دیوانِ میر حسن

شمشاد

لائبریرین
کنز تحتُ العرش مَفَاتِیحہَاَ الَسِنَتِہ الشُعراِئُ

الحمد للہ والمنہ کہ درین زمن بفضل رب ذو المنن مجموعۃ کلام مصداق الشعر حسنہ حسن

اعنے

دیوانِ میر حسن

نتیجہ فکر

اُستاد فن شاعر یکناے زمن بدرمنیر سپہر سخن جناب میر غلام حسن صاحب حسن مرحوم

بمطبع منشی نوک شو و ارقع لکھنؤ مزین بہ زیور بطع شد
 

شمشاد

لائبریرین

بسم اللہ الرحمن الرحیم

گر کیجے رقم کچھ تری وحدت کے بیان کا
تو چاہیے خامہ بھی اسی ایک زبان کا

تو ہے تو مری جان و دل و جسم ہے ورنہ
کیسا یہ دل اور کیسا یہ جی اور میں کہان کا

رکھتے ہین نکچھ نام ہی اپنا نہ نشان ہم
کیا نام و نشان پوچھو ہو بے نام و نشان کا

اس بات کو ٹک سُن کہ جہانکا نہو اثبات
کیا دل مین بھروسا کرے پھر کوئی دہان کا

مت دست ہوس کو تو جُھکا لینے کو اسکے
ماٹی سے سب آلود ہے اسباب جہان کا
سربستہ رہا یو نہین یہ رازِ حرم و دیر
معلوم ہوا بھید نہ یان کا نہ وہان کا

بیگانہ ہے یان کون اور اپنا ہے یہان کون
ہے سب یہ بکھیڑا مرے ہی وہم و گمان کا

جس عالمِ ہستی کو سمجھتے تھے بہار آہ
آخر کو جو دیکھا تو وہ موسم تھا خزان کا

سچ کیون نہ کہین ہمتو مسلمان ہین اے شیخ
رہتا ہے یہان نامِ خدا ذکر بتان کا

مرضی ہو جہان اُسکی وہی جا ہمین بہتر
مشتاق دل اپنا نہین کچھ باغِ جنان کا

سر دیویگا جسدم تو حسن تیغ کو اُسکی
اسرار کھلے گا تبھی اس سرِ نہان کا​
 

شمشاد

لائبریرین
کیونکر خدا نہ بخشے گنہ اِس غلام کا
بندہ ہون دل سے مین تو محمد ﷺ کے نام کا

بھیجون ہون زلف و رخ پہ محمدﷺ کی نِت درود
مین نے کیا ہے در دیہی صبح و شام کا

جلوے سے ہے نبی ہی کے ساری یہ کائنات
خَلَص دہی ہے دونون جہان مین تمام کا

جسجا پہ ایک مرتبہ اُسنے رکھا قدم
رتبہ ہے عرش سے بھی پرے اُس مقام کا

ہر مہر جسپر اُسکی تو ذرہ ہو آفتاب
ہے نور اُسکا رتبہ رسان خاص و عام کا

برحق ہے بعد اُسکے وصی اُسکا مرتضی
حق کو نہ مانے جو کوئی ہے وہ حرام کا

شیرِ خدا کا بسکہ تولد ہوا ہے دان
واجب ہے سجدہ اسلیئے بیت الحرام کا

مین و دستدار پنجتن و اہلبیت ہون
بندہ ہون جان نثار ہون بارہ امام کا

ہوتی ہے جنکو بندگی انکی جناب مین
اُنکو مقام ملتا ہے دارالسلام کا

سیراب مجکو کیجیے محشر مین یا علی
امیدوار رہتا ہون کوثر کے جام کا

گر ہو قبول یہ غزل نعت و منقبت
شہرا جہان مین تب ہو حَسن کے کلا م کا​
 

شمشاد

لائبریرین

گر عشق سے کچھ مجکو سروکار نہوتا
تو خواب عدم سے کبھی بیدار نہوتا

یارب مین کہان رکھتا ترا داغِ محبت
پہلو مین اگر میرے دلِ زار نہوتا

دنیا مین تو دیکھا نہ سوائے غم و اندوہ
مین کاشکے اِس بزم مین ہشیار نہوتا

یون نالہ پریشان نہ نکلتا یہ کبھی آہ
سینے مین جو میرا یہ دل افگار نہوتا

خمیازے بہت کھینچتا پھرتا مین جہان مین
گر تیری مے عشق سے سرشار نہوتا

کرتا میں حسن قُدس کے عالم ہی مین پرواز
ہستی کا اگر اپنی گرفتار نہوتا​
 

شمشاد

لائبریرین

چھوٹا نہ دان تغافل اُس اپنے مہربانکا
اور کرم کر چکا یان یہ اضطراب جانکا

اُٹھتے ہی دل جگر مین کیا آگ سے لگا دی
خانہ خراب ہوئے اس نالہ و فغان کا

وے دن گئے جو گلشن تھا بود و باش اپنا
ابتو قفس مین بھولے نقشہ بھی گلستانکا

سامان لیچلا ہے اندوہ کا یہین سے
کیا جائیے ارادہ دلنے کیا کہانکا

جانا تو ہمنے چھوڑا پر کیا کریں حسن ہائے
چُھٹتا نہین ہے دلسے ہرگز خیال وانکا​
 

شمشاد

لائبریرین

تیرا حسن یہ رونا یونہی رہیگا
ظالم تو پھر کسیکا کاہیکو گھر رہیگا

تیرے ہی غم کا گھر ہے یہ دل جلا نہ اِسکو
گر یہ جلا تو تیرا پھر غم کدھر رہیگا

تربت پہ بیکسونکی رکھیو نہ پھول کوئی
گُل کی جگہ اُنھونکا داغِ جگر رہیگا

آنا ہے گر تو آ جا جلدی وگرنہ یہ دل
یونہین تڑپ تڑپ کر کوئی دم مین مر رہیگا

بتخانہ ہی مین چل بیٹھ یا کعبہ مین حسن اب
یون کب تلک دوانے تو دربدر رہیگا​
 

شمشاد

لائبریرین

کرون شکوہ تو بے وسواس مین اُس سے نہ آنیکا
نہو دھڑکا مرے دلمین گر اُسکے روٹھ جانیکا

وساطت سے کسیکی چھپ کے بھی چاہا نکچھ ورنہ
کیا تھا ڈھب تو یارون نے بہت اُس سے ملانیکا

ترے پہلو سے اُٹھ جانیکا جتنا ہے الم ہمکو
نہیں اتنا تو غم اپنے تئین دل کے بھی جانیکا

مجھے آتا ہے رونا دیکھکر زانو کو اب اپنے
کہ تھا اک وقت مین تکیہ کسیکے یہ سرھانیکا

رقیبِ روسیہ کی بات پر مت گوش رکھیو تو
کیا ہے فکر اِسنےمیرے اور تیرے لڑانیکا

حسن تو ہر کسی سے حال دل کہتا پھرے ہے کیون
عبث بدنام ہو گا اور نہین کچھ اِسمین پانیکا

ملامت ہی کرینگے اور اُلٹی تجکو ہنس ہنس کر
کوئی احوال پر تیرے نہین افسوس کھانیکا​
 

شمشاد

لائبریرین

عشق کبتک آگ سینہ مین مِرے بھڑکائیگا
راکھ تو مین ہو چکا کیا خاک اب سُلگائیگا

لیچلی ہے ابتو قسمت تیرے کوچہ کی طرف
دیکھیے پھر بھی خدا اس طرف ہمکو لائیگا

کر چکے صحرا مین وحشت پھر چکے گلیون مین ہم
دیکھیے اب کام ہمکو عشق کیا فرمائیگا

نو گرفتاریکے باعث مضطرب صیاد ہون
لگتے لگتے جی قفس مین بھی مرا لگ جائیگا

دم کی آمد شد تجھی تک تو ہے دلمین میری جان
تو اگر یانسے گیا تو کون پھر یان آئیگا

ابتو کرتا ہے حسن کو قتل تو یون بیگناہ
دیکھیو پر کوئی دم ہی مین بہت پچتائیگا​
 

شمشاد

لائبریرین

زنگِ الم کا صیقل ہو کیون نہ یار رونا
روشندلی کا باعث ہے شمع وار رونا

جسجا پہ تمنے باتین کی تھین کھڑے ہو اکدن
جب دیکھنا وہ جاگہ بے اختیار رونا
آ لینے دے یہانتک اُس گل کو ٹک تو رہجا
پھر ساتھ میرے ملکر ابرِ بہار رونا

تو آ کے آستین رکھ اس چشم تر پہ میری
پاوے جہان مین میرا تا اشتہار رونا

محوِ خیال ہین جو اُس شوخ کم نما کے
درد و الم مین اُنکا ہے ننگ و عار رونا

جبسے جدا ہوا ہے وہ شوخ تبسے مجکو
نِت آہ آہ کرنا اور زار زار رونا

دم ہی نہین ٹھہرتا آنسو کی کیا کہون مین
جی سے حسن پڑی ہے اب درکنار رونا​
 

شمشاد

لائبریرین

ہوا سے زلف و رخ مین ہے سمان ہے یار رونیکا
بندھا ہے شام سے لے تا سحر ایک تار رونیکا

خدا جانے کہ آخر رفتہ رفتہ حال کیا ہوئے
ہوا ہے بیطرح آنکھون کو کچھ آزار رونیکا

ابھی گر لہر آویگی مجھے تو دنگ ہوئیگا
ٹکرا ہے ابر تو آگے مرے اظہار رونیکا

اثر ہوئے نہوئے پر بلا سے جی تو بہلے گا
نکالا شغل تنہائی مین مین ناچار رونیکا

اسی مین ناخوشی گر ہے تو لے آ بیٹھ مت غم کھا
ترے کہنے بس اب مین نہین دلدار رونیکا

ابھی رو رو کے ٹک آنسو تھنبے ہین میرے اے ہمدم
نہ لا پھر پھر کے تو کچھ ذکر اور ازکار رونیکا

حسن کچھ تو کہا ہے اُسنے تجکو مین سمجھتا ہون
تری آنکھین تو نم ہین تو نہ کر انکار رونیکا​
 

شمشاد

لائبریرین

نے ہون چمن کا مائل نے گل کے رنگ درد کا
رنگ وفا ہو جسمین بندہ ہون اُسکی بو کا

وہ ملک دل کہ اپنا آباد تھا کبھو کا
سو ہو گیا ہے تجھ بن اب وہ مقام ہو کا

مت سہم دل مبادا یہ خون سوکھ جاوے
آتا ہے تیر اُسکا پیاسا ترے لہو کا

غنچہ ہون مین نہ گل کا نہ گل ہونمین چمن کا
حسرتکا زخم ہون مین اور داغ آرزو کا

لایا غرور پر یہ عجز و نیاز تجکو
تیرا گنہ نہین کچھ اول سے مین ہین چو کا

دامان و جیب ہے کچھ ٹکڑے نہین ہے ناصح
ہے چاک میرے ہاتھون سینہ تو اب رفو کا

خاموش ہی رہا وہ ہر گز حسن نہ بولا
جسکو مزا پڑا کچھ اُس لب کی گفتگو کا​
 

شمشاد

لائبریرین

قیامت مجھپہ سب اوسکا ترحم اور تظلم تھا
کبھی تھین گالیان منھ پر کبھی لب پر تبسم تھا

یہ سب اپنے خیالِ خام تھے تم تھے پرے سب سے
جو کچھ سمجھے تھے ہم تمکو یہ سب اپنا توہم تھا

اب اُلٹے ہم ہی اِسکے حکم مین رہنے لگے ناصح
وہ دفتر ہی گیا جو اپنا اِس دلپر تحکم تھا

تمھین بھی یاد آتے ہین کبھی وہی دن کہ کوئی دن
ہمارے حال پر کیا کیا تفصل اور ترحم تھا

شب اُس مطرب پسر کے یان حسن تھی زور ہی صحبت
اِدھر تو نالہ دل تھا اُدھر اُسکا ترنم تھا​
 

شمشاد

لائبریرین

دیکھ آئینہ مین عکسِ رخِ جانا نہ جدا
مین جدا محو ہوا اور دلِ دیوانہ جدا

سرسری قصہ مین غیرونکے نہ سن میرا حال
گوش دلسے کبھی سنیو مرا افسانہ جدا

آہ کیا جانیئے محفل مین یہ کسکی خاطر
شمع روتی ہے جدی جلتا ہے پروانہ جدا

شرکتِ شیخ و برہمن سے مین نکلا جبسے
کعبہ سونا ہے جدا خالی ہے بتخانہ جُدا

دور مین اپنے الٰہی رہیگا کبتئین یون
بادہ شیشے سے جدا شیشے سے پیمانہ جدا

درد کرتا ہے تپ عشق کی شدت سے مرا
سر جاد سینہ جدا قلب جدا شانہ جدا

جب ہوے ہم ہین جدا اُس سے تو کچھ کام نہین
غیر اُس شوخ سے اب ہوئے جدا یا نہ جدا

اسکو امید نہین ہے کبھی پھر بسنے کے
اور ویرانونسے اس دلکا ہے ویرانہ جدا

کیا کہون اپنی مصیبت کا بیان تجھسے غرض
جیسے وہ مجھسے ہوا ہے مرا جانانہ جدا

کارم از عشق رسیدست بجائے مخلص
کہ بمن خویش جدا گریدو بیگانہ جدا

گوشہ چشم مین بھی مردمِ بدبین ہین حسن
واسطے اسکے بنا دل مین نہانخانہ جدا​
 

شمشاد

لائبریرین

رو رو کے کیا ابتر سب کام مرے دلکا
کھویا مری آنکھون نے آرام مرے دلکا

آغازِ محبت میں دیکھا تو یہ کچھہ دیکھا
کیا جانئیے کیا ہو گا انجام مرے دلکا

جسدن سے ہوا پیدا اُسدنسے ہوا شیدا
دیوانہ و سودائی ہہے نام مرے دلکا

طوفان ہے زلفون پر بہتان ہے کاکل پر
ہے رشتہ اُلفت ہی پر دام مرے دلکا

جبتک مین جیا مجکو قاصد نہ ملا آخر
اب جی ہی چلا لیکر پیغام مرے دلکا

بتخانہ دل میرا کعبے کے برابر ہے
واجب ہے تجھے جانان اکرام مرے دلکا

معشوق کی اُلفت سے مت جان حسن خالی
لبریز محبت ہے یہ جام مرے دلکا​
 

شمشاد

لائبریرین

کب میں گلشن میں باغ باغ رہا
مین تو جون لالہ وان بھی داغ رہا

جو کہ ہستی کو نیستی سمجھا
اُسکو سب طرف سے فراغ رہا

ہے یہ کس عندلیب کی تربت
جسکا گل ہی سدا چراغ رہا

سیر گلشن کرین ہم اُس بن کیا
اب نہ وہ دل نہ وہ دماغ رہا

طبع نازک کے ہاتھ سے اپنے
میرے ہی دل کا یہ ایاغ رہا

دل حسن ایسے گم ہوئے کہ سدا
ایک کو ایک کا سُراغ رہا​
 

شمشاد

لائبریرین

دل خدا جانے کسکے پاس رہا
اندنون جی بہت اُداس رہا

کیا مزا مجکو وصل مین اُسکے
مین رہا بھی تو بیحواس رہا

یون کھلا، اپنا یہ گُلِ اُمید
کہ سدا دلپہ داغِ یاس رہا

شاد ہون مین کہ دیکھ میرا حال
غیر کرنے سے التماس رہا

جب تلک مین جیا حسن تب تک
غم مرے دلپہ بے قیاس رہا​
 

شمشاد

لائبریرین

اک وقت مین کہ عشق کا ہمکو خیال تھا
جو شعر درد کا تھا سو وہ حسب حال تھا

مانند عکس دیکھا اُسے اور نہ مل سکے
کس رو سے پھر کہین گے کہ روزِ وصال تھا

اب رفتہ رفتہ باتین وہ ہموار ہو گئین
آگے جنھون کے نام سے جی کو ملال تھا

کیا جانین آہ کیونکہ ہوا ہمسے دل جدا
اپنے تو جی سے چھوٹنا اُسکا محال تھا

بارے ترے قدم تئین پہونچے ہزار شکر
مدت سے اشتیاق یہ ہمکو کمال تھا

دل اُسکی زلف سے جو چھٹا تو بھلا ہوا
ناحق یہ اپنے جی کے لئیے اک وبال تھا

اس بزم سے کہان گئے وہ شعلہ رو حسن
روشن زیادہ شمع سے جنکا جمال تھا​
 

شمشاد

لائبریرین

کہا مین کہ بھرتا ہون دم آپکا
لگا کہنے صاحبِ کرم آپکا

نہون غیر گر ساتھ تو آئیے
سر آنکھونپہ میرے قدم آپکا

سوا میرے اتنا تو بندہ نواز
اوٹھا دے نہ کوئی ستم آپکا

مجھے اپنے مرنے سے تو ہے یہ غم
کہ تنہا رہیگا یہ غم آپکا

اُنھون کے تو لینے مین اتنا عبث
یہ انکار ہے دمبدم آپکا

دل و جان جو ہین یہ سو اپنے نہین
سمجھتے ہین انکو تو ہم آپکا

مجھے بھی حسن سوجھتا ہے غرض
ڈبو دیگا یہ چشم نم آپکا​
 

شمشاد

لائبریرین
نہ مین شمع سان سر بسر جل گیا
سراپا محبت کا گھر جل گیا

محبت کا رستہ عجب گرم تھا
قدم جب دھرا خاک پر جل گیا

فلک تک گیا نالہ پر آہ آہ
رہا کام ابتر اثر جل گیا

لگایا محبت کا جب یان شجر
شجر لگ گیا اور ثمر جل گیا

اگر غم ہے تو ہے فقط جان کا
نہین مال کا غم اگر جل گیا

غضب تھا شرارہ غضب آہ کی
گیا خط بھڑک نامہ بر جل گیا

گلُ شمع کا نخل تھا مین حسن
لگا شام یان اور سحر جل گیا​
 

شمشاد

لائبریرین

غیرون مین جو ہمپر وہ غضب تھا
کیا جانئیے اسکا کیا سبب تھا

وہ تاب و توان کہان ہے یارب
جو اس دلِ ناتوان مین تب تھا

اب رونے سے آ پڑا ہے جسکو
ہنسنے ہی سے کام روز و شب تھا

تھے محو خیال رات اُس سے
باتونکا ہمین دماغ کب تھا

کیا جانے کی اُسکے پودھین تجھسے
جینا ہی ترا حسن عجب تھا​
 
Top