دیوانِ میر حسن

شمشاد

لائبریرین

یہ سینہ بھی جائے قدم تھا کسیکا
کبھی اس طرف بھی کرم تھا کسیکا

جنون لیگیا ہمکو طرفِ غزالان
کہ اُن خوش خرامونمین دم تھا کسیکا

دمِ مرگ تک روتے ہی روتے گذری
ہمین بھی قیامت الم تھا کسیکا

نہ تھمتی تھین آہین نہ رہتے تھے آنسو
حسن تجکو کیا رات غم تھا کسیکا​
 

شمشاد

لائبریرین

گر اسکا یہی آہ و افغان رہیگا
تو اک عالم اس دلسے نالان رہیگا

دکھا دینگے چالاکی ہاتھون کی ناصح
جو ثابت جنون سے گریبان رہیگا

وہ آشفتہ بلبل مین جاتا ہون یانسے
کہ جس بن چمن سب پریشان رہیگا

کسی رنگ مین تو تجھے دیکھ لین گے
تو کبتک بھلا ہمسے پنہان رہیگا

یہی نوحہ گر دل ہے گر ساتھ تیرے
حسن گور مین بھی تو نالان رہیگا​
 

شمشاد

لائبریرین

آتش غم نے ملکِ دل پھونک دیا جلا دیا
باقی جو کچھ کہ رہگیا اشک نے لے بہا دیا

کہتے تھے ہم کہ روزِ ہجر کہتے ہین کسکو کیا ہے چیز
ہائے فلک نے سو وہ دن آج ہمین دکھا دیا

ایک یہی چراغِ دل جلتا تھا میرے حال پر
آہِ سحر نے میری آہ اُسکو بھی اب بُجھا دیا

جان و دل و قرار و ہوش جو جو متاع خاص تھے
رہزنِ چشم نے تری پل مین اُسے لُٹا دیا

اور جو کچھ تھا سو تو تھا لیکن یہ عین ظلم ہے
آنکھون نے تیری جو مجھے نظرونسے اب گرا دیا

میکشون مین تو شیخ آج آ ہی پھنسا تھا شکر کر
داڑھی پہ تیری رحم کر ہمنے تجھے بچا دیا

ٹکڑے جگر ہے کیون ترا غنچے کی طرح اے حسن
زہرغمِ فراق کا کسنے تجھے پلا دیا​
 

شمشاد

لائبریرین

کیا جانے اُسکے جی پر کیا کچھ خیال گذرا
کچھ آپ ہی آپ اپنے دلپر ملا گذرا

خرمن پہ صبر کے یان بجلی سی گر گئی تب
ملکِ خیال بین جب تیرا جمال گذرا

مجنون سے پیشقدمی ہرگز نہ کی کسی نے
اُسکا بھی عاشقی مین حد سے کمال گذرا

ایسی ہی آہ باتین اُس بیوفا نے چھیڑین
روتے ہی روتے جسمین روزِ وصال گذرا

غیرون مین دیکھ تمکو بیٹھے ہوئے کہین کیا
جو کچھ کہ اپنے دلپر گذرا سو حال گذرا

پر منصفی سے اتنا فرمائیے کہ بارے
خدمت مین آپکی بھی کچھ انفعال گذرا

کس تلخ کامیونسے راتین حسن نے کاٹین
پر تو نہ اُس تک اِکدن شرین مقال گذرا​
 

شمشاد

لائبریرین

جسنے کہ مَے عشق سے اِک جام نپایا
اُس دوڑ مین اُسنے تو کبھی نام نپایا

ہر ایک ہدایت کی نہایت ہے و لیکن
اِس عشق کے آغاز کا انجام نپایا

کیا شکوہ کرین کنج قفس کا دلِ مضطر
ہمنے تو چمن مین بھی ٹُک آرام نپایا

نہ رُخ پہ نظر کی نہ کسی زلف کو دیکھا
کچھ ہمنے تو لطفِ سحر و شام نپایا

اُس لب سے کسی بات کی کیا رکھیئے توقع
جس لب سے کہ اِکدن کبھی دشنام نپایا

چون چیغ مسافر ہی رہے ہمنے تو ٹک چین
تجھسے کبھی اے گردشِ ایام نپایا

جزبے سروسامانی حسن ہمنے جہان مین
افسوس کہ کچھ اور سر انجام نپایا​
 

شمشاد

لائبریرین

حجابِ عشق گر ہائل نہوتا
تو ملنا یار کا مشکل نہوتا

یہی آتا ہے اپنے دل میں پھر پھر
کہ کیا ہوتا جو اپنا دل نہوتا

ندیتے جان دشواری سے اتنی
ہمارے سر پہ گر قاتل نہوتا

نکرتا عشق سے گر علم تحصیل
تو کچھ تحصیل کا حاصل نہوتا

رہا مین بیدماغی سے ترے چپ
نہین باتون مین تو قائل نہوتا

نہوتی یہ خبر بھی اپنی ہرگز
اگر تجپر یہ دل مائل نہوتا

امنگین تھین حسن کے دل مین کیا کیا
ابھی تو کوئی دن بسمل نہوتا​
 

شمشاد

لائبریرین

اور تو کون مری بات کو پہچانیگا
بات عاشق کی تو عاشق ہی کوئی جانیگا

مجھ سوا کون مرے حال کو پہچانیگا
مین اگر سچ بھی کہونگا تو کوئی مانیگا

بولنے کے نہین ہم آج سے بس تجسے کبھی
ہمسے اب جو کوکئی بولیگا تو وہ جانیگا

جتنا نازک ہو مزاج اُتنی کدورت ہو زیادہ
کِرکِرا کھا ویگا ووہی جو بہت چھانیگا

اپنے ہی تار نفس مین وہ رہیگا پابند
مکڑی کی طرح یہ جالا جو کوئی تانیگا

اُس تلک مجکو تو لیجائیگا وہ شخص حسن
پہلے جو اپنے بھی مرنے کے تئین ٹھانیگا​
 

شمشاد

لائبریرین

افتادگی جو چاہے تو رکھ ہوشِ نقش پا
آئینہ خاکسارونکا ہے دوشِ نقش پا

بولین نہ خاک چاٹ کے بھی مُنہ سے بات کچھ
ہم خاکسار جون لبِ خاموش نقشِ پا

کیا جانے انتظار مین کسکے پڑا ہے یہ
مانند چشم حلقہ آغوشِ نقشِ پا

از بسکہ گرم رو گئے ہین رہروِ عدم
شاہد ہے اُنکے حال کا یان جوشِ نقش پا

کچھ نقش پا ہی یاد سے اُنکے نہیں گئے
ہو گئے ہین رفتگان بھی فراموشِ نقش پا

دے مست جو گئے ہین اسے چھوڑ راہ مین
تکتا ہے اُنکو دیدہ مدہوشِ نقش پا

کچھ تو صدا ہی آہ تہ خاک تھی کہ جو
اودھر کو لگ رہا ہے حسن گوش نقش پا​
 

شمشاد

لائبریرین

آسان نہ سمجھیو تم نخوت سے پاک ہونا
اِک عمر کھو کے ہمنے سیکھا ہے خاک ہونا

کِھلتا برنگ گل یہ کب مژدہ صبا سے
تھا اُسکی تیغ سے تو اِس دل کو چاک ہونا

کیا جانئیے کہ باہم کیون ہمین اور اُسمین
موقوف ہو گیا ہے اب وہ تپاک ہونا

ہنس بول تو جو ہم ہون غمگین تو ہون بجا ہے
بیجا لگی ہے تجکو اندوہناک ہونا

آخر تو ایک دن ہے مرنا حسن پہ کیا ہو
گر ہاتھ سے لکھا ہو اُسکے ہلاک ہونا​
 

شمشاد

لائبریرین

مت پوچھ کہ رحم اُسکو مرے حالپہ کب تھا
اب کہنے سے کیا فائدہ جب تھا کبھی تب تھا

اتنا بھی تو بیچین نرکھ دلکو مرے تو
آخر یہ وہی دل ہے جو آرام طلب تھا

کیا دلکے لگانیکا سبب پوچھے ہے ہمدم
بے چیز تو البتہ نہین کچھ تو سبب تھا

روتا تھا کبھی اور کبھی ہنستا تھا نمپٹ مین
شب عالمِ وحشت مین مرا حال عجب تھا

کعبے کو گیا چھوڑ کے کیون دلکو تو اے شیخ
ٹک جی مین سمجھتا تو سہی یان بھی تو رب تھا

غصہ بھی ترا یاد وہ حال ہے میرا
گر یہ بھی نہوتا تو مری جان غضب تھا

مجنون کی بھلی بات لئے پھرتا ہے اہاہ
سن حال نہ ٹک تازہ حسن کا کہ وہ اب تھا​
 

شمشاد

لائبریرین

پیغام نہ ملنے کا مجھے یار نے بھیجا
تحفہ یہ نیا میرے ستمگار نے بھیجا

تاہو ترے اطراف مین پھر پھر کے معطر
نکہت کو ترے یان گل و گلزار نے بھیجا

ناچار چھپا کبک دری شرم سے جا کر
کہسار مین اُسکو تری رفتار نے بھیجا

منصور تجھے عشق مین ٹک مانیو احسان
پستی سے بلندی کے تئین دار نے بھیجا

قاصد نملا آہ تو پھر جی کو اُس پاس
ناچار مجھی سے کسی ناچار نے بھیجا

رتبہ یہ شہادت کا کہان اور کہان مین
وانتک مجھے اُس شوخ کی تلوار نے بھیجا

کیا بندہ نوازی ہوئی اللہ یہ کیا تھا
نامہ ہمین آج اُس بتِ عیار نے بھیجا

میرا تو نتھا جی کہ مین اس رتبہ کو پہونچون
پر کوچہ رسوائی مین دلدار نے بھیجا

کی یان تئین ۔۔۔۔۔۔ حسن کھائی نہ جھڑکی
خاموشی کو آخر تری تکرار نے بھیجا​
 

شمشاد

لائبریرین

جو مُنھہ میں آیا اُسکے سو غصہ سے کہ گیا
کچھ مجکو بن نہ آئی میں رو رو کے رہ گیا

آگے زبان درازی تو اتنی نتھی کبھی
کیا جانے کسکے کہنے پہ وہ رشک مہ گیا

یہ سخت سست باتین سنائین کہ کیا کہون
دریا غضب کا تھا کہ مرے سر سے بہ گیا

قابل جو کچھ نکہنے کے تھا اور سنے کے
سو کہ گیا وہ شوخ مجھے اور مین سہہ گیا

دل مین تو آئی تھی کہ حسن تو بھی بول اٹھ
پر جی مین سوچ سوچ کے کچھ اپنے رہ گیا​
 

شمشاد

لائبریرین

لے صبح سے تا شام اُسی نام کو جپنا
اور شام سے تا صبح اُسی ورد مین کھپنا

اُس شوخ کے جانے سے عجب حال ہےہ میرا
جیسے کوئی بھولے ہوئے پھرتا ہے کچھ اپنا

بیوجہ نہین غیر سے گرمی حسن اُسکی
چون ابر رُلا ویگا مجھے خوب یہ تپنا​
 

شمشاد

لائبریرین

کب قفس سے میں اُنھین دیکھ پکارا نکیا
ہمصفیرون نے پر ایدھر کو گذارا نکیا

دین و دنیا سے کیا مین نے کنارا لیکن
تیرے ملنے سے مریجان کنارا نکیا

تا اشارے کو سمجھنے نہ لگے غیر کی وہ
مین نے اس ڈرسے کبھی اُسکو اشارا نکیا

کب گئے باغ میں تجھ بن کہ ذرا ٹھہر کے وان
چشم حسرت سے جو ہر گل پہ نظارا نکیا

گو نہ پوچھا مجھے اُسنے تو بھلا شادہونمین
غیر کا بھی تو مرے ہوتے مدارا نکیا

کعبہ و دیر سے ہِرپھر کے ترے در پہ جو مین
آ کے بیٹھا تو مُنھہ اودھر کو دوبارا نکیا

ضبط نالے سے جو کچھ مجھپہ ہوا مین نے سہا
درد سر اور کو دینا تو گوارا نکیا

تمنے جھوٹے بھی کہا جس سے نہ مل ہم نہ ملے
پر کہا آپ نے اُس ڈھب کا ہمارا نکیا

اور سب کچھ کیا پر دل نہ چھڑایا تمسے
ہان مگر ایک یہ کہنا تو تمھارا نہ کیا

کونسی رات گئی کونسا وہ گذرا دن
مہر و مہ کو جو ترے چہرے پہ وارا نکیا

حوصلہ تھا یہ مرا ہی کہ اسیری میں حسن
سر کو دیوار قفس سے کبھی مارا نکیا​
 

شمشاد

لائبریرین

مجھسے ہوا نشے مین ہم آغوش آشنا
یا رب اسی طرح رہے بیہوش آشنا

کم حوصلہ ہین ہمکو کہان دید کی نظر
ہے مصلحت جو ہمسے ہی روپوش آشنا

ای نوجوانو اتنا اکڑتے ہو کیون کبھی
ہمسے بھی اس جوانیکا تھا جوش آشنا

ظاہر مین گو لکھا نہ لکھا خط تو کیا ہوا
ہوتے ہین کوئی دلسے فراموش آشنا

کون اُٹھ گیا ہے مجمع عشاق سے کہ آج
آئے نظر سبھی مجھے خاموش آشنا

ہم قدو کو سمجھتے ہین ملتا ہے جو مدام
ہو گا کسیگا بادہ سرجوش آشنا

مستون کی بات کا نہین کچھ اعتبار دل
ہوتے ہین کب کسی کے یہ مینوش آشنا

بارے حسن کے نام کو وہ سنکے سوچ سوچ
بولا کہ ہان یہ نام تو ہے گوش آشنا​
 

شمشاد

لائبریرین

تھی مقدر دلکی واشد دلستان کے زیر پا
کِھل گیا غنچہ یہ آ کر باغبان کے زیر پا

ایکدم ناقے کو ٹھہراتا نہین مجنونکے پاس
خار آ جائے الٰہی ساربان کے زیرپا

مین نے جانا سادگی سے کچھ کشش الفت کی ہے
آ گیا دامن جو ٹک اُس سرگران کے زیر پا

اور تو کیا کیجیئے گر وہ قدم رنجہ کرے
فرش کیجے چشم و دل اُس مہمان کے زیر پا

سرکشی اس قطرہ خونسے نہ کیجو اے حنا
دل بھی رہتا ہے مرا اُس مہربان کے زیر پا

ناتوان دلنے نپایا کھوج اُس یوسف کا آہ
مفت مین روندا گیا یہ کاروان کے زیر پا

دل ملا جاتا ہے میرا آج تو کچھ صبح سے
آگیا ہے کیا کسی سرور دان کے زیر پا

سنگ کا ہے فرش کیا راہ فنا مین ہمنشین
نقش جو پڑتا نہین ان رہروان کے زیر پا

خوابِ ہستی سے کہیں اُٹھکر نہ رکھدے اسپر پائون
شیشہ مے کو نرکھ ساقی مغان کے زیر پا

پشت پا مارے ہے دنیا اور دین کو اے حسن
جا رہا ہے جیسے دل اپنا بتان کے زیر پا​
 

شمشاد

لائبریرین

اُسکی ہوا مین ایدل چشم پُر آب رکھنا
اس آبرو کو یکدم مثل حباب رکھنا

گُستاخیون کو میری کرنا معاف پہلے
تب میرے سامنے تو ساقی شراب رکھنا

آباد و گروہ چاہے دلکو تو کر سکے ہے
منظور ہے پر اُسکو میرا خراب رکھنا

بھولے سے مین کہا تھا اُس سے کہ دل ہے میرا
کہنے لگا بغل مین اب اسکو داب رکھنا

یہ دل جو لیچلے ہو اُلفت کا ہے رسالا
طاقِ فراموشی پر مت یہ کتاب رکھنا

دل لیکے مجھسے کہنا تو ہی تو دیگیا تھا
یعنی مرے ہی سر پر اُلٹے عذاب رکھنا

مہر و وفا کا میرے جور و جفا کا اپنے
میری طرف سے اپنے دلمین حساب رکھنا

بھر بھر کے آہ و نالے غش کر چکی ہے بلبل
پیالے مین گل کے شبنم تھوڑا گلاب رکھنا

عرصہ ہے تنگ بانکا دنیا ہو یا کہ دین ہو
جس راہ مین قدم تو رکھے شتاب رکھنا

بزم شراب ہے اور تنہا ہے پس مہرو
پردے ہی مین تو اپنا مُنھ آفتاب رکھنا

تیرے غمونکا عقدہ کھلجائیگا حسن تو
دل مین کسی طرحکا مت پیچ و تاب رکھنا​
 

شمشاد

لائبریرین

گو اب رہا تو کیا ہے پر اکروز جائیگا
مجھپر قیامت ایک نہ اکدن وہ لائیگا

دیکھے سے دور ہی کے دھڑکتا ہے دل مرا
کیا حال ہو گا جبکہ وہ نزدیک آئیگا

آنکھون کو جھوٹ موٹھ نہ مل اے ستم ظریف
تو ہی تو میرے رونے پر آنسو بہائیگا

خط کا جواب دیگا تو دیگا یہی وہ شوخ
نامے کو پُرزے کر کے ہوا پر اُڑائیگا

تیرا سا دل مرا یہ نہین اسکو جان رکھ
کسکو کریگا یاد جو تجکو بُھلائیگا
دلکو جلا کے ڈھونڈھے ہے کیا اسمین جان تو
اِک ڈھیر راکھ کا ہے یہان خاک پائیگا

کرتے تو قتل مجکو کیا ہے پر اب حسن
کیا کیا نہ اپنے جی سے وہ باتین بنائیگا​
 

شمشاد

لائبریرین

اتنی جاگہ نہ ملی اور کہین مجھکو کیا
تیری خاطرسے مین آتا ہون نہین مجھکو کیا

کوہ و صحرا سے تو گھبرا کے لے آیا تھا ابھی
لیچلا پھر دلِ وحشی تو وہین مجھکو کیا

ملتفت غیر سے ہو میرے کھجانے کے لیئے
تمنے باتین جو محبت کی کہین مجھکو کیا

یار تک مجھکو بہا کر تو کبھی لے نہ گئین
ندیان اشک کی میری جو بہین مجھکو کیا

مین ہون آئینہ تو اپنا ہی تماشائی آپ
تیری انکھین جو مجھے دیکھ رہین مجھکو کیا

گھر سے باہر جو نکلتا ہے تو جلدیسے نکل
ورنہ دھونی مین لگاتا ہون یہین مجھکو کیا

تمتو لڑ بھڑ کے حسن یار سے بس ایک ہوئے
مفت مین مین نے یہ باتین جو سہین مجھکو کیا​
 

شمشاد

لائبریرین

غیرونکا تو ڈر کیا ہے کہ مین کچھ نہین کہتا
خطرا مجھے تیرا ہے کہ مین کچھ نہین کہتا

تا مجھسے وہ پوچھے مری خاموشی کا باعث
مجھکو یہ تمنا ہے کہ میں کچھ نہین کہتا

اظہار خموشی مین ہے سو طرح کی فریاد
ظاہر کا یہ پردا ہے کہ میں کچھ نہین کہتا

آئینہ ہی جب ہو نہ تو کیا طوطی ہو گویا
سارا سبب اسکا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

کچھ بات اگر تجھسے کہون میں تو غضب ہو
اسپر تو یہ غصا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

کیا جانئیے کُچھ مُنھہ سے اگر نکلے تو کیا ہو
اِس بات کا دھڑکا ہے کہ میں کچھ نہین کہتا

پھر چھیڑ کے اُلٹا تو گلا کرتا ہے مجھسے
بس چپ ہو یہ تھوڑا ہے کہ میں کچھ نہین کہتا

کیا پوچھے ہے مجسے مری خاموشی کا باعث
کچھ تو سبب ایسا ہے کہ مین کچھ نہین کہتا

یون اور کوئی زلف تو دل چھین کے لیجائے
رو مجھکو یہ اُسکا ہے کہ مین کچھ نہین کہتا

اک مُنھہ سے ہزارون مجھے دیتا ہے وہ دُشنام
یہ حوصلہ میرا ہے کہ مین کچھ نہین کہتا

یہ بھی تو نہین اور ستم تمنے سُنا کچھ
پھر کہئیے تو کہتا ہے کہ مین کچھ نہین کہتا

گر حال حسن اُس سے کہونمین تو سنے وہ
پر مجھکو یہ سودا ہے کہ مین کچھ نہین کہتا​
 
Top