دیوانِ میر حسن

شمشاد

لائبریرین

دامن کو اُسکے کھینچین اغیار سب طرف سے
اور آہ ہم یہ کھینچین آزار سب طرف سے

جب کام دل نہ ہرگز حاصل ہوا کہین سے
دل کو اُٹھا کے بیٹھے ناچار سب طرف سے

جی چاہتا ہے اُسکے کوچہ مین بیٹھ رہیے
کر ترک آشنائی یکبار سب طرف سے

تجھ پاس بھی نہ آوین ہم اب تو جائین کیدھر
تو نے تو ہمکو کھویا اے یار سب طرف سے

مژگان سے اُسکے کیونکر دل چھٹ سکے ہمارا
گھیرے ہوے ہین اُسکو وے خار سب طرف سے

پردے ہزار ہووین حائل پہ حسن اُسکا
دیتا ہے طالہون کو دیدار سب طرف سے

کونا بھی ایک دل کا ثابت نہین یہ کسنے
اس گھر کو کر دیا ہے مسمار سب طرف سے

نالہ ضعیف اپنا پہونچیگا کیونکہ وانتک
کی ہے بلند اُسنے دیوار سب طرف سے

اکبار تو عزیزان تم مل کے حال میرا
کر بیٹھو اُسکے آگے اظہار سب طرف سے

دیوانہ ہو کے چھوٹا دنیا سے ورنہ یاران
ہوتے گلے کے میرے تم ہار سب طرف سے

وے دن بھی آہ کوئی کیا تھے کہ جن دنون مین
دل کو خوشی تھی اپنے دلدار سب طرف سے

بس تیرے غم مین آ کر اب خاک ہو گئے ہم
دل بجھ گیا ہمارا کبار سب طرف سے

ذکر وفا ؤ اُلفت مت چھیڑ بس حسن اب
جی ہو رہا ہے اپنا بیزار سب طرف سے​
 

شمشاد

لائبریرین

نرگس پہ کل نگہ جو تری ٹک پلٹ گئی
کچھ دیکھتے ہی اُسکو وہ آنکھون میں کٹ گئی

کہتے تھے یار آوے تو کچھ دل کی کہیے ہائے
آیا وہ اُس گھڑی کہ زبان جب اُلٹ گئی

کیا جانے کون آن کے گلشن سے پھر گیا
کُچھ پھول پھول کر جو کلی پھر سمٹ گئی

اب ہم ہین اور یار کا روزِ فراق ہے
جون تون کی تیری رات تو اے شمع کٹ گئی

کس کے خیال سے تجھے ہے گفتگو حسن
کیا جانو آج نیند تری کیون اُچٹ گئی​
 

شمشاد

لائبریرین

مجنون کو اپنے لیلٰی کا محمل عزیز ہے
تو دل مین ہے ہمارے ہمین دل عزیز ہے

ابرو و چشم و زلف مژہ کی تو کہیے کیا
ہمکو تو تیرے مُنھ سے ترا تل عزیز ہے

دل کو کیا جو قتل تو اُسنے بھلا کیا
مجھکو تو اپنے دل سے وہ قاتل عزیز ہے

اتنا نہین کوئی کہ پکڑ آستین مری
اس سے کہے کہ تجھپہ یہ مائل عزیز ہے

جا بیٹھتے ہین چھپ کے کبھی ہم بھی اُس جگہ
اسواسطے ہمین تری محفل عزیز ہے

اِک نقش دے کہ جس سے مسخر ہو وہ پری
ایسا بھی دوستو کوئی عامل عزیز ہے

کیونکر کرون نہ اِس دلِ مجروح کا علاج
مدت کا ہے رفیق یہ گھائل عزیز ہے

نہ حور نہ پری ہے نہ وہ ماہ و مشتری
اِک نور ہے کہ سبکو وہ حاصل عزیز ہے

ہجران مین انتظار بھی ہے اُسکا مغتنم
جو ڈوبتا ہو اسکو تو ساحل عزیز ہے

آن وا وا مین ٹھور ہی رکھتا ہے خلق کو
اپنے تو فن مین ایک وہ کامل عزیز ہے

کیونکر نہ چاہے اُسکو ہر اک جان کی طرح
خواہش مین اُسکی سب ہین وہ ہر دل عزیز ہے

ہر پھر کے تیرے کوچہ مین کرتے ہین ہم مقام
ہمسے مسافرون کو یہ منزل عزیز ہے

صحبت سے کوئی کیونکہ حسن کے نہووے خوش
شاعرؔ ہے یارؔ باش ہے قابلؔ عزیزؔ ہے​
 

شمشاد

لائبریرین

سیر ہے تجھسے مری جان جدھر کو چلیے
تو ہی گر ساتھ نہ ہووے تو کدھر کو چلیے

خواہ کعبہ ہو کہ بتخانہ غرض ہمسے سُن
جس طرف دل کی طبیعت ہو اُدھر کو چلیے

زلف تک رخ سے نگہ جاوے نہ اِکدنکے سوا
شام کو پہونچیے منزل جو سحر کو چلیے

جب مین چلتا ہون ترے کوچہ سے کترا کے کبھی
دل مجھے پھیر کے کہتا ہے اِدھر کو چلیے

اتنی کیا جلدی ہے اے قافلہ اشک تمھین
ٹک نباہے مرے بھی لخت جگر کو چلیے

کوہ و صحرا کے سوا کہ تو بھلا اے ناصح
لیکے ساتھ اپنے کدھر دیدہ تر کو چلیے

اِن دنون رات اِسی فکر مین کٹتی ہے حسن
صبح کب ہووے کہ پھر یار کے گھر کو چلیے​
 

شمشاد

لائبریرین

شب کو تم ہمسے خفا ہو کر سحر کو اُٹھ گئے
شمع سان رو رو کے ہم بھی دل جگر کو اُٹھ گئے

تھے ابھی تو پاس ہی اپنے قرار و ہوش و صبر
تیرے آتے ہی نجانے وہ کدھر کو اُٹھ گئے

تو نہ نکلا گھر سے باہر صبح سے لے شام تک
دیکھ دیکھ آخر ترے دیوار و در کو اُٹھ گئے

کس سے پوچھون حال مین باشندگانِ دلکا ہاے
اِس نگر کے رہنے والے کس نگر کو اُٹھ گئے

اے خوشا وے جو کہ وارستہ تعلق سے ہوے
جس جگہ چاہا رہے چاہا جدھر کو اُٹھ گئے

دیر و کعبہ ہے کو جانا کچھ نہین لازم غرض
جس طرف پائی خبر اُسکی اُدھر کو اُٹھ گئے

شہر مین رونے کے ہاتھون جب نرہنے پائے ہم
کوہ و صحرا کی طرف لے چشم تر کو اُٹھ گئے

پوچھتا ہے حال کیا آوارگانِ ہند کا
کچھ اِدھر کو اُٹھ گئے اور کچھ اُدھر کو اُٹھ گئے

تو اکیلا اس جگہ بیٹھا کریگا کیا حسن
تیرے ساتھی تو کبھی کے اپنے گھر کو اُٹھ گئے​
 

شمشاد

لائبریرین

ہم نہ تنہا اُس گلی سے جان کو کھو کر اُٹھ گئے
سیکڑون یان زندگی سے ہاتھ دھو کر اُٹھ گئے

دیکھنے پا مے نہ ہم اشکون کا اپنے کچھ ثمر
تخم گویا یاس کے یہ تھے جو بو کر اُٹھ گئے

کل ترے بن باغ مین کچھ دل نہ اپنا جو لگا
اشک خونین مین گلون کو ہم ڈبو کر اُٹھ گئے

لوٹتے ہین اس ادا ؤ ناز پر اور غش مین ہم
تھے وہ احمق جو کہ تیری کھا کے ٹھوکر اُٹھ گئے

جان و دل ہم اِک جگہ بیٹھے تھے کوچہ مین ترے
پاسبان کے ہاتھ سے آوارہ ہو کر اُٹھ گئے

تو گیا تھا ڈھونڈھنے اُنکو کہان وے تو حسن
تیرے گھر مین آئے بیٹھے لیٹے سو کر اُٹھ گئے​
 

شمشاد

لائبریرین

کس سے اب بات کرین اور ہنسین ہم کس سے
مر گیا دل ہی وہ اپنا کہ خوشی تھی جس سے

کم کہا ہمنے جو کچھ تمنے کیا ظلم و ستم
تمکو توفیق خدا دیوے زیادہ اس سے

اپنی محرومی طالع سے نہین یہ بھی بعید
بیٹھتے ہی جو ہمارے وہ اُٹھے مجلس سے

کسکی ہمچشمی کا دعویٰ تو رکھے ہے ناحق
کچھ بھی سوجھی ہے تجھے کہیو صبا نرگس سے

کوئی دیتا نہین تحقیق خبر اُسکی حسن
پوچھتا پھرتا ہون سودائی سا مین جس تس سے​
 

شمشاد

لائبریرین

شمع سان اپنی ہی ہستی سے ستم ہمنے سہے
اپنی آہون سے جلے اپنے ہی اشکون مین بہے

عمرِ دہ روزہ مری روتے ہی روتے گذری
یون کٹے زیست کے دن جیسے کہ جاتے ہین دہے

گو نہو روز ملاقات میسر تو نہو
پر بھلا اتنا تو ہوئے کہ میان گاہ گہے

کل کہا اُس سے کسینے کہ حسن کہتا ہے
اب نہین ملنے کا مین اُس سے وہ محفوظ رہے

ہنس کے کہنے لگا یہ باتین ہین مین تب جانون
سامنے ہو کے مرے وہ یہ اگر بات کہے​
 

شمشاد

لائبریرین

اُسکے کوچے سے صبا گر اِدھر آ جاتی ہے
دل کے نالون کی مفصل خبر آ جاتی ہے

گرچہ اُس زلف سے کچھ کام نہین ابتو ولے
سانپ کے کاٹے کی سی اِک لہر آ جاتی ہے

میرے ہوتے ہی تمھین غیر سے تھی کرنی بات
دل مین کچھ کچھ پھر اسی بات پر آ جاتی ہے

یہ غضب ہے کہ وہ روٹھا ہوا پھرتا ہے جو یان
خواب مین بھی وہی صورت نظر آ جاتی ہے

ذکر چھیڑے کوئی اب کیونکہ مرا اُسکے حضور
وانتو ہر بات مین تیغ و سپر آ جاتی ہے

سوجھتا کچھ نہین اُسوقت میان اپنے تئین
یاد جسوقت تری موکمر آ جاتی ہے

کاٹ دیتا ہے وہ ہر بات مین سنتا ہی نہین
بات میری کبھی مجلس مین گر آ جاتی ہے

اک وفاداری جو ہے آب و گل اپنے مین حسن
پھر طبیعت نہین پھرتی جدھر آ جاتی ہے​
 

شمشاد

لائبریرین

ہوئی ہے خو یہانتک چشم کو حیرت سے تکنے کی
کہ عینِ وصل مین فرصت نہین مژگان جھپکنے کی

صداے کوس رحلت ہے حوانان چمن پر یہ
صدا ہوتی ہے گلشن مین جو غنچہ کے چٹکنے کی

کہانتک کاوشین ہمسے کریگا غیر کی خاطر
کبھی تو ہمسے بھی گر آہ اے بدخو فلک نیکی

نہ تھا اسوقت مین تو غیر کوئی اے بہانہ جو
تجھے پھر کیا چلی تھی پاس سے میرے سرکنے کی

تری سنتا بھی ہے ناصح کوئی تو کس سے کہتا ہے
عبث بکوا نہ مجھکو تجھکو تو عادت ہے بکنے کی

ہمارے ہاتھ سے ساغر چھنا غیرون کو دیتا ہے
خدا کے واسطے کوبی تو ٹک دیکھو بہکنے کی

تپ ہجران مین دل مت چشم کو دے رخصتِ گریہ
کہ اِس آتش کی خاصیت ہے پانی سے دہکنے کی

مجھے کیا سوجھتا گر تو نہوتا سامنے میرے
بصارت چشم مین پیدا تری اے مہ جھلک نے کی

حسن جب شمع کو دیکھون ہون روتے تب مجھے صورت
نظر آتی ہے آنکھون مین ترے آنسو ڈھلکنے کی​
 

شمشاد

لائبریرین

ہوا کیا ظلم ہمپر آہ اس طاقت کے جانے سے
کہ یون ہم یک بیک رہگئے ترے کوچہ کے آنے سے

کہین کیا عشق کے شہرہ نے وہ بھی بات اب کھوئی
وگرنہ نہ دیکھ جاتے تھے تجھے سو سو بہانے سے

کسی نے حظ اُٹھائے اور کسی نے لذتین اسکی
مگر ہمنے اُٹھائین حسرتین ہی اس زمانے سے

کسی کا کام دل برہم نہو ڈرتا ہون اے ظالم
بہت اُلفت ہوئی ہے کچھ تری زلفون کو شانے سے

بڑا مشاق ہے تہ فنِ خونریزی مین اے نو خط
مجھے معلوم ہوتا ہے تری انکھین لڑانے سے

بہت آرام تھا چوکھٹ پہ اُسکی خاک کو میری
جدا کسنے کیا یا رب اِسے اُس آستانے سے

قفس مین قید کر صیاد یا تو دام مین لیجا
اُٹھایا ابتو ہمنے دل ہی اپنے آشیانے سے

ہوے بس شمع و پروانہ تو آخر ہاتھ اُٹھا شعلے
اِدھر اِسکے رُولانے سے اُدھر اُسکے جلانے سے

کہا ہمنے اُسے ٹک بات کر اپنے حسن سے بھی
لگا کہنے کرون مین بات کیا ایسے دوانے سے​
 

شمشاد

لائبریرین

قفس تک کیا چلی تھی باغبان کو گل کے لانے کی
نہ تھی شاید خبر اِسکو کسی کے جیسے جانے کی

پڑھونگا خط تو مین قاصد پہ تو یہ مجھسے کہ جلدی
کہ کہدی ہے زبانی کچھ بھی اُسنے اپنے آنے کی

کس کوچہ مین میری خاک کو رہنے دیا ہوتا
صبا تجھکو چلی تھی کیا اسے در در پھرانے کی

گئے وہ دن جو غیرون کی بھی ہم باتین اُٹھاتے تھے
نہین ہے ابتو دل مین تاب تیری بات اُٹھانے کی

شگفتہ ایسے غنچہ کو تو زخمون ہی سے کرنا تھا
طرح کوئی نتھی اور اس سوا دل کے ہنسانے کی

وہی آرام سے بھر نیند سوئے آ کے دنیا مین
رہی جنکے سرھانے خشت تیرے آستانے کی

زمین و آسمان کو ایک کردیوین ابھی دم مین
اجازت دے اگر ٹک ہمکو وحشت خاک اُڑانے کی

نہین منظور گر تمکو کسیکا محو کر دینا
تو پھر ہے وجہ کیا آئینے کو مکھڑا دکھانے کی

نہین کچھ خوب مل مل بیٹھنا یہ خوبرویون مین
حسن تو نے نکالی چال پھر دل کے لگانے کی​
 

شمشاد

لائبریرین

پھر جگر سے آہ اُٹھی اور طپش اسدم ہوئی
ہمنے جانا تھا کہ شاید کچھ یہ آتش کم ہوئی

سنتے ہی جانے کی اُسکے غیر کی مجلس مین ہاے
کیا کہون جو کچھ کہ حالت میری اے ہمدم ہوئی

دشمنی کو زہر سے کہنے مین دیتے ہین مثل
میرے حق مین دوستی بھی ان بتون کی سم ہوئی

ٹک تھنبے تھے کل ہمارے اشک بہنے سے کہ آج
پھر خیال اُسکا بندھا اور چشم پھر کچھ نم ہوئی

مو پریشان اشک ریز اور متصل کھینچے ہے آہ
شمع کسکے غم مین یارب صاحبِ ماتم ہوئی

دور ہی سے دیکھو ہم تجھکو ذرا ہوتے تھے خوش
چرخ کے ہاتھون سے وہ صحبت بھی اب برہم ہوئی

اور بھی کچھ زخم دل کے چاک تجھسے ہو چکے
صبح تو کیسی ہمارے واسطے مرہم ہوئی

خاک ہو اپنی پریشان وہ لگے دامن کو ہائے
ہم ہوے یون غیر تیرے اور صبا محرم ہوئی

ہے گرہ کیسی یہ غم کی اپنے دل مین اے حسن
ہمنے جون جون اسکو کھولا اور یہ محکم ہوئی​
 

شمشاد

لائبریرین

آنکھون مین ہین حقیر جس تِس کے
نظرون سے گر گئے ہین ہم کس کے

دل کا ہمدم علاج مت کر اب
زخم مرہم پذیر ہین اس کے

کون آتا ہے ایسا ہوش ربا
صبر و طاقت یہان سے کیون کھس کے

دیکھتی ہے یہ کسکی آنکھون کو
کیون کھلے ہین یہ چشم نرگس کے

بس کہین تھک بھی آسیاے فلک
ہو چکے سُرمہ ہم تو اب پس کے

جی سے رہتے ہین اپنے اُسپہ نثار
دل سے ہوتے ہین دوست ہم جس کے

گو نہین اب کبھی تو اے پیارے
ہم بھی تھے یار تیری مجلس کے

تو تو خوش ہے کہ تیرے کوچہ مین
ایک تڑپا کرے اور اک سِسکے

مر گئے پر بھی یہ حسن نہ مندے
منتظر چشم تھے ترے کس کے​
 

شمشاد

لائبریرین

گر گئے چھڑیون سے یہ کٹ کٹ کے
پرمژہ سے نہ لخت دل اٹکے

رایگان یون اُڑا نہ ہمکو فلک
خاک ہین ہم کسی کی چوکھٹ کے

ٹک تو اونچی ہوا ہے صداے جرس
دشت مین کب تک کوئی بھٹکے

تو ہی جب اپنے در سے دیوے اُٹھا
پھر کِدھر جا کے کوئی سر پٹکے

ہم لئے بیٹھے دیکھا کرین
اور وے شانہ زلف کو جھٹکے

چاند آتا تو ہے ترے مُنھ پر
بدر کی طرح پر کچھ اک گھٹ کے

نہ مندے بعد مرگ چشم حسن
منتظر تھے یہ کسکی آہٹ کے​
 

شمشاد

لائبریرین

پھر اگر دل یہ مِرا نالہ کی بنیاد کرے
آہ سر پر مرے صد محشرِ بیداد کرے

یان تو سنتا ہی نہین بات کسی کی کوئی
دل مِرا مثل جرس کب تئین فریاد کرے

بعد مرنے کے بھی اُلفت ہے چمن سے یا رب
مشت پر میرے صبا دان سے نہ برباد کرے

زندگی یہ ستمِ یار اور وہ بخت زبون
کس توقع پہ بھلا دل کو کوئی شاد کرے

وصل مین بھی نہ گئی چھیڑ یہی کہتا رہ
کہ تجھے ایسا بُھلا دون کہ بہت یاد کرے

نام آزادی کا تب لیوے کوئی دنیا مین
قید ہستی سے جب آپنے تئین آزاد کرے

شعر کہنے سے یہ حاسل ہے کہ شاید کوئی
بعد مرنے کے حسن اپنے تئین یاد کرے​
 

شمشاد

لائبریرین

تیرا خیال ابر و دل مین اگر نہووے
کعبے کا دیکھا بھی مدِ نظر نہووے

مانگی تھی آہ کس نے یا رب کہ آہ ایسی
ہمکو ملی کہ جسمین کچھ بھی اثر نہووے

غیرون کی طرف ہرگز مت دیکھ اور جو دیکھے
تو دیکھ یون کہ اصلا اُنکو خبر نہووے

کیا جی کسیکا تجھسے جو سنگدل کو چاہے
دل تجھسے وہ لگاوے جسکا جگر نہووے

عزت نہ ہے قفس مین نہ وقر ہے چمن مین
مجھسا کوئی جہان مین بے بال و پر نہووے

جو ضد کہ ساتھ میرے ہے گردشِ فلک کو
دشمن کو بھی جو پوچھو تو اسقدر نہووے

مجھکو سُنا کے اُس سے جاتے ہیں غیر ملنے
کیا ہو مزا کہ اپنے وہ آج گھر نہووے

جس رات کو کہون مین ہووے نہ صبح تو ہو
مانگون سحر کا ہونا جس شب سحر نہووے

بیٹھے ہین ملنے والے اُسکے کہین حسن یان
مذکور پر کچھ اُسکے یہ چشم تر نہووے​
 

شمشاد

لائبریرین

مُنھ اپنا خشک ہے اور چشم تر ہے
ترے غم مین یہ سیرِ بحر و بر ہے

خبر لے دلکی اُس سے جسکا گھر ہے
کسی کے گھر کی ہمکو کیا خبر ہے

وہ اب کیونکر نہ کھینچے آپ کو دور
ہمارے چاہنے کا یہ اثر ہے

ہمین کچھ وہ نہین ہین آہ ورنہ
وہی ہے شام اور وہ ہی سحر ہے

ہمین دیکھو نہ دیکھو تم ہمین تو
تمھارا دیکھنا مد نظر ہے

سنا لے مرتے مرتے گل کو بلبل
کوئی نالہ ترے دل مین اگر ہے

اُٹھاتا ہے جو روز اُٹھ درد و غم کو
کسے طاقت ہے میرا ہی جگر ہے

کبھی بستا تھا اِک عالم یان بھی
یہ دل جو اب کہ اُجڑا سا نگر ہے

کہا چاہے ہے کچھ کہتا ہے کُچھ اور
حسن دھیان ان دنون تیرا کدھر ہے​
 

شمشاد

لائبریرین

سَو کی اِک بات مین کہی تو ہے
یعنے جو کچھکہ ہے وہی تو ہے

دید وا دیدہ کو غنیمت جان
حاصلِ زندگی یہی تو ہے

تیرے دیدار کے لئے یہ دیکھ
جان آنکھون مین آ رہی تو ہے

ڈھگیا ہو نہ خانہ دل آج
سیلِ کون چشم سے یہی تو ہے

وان بھی راحت ہو یا نہ ہو دیکھین
اِک مصیبت یہان سہی تو ہے

مجھسا عریان کہان ہے گُل اُسکے
رنگ کے برمین اک یہی تو ہے

تیرے احوال سے حسن بارے
اُسکو تھوڑی سی آگہی تو ہے​
 

شمشاد

لائبریرین

دیکھین گے پھر ان آنکھون سے ہم روے یار بھی
ہوویگا یہ تمام کبھی انتظار بھی

آئینہ ہی کوکب تئین دکھلاؤ گے جمال
باہر کھڑے ہین کتنے اور امیدوار بھی

دشمن تو تھے ہی پر تری اس دوستی مین اب
بیزار ہمسے ہو گئے ہین دوستدار بھی

گذری تمام عمر اسی آرزو مین ہاے
دو چار باتین تمنے نہ کین ایکبار بھی

برگشتہ طالعی کا کرین اپنی کیا بیان
پھر گئے ہین ہمسے خنجرِ مژگانِ یار بھی

کیا جانے تیرے کُشتے کدھر خاک ہو گئے
پایا نہ اُنکا آہ نشانِ مزار بھی

وقتِ وداع بسکہ تجھی پر نظر گئی
ہونے نپائے آپ سے ٹک ہم دو چار بھی

گر تو نہین تو جا کے کرین کیا چمن مین ہم
تجھ بن ہمین خزان سے ہے بدتر بہار بھی

اک جانِ ناتوان ہے شکوہ حسن نہین
ٹھہرا نہ اپنے پاس دلِ بیقرار بھی​
 
Top