دیوانِ میر حسن

شمشاد

لائبریرین

تیری مدد سے تیرا ادراک ہو سکے ہے
ورنہ اِس آدمی سے کیا خاک ہو سکے ہے

تو ہی سمجھ سمجھکر کر دے معاف ہمکو
تیرا حساب ہمسے کب پاک ہو سکے ہے

خطرا نہین کسی کا جو چاہہے کر سکے ہے
تجھسا کوئی جہان مین بیباک ہو سکے ہے

رونے کو میرے جلدی ٹک دیکھ کھول آنکھین
ابتک ہے چشم میری نمناک ہو سکے ہے

لاکھون کا دل جلایا لاکھون کا جی کھپایا
تجھسے کوئی زیادہ سفاک ہو سکے ہے

وہ جلد و ستیون کے جاتے رہے زمانے
اب ہاتھ سے گریبان کب چاک ہو سکے ہے

جو کچھ شراب مین ہیہن کیفیتین نشے کی
تجھمین مزا یہ کوئی تریاک ہو سکے ہے

اُس ماہرو کو باہم کر دے حسن سے اِک شب
گردش سے تیری اتنا افلاک ہو سکے ہے​
 

شمشاد

لائبریرین

صنم پاس ہے اور شب ماہ ہے
یہ شب ہے کہ اللہ ہی اللہ ہے

ترے ناز کیونکر اُٹھاؤن نہ مین
مری دوستی پر تو گمراہ ہے

تجھے ہوش اتنا نہین بیخبر
مرے حال سے کب تو آگاہ ہے

ترا نام لیتے نکلتی ہے آہ
مری آہ کے دل مین کیا آہ ہے

کہان برق عشق و کہان کوہِ صبر
بگولے کے آگے پرِ کاہ ہے

مین کیونکر کہون تجھکو فرصت نہین
پہ یہ بات کب تیرے دلخواہ ہے

نہ انے کے سو عذر ہین میری جان
اور آنے کو پوچھو تو سو راہ ہے

مین اِک روز پوچھا جو اُس شوخ سے
کہ کیون کچھ تجھے بھی مری چاہ ہے

تو ہنسکر لگا کہنے کیا خوب کیون
تو میرا کہان کا ہوا خواہ ہے

یہ سُنکر جو مین چپ رہا تو کہا
ابے دل کا مالک تو اللہ ہے

حسن وصل اور ہجر مین یار کے
کبھی آہ ہے اور کبھی واہ ہے​
 

شمشاد

لائبریرین

آپ مین ابکی اگر ہم آئینگے
تو ترے کوچے ہی کو پھر جائینگے

روز کہتے ہو کہ تو مرتا نہین
خوب یہ کہنا بھی ہم دکھلائینگے

ہین قفس مین پر عبث باندھے ہے تو
اس قفس سے ہم کہان اُڑ جائینگے

یون تو جی تجھ بن بہلنے کا نہین
تری ہی باتون سے کچھ بہلائینگے

دوستون سے اِس دلِ دشمن کا حال
کوئی مت کہنا کہ وہ غم کھائینگے

فصل گل تک تو بھلا صیاد ہم
دام سے تیرے نکلنے پائینگے

قید کرتے ہیں مجھے ناصح عبث
ابکی مین نکلا تو پھر چپتائینگے

دل سے اُسکے دل ہیہ ک لیگا بیان
ہمتو کہتے حالِ دل شرمائینگے

ہر گھڑی مت ذکر کر اُسکا حسن
اور سُن سُنکر بہت للجائینگے​
 

شمشاد

لائبریرین

ابرو سے اور مژہ سے عالم کی جان لی ہے
پہلے پہل یہ اُسنے تیر و کمان لی ہے

عاشق کے طور مجھسے مجنون نے ہین اُڑائے
معشوق کی تجھی سے لیلٰی نے آن لی ہے

بسمل کی طرح ابتک ہین رقص مین ہزارون
مطرب پسر نے ایسی شب ایک تان لی ہے

مجھسے خفا ہوا ہے یا ہے خلل ہوا کا
اِکلائی اپنے مُنھ پر کیون تو نے تان لی ہے

احسانمند ہون مین اپنے سخن شنو کا
جو بات مین کہی ہے سو اُسنے مان لی ہے

تو اب کہے ہے مجھسے مین تیری جان لونگا
مین نے یہ چال تیری پہلے ہی جان لی ہے

گونگے کی ہہے مٹھائی جانے ہے وہ یہ لذت
جسنے کسی صنم کی مُنھ مین زبان لی ہے

قدمون پر اُسکے جا کر گر ہی پڑونگا ابکی
گو سر رہے کہ جاوے مین نے یہ ٹھان لی ہے

کیونکر نشہ نہ ہوسے دونا لبون کے خط سے
اس مین مین اور تو نے سبزی بھی چھان لی ہے

کس شعلہ خو سے تو نے سیکھی ہے یہ شرارت
کس مہروش سے گرمی یہ مہربان لی ہے

ہر چند گل نہین ہے پر گل کے ڈھنگ ہین سب
خو بو یہ کس سے تو نے اے بدگمان لی ہے

ہے ایک تو خفا ہی جی سے حسن بچارا
تو نے کِھجا کِجھا کر اور اُسکی جان لی ہے​
 

شمشاد

لائبریرین

ہر ایک دل و جان کے مرغوب نظر آئے
مین خوب تمھین دیکھا تم خوب نظر آئے

یہ طرز و ادا ہے تو انسے نہ وفا ہو گی
خوبان کے خوش آیندہ اسلوب نظر آئے

دیوانگی اپنی سے طے کر گئے منزل کو
سالک ہم اسی رہ کے مجذوب نظر آئے

گذرا ہے چمن سے کیا پھر آج کوئی گلرو
جو گل نظر آئے سو محجوب نظر آئے

جی پہلے ہی جا پہونچا کیا پرزون سے اب دل کے
تم اشک عبث لیکر مکتوب نظر آئے

ہے دل مین ہمین کیا کیا امید ترحم کی
دیکھا تو غضب ہم کچھ مغضوب نظر آئے

جب آنکھ اُٹھا دیکھا اُس چشم ستمگر کو
سب تیر مژہ دل مین سر ڈوب نظر آئے

عالم کا یہ مجمع بھی چھڑیونکا تھا اِک سیلا
جو دم کے لیے کیا کیا محبوب نظر آئے

دیکھا تو نکچھ دیکھا پھر خاک ہی وان ہمنے
جون نقش قدم طالب مطلوب نظر آئے

کوچے مین حسن اُسکے تامردمکِ دیدہ
دیتے ہوئے پلکون سے جاروب نظر آئے​
 

شمشاد

لائبریرین

چرخ کی جس سے دوستی تو نے
کی غرض اُس سے دشمنی تو نے

آپ سے مل گیا گلے ہنس کر
یہ تو بس مرے جی سے لی تو نے

ذوقِ تنہائی مین خلل ڈالا
آ کے مجھ پاس اِک گھٹری تو نے

آفرین دل پہ تھا ترا ہی جگر
جو پڑی تجھپہ سو سہی تو نے

جو دکھائین خرابیان مجھکو
سو مری جان زندگی تو نے

جی نکل جائیگا لیا ابکی
ہجر کا نام جس گھڑی تو نے

زندگی کا بہت مزا پایا
اے حسن کر کے عاشقی تو نے​
 

شمشاد

لائبریرین

جو دن کو شور و افغان ہے تو شب کو آہ و زاری ہے
غرض مین کیا کہون دل کو نہایت بیقراری ہے

کوئی گر اور سا ہووے تو گھبرا کر نکل جاوے
مرا جی جانتا ہے جو کہ حالت مجھپہ طاری ہے

مری تعریف تم کرتے ہو اپنی قدردانی سے
ابھی صاحب مین کس قابل ہون یہ کوبی تمھاری ہے

تمھین ہمسے ہمین تمسے بھلا اب اسکو کیا کہیے
وہ کچھ قسمت تمھاری ہے یہ کچھ قسمت ہماری ہے

بھلا تو سیکڑون باتین سنائے مین سنون چپکے
کہا جاتا نہین کچھ یان کہ یہ بے اختیاری ہے

جو وہ پوچھے مرے احوال کو قاصد تو یہ کہنا
دعا کرتا ہے تمکو اور تمہارے یادگاری ہے

حسن اُس سرگران کے زلف کے غم مین قدم مت رکھ
سبک اے ناتوان مت ہو کہ یہ زنجیر بھاری ہے​
 

شمشاد

لائبریرین

کہتا نہین کہ مجھسے ہر اک کوبرو ملے
کوئی ملے کہ یا نہ ملے ایک تو ملے

تھی آرزو تو یہ کہ ملے آرزوے دل
یہ آرزو نہ تھی کہ فقط آرزو ملے

تجھسا تو زود رنج مین دیکھا نہ ایک بھی
یونتو جہان مین مجھکو بہت تند خو ملے

مُنھ پھیر بڑ بڑاتے ہو کیا دیکھو اس طرف
گالی کا تب مزا ہے کہ جب دو بدو ملے

ہوتے ہی اُسکے سامنے بس دل تو مل گیا
ظاہر مین گو کسی کے نہ ہم روبرو ملے

یون توروٹھے تو روٹھے پر اب جی ہے بیقرار
یا رب کہین شتابی سے وہ جنگجو ملے

ڈھونڈھون ہون دل کو مین تو بھلا تو بھی دھیان مین
رکھیو حسن جو تجھکو کہین اُسکی بو ملے​
 

شمشاد

لائبریرین

مزے ندیکھے کبھی ہمنے زندگانی کے
یونھین گذر گئے افسوس دن جوانی کے

سنا نہ ایک بھی شب اُسنے حالِ دل میرا
نصیب جاگے نہ افسوس اس کہانی کے

ہمین غضب سے تو اپنے تو مت ڈرایا کر
ہم آشنا ہین فقط تیری مہربانی کے

رہی بھی مدنظر پرورش تو غیرون کی
سدا سے کشتہ ہین ہم تیرے قدردانی کے

ثبات ہستی کو ٹک بھی ہوا نہ اپنی حسن
مثال برق گئے روز شادمانی کے​
 

شمشاد

لائبریرین

گر بخت اپنے جاگین تو اک کام کیجیے
سائے مین اُسکے زلف کے آرام کیجیے

مکھڑے کو دیکھ دیکھ ترے کیجیے سحر
گیسو کو دیکھ دیکھ ترے شام کیجیے

بوسہ عقیق لب کا ترے لیجیے غرض
دو دن کی زندگانی ہے کچھ نام کیجیے

ہے نیکنامی اپنی تو نزدیک عین یہ
گر آپ کو ترے لیے بدنام کیجیے

اس ابتدائے عشق مین ہو انتہا کی چاہ
آغاز اپنا صورتِ انجام کیجیے

اب مین نے بیقراری پر اپنے لیا قرار
بس آپ خیر شوق سے آرام کیجیے

رہتا ہے ان بتونکو یہی دھیان رات دن
کسکو لپیٹ لیجے کسے رام کیجیے

بولے ٹھٹھولی بات لطیفہ جگت ہے سب
جو کام پختہ ہو اُسے کیون خام کیجیے

تھوڑا ہے اپنے مُنھ سے قبولیگا آپ وہ
اب دیر کیا ہے وصل کا پیغام کیجیے

اُلجھائیے دل اپنا کہین جان بوجھکر
رشتے کو دوستی کے حسن دام کیجیے​
 

شمشاد

لائبریرین

نظرون مین اُسنے مجھسے اشارات آج کی
کیا تھا یہ خوب کچھ نہ کھلی بات آج کی

مین نے تو بھر نظر تجھے دیکھا نہین ابھی
رکھیو حساب مین نہ ملاقات آج کی

اک بات تلخ کہکے کیا زہر عشق سب
تو نے ہماری خوب مدارات آج کی

یہ گفتگو کبھی بھی نہ آئی تھی درمیان
جو کچھ کہ تو نے حرف و حکایات آج کی

دل مین یہی تھی میرے کہ دورِ شراب ہو
مین سچ کہون یہ تو نے کرمات آج کی

بلبل کے ناؤن پر بھی نہ آیا بھلا ہوا
صیاد تیری خالی گئی گھات آج کی

عیشِ شبِ وصال کو ہے صبح ہجر بھی
ٹھہری ہے یار کل پہ ملاقات آج کی

بھولے سے نام لیکے مرا ہٹ پٹا گیا
پیاری لگی یہ مجھکو تری بات آج کی

مجھپہ یہی قلق جو رہیگا تو یار بن
کس طرح شب یہ گذریگی ہیہات آج کی

ابتو جو کچھ ہوا سو ہوا خیر رات ہے
قسمت مین دیکھنی تھی یہ آفات آج کی

لیکن مجھے تو پھر وہین کل دیکھیو حسن
گر خیر و عافیت سے کٹی رات آج کی​
 

شمشاد

لائبریرین

عالم ہی تب کچھ اور تھے اور ڈھنگ اور ہی
روز و شبِ جوانی کے تھے رنگ اور ہی

لطف و غضب کا عشق کے کچھ ماجرا نہ پوچھو
ہے اسمین صلح اور ہی اور جنگ اور ہی

غیرون کے ہاتھ تجھسے یہ جی کیونکہ صاف ہو
اس دل کے آئینہ پہ تو ہے زنگ اور ہی

وہ جو سرودِ عشق کے ماہر ہین اے حسن
ہے وان رباب اور ہی اور چنگ اور ہی​
 

شمشاد

لائبریرین

اس ڈر سے مین نے زلف کی اُسکی نبات کی
جاتی ہے دور دور تک آواز رات کی

دیکھا جب آنکھ کھول کے مثل حباب تب
معلوم کائنات ہوئی کائنات کی

اُس بلبلِ چمن کی ہوئی عاقبت بخیر
سائے مین جسنے آن کے گل کے وفات کی

مین ہون صفات ہی کے تحیر مین ہمنشین
کیا بات مجھسے پوچے ہے تو اُسکے ذات کی

دل اپنا اُسکو دیجیے یا جی کو کھوئیے
اسکے سوا طرح نہین کوئی نجات کی

بولا اگر تو قند مکرر ہوے وہ لب
اور چپ رہا تو یہ بھی ہے صورت نبات کی

واقف ہو کیون نہ شعلہ آتش سے دل کے وہ
رہتی ہے باغبان کو خبر پھول پات کی

شہ چال ہو رہا ہون صنم تیرے عشق مین
تو نے دکھا کے رخ مری بازی ہی مات کی

زلف عرق فشان تری جانبخش کیون نہو
ترکیب اُسنے پائی ہے آبِ حیات کی

اِس سر سے غیر سر نہین واقف کوئی غرض
لذت بیان مین آتی نہین تیری لات کی

چون زندگی و مرگ ہین آپس مین ضد حسن
چشم و لب اُسکی ضد ہے حیات و ممات کی​
 

شمشاد

لائبریرین
وہ عشق کی گرمی نہین دو چار برس سے
دل سرد ہوا اپنا ہوا اور ہوس سے

صیاد کی خاطر ہی نہین اتنا ہون لاغر
چاہون تو نکل بھاگون ابھی چاک قفس سے

سچ مچ تجھے خاطر ہے اگر میری تو جانان
غلطا نہ کیا کر تو ہر اک ناکس و کس سے

دل ساتھ دو انو نکا تو مت چھوڑ جنون مین
کوئی بھی بگاڑے ہے کہین اپنی اُلس سے

حلقہ سے تری زلف کے جاؤنگا کدھر مین
ڈالے ہین مرے پانؤن مین الفت کے تو رستے

جنت سے مین نکلا تھا تری دید کی خاطر
گندم سے مجھے کام نہ کچھ کام عدس سے

کیا جانیے مجھکو لیے جاتا ہے اُدھر کون
جاتا نہین کوچے مین ترے اپنے تو بس سے

جب وجد مین آتا ہے تو کرتا ہے یہ فریاد
تعلیم مگر لی ہے مرے دلنے جرس سے

ہر مور و مگس کو نہین اس مصری سے رشتہ
شیرینی لب تیری مبَرا ہے مگس سے

گو جل کے ہوا راکھ پہ جون آتش خاموش
پھینکا نہ کبھی آہ کو مین دوشِ نفس سے

مت پنجہ مژگان کو رکھ اس فندق پا پر
ڈرتا ہون حسن آگ بھڑک اُٹھے نہ خس سے​
 

شمشاد

لائبریرین

اُسکی جب بات کان پڑتی ہے
دل مین مُردے کے جان پڑتی ہے

بندہ عاجز ہے رو ہی دیتا ہے
آدمی پر جب آن پڑتی ہے

جانتا ہے وہی مصیبتِ عشق
جسپر اے مہربان پڑتی ہے

کسکے ابرو کا عکس ہے یہ جو
آسمان پرکمان پڑتی ہے

غمزہ و ناز دلبران سے ہمیش
دلپہ تیغ و سنان پڑتی ہے

دیکھتے دیکھتے نظر اُسکی
اِس طرف بھی ندان پڑتی ہے

آج مطرب پسر گلے مین ترے
اور ہی ڈھب کی تان پڑتی ہے

جسکو دل اپنا چاہتا ہے حسن
بات کب اُسکی دھیان پڑتی ہے​
 

شمشاد

لائبریرین

غفلت سے چونکنے بھی نہ پائے کہ مر گئے
دیکھا بھی تمنے کچھ کہ یہ دن کیا گذر گئے

ایسے غضب کے آنیکا مشتاق کون تھا
دل کو جلا کے اور مری خاک کر گئے

جوشِ بہارِ عشق پہ کیجو ذرا نظر
داغون سے دل جگر کے چمن سارے بھر گئے

خوش وہ کہ تیرے سائی دیوار کے تلے
دنیا مین باد کھانیکو اکدم ٹھہر گئے

دیکھا کیے ہم انکھون سے اور کچھ نہ بس چلا
اشکون مین ٹکڑے ہو ہو کے دل اور جگر گئے

ناز و ادا ؤ غمزہ کو اُس بت کے دیکھکر
جتنے صنم خدائی مین تھے سب سنور گئے

ہمدرد کل جو ایک ملا ہمکو راہ مین
باتون مین ہم کہین کے کہین بیخبر گئے

پھر ہوش مین جو آن کے دیکھا تو واہ وا
جانا کدھر کو تھا ہمین اور ہم کدھر گئے

بارے وہان سے دل کو پھرے ہم پکارتے
دلنے بھی دی صدا تو ذرا راہ پر گئے

در پر جو تیرے آئے تو دیکھا نہ تجھکو حیف
جیسے ہم آئے ویسے ہی پھر اپنے گھر گئے

کچھ بھی ملا نہ پھل ہمین کاغذ پر اے حسن
مقراض سے زبان کے بہت گل گئے​
 

شمشاد

لائبریرین

کہہ بیٹھ نہ دل جی ترا جس بت سے لگا ہے
اللہ کو چوری نہین تو بندہ کا کیا ہے

بارے وہ صنم مجھسے ملا خود بخود آ کر
سچ ہے کہ نہین جسکا کوئی اُسکا خدا ہے

آئینہ مین صورت مجھے دکھلاتا ہے اپنی
یعنی کہ ترے اور مرے بیچ صفا ہے

جی کھویا جو تو نے تو دل آرام پایا
اس جینے سے گر پوچھو تو مرنا ہی بھلا ہے

کیا جانیے کیدھر کو گیا ناقہ لیلٰی
نہ شور جرس کا ہے نہ آواز درا ہے

اگلے ہی مزے لوٹ گئے باغ جہان کے
اب حال مین گر پوچھو تو کیا خاک رہا ہے

اور اب بھی جنھین ہےہ اُنھین ہے اپنے تئین کیا
اپنے تو نصیبون مین قفس ہے سُو ملا ہے

نہ آہ سے نہ آتش ہجران سے نہ غم سے
میرا تو بہت دل تری باتون سے جلا ہے

بیزاری سے تو دیکھے ہے ہر چند و لیکن
اس بیمزہ گی مین بھی مری جان مزا ہے

کہتا ہے مرے دل کے تئین پانؤن سے ملکر
اب بھی ترے دل مین کوئی ارمان رہا ہے

اب جان کے درپے ہین مرے اتنے ستمگر
غمزہؔ ہے کرشمہؔ ہے اشاراؔ ہے اداؔ ہے

کیون جیسے مرے جی ترا ملتا نہین ظالم
تجھکو بھی ہے معلوم کہ جی مین ترے کیا ہے

کچھ تمنے سُنا اُس ستم ایجاد کا احوال
یارو عجب اک طور ہے اور طرفہ مزا ہے

آپ ہی مجھے کہتا ہے کہ چل دور پرے جا
جاتا ہون تو کہتا ہے تجھے خبط ہوا ہے

پھر اپنا سا مُنھ لیکے جو رہجاتا ہون تو وہ
کہتا ہے کہ غصہ ترا اسوقت بجا ہے

دل تیرا بہت مین نے جلایا ہے ادھر آ
ہان ہان مری خاطر یہ ترا حال ہوا ہے

کہتا ہے جو کوئی تو حسن سے نہین ملتا
کرتا ہے بہانا کہ وہ روٹھا ہے لڑا ہے​
 

شمشاد

لائبریرین

مومن تو کافر پہ کیا سب کو ندائے خیز ہے
ابلق ایام کو یان رات دن مہمیز ہے

آئیو دامن سنبھالے اے خیالِ یار تو
دل سے یان آنکھون تلک خونِ جگر لبریز ہے

اُس طرف جتنی ضفا ہے اِس طرف اُتنی وفا
گالیان ہین صاف وان اور یان نری انگیز ہے

ابتو چل فرہاد تک شیرن ذرا خسرو کو چھوڑ
وہ تو اب آخر ہے آخر تو ہے اور پرویز ہے

جسنے دیکھا گورے منھ پر تیرے ابرو کو کہا
یا الیمانی ہے یا تلوار یا اگریز ہے

کوہ و صحرا کیا ہے سونا قیس اور فرہاد بن
لیلی و شیرین کا خالی محمل و شبدیز ہے

بیضہ نوروز و قندیلِ محرم ہے فلک
شادی و غم کے قلم سے اسپہ رنگ آمیز ہے

کسکی زلفونکا تصور ہے دلِ سوزان مین جو
لخلخہ کی طرح دودِ آہِ عنبریز ہے

پاے بند زلف تیرے اہل ایمان کیون نہون
عروۃ الوثقیٰ کی آیۃ اُنکو دستاویز ہے

خنجرِ مژگان کے مُنھ چڑھیو نہ اے دل ان دنون
سنگ شرمی سے زبان اُسکی نہایت تیز ہے

دِل ترا کس سرو کا قمری ہوا ہے اے حسن
آہ ہے موزون تری اور نالہ وحشت خیز ہے​
 

شمشاد

لائبریرین

یار کا دھیان ہم نہ چھوڑینگے
اپنی یہ آن ہم نہ چھوڑینگے

جبتلک دم مین ہے ہمارے دم
تجھکو اے جان ہم نہ چھوڑینگے

تیرے ہاتھون سے اے جنون ثابت
یہ گریبان ہم نہ چھوڑینگے

ہے بڑا کفر ترک عشق بتان
اپنا ایمان ہم نہ چھوڑینگے

بعد مجنون کے شور سے خالی
یہ بیابان ہم نہ چھوڑینگے

دل مین اور ہم مین ہے یہ قول و قرار
اُسکو ہر آن ہم نہ چھوڑینگے

دل چھوڑیگا تیرا دامن اور
دل کا دامان ہم نہ چھوڑینگے

بن لئے بوسہ آج تو تجھکو
مان مت مان ہم نہ چھوڑینگے

ہے حسن دان یہی جو بے قرنی
کب تلک شان ہم نہ چھوڑینگے​
 

شمشاد

لائبریرین

جان و دل ہین اُداس سے میرے
اُٹھ گیا کون پاس سے میرے

کوئی بھی اب امید باقی ہے
پوچھیو داغِ یاس سے میرے

سبکی عرضی سے خوش ہو تم پر لیکن
ہو خفا التماس سے میرے

شاید اُتھنے کا قصد تمنے کیا
اُڑ چلے کچھ حواس سے میرے

عیش مجھ تک تو پہونچے تب جو ٹلے
فوج غم آس پاس سے میرے

دَور ہی دَور پھرتے ہین کچھ بخت
ابتو امید و یاس سے میرے

کیا مین ٹھہراؤن اُسکو دل مین حسن
ہے وہ باہر قیاس سے میرے​
 
Top