دیوانِ میر حسن

شمشاد

لائبریرین

جہاں ثابت قدم رکھنا وہان سر سے گذر جانا
مزا ہے استقامت سے مثالِ شمع مر جانا

نکل اے جان اب دلسے کہ صاحب خانہ آتا ہے
ترا تو جی ہی اوٹھنے کو نہین کیا یہ بھی گھر جانا

مزا رکھتا ہے مستی مین بہکنا شوخ کا ہر دم
ادھر کچھ بات کرنا و وہین پھر اودھر مُکر جانا

کوئی دم کے ہین مہمان اس چمن مین ایکدم آخر
مثالِ نکہتِ گُل شام جانا یا سحر جانا

نہین مجلس مین بار اُسکی خبر کرنے سے بھی ہوتی
گئے وَے دن جو ملتا تھا ہمین وان بیخبر جانا

تجھے تو ضد ہے کہنے سے مرے مین تو نہین کہتا
یہ دل کہتا ہے یون جانا کہ ایکدم بیٹھ کر جانا

یہی گر خوف ہے تو زندگی کیونکر حسن ہو گی
کہ جب کچھ بات کہنا روبرو اُسکے تو ڈر جانا​
 

شمشاد

لائبریرین

شب چاندنی مین مکھڑا کسکا دمک رہا تھا
مہتاب کا بھی دیدہ اُس ہی کو تک رہا تھا

منھ دیکھتے ہی اُسکا کچھ پھوٹ ہی بہا اب
پھوڑا یہ میرے دل کا کیا آہ پک رہا تھا

مت کو تو خوشدماغی یوسف کی بو پر اے مصر
کئی روز اس سے آگے کنعان مہک رہا تھا
کس مست ناز نے کل میخانہ پر نگہہ کی
دیوار و در تلک بھی جو وانکا چھک رہا تھا

کیا جانے آہ نے کی کیا دل جلے بلے سے
ورنہ یہ کویلا تو کبسے دہک رہا تھا

خورشید ہی پر اپنے منکر ہوا فلک تو
یان داغ دل بھی اپنا ایکدن جھمک رہا تھا

دل تو جدا کیا تھا دلبر کو بھی چُھڑایا
باقی یہ ایک صدمہ دینا فلک رہا تھا

کیا جانئیے حسن تھا یا کون تھا اُس آگے
احوال کوئی اپنا رُو رو کے بک رہا تھا

قسپر جواب اُسکو ملتا نہ تھا اُدھر سے
بیچارہ اپنے سر کو ناحق پٹک رہا تھا​
 

شمشاد

لائبریرین

اپنی طرف سے ہمنے تمسے بہت نباہا
پر آہ کیجیے کیا تمنے ہمین نہ چاہا

گذری ہے رات مجھمین اور دلمین طرفہ صحبت
ایدھر تو مین نے کی آہ اودھر سے وہ کراہا

ان ہی بتون نے یہ جو کافر ہین اس اودھ کے
کعبہ سمجھ کے میرے اس دل کے گھر کو ڈھاہا

کیون گھورتا ہے مجھو تیرا تو کچھ نہین ذکر
ہے اور ہی وہ کوئی مین نے جسے سراہا

بہنے لگا لہو پھر آنکھوں سے کچھ حسن کی
زخمِ جگر کا شاید سرکا ہی اُسکے پھاہا​
 

شمشاد

لائبریرین

طوفان کرینگے دیدہ پر آب دیکھنا
اُبلے ہین بیطرح سے یہ تالاب دیکھنا

مت بخت خفتہ پر مِرے ہنس اے رقیب تو
ہو گا ترے نصیب بھی یہ خواب دیکھنا

اے چشم تمسے یوہین جو بہتا رہیگا خون
تو شہر شہر غرقہ خون ناب دیکھنا

تو بیقراری اپنی پہ کرتا تو ہے غرور
گر ہمکو لہر آئی تو سیماب دیکھنا

کس مُنہ سے میرے یار کے ہوتا ہے رو برو
چہرے کے داغ اپنے تو مہتاب دیکھنا

بسمل کی طرح جان ہی دیگا تڑپ تڑپ
آخر کو یہ مرا دل بیتاب دیکھنا

دامن مین اشک چشم مین کون اور جان بلب
احوال کو حسن کے ٹک احباب دیکھنا

 

شمشاد

لائبریرین

بزم مین تو دیکھو مجکو تنگ کیون ہونے لگا
مین ترا لیتا ہون کیا بیٹھا ہون ایک کونے لگا

مجکو باتون مین لیا ہی تھا یارون نے اب
پر مین آیا آپ مین بارے جو پھر رونے لگا

آہ کیا شکوہ کرون مین ہاتھ سے اُسکے حنا
جب ہوئی میرے لہو کی رنگ تب دھونے لگا

چھوڑ بیخوابی مین مجکو بستر راحت پہ شوخ
کیونکہ تجکو کل پڑی کس نیند تو سونے لگا

بیخ بُنیاد نہال عشق کو برباد دے
آہ مین تخمِ محبت دلمین کیون بونے لگا

ایک دو آنسو سے ہم چشمونین تھی ٹک آبرو
جذبہ محوِ خیال اُسکو بھی اب کھونے لگا

اُسکے کوچہ مین بھی رقت کم نہوئی تیری حسن
روتے روتے وانسے آیا پھر یہان رونے لگا​
 

شمشاد

لائبریرین

عشق کا راز گر نہ کھل جاتا
اسقدر تو نہ ہمسے شرماتا

آ کے تب بیٹھتا ہے وہ ہم پاس
آپ مین جب ہمین نہین پاتا

زندگی نے وفا نکی ورنہ
مین تماشا وفا کا دکھلاتا

مر گئے ہمتو کہتے کہتے حال
کچھہ تو تو بھی زبانسے فرماتا

مین تو جاتا ہی آپ سے لیکن
تیرے کہنے سے اب نہین جاتا

سب یہ باتین ہین چاہ کی ورنہ
اسقدر تو نہ ہمپر جھنجھلاتا

ہے عجب ماجرا کہ اپنا تو
تجکو مطلق کہا نہین بھاتا

اور ترا اختلاط ہر اک سے
کیا کرین ہمکو خوش نہیں آتا

جیسے یہ میر کا سُنا ہے شعر
گر یہ بے اختیار ہے آتا

خواب مین بھی رہا تو آنے سے
دیکھنے ہی کا تھا یہ سب ناتا

مین نہ سُنتا کسیکی بات حسن
دل جو باتین نہ مجکو سُنواتا​
 

شمشاد

لائبریرین

دلکو صنم لیکے جدا ہو گیا
اے مرے اللہ یہ کیا ہو گیا

قتل کیا تو نے جو میرے تئین
اسمین مگر تیرا بھلا ہو گیا

غیر پہ وہ مہر یہ ہمپر غضب
دل انھین باتون سے خفا ہو گیا

خبطی و سودائی و مجنون غرض
تو نے جو کچھ مجکو کہا ہو گیا

دوست جسے دلسے مین اپنے کیا
جانسے دشمن وہ میرا ہو گیا

جھڑکی مگر کم تھی جو گالی بھی دی
کام تو اسمین بھی ادا ہو گیا

کل جو حسن یار ہوا ہم سخن
باتون ہین باتون مین مزا ہو گیا​
 

شمشاد

لائبریرین

اُس کمان ابرو پہ جو قربان ہوا
وہ شہیدِ ناوکِ مژگان ہوا

خار سے پھوٹے پھپھولے پاؤن کے
درد ہی آخر مرا درمان ہوا

آرسی مین دیکھکر اپنے تئین
خود مثال آئنہ حیران ہوا

یان تلک گھر کر گیا دلمین کہ بس
رفتہ رفتہ جان سے جانان ہوا

جسنے اُس قاتل کو اپنا دل دیا
پھر حسن وہ صورتِ بیجان ہوا​
 

شمشاد

لائبریرین

دل جلایا بھڑک جگر اُٹھا
دیکھیو شعلہ یہ کدھر اُٹھا

یک بیک دلپہ کیا غضب ٹوٹا
پھر یہ کچھ آہ سرد بھر اُٹھا

کیا بلا دن بہار کے آئے
پھر دوانونکا شور و شر اُٹھا

رو ہی بیٹھے دل اپنے کو آخر
ڈھے گیا جیسے یہ نہ گھر اُٹھا

کل جو کوچے سے اُسکے مین اپنے
دلِ غمگین کا نوحہ گر اُٹھا

روتے ہی روتے راہ مین آخر
کام اپنا تمام کر اُٹھا

اشک کے شست و شو سے داغ جگر
اے حسن کیا ہوا اگر اُٹھا

اُٹھتے اُٹھتے ہی جیب و دامن سے
زور ہی کھچہ بہار کر اُٹھا

 

شمشاد

لائبریرین

کیا پوچھتے ہو یارو حالِ تباہ میرا
بے مہر ہو گیا ہے وہ رشک ماہ میرا

تیری یہ کم نگاہی اور میرا یہ تڑپنا
تو ہی بتا کہ کیونکر ہو گا نباہ میرا

سودا ہوا ہے مجکو زلفونکا تیری یانتک
نشتر لگے تو نکلے لوہو سیاہ میرا

گر راست مجھسے پوچھو قبلہ بھی اُسکو بھولے
دیکھے کبھی جو زاہد وہ کجکلاہ میرا

قسمت مین ہجر ہی تھا اپنی حسن وگرنہ
کیا جرم اسمین اُسکا اور کیا گناہ میرا​
 

شمشاد

لائبریرین

اس عشق مین جو قدم دھریگا
جیتا نہ بچیگا وہ مریگا

اول سے یہی ہے مجکو رونا
آخر کو یہ درد کیا کریگا

گر ہجر کی شب یہ ہے حسن تو
رو رو تو اپنے دن بھریگا​
 

شمشاد

لائبریرین

خط نے بہارِ حسن کو تیرے چھپا دیا
افراط نے دھوین کی یہ شعلہ بجھا دیا

تک جا نہ گرم بزم مین کی اُسکی چون شرر
نالے نے جو ہمارے ہمین کو اُٹھا دیا

فرقت کی شب مین آ چکی پھر کیا جلا دینگے
دل کا دِیا تھا ایک سو کل ہی جلا دیا

آنسو گرا کہ باد لگی اسپر آہ کی
دل کا چراغ میرے یہ کسنے بجھا دیا

اے چرخ دشمنی تھی تجھے کیا حسن کے ساتھ
جو حسرتون کو خاک مین اُسکی ملا دیا​
 

شمشاد

لائبریرین

یہ نہ گل مین نہ باغ مین دیکھا
جو مزا اپنے داغ مین دیکھا

آتش دلکا تیرے ہمنے پتنگ
رات شعلہ چراغ مین دیکھا

عکس اُسکا ہی پایا ہمنے حسن
بھر نظر جس چراغ مین دیکھا​
 

شمشاد

لائبریرین

تڑپے ہے بہت یہ دلِ افگار ہمارا
آ جائے شتابی کہیں دلدار ہمارا

بیرنگ ہے کچھ آئینہ دلکا یہان عکس
ہے بو قلمون جلوہ گر یار ہمارا

جذبہ ہے ستم کا کہ کشش مہر کی ہے وان
جاتا ہے جو دل ہو کے یہ ناچار ہمارا

گذری ہے جو کچھ غم مین ترے ہمپہ تعب ہائے
کس سے کہین اب کون ہے غمخوار ہمارا

آخر تو ہمین قتل کریگا کوئی دم مین
ٹک سُن تو لے احوال تو اکبار ہمارا

ہے زیست کا حظ تجھسے اگر تو ہی نہوئے
کیا جینا ہے دنیا مین پھر اے یار ہمارا

تو نام حسن لیتا ہے کیا زلف کا اُسکی
آگے ہی پریشان ہے دل زار ہمارا​
 

شمشاد

لائبریرین

ہر شب یوہین دیا سا جلتا اگر رہونگا
تو رفتہ رفتہ آخر ایکدن کو مر رہونگا

خالی نجائگا یہ ہر شب لہو کا رونا
اِکروز دلکے ٹکڑے دامن میں بھر رہونگا

کوچے سے اپنے مجکو مت ہر گھڑی تو اُٹھوا
مین خود بخود یہانسے ایکدن گذر رہونگا

ناصح عبث نصیحت بیفائدہ نکر تو
دل مین جو کچھ مرے ہے آخر مین کر رہونگا

کہتا ہے تو کہ تجکو پاتا نہیں کبھی گھر
یہ جھوٹ سچ ہے دیکھون آج اپنے گھر رہونگا

تجھسے حسن جدا ہو جا بیٹھونگا کہین اب
یون ساتھ تیرے کب تک مین دربدر رہونگا​
 

شمشاد

لائبریرین

ہوے ہم خاک تسپر بھی نہین ہوتا گذر تیرا
ستم جاتا نہین ابتک بھی اے بیداد گر تیرا

نہ پہنچی دانتو تک گرمی بھی اور یان آگ لگ اُٹھی
کہین کیا آہ دیکھا ہمنے یہ اُلٹا اثر تیرا

لبِ شمشیر کا بوسہ لیا ہے کسکے مُنہ لگ کر
ہنسے ہی دے ہے ایدل آج کچھ زخمِ جگر تیرا

ترکھتا مین تو ایسے دلکو پہلو مین کبھی ہرگز
نہوتا پاس خاطر جان کچھ مجکو اگر تیرا

دلِ صد چاک جبتک ہے ہمارا وقت تزئین کے
نہ لگنے دینگے ہاتھ اے شانے اُسکی زلف پر تیرا

لگا ہے تیر پر یان تیر ہی غربال ہے سارا
نشانہ ہے حسن کسکا یہ پہلو مین جگر تیرا​
 

شمشاد

لائبریرین

خط کا قاصد نہ جواب اُسکے اگر لاویگا
پھر بھلا اُسکی تو کچھ خیر و خبر لاویگا

غم کے داغون سے تو پھولا ہے جگر کا تختہ
دیکھئے دلکا شجر کیا یہ چمر لاویگا

اشک ہی دل نہین لانیکا فقط تیرے نیاز
ساتھ اشکونکے بہت لخت جگر لاویگا

کوچہ یار ہے اور دَیر ہے اور کعبہ ہے
دیکھئے عشق ہمین آہ کدھر لاویگا

بحر اشکون کی تو اے ابر حسن کی سوکھی
پانی اب کونسے چشمون سے تو بھر لاویگا​
 

شمشاد

لائبریرین

مین ہی نہ غم کو ہستی کا سامان دیچکا
دل ہی غریب اپنی اُسے جان دیچکا

کر پرزے پرزے اسکو جنون یا کہ تار تار
مین تیرے ہاتھ اپنا گریبان دیچکا

جانا نہ تھا تجھی کو تو ایسا ہے بیوفا
پر ابتو جان تجکو مین ایجان دیچکا

اب تجکو کیا دون ایک جو دل تھا سو پہلے ہی
روزِ فراق کو شبِ ہجران دیچکا

کیا چاہتی ہے اور تو اب مجھسے مین تجھے
جمعیت اپنی زلف پریشان دیچکا

وحشت کو سر ٹپکنے کو کیا مانگین اس سے اور
ہمکو تو عشق کوہ و بیابان دیچکا

درد فراق زخم جگر داغ دل حسن
کیا کیا نہ وہ ہمین گلِ خندان دیچکا​
 

شمشاد

لائبریرین

لاشے کے ساتھ میرے کاہیکو کوئی چلیگا
مردے پہ بیکسونکے اب کسکا دل جلے گا

اشجار دوستی کے پھل سبکے لائے یارب
میرا بھی نخل امید اس سے کبھی پھلے گا

کہتے ہین دلکو لیلے بوسے کے بدلے ہمسے
لے لیگا اور کوئی جو تو اسے نہ لے گا

دل اشک و آہ و نالہ نکلے ہین سب اکٹھے
اب دیکھئے کدھر کو یہ قافلہ چلے گا

مرنیکا غم نہین ہے مجکو حسن کے پیارے
پر ساتھ اُسکے تیرا غم خاک میں رُلے گا​
 

شمشاد

لائبریرین

گر عشق یوہین دلپر جور و جفا کریگا
تو اس نگر مین کوئی کیونکر بسا کریگا

آسان نجانیو تو غافل یہ قتل میرا
اسکا بہت جہان مین غوغا رہا کریگا

باتونپہ تیری ابتو دلکو دیا ہے مین نے
دیکھین تو اسکے حق مین تو کیا بلا کریگا

دل ہی کہین نکلجائے ہو ٹکڑے ٹکڑے یا رب
آنکھوں سے خون میری کبتک بہا کریگا

اکدنکا ہوئے غصہ تو ہو سکے یہ نت اُٹھ
کسکو دماغ ہے جو باتین سُنا کریگا

فرقت کی شب مین اُسکی کیا جانیئے الٰہی
مانند شمع کبتک یہ دل جلا کریگا

دل دیکے اسلیے مین ملتا نہین کسی سے
یعنی کہ چرخ ایکدن آخر جدا کریگا

جس سے یہی ہے بہتر گوشے مین بیٹھ رہنا
دیکھین گے نہ کسیکو نہ کوئی ملا کریگا

بیطرح سوجھتا ہے کچھ مجکو اے حس تو
کیا جانون اپنے دلپر رو رو کے کیاکریگا​
 
Top