نرگسِ بیمار کی آنکھ

یا رب اک پل بھی نہ اوجھل ہو نظر سے میری
جیسے بھاتی ہے مجھے اپنے طرحدار کی آنکھ

عشق کا داغ ہوا اسپہ تو کچھ سوجھ پڑی
بارے اُس گل نے تو کھلوائی دل زار کی آنکھ

جو نظر باز ہین اُنکو نہین پرسش پہ نگاہ
من و عن سب کہے دیتی ہے گنہگار کی آنکھ

گریہ کرتا ہے حسن زیر درختِ بادام
یاد آئی ہے اُسے کیا کسی دلدار کی آنکھ​
 

شمشاد

لائبریرین

دل کے مانند کہین ہو نہ فگار آئینہ
ابروِ یار سے ہوتا ہے دوچار آئینہ

جس گھڑی دیکھے ہے وہ لالہ عذار آئینہ
آپ مین دیکھے ہے وہ رشکِ بہار آئینہ

جھاڑ کر گرد کو وہ اسلیے دیکھے ہے اُسے
روبرو تا نہ رکھے میرا غبار آئینہ

مُنھ دیا تو ہی نے جو آنے لگا منھ پہ ترے
ورنہ تھا ایسا کہانکا ترا یار آئینہ

اُسکی مژگان سے تو ہوتا ہے مشبک یہ دل
مثل قندیل کے گو رکھتا ہے چار آئینہ

ہمنے دیکھا تو خزان ہی مین چمن کو دیکھا
دید مین اپنی تو اک بار بہار آئینہ

زلف کا کسکے حسن عکس پڑا ہے اسمین
دن کو آتا ہے نظر مین شبِ تار آئینہ​
 

شمشاد

لائبریرین

مُنھ دیکھتے ہی اُسکا آنسو مرا بہانہ
رونے کا یا رب اپنے اب کیا کرون بہانہ

تو ہو چکا ہے میرا جی دیکے تجھکو لونگا
دل دے رکھا ہے تجھکو آگے ہی مین بعانہ

نہ دام کے کشش تھی اور تھی نہ میری خواہش
لایا قفس مین مجھکو صیاد آب و دانہ

عالم مین ہر کسی سے سُن سُن کے میرا قصہ
کہنے لگا وہ ناحق کیون ہو گیا دوانہ

جی چاہتا ہے اُس سے چھپکر کہین سنون مین
دیکھون تو کیا کہے ہے وہ مجھکو غائبانہ

افسوس رفتگان کے احوال پر ناحق
ایسا ہی تھا عزیز و آگے بھی گر زمانہ

کیا جانیے پریشان کس کس کا دل کریگا
اُلجھا ہے بیطرح سے زلفون مین سر سے شانہ

کہہ اِس زمین مین ایسی کوئی غزل حسن تو
ہر بیت مین ہو جسکے احوال عاشقانہ​
 

شمشاد

لائبریرین

کہتا نہ تھا مین اے دل تو اُس سے جی لگا نہ
اُسکا تو کیا گیا اب تیرا ہی جی گیا نہ

سو بار مین نے جھانکا چلون سے اُسکو لیکن
اتنا کہا نہ اُسنے کیا دیکھتا ہے آ نہ

مین خوب رو چکا ہون ظالم بس اور مجھکو
آزردگی کی باتین کہ کہ کے تو رُلا نہ

جاتے ہی یار کے تو کہتا تھا مر رہونگا
وقتِ وداع اے دل آخر تو مر گیا نہ

کل مین نے ہنستے ہنستے پوچھا کہ کوئی دم یان
فرمائیے تو مین بھی بیٹھا رہون کہ یا نہ

تیوری چڑھا کے بولا چل چل خبر لے اپنی
جی لگ رہا ہے تیرا جیدھر تو اپنے جا نہ

کہتا نہ تھا کہ ہر دم اُسکی گلی مین مت جا
اس بات کا اب آخر چرچا حسن ہوا نہ​
 

شمشاد

لائبریرین

دید کی سد راہ ہے یہ مژہ
خارِ پائے نگاہ ہے یہ مژہ

نت نقاطر ہی اس سے رہتا ہے
رگِ ابرِ سیاہ ہے یہ مژہ

چشم مری وہ بحر ہین مواج
جسکے لب کی گیاہ ہے یہ مژہ

آنکھین تیری وہ لڑنے والی ہین
ساتھ جنکے سپاہ ہے یہ مژہ

ہر طرح دل مین کھپ رہی ہے ترے
خواہ برچھی ہے خواہ ہے یہ مژہ

آنکھین مل مل چھپاتے ہو تم کیون
دیکھنا کیا گناہ ہے یہ مژہ

دل مین کانٹا سا کچھ چُبھے ہے مرے
کہ حسن کس کی آہ ہے یہ مژہ​
 

شمشاد

لائبریرین

ہو کر ترے جلوہ کے خریدار ہمیشہ
آ بیٹھے ہین ہم سَرِ بازار ہمیشہ

کرتا ہی رہا مین تو اُسے پیار ہمیشہ
پر مجھسے رہا شوخ وہ بیزار ہمیشہ

تو مان بھلا یا کہ بُرا اسمین ہمین تو
ہو جانا ترے کوچہ مین اکبار ہمیشہ

تو دل مین ہے اور دل کے جو ہین پوجنے والے
وہ دل سے ترا دیکھے ہین دیدار ہمیشہ

اک دن بھی نہ وعدے پہ وفا کی کبھی تو نے
کرتا ہی رہا ہمسے تو اقرار ہمیشہ

غیرت تو پھٹکتی نہین اب پاس بھی تیرے
غیرون مین پھرا کر تو مرے یار ہمیشہ

کہتا رہا وہ گوشہ ابرو سے بھلا اور
ہم کرتے رہے حالِ دل اظہار ہمیشہ

جس طرح وہ پھرتا ہے مرے دل مین الٰہی
دیکھا کرون آنکھون سے وہ رفتار ہمیشہ

جب مانگتا ہون بوسہ تو کہتا ہے تجھے تو
رہتی ہے اِسی بات کی تکرار ہمیشہ

نہ جام کی خواہش ہے کہ مے کی مجھے ساقی
مین نشہ ہستی سے ہون سرشار ہمیشہ

نالے نہین کرتے تو جدائی مین گلون کے
کیا کرتے ہین پھر مرغ گرفتار ہمیشہ

ہر آن مین ہے عالم جدا باغ جہان کا
اِک رنگ پہ رہتے نہین گلزار ہمیشہ

بیٹھے ہین جہان تیرا ہی لے بیٹھے ہے قصہ
سنتے ہین حسن سے یہی گفتار ہمیشہ​
 

شمشاد

لائبریرین

ہمدم نہ پوچھ مجھسے غرض اک بلا ہے وہ
جو روبرو ہو اُسکے سو جانے کہ کیا ہے وہ

بیگانہ وار بھی نہ ملا ہمسے وہ کبھی
ہم سادہ دل یہ جانتے تھے آشنا ہے وہ

ہجران تو ہے پہ یہ نہین معلوم کچھ ہمین
ہم آپ سے جدا ہین کہ ہمسے جدا ہے وہ

پھر پھر کے پوچھتے ہو عبث آرزوے دل
تم جانتے تو ہو کہ مرا مدعا ہے وہ

مین نے تو بات بھی نہین کی اُس سے ہمنشین
اک یہ بھی چوچلا ہے کہ ناحق خفا ہے وہ

عاشق کو اپنے ٹوک کے بولا گر آپ سے
کم گو ہے بے نصیب ہے اور بے نوا ہے وہ

دل کی ہمارے کچھ تو خبر ہمکو بھی سُنا
جیتا ہے یا سسکتا ہے یا مر گیا ہے وہ

رنگِ حنا کی طرح نہ کھو اسکو ہاتھ سے
دل ہی مرا کہ ہاتھ ترے لگ گیا ہے وہ

معذور رکھ حسن کو جو بیطاقتی کرے
عاشقؔ ہے دردؔمند ہے اورؔ مبتلا ہے وہ​
 

شمشاد

لائبریرین

خواہ سچ جان مری بات کو تو خواہ کہ جھوٹھ
سچ کہون سچ کو اگر تیرے تو واللہ کہ جھوٹھ

سچ اگر بولے تو ہمسے تو بھلا کیا ہو خوشی
جی مین جی آتا ہے سنکر ترا ہر گاہ کہ جھوٹھ

راست گر پوچھے تو ہے راست کہ تجھ مین نہین مہر
اپنی ہٹدھرمی سے کہتا ہے تو اے ماہ کہ جھوٹھ

جھوٹھ موٹھ اُنسے مین کُچھ مصلحتاً بولون گا
سچ ہے تو بول نہ اُٹھیو دلِ آگاہ کہ جھوٹھ

مین جو پوچھا کہ تجھے غیرون سے ہے راہ تو وہ
پھیر کر مُنھ کو لگا کہنے باکرہ کہ جھوٹھ

کوئی اتنا بھی بُرا کرتا ہے میری ہی طرح
کیون بھلا سچ ہے نہ یہ اے بتِ دلخواہ کہ جھوٹھ

دل تو واقف ہے بہت وانسے ٹک ایک سچ کہنا
لاوبالی ہے مرے یار کی درگاہ کہ جھوٹھ

مجھسے جب ملتا ہے تب چھیڑ کے پوچھے ہے یہی
یہ حسن سچ ہی تو رکھتا ہے مری چاہ کہ جھوٹھ

کیا جواب اسکا مرے پاس بجز خاموشی
یا مگر یہ کہ یہی ہر گہ کہون آہ کہ جھوٹھ​
 
Top