دیوانِ میر حسن

شمشاد

لائبریرین

اس دل مین اپنی جان کبھی ہے کبھی نہین
آباد یہ مکان کبھی ہے کبھی نہین

غیرون کی بات کیا کہون اُسکی تو یاد مین
اپنا بھی مجھکو دھیان کبھی ہے کبھی نہین

وہ دن گئے جو کرتے تھے ہم متصل فغان
اب آہِ ناتوان کبھی ہے کبھی نہین

جس آن مین رہے تو اُسے جان منتنم
یان کی ہر ایک آن کبھی ہے کبھی نہین

ایام وصل پر تو بھروسا نہ کیجیو
یہ وقت میری جان کبھی ہے کبھی نہین

عادت جو ہے ہمیشہ سے اُسکی سو ہے غرض
وہ ہمپہ مہربان کبھی ہے کبھی نہین

اس دوستی کا تیری تلون مزاجی سے
اپنے تئین گمان کبھی ہے کبھی نہین

مغرور ہو جیو نہ اس اوج و حشم پہ تو
یان کی یہ عز و شان کبھی ہے کبھی نہین

عاشق کہین ہوا ہے حسن کیا ہے اسکا حال
یہ آپ مین جوان کبھی ہے کبھی نہین​
 

شمشاد

لائبریرین

ضعف سے نالے نہین گو اب دل ناشاد مین
جب یہ تھے تب کہیے کیا کچھ تھا اثر فریاد مین

عشق کا اب مرتبہ پہنچا مقابل حُسن کے
بن گئے بت ہم بھی آخر اُس صنم کی یاد مین

ہے مزا تب جب دو طرفی چاہ ہووے ہمنشین
کچھ نمک پایا نہ عشقِ شیرین و فرہاد مین

ایک خط تصویر کا اُسکی جو اُنسے کھنچ سکے
قوت و قدرت کہان یہ مانی و بہزاد مین

ہجر مین کیونکر نہوسے درد دل اے ہمنشین
درد ہجر آخر کو دیکھا ایک ہی تعداد مین

گفتگو اپنی برابر کب ضیاؔ کے ہو سکے
فرق ہوتا ہے بہت شاگرد اور اُستاد مین

مین ہی جانون ہون کہ یا جانے ہے میرا دل حسن
اک ادا کافر ہے ایسی اُس ستم ایجاد مین​
 

شمشاد

لائبریرین

اُسکے جب بزم سے ہم ہو کے بتنگ آتے ہین
اپنے ساتھ آپ ہی کرتے ہوے جنگ آتے ہین

حسن مین جب تئین گرمی نہو جی دیوے کون
شمع تصویر کے کب گرد پتنگ آتے ہین

دل کو کس بوقلمون جلوہ نے ہے خون کیا
اشک آنکھون سے جو یہ رنگ برنگ آتے ہین

آہ تعظیم کو اُٹھتی ہے میرے سینہ سے
دلپہ جب اُسکی نگاہون کے خذنگ آتے ہین

شرط گر پوچھو تو ہے اسمین بھی قسمت ورنہ
عاشقی کرنے کے ہر ایک کو ڈھنگ آتے ہین

نخل وحشت بھی مگر انکا ثمر رکھتا ہے
ہر طرف سے جو یہ دیوارونپہ سنگ آتے ہین

حیرت افزا ہے عجب کوچہ دلدار حسن
جو وہان جاتے ہین اُس طرف سے دنگ آتے ہین​
 

شمشاد

لائبریرین

کسی موسم کی وہ باتین جو تیری یاد کرتا ہون
اُنھین باتون کو پھر پھر کہ دل اپنا شاد کرتا ہون

نہین معلوم مجھپر بھی یہ احوال اپنی زاری کا
کہ مین مثلِ جرس کسکے لئے فریاد کرتا ہون

یہ دل کچھ آپی ہو جاتا ہے بند اور آپی کھلتا ہے
نہ مین قید اسکو کرتا ہون نہ مین آزاد کرتا ہون

جگر جلکر ہوا ہے خاک اور تسپر مین آہون سے
جو کچھ باقی رہے ہے گرد سو برباد کرتا ہون

غبارِ دل کو آبِ تیغ سے اُسکے ملا کر مین
نئے سر سے عمارت دل کی پھر بنیاد کرتا ہون

مرے آباد دل کو کر خراب اُسنے کہا ہنس ہنس
کہ مین اس ملک کا نام اب خراب آباد کرتا ہون

کبھی تیرے بھی دل مین یہ گذرتی ہے کہ مین ناحق
بھلا دلپر حسن کے اتنی کیون بیداد کرتا ہون

 

شمشاد

لائبریرین

یا صبر ہو ہمین کو اُس طرف جو نہ نکلین
یا اپنے گھر سے بن بن یہ خوبرو نہ نکلین

ہوتی نہین تسلی دل کو ہمارے جب تک
دو چار بار اُسکے کوچہ سے ہو نہ نکلین

دل ڈھونڈھ نے چلے ہین کوچہ مین تیرے اپنا
ڈرتے ہین آپکو بھی ہم وان سے کھو نہ نکلین

کوئی بھی دن نہ گذرا ایسا کہ اُس گلی سے
زخمی ہو مبتلا ہو جو ایک دو نہ نکلین

دل اور جگر لہو ہو آنکھون تلک تو پہونچے
کیا حکم ہے اب آگے نکلین کہو نہ نکلین

بستی مین تو دل اپنا لگتا نہین کہو پھر
صحرا کی طرف کیونکر اے ناصحو نہ نکلین

گر وہ نقاب اُٹھا دے چہرے سے تو حسن پھر
کچھ غم نہین مسہ و مہر عالم مین گو نہ نکلین​
 

شمشاد

لائبریرین

ہم نہ ہنستے ہین اور نہ روتے ہین
عمر حیرت مین اپنی کھوتے ہین

کھا کے غم خوان عشق کے مہمان
ہاتھ خونِ جگر سے دھوتے ہین

وصل ہوتا ہے جنکو دنیا مین
یا رب ایسے بھی لوگ ہوتے ہین

کوس رحلت ہے جنبش ہر دم
آہ تسپو بھی یار سوتے ہین

دل لگا اُس سے مردمِ دیدہ
ساتھ اپنے ہمین ڈبوتے ہین

آہ و نالہ سے وہ خفا ہے عبث
کانٹے ہم اپنے حق مین بوتے ہین

یاد آتی ہین اُسکی جب باتین
دلؔ حسنؔ دونون ملکے روتے ہین​
 

شمشاد

لائبریرین

اپنے دل سے تو کبھی ہم ترا شکوا نکرین
ہون گر آزردہ بھی ایسے ہی تو بولا نکرین

حاصل اس باغ کے آنیکا تو ہے دید بھلا
گلشنِ ہستی کا ہم کیونکہ تماشا نکرین

راز دل کہتے تو ہر اک سے کہا مین نے پر اب
مجھکو یہ ڈر ہے کہ وے ہی کہین رسوا نکرین

مین تو اِک دم بھی جدا ہون نہ ترے قدمون سے
غیر عالم مین گر اس بات کا چرچا نکرین

بن کہے بنتی نہین کہتے تو سنتا نہین وہ
حال دل اُس سے ہم اظہار کرین یا نکرین

کوئی دم تو یہ بتان پاس یوہین بیٹھے رہین
اپنے اُٹھ چلنے سے فتنہ کہین برپا نکرین

مثل پروانہ نہون جب تئین سرگرم وفا
حُسنِ جانسوز کے پھر عشق کا دعوا نکرین

اپنا گر بس ہو تو یہ حکم جہان پر کیجے
کہ سوا اپنے اُسے غیر یہ دیکھا نکرین

روز و شب ہمکو اسی فکر مین گذرے ہے کہ ہم
عشق مین اُسکے حسن کیا کرین اور کیا نکرین​
 

شمشاد

لائبریرین

تم تو کہتے ہو کہ مین جور و جفا رکھتا ہون
مین وفا کا بھی گھمنڈ ایک بلا رکھتا ہون

بیٹھنا تیرا تو ہوتا نہین ناچار ترے
مین تصور ہی کو اس دل مین بٹھا رکھتا ہون

اسکی بیتابیان دیکھی نہین جاتین مجھسے
اسلیئے آپ سے مین دل کو جدا رکھتا ہون

کیا کہون آہ نہین کہنے کی کچھ بات غرض
مین دل آزردہ بہت تجھسے گلا رکھتا ہون

ابتو تم دیکے قسم اپنا چھڑا ہاتھ چلے
خیر ابکی تو تمھارا مین کہا رکھتا ہون

پر کبھی پھر تمھین اس طرح نجانے دونگا
یاد رکھیے گا اسے مین یہ سنا رکھتا ہون

خط مرا کیونکہ حسن پہونچے وہانتک مین تو
نہ کوئی دوست نہ قاصد نہ صبا رکھتا ہون​
 

شمشاد

لائبریرین

جس روز سے اس بزم مین ہشیار ہوا ہون
مین سخت اذیت مین گرفتار ہوا ہون

کعبہ مین نہ کافر ہو نہ یون دیر من دیندار
جس طرح کہ مین در پہ ترے خوار ہوا ہون

کوئی بھی دوا راس نہین آتی مجھے ہاے
کیا جانیے کس چشم کا بیمار ہوا ہون

حیرت مری طینت مین ہے تخمیر ازل سے
مین آئینہ سان دیدہ بیمار ہوا ہون

جب تک کہ نہو یار حسن زیست کا کیا لطف
اس طرح کے جینے سے تو بیزار ہوا ہون​
 

شمشاد

لائبریرین

میرے رونے سے تجھے یار خبر ہے کہ نہین
دیکھ لے اشک سے دامن مرا تر ہے کہ نہین

کسی عنوان سے کٹتی نظر آتی نہین رات
کیا بلا ہجر کی اس شب مین سحر ہے کہ نہین

مسکراتا ہے تو کیا ہمسے تو کہ اے ظالم
دل کا لینا تجھے منظور نظر ہے کہ نہین

عندلیبون کے تو نالون سے اُڑا گل کا رنگ
دل کہین آہ مین تیری بھی اثر ہے کہ نہین

رات کو لوہو بہت رویا ہے تو آہ حسن
دیکھ تو ٹک ترے سینہ مین جگر ہے کہ نہین​
 

شمشاد

لائبریرین

داغِ فراق دل مین اور درد و عشق جی مین
کیا کیا نہ ہمنے دیکھا دو دن کی زندگی مین

ہر چند حال اپنا رو رو اُسے سُنایا
پر اُسنے سُنکے باتین سب ٹالدین ہنسی مین

کیا جائیے کہ کیسی ہو وے گی آج آفت
بیوجہ تو نے دیکھا منہ اپنا آرسی مین

ہے جان بلب بچارا جانا ہے تو پہونچ جلد
بیرحم ہے کہین بھی ٹک رحم تیرے جی مین

چلتے ہی چلتے تو نے یان دل لگا رکھے ہین
وان کام ہے حسن کا آخر کوئی گھڑی مین​
 

شمشاد

لائبریرین

بس گیا جب سے یار آنکھون مین
تب سے پھولی بہار آنکھون مین

نظر آنے سے رہگیا از بس
چھا گیا انتظار آنکھون مین

چشم بد دور خوب لگتا ہے
طوتیاے نگار آنکھون مین

چشم مست اُسکی دیکھی تھی اک روز
اسکا کھینچا خمار آنکھون مین

مجھکو منظور ہے حسن جو ملے
خاک پائے نگار آنکھون مین​
 

شمشاد

لائبریرین

پھرے ہے جب سے کہ وہ گلعذار آنکھون مین
مژہ کھٹکتے ہین چون نوک خار آنکھون مین

خوشی کی آنکھ تو پھڑکی ہے پر مین تب جانون
نظر پڑے جو کہین وہ نگار آنکھون مین

دو چار ہوئے کہین مجھ سے گروہ نرگس چشم
تو کیا تماشے کی پھولے بہار آنکھون مین

یہ کم نگاہیان نظرون مین ہین بھلا دیکھین
رہو گے کب تئین تم شرمسار آنکھون مین

نظر سے اُسکی حسن گر چکا ہے تو چون اشک
رہا نہین ترا کچھ اعتبار آنکھون مین​
 

شمشاد

لائبریرین

مر گئے یون ہی تیرے ہم غم مین
حسرتین کتنی رہگئین ہم مین

خنجر یار ٹک تو لگ لے گلے
پھر تو مر جائین گے کوئی دم مین

کون گاڑا ہے نیم بسمل یان
زلزلہ جو اُٹھے ہے عالم مین

جی دی کس پتنگ نے اپنا
شمع روتی ہے کسکے ماتم مین

کیون جھٹکنا ہے ہمسے دامن ہاے
خاک بھی تو نہین رہی ہم مین

دونے جلنے لگے یہ زخم جگر
کیا نمک تھا اے صبح مرہم مین

قطرہ خون حسن تو اُسکو نجان
دل یہ ایا ہے دیدہ نم مین​
 

شمشاد

لائبریرین

ترے بن باغ مین جسوقت غنچے گُل کے کھلتے ہین
خراش ناخنِ غم سے جگر کے زخم چھلتے ہین

نہ لیٹ اس طرح مُنھ پر زلف کو بکھرا کے اے ظالم
ذرا اُٹھ بیٹھ تو اسدم کہ دونون وقت ملتے ہین

خدا جانے حسن درد و الم کو ضد ہے کیا مجھسے
خدائی چھوڑ کر ساری یہ میری طرف پلتے ہین​
 

شمشاد

لائبریرین

سمان تھا کل عجب ہونے سے تیرے شوخ محفل مین
کہ سو سو آرزووین مضطرب پھرتی تھین ہر دل مین

نہ ہٹ اسکے تڑپنے سے ٹک اک نزدیک آنے دے
کہ تاحسرت نرہجاوے تری دوری کی بسمل مین

مشابہ تیرے چہرے کے نہو منھ حال کے باعث
کہ یہ تو کچھ تماشا ہو گیا ہے ایک ہی تل مین

پگھلتا سنگ بھی ہوتا اگر مجنون کے نالون سے
نہین معلوم یا رب کون کافر دل ہے محمل مین

حسن رکھیو قدم ہرگر نہ صحراے محبت مین
کہ ہے سر سے گذرنا رسم یان کی راہ و منزل مین​
 

شمشاد

لائبریرین

جو نالہ تیرے غم کے بیمار کھینچتے ہین
گویا وہ اپنے دلپر تلوار کھینچتے ہین

غیرون کے ساتھ آنا ہے کوئی یہ عیادت
اس وضع سے تو دونا آزار کھینچتے ہین

بے طرح رشتہ جان میرا یہ چشم تیری
مستی سے مل کے دونون ہر بار کھینچتے ہین

چنگے نہون گے ہمتو اِس عشق کے مرض سے
تصدیع ہمپہ ناحق غمخوار کھینچتے ہین

ہم جذبہ نگہ سے یہ لطفِ حسن تیرا
آنکھون کے راہ دل تک دلدار کھینچتے ہین

آغوش سے ہماری کھینچے ہے کیا کنارہ
ہم ہی کنارہ تجھسے ناچار کھینچتے ہین

اُس گل سے کیونکہ ہوئے صحبت حسن ہماری
مفلس سے آپ کو یہ زردار کھینچتے ہین​
 

شمشاد

لائبریرین

شام کو دیکھ کے اُس مہ کی جھلک پانی مین
چھپ گیا شرم سے خورشید فلک پانی مین

ایک دن عکس ترا دیکھا تھا دریا مین کہین
خضر ڈھونڈھے ہے اُسے آج تلک پانی مین

بندھ گئے خون کے یون دیدہ تر مین قطرے
اشک جون شمع کے جم جائین ڈھلک پانی مین

جوش کھا دل سے مری چشم مین یون گرتے ہین اشک
جیسے ساغر سے پڑے پانی جھلک پانی مین

پھل نپایا کبھی رونے کا حسن چشم نے کُچھ
گرچہ ڈوبی رہی نت اُسکی پلک پانی مین​
 

شمشاد

لائبریرین

وصل ہونے سے بھی کچھ دل کے تئین سود نہین
اب موجود وہ یان ہے تو یہ موجود نہین

بند کی راہ رقیبون نے جو وانکی تو کیا
راہِ آمد شد دل اپنی تو مسدود نہین

ہمنے سو طرے سے خوبان جہان کو دیکھا
ہر طرح مین کوئی اُس شوخ سے افزود نہین

روبرو کسکے کہون درد دل اپنا مین آہ
کہکن یان نہین مجنون نہین محمود نہین

دل کو کس کس کے ترے طرف سے ناخوش مین کرون
کوئی ایسا نہین یان تجھسے جو خوشنود نہین

لب نو خط کے ترے بوسہ شیرین کی طلب
کیا کرے کوئی کہ وہ جلوہ بے دود نہین

سیر گلگشت چمن کیا کرین ہم خاک حسن
اپنی قسمت مین تو وان بھی گل مقصود نہین​
 

شمشاد

لائبریرین

ہے سزا دل کی جو زلفون کے گیا پہرے مین
شب کو کیون نکلا اکیلا جو پھنسا پہرے مین

دل کا لگنا ہے کسی سے ہے تری قید فرنگ
پھر نچھوٹا کبھی جو اسکے پڑا پہرے مین

عشق ہی کا ہے یہ پہرا کہ پھنسے جسمین جی
ورنہ ہوتی ہے کہین بند ہوا پہرے مین

اُس فرنگی بچہ کے کوچہ مین جو کوئی گیا
نقش پا کے نمط اُس جا پہ رہا پہرے مین

مردم چشم نے پلکون کی چڑھا سنگینین
ایک عالم کو نظر بند کیا پہرے مین

عشق نے جرم محبت پہ دیا ہے غم کے
دل جدا پہرے مین اور دیدہ جدا پہرے مین

تھا عدم مین تو ہر اِک بند سے آزاد حسن
قید ہستی نے مرے مجھکو دیا پہرے مین​
 
Top