دیوانِ میر حسن

شمشاد

لائبریرین

آج دل بیقرار ہے کیا ہے
درد ہے انتظار ہے کیا ہے

جس سے جلتا ہے دل جگر وہ آہ
شعلہ ہے یا شرار ہے کیا ہے

یہ جو کھٹکے ہے دل مین کانٹا سا
مژہ ہے نوکِ خار ہے کیا ہے

چشم بد دور تیری آنکھون مین
نشہ ہے یا خمار ہے کیا ہے

میرے ہی نام سے خدا جانے
ننگ ہے اسکو عار ہے کیا ہے

جسنے مرا ہے دام دلپہ مرے
خط ہے یا زلف یار ہے کیا ہے

کیون گریبان تیرا آج حسن
اس طرح تار تار ہے کیا ہے

دریا مین ڈوب جاوے کہ یا چاہ مین پڑے
اے عشق پر نکوئی تری راہ مین پڑے

مت پوچھ جورِ غم سے دلِ ناتوانکا حال
بجلی تو دیکھی ہو گی کبھی کاہ مین پڑے

اِکدم بھی دیکھ سکتا نہین ہمکو اُسکے پاس
خاک اس فلک کے دیدہ بدخواہ مین پڑے

جو دوستی کے نام سے رکھتا ہو دشمنی
دیوانہ ہو جو اُسکی کوئی چاہ مین پڑے

آ جا کہین شتاب کہ مانندِ نقش پا
تکتے ہین راہ تیری سرِ راہ مین پڑے

جلوے دو چند ہووین شبِ ماہ کے ابھی
اُس ماہرو کا عکس اگر ماہ مین پڑے

سُلگے ہے نیم سوختہ جیسے دھوین کے ساتھ
جلتے ہین یون ہم اپنی حسن آہ مین پڑے​
 

شمشاد

لائبریرین

یون غیر کچھ کہین تو بلا کو بُری لگے
تو کچھ نکھ کہ ہم غُربا کو بُری لگے

ننگی کرے نہ ھوصلہ اپنا کہین بس اب
اتنی جفا نکر کہ وفا کو بُری لگے

تجھ بن یہ زیست اپنی ہمین یون ہے جس طرح
قیدِ حیات اہلِ فنا کو بُری لگے

ہون خاک تیرے کوچہ کی ہم اور اپنی گرد
تیری گلی سے آہ صبا کو بُری لگے

ہمتو سہین گے وہ بھی پہ لازم نہین تجھے
اُس ناز کی جفا جو ادا کو بُری لگے

ہے بیحیائی حد سے جو گرمی زیادہ ہو
شوخی بہت تو مردونسا کو بُری لگے

چون آئینہ دل اپنا کدورت سے صاف رکھ
گردِ ملال اہل صفا کو بُری لگے

ہر دم جواب صاف مروت سے ہے بعید
وہ بات تو نکر کہ حیا کو بُری لگے

اُس بُت بندگی سے نہ آزاد ہو حسن
یہ بات بھی کہین نہ خدا کو بُری لگے​
 

شمشاد

لائبریرین

ہمتو ہین تجھ زلف ہی سے سر بسر باندھے ہوے
صید بستہ پر پھرے ہے کیون کر باندھے ہوے

جون سلیمانی یہ کسکا اب خیالِ زلف و رخ
ساتھ پھرتا ہے مجھے شام و سحر باندھے ہوے

جان و دل کا قتل ہے منظور یا ہے مخلصی
لیچلے ہو اِن اسیرون کو کدھر باندھے ہوے

دامِ الفت سے نہ نکلے ہم کبھی سائے کی طرح
تم گئے جیدھر گئے ہم بھی اُدھر باندھے ہوے

خون دل کسکا ہے یہ جون طاہرِ رنگِ حنا
ناز سے آتا ہے تیرے ہاتھ پر باندھے ہوے

خانہ زنجیر کے مانند تیری قید مین
عشق آتے ہین چلے اب گھر کے گھر باندھے ہوے

تا نہو برباد نکہت کی طرح یہ تنگدل
غنچہ سان رکھتے ہین مُٹھی ہی مین زر باندھے ہوے

اور ہر دامِ قفس سے چھٹ سکے ہین ہمنشین
اک نہین چھٹتے تو اُلفت کے مگر باندھے ہوے

اور بھی دل روبرو ہین تیری ٹک تیرِ نگاہ
پھیکیو اپنی نشانی پر نظر باندھے ہوے

قتل ہے کسکا تجھے منظور اے خونی نگاہ
ہر گھڑی پھرتا ہے کیوں تیغ و سپر باندھے ہوے

کس روش مین آہ پہونچوں اُڑ کے گلشن تک حسن
مجھکو تو صیاد نے چھوڑا ہے پر باندھے ہوے​
 

شمشاد

لائبریرین

بیکلی مجھکو نہین ہر گلبدن کے واسطے
جان بلب ہون اپنے اُس غنچہ دہن کے واسطے

دل تری خاطر ہے اور تو دل کی خاطر اس طرح
خون جون گل کے لیے اور گل چمن کے واسطے

قول اِدھر دیتا ہے اور اُودھر مکر جات ہے وہ
کیجیے کیا فکر اُس پیمان شکن کے واسطے

شمع تب ٹھنڈی ہوئی جب خاکساری سے پتنگ
توتیا جلکر ہوا چشمِ لگن کے واسطے

عالمِ وحشت مین جو دست جنون سے بچ رہے
چاک پھر یا رب وہ جامہ ہو کفن کے واسطے

کچھ سُنا تھا حق مین اپنے ایک دن تجھسے سخن
سیکڑون سنتا ہون باتین اُس سخن کے واسطے

شربتَ دیدار شیرین یون ملے خسرو کو ہاے
زہر کا پیالہ بنے یون کوہکن کے واسطے

عیش و عشرت کس طرح ہو دوستان مجھکو نصیب
مین تو یان پیدا ہوا رنج و محن کے واسطے

بیجگہ عاشق ہوا ہے کیا کرین کچھ بس نہین
جی تو کڑھتا ہے بہت اپنا حسن کے واسطے​
 

شمشاد

لائبریرین

نہ ملا وہ نفاق کے مارے
کیا کرین ہم وفاق کے مارے

جبتک آوے ہے آوے تو ہمتو
مر چکے اشتیاق کے مارے

مت خفا ہو کہ آن نکلے ہین
ہم بھی یان اتفاق کے مارے

ملگئے خاک مین ہزارون ہی
چرخ کہنہ رواق کے مارے

ہو چکا حشر بھی حسن لیکن
نہ جیے ہم فراق کے مارے​
 

شمشاد

لائبریرین

تیر پر تیر لگے تو بھی نہ پیکان نکلے
یا رب اس گھر مین جو آوے نہ وہ مہمان نکلے

نیک و بد مین جو نہین جنگ عدم مین تو بھلا
کیون گل و خار بہم دست و گریبان نکلے

دستِ چالان جنون سینہ کو بھی کر دے چاک
تا کہین پہلو سے میرے دلِ نالان نکلے

کونسی رات وہ ہووے کہ جو آوے سبِ وصل
کونسا روز وہ ہو جو شبِ ہجران نکلے

گلشنِ دل مین بھی تھی اپنی کچھ اُلٹی تاثیر
تخم امید جو بوئے گُلِ حرمان نکلے

کر نظر رخ کو ترے کفر سے نکلے کافر
زلف کو دیکھ تری دن سے مسلمان نکلے

جتنا کہتے ہین نکلتا ہے حسن گھر سے ترے
غصے ہو ہو یہی کہتا ہے ابھی ہان نکلے​
 

شمشاد

لائبریرین

آہون سے مرے گھر مین ہوا گرم رہیگی
مین جاؤنگا تو بھی مری جا گرم رہیگی

بھرتے ہی رہینگے نفس سرد ہزارون
جبتک کہ تری آن و ادا گرم رہیگی

جلنا مِرے تب دل کا لگے گا یہ ٹھکانے
صحبت تری جب مجھسے سدا گرم رہیگی

چوٹی مین دلِ سوختہ کو گوندھ کے پیارے
مت پھیک قفا پر کہ قفا گرم رہیگی

بلبل نہ مجھے دیجیو تو نالے کی تکلیف
ورنہ اثر اسکے سے صبا گرم رہیگی

جبتک نہین تو دختر زر ہی کو رکھونگا
کچھ تو یہ بغل میری بھلا گرم رہیگی

عشاق کو ترغیب محبت ہی کریگا
جبتک ہے حسن بزم وفا گرم رہیگی​
 

شمشاد

لائبریرین

جس شخص کی ہو زیست فقط نام سے تیرے
اُس شخص کا کیا حال ہو پیغام سے تیرے

گالی ہے کہ ہے سحر کوئی یا کہ ہے افسون
جی شاد ہوا جاتا ہے دشنام سے تیرے

ہے اپنی خوشی اُسمین کہ تو جس مین خوشی ہو
آرام ہی اپنے تئین آرام سے تیرے

آہستہ قدم رکھیو تو اے ناقہ لیلٰی
مجنون کا بندھا آتا ہے دل گام سے تیرے

جب کوچے مین جا بیٹھتے ہین تیرے تو اپنی
آنکھین لگی رہتی ہین در و بام سے تیرے

ہے اپنے ہمین کام سے کام اے بتِ خود کام
ہم کام نہین رکھتے ہین کچھ کام سے تیرے

کیا ہجر کی رات آئی کہ مانند چراغان
پھر جلنے لگے داغ حس شام سے تیرے​
 

شمشاد

لائبریرین

جان مین جان تبھی قیس کے بس آتی ہے
ناقہ لیلٰی کی جب بنگ جرس آتی ہے

ساتھ دیکھون ہون کسی کے جو کسی دلبر کو
مین بھی جی رکھتا ہون مجھکو بھی ہوس آتی ہے

قیس و فرہاد کے رونے کی جب آ جاتی ہے لہر
کوہ و صحرا پہ گھٹا جا کے برس آتی ہے

زندگی ہے تو خزان کے بھی گذر جائینگے دن
فصل گل جیتون کو پھر اگلے برس آتی ہے

جب قفس مین تھے تو تھی یاد چمن ہمکو حسن
اب چمن مین ہین تو پھر یادِ قفس آتی ہے​
 

شمشاد

لائبریرین

دلبر سے ہم اپنے جب ملین گے
اس گم شدہ دل سے تب ملین گے

یہ کسکو خبر ہے ابکی بچھڑے
کیا جانیے اُس سے کب ملین گے

جان ودل و ہوش و صبر و طاقت
اِک ملنے سے اُسکے سب ملین گے

دنیا ہے سنبھل کے دل لگانا
یان لوگ عجب عجب ملین گے

ظاہر مین تو ڈھب نہین ہے کوئی
ہم یار سے کس سبب ملین گے

ہو گا کبھی وہ بھی دور جو ہم
دلدار سے روز و شب ملین گے

آرام حسن تب ہی تو ہو گا
اُس لب سے جب اپنے لب ملین گے​
 

شمشاد

لائبریرین
ایم ایس ورڈ کی دو فائلیں منسلک ہیں۔

divan mir hasan.zip صفحہ نمبر کے حساب سے ہے۔
divan mir hasan 2.zip غزلوں کے حساب سے ہے۔
 

Attachments

  • divan mir hasan.ZIP
    232.3 KB · مناظر: 2
  • divan mir hasan 2.ZIP
    234.2 KB · مناظر: 4
Top