دور رہ کر نہ اسے پاس بلانے سے کیا

ظفری

لائبریرین

دور رہ کر نہ اُسے ، پاس بلانے سے کیا
میں نے اندازہ محبت کا ، بہانے سے کیا

اس کے اپنے ہی خیالات ، پریشاں تھے بہت
جس نے آغاز مجھے ، خواب دکھانے سے کیا

کچھ تسلی مجھے ، اندازِ تغافل سے ہوئی
کچھ یقیں میں نے مزید ، اس کے نہ آنے سے کیا

کام کرنا تھا جو ہم نے کبھی ، خاموشی سے
اس قدر وہ بھی یہاں ، شور مچانے سے کیا

کارِ دنیا میں ، بُھلا بھی نہیں سکے ہم تجھ کو
آخر اتنا بھی ترے ، یاد دلانے سے کیا

شاعری تھی یہ کسی اور زمانے کے لیئے
میں نے مربوط اسے ، اپنے زمانے سے کیا

سازگار آب و ہوا ہی نہ ہوئی، جس کو ظفر
تجربہ ہم نے وہی ، فصل اُگانے سے کیا

ظفر اقبال
 

ظفری

لائبریرین
دور رہ کر نہ اسے پاس ، بلانے سے کیا
میں نےاندازہ محبت کا ، بہانے سے کیا

اس کے اپنے ہی خیالات پریشاں تھے بہت
جس نے آغاز مجھے خواب دکھانے سے کیا

کچھ تسلی مجھے اندازِ تغافل سے ہوئی
کچھ یقین میں نے مزید اس کے نہ آنے سے کیا

شرکتِ کار کا اک فیصلہ ہم دونوں نے
درمیاں میں‌کوئی دیوار اُٹھانے سے کیا

کام کرنا تھا جو ہم نے کبھی خاموشی سے
اس قدر وہ بھی یہاں شور مچانے سے کیا

کارِ دنیا میں بھُلا بھی نہ سکے ہم تجھ کو
آخر اتنا بھی تیرے یاد دلانے سے کیا

شاعری تھی یہ کسی اور زمانے لے لیئے
میں نے مربوط اسے اپنے زمانے سے کیا

ساز گار آب و ہوا ہی نہ ہوئی جس کو ظفر
تجربہ ہم نے وہی فصل اُگانے سے کیا

( ظفر اقبال )​
 

مغزل

محفلین
شکریہ ظفری صاحب ۔ میں یہ غزل ابھی ابھی تحریر کر کے بیٹھا ہوں یہاں پیش کرنے سے پہلے تلاش کیا تو یہاں موجود ہے ۔
پیش کش کیلیے مبارکباد اور دعائیں ۔ سدا سلا مت رہیں جناب ، والسلام

دور رہ کر نہ اسے پاس بلانے سے کیا
میں نے اندازہ محبت کا بہانے سے کیا

اس کے اپنے ہی خیالات پریشاں تھے بہت
جس نے آغاز مجھے خواب دکھانے سے کیا

کچھ تسلی مجھے اندازِ تغافل سے ہوئی
کچھ یقین میں نے مزید اس کے نہ آنے سے کیا

شرکت کار کا اک فیصلہ ہم دونوں نے
درمیاں میں کوئی دیوار اٹھانے سے کیا

کام کرنا تھا جو ہم نے کبھی خاموشی سے
اس قدر وہ بھی یہاں شور مچانے سے کیا

عکس اس شوخ کے باہر تک اسے چھوڑنے آئے
گزر اس نے جو کبھی آئینہ خانے سے کیا

کارِ دنیا میں بھلا بھی نہ سکے ہم تجھ کو
آخر اتنا بھی ترے یاد دلانے پہ کیا

عری تھی یہ کسی اور زمانے کے لیے
میں نے مربوط اسے اپنے زمانے سے کیا

ساز گار آب و ہوا ہی نہ ہوئی جس کو، ظفر
تجربہ ہم نے وہی فصل اُگانے سے کیا

ظفر اقبال
 

مغزل

محفلین
کنفوشش کہتا ہے،
جب تم کسی پر انگلی اٹھاتے ہو تو چار انگلیاں تمہاری اپنی جانب ہوتی ہیں۔

کاش یہ بات ہم سمجھ بھی پائیں ۔
کارلے کا ایک مقولہ ہے :
’’ خالی میدان سے کتا بھی گزرے تو لوگ متوجہ ہوجاتے ہیں ‘‘
بہر کیف حوصلہ افزائی کیلیے ممنون ہوں ۔والسلام
 

فرخ منظور

لائبریرین
کیا کروں، یہی حوالہ دینا پڑ رہا ہے
A Book Is A Version Of The World. If You Do Not Like It, Ignore It; Or Offer Your Own Version In Return.
(سلمان رشدی)

آپ میری رائے سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ اختلافِ رائے کا حق ہر ایک کا ہے۔ سلمان رشدی نے تو رسولوں پر تہمتیں جڑی تھیں میں تو صرف ظفر اقبال کو ڈفر اقبال کہہ رہا ہوں۔ :)
 
Top