دنیا کا سب سے بڑا اجتماع:چہلم امام حسینؑ

نگار ف

محفلین
ایک اور بات کرتا چلوں کہ کعبہ میں 3-4 ملین لوگ اس لئے ہوتے ہیں کہ سعودی حکومت نے اس تعداد کو ریگولیٹ کیا ہوا ہے۔ اور ہر ملک کا اپنا quota ہے جس کے حساب سے لوگ جاتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو انتے لوگ پہنچ جائیں کہ ان کو سنبھالنا مشکل ہو جائے۔

جہاں تک 21 ملین کی تعداد ہے تو یہ مجھے exaggeration لگتی ہے۔ عراق کی اپنی آبادی 31 ملین ہے۔ تو اتنے سارے لوگوں کو accommodate کرنا ناممکن نہ سہی مشکل ضرور ہے۔ یہ تعداد شائد ایک دن کی نہ ہو بلکہ کئی ہفتوں کی ہو۔

درست فرما رہے ہیں آپ کہ مختلف علاقوں کے افراد کو مخصوص وقت ملتا ہے اور مقررہ وقت میں زیارت بجا لا تے ہیں۔۔۔ ایک ساتھ اتنے بڑے اجتماع کو کنٹرول کرنا مشکل ہوتا ہے، انتظامیہ نے حکمت عملی یہ مرتب کی ہے کہ حرم امام حسین اور بین الحرمیں میں مخصوص وقت دیا گیا ہے، پاکستانی زائرین کیلیئے آج عراقی وقت کے مطابق 4 بجے مختص ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
مکتب تشیّع میں گریہ کرنے ماتم کرنے کا ثواب بیان ہوا ہے اور امام سجّاد ع، امام محمد باقر ع، امام جعفر صادق ع سے بہت ساری روایات اور سیرت ائمہ مروی ہیں۔۔۔ ۔
اسکے علاوہ بہت ساری روایات اس حوالے سے دور رسول اللہ :pbuh: کے ملتے ہیں۔۔۔

١۔ سیرت پیغمبر ۖ

تاریخ اور روایات یہ بتلاتی ہیں کہ پیغمبر اکرم ۖ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ا ورتابعین مرنے والوں اورشہداء و... پر گریہ کیا کرتے اور دوسروں کو بھی نہ صرف عزاداری کا موقع دیتے بلکہ انہیں اس عمل پر تشویق بھی کیا کرتے جیسا کہ حضرت عائشہ نے رسول اکرم ۖ کی وفات پر اپنے منہ اور سینہ پر پیٹا ۔(سیرة النبوة ٦: ٧٥؛ مسند احمد ٦: ٢٧٤.(

پیغمبر اکرم ۖ نے اپنے فرزند ابراہیم ، اپنے دادا حضرت عبد المطلب ، اپنے چچا حضرت ابوطالب اور حضرت حمزہ ، اپنی مادر گرامی حضرت آمنہ بنت وہب ، حضرت علی کی مادر گرامی حضرت فاطمہ بنت اسد ، عثمان بن مظعون و... کی موت پر گریہ کیا، جس کے چند نمونے یہاں پر ذکرکررہے ہیں:

١( حضرت عبد المطلب پر گریہ کرنا:

جب آنحضرت ۖ کے جدّ بزرگوار حضرت عبد المطلب کی وفات ہوئی تو آپ ۖ نے ان کے فراق میں گریہ کیا ۔حضرت امّ ایمن رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :

((أنا رأیت رسول اللہ یمشی تحت سریرہ وھویبکی))

میں نے رسول اللہ ( ۖ ( کو دیکھا وہ ان کے جنازے کے ہمراہ روتے ہوئے چل رہے تھے ۔

( تذکرة الخواص : ٧.)

٢( حضرت ابو طالب پر گریہ کرنا:

حامی پیغمبر ۖ ، مومن آل قریش ،سردار عرب حضرت ابوطالب کی وفات پیغمبر ۖ پر سخت ناگوار گذری اس لئے کہ یہ وہ شخصیت تھے جنہوں آنحضرت ۖ کی پرورش کے علاوہ بھی ہر مقام پر ان کی مدد و نصرت کی جس سے دین اسلام کا بول بالا ہو ااور مشرکین مکّہ کو ان کی زندگی میں یہ جرأت نہ ہوسکی کہ آنحضرت ۖ کو نقصان پہنچا سکیں ۔یہی وجہ ہے کہ جب ایسے شفیق چچا کی وفات کی خبر ملی تو حضرت علی علیہ السّلام سے فرمایا:

((اذھب فاغسلہ و کفّنہ ووارہ غفراللہ لہ ورحمہ ))

(الطبقات الکبرٰی ،ابن سعد ١:١٢٣.)

جاؤ انہیں غسل و کفن دو اور ان کے دفن کا اہتمام کرو ،خداان کی مغفرت کرے اور ان پر رحمت نازل فرمائے ۔

٣( حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا پر گریہ کرنا :

مؤرخین نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ رسالت مآب ۖ اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کی قبر کی زیارت کیلئے ابواء کے مقام پر پہنچے جیسے ہی ماں کی قبر کے پاس گئے اس قدر روئے کہ ساتھیوں نے بھی گریہ کرنا شروع کردیا ۔

( المستدرک ١:٣٥٧؛ تاریخ المدینہ ،ابن شبّہ ١:١١٨.)

٤( اپنے فرزند ابراہیم پر گریہ کرنا:

خدا وند متعال نے رسول خدا ۖ کو ایک بیٹا عطا کیا تھا جس کا نام ابراہیم رکھا ۔آنحضرت ۖ اس سے شدید محبت کرتے لیکن ایک سال کی عمر میں اس کی وفات ہوگئی جس سے آنحضرت ۖ کو انتہائی صدمہ پہنچا اور اس کے فراق میں گریہ کرنا شروع کیا تو صحابہ کرام نے اس کی وجہ پوچھی تو جواب میں فرمایا:((تدمع العینان ویحزن القلب ولا نقول مایسخط الربّ))( العقد الفرید ٣:١٩.)

آنکھوں سے اشک جاری ہیں اور دل غمگین ہے لیکن ہم ایسی بات نہیں کہتے جو خد ا وند متعال کی ناراضگی کا باعث بنے ۔

٥( حضرت فاطمہ بنت اسد پر گریہ کرنا :

حضرت فاطمہ بنت اسد ،حضرت علی علیہ السّلام کی ماں اور حضرت ابوطالب کی زوجہ محترمہ ،رسول خدا ۖ کے ہاں بہت مقام رکھتی تھیں یہاں تک کہ آنحضرت ۖ انہیں اپنی ماں سمجھتے تھے جب تیسری ہجری میں ان کی وفات ہوئی توآپ سخت اندوہناک ہوئے اور گریہ کیا ۔مؤرخین لکھتے ہیں :

((صلّی علیھا وتمرغ فی قبرھا وبکٰی))

آنحضرت ۖ نے ان پر نماز پڑھی، ان کی قبر میں لیٹے اور ان پر گریہ کیا . ( ذخائر العقبٰی :٥٦.)

٦(حضرت حمزہ پر گریہ کرنا :

آنحضرت ۖ کے چچا حضرت حمزہ جنگ احد میں شہید ہوئے جس سے آپ ۖ کوبہت صدمہ ہو ا اور ان پر گریہ کیا ۔سیرہ حلبیہ میں لکھا ہے :

((لمّا رأی النبّی حمزة قتیلا بکٰی ، فلمّا رأی مامثّل بہ شھق))(السیرة الحلبیة ٢:٢٤٧.)

جب پیغمبر ( ۖ ) کو حضرت حمزہ شہید دیکھا تو ان پر گریہ کیا اور جب ان کے بدن کے اعضاء کو کٹا ہوا دیکھا تو دھاڑیں مار کر روئے ۔

امام احمدبن حنبل نقل کرتے ہیں:

جنگ احد کے بعد پیغمبر اکرم ۖ نے اپنے شوہروں پر گریہ کرنے والی انصار کی عورتوں سے فرمایا:

(( ولکن حمزة لا بواکی لہ ))

لیکن حمزہ پر گریہ کرنے والا کوئی نہیں ۔

روای کہتاہے : پیغمبر اکرم ۖ نے تھوڑی دیر آرام کے بعد دیکھا توعورتیں حضرت حمزہ پر گریہ کررہی تھیں۔

ابن عبدالبر کہتے ہیں : یہ رسم اب تک موجود ہے اور لوگ کسی مرنے والے پر گریہ نہیں کرتے مگر یہ کہ پہلے حضرت حمزہ پر آنسو بہاتے ہیں۔ (الاستیعاب ١: ٣٧٤.)

٧( اپنے نواسے پر گریہ کرنا :

اسامہ بن زید کہتے ہیں : پیغمبر اکرم ۖ اپنے نواسے کی موت کی خبر سننے کے بعد بعض صحابہ کرام کے ہمراہ اپنی(منہ بولی ) بیٹی کے گھرپہنچے ۔ میت کو ہاتھو ں پر اٹھایا جبکہ آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور کچھ کہہ کررہے تھے ۔ (سنن نسائی ٤: ٢٢.)

٨(حضرت عثمان بن مظعون پر گریہ کرنا :

آنحضرت ۖ کے بعض صحابہ کرام کا اس دنیا سے جانا بھی آپ پر سخت ناگوار گذرا اور آپ سے صبر نہ ہوسکا ،انہیں اصحاب باوفا میں سے ایک عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ہیںان کی وفات کے بارے میں لکھا ہے :

((انّ النبّیۖ قبّل عثمان بن مظعون وھو میّت وھویبکی ))(المستدرک علی الصحیحین ١:٢٦١؛ السنن الکبرٰی ٣:٤٠٧.)

حاکم نیشاپوری اس بارے میں یوں نقل کرتے ہیں ؛

ایک دن رسول خدا ۖ تشییع جنازہ کیلئے باہر تشریف لائے جبکہ عمر بن خطاب بھی ہمراہ تھے ۔ عورتوں نے گریہ کرنا شروع کیا تو عمر نے انہیں روکا اور سرزنش کی ۔ رسول خدا ۖ نے فرمایا:

((یا عمر دعھن فان العین دامعة والنفس مصابة والعھد قریب ((

اے عمر ! انہیں چھوڑ دے ۔ بے شک آنکھیںگریہ کناں ہیں ،دل مصبیت زدہ اور زمانہ بھی زیادہ نہیں گزرا (المستدرک علی الصحیحین ١: ٣٨١، مسند احمد ٢: ٤٤٤.)

ان روایات کی بناپر واضح ہے کہ یہ عمل سنت پیغمبر اکرم ۖ میں حرام نہیں تھا ۔ اوریہ عمر تھے جس نے اس سنت کی پرواہ نہ کی اور عورتوں کو اپنے عزیزوں پر گریہ کرنے پر سرزنش کی ۔

مذید جاننے کیلیے یہ مضمون پڑھئے
اتنی طویل پوسٹ کرنے کا بے حد شکریہ

اس ساری پوسٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یہ بات ہرگز ثابت نہیں کہ سینہ پیٹا جائے یا منہ پیٹا جائے۔ حضرت عائشہ رض کا مقام اپنی جگہ، لیکن ان کے فعل کو آپ سنت کا نام نہیں دے سکتے۔ اپنوں کی وفات پر رونا یا غم کا اظہار کرنا فطری عمل ہے۔ اس سے کبھی نہیں منع کیا گیا۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ
کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی کے ماتم میں اپنا چہرہ اور سینہ پیٹا یا نہیں؟
دوسرا سوال بھی لگے ہاتھوں جو ابھی تک تشنہ ہے، کیا پیغمبر اسلام کی سنت سے ہمیں چہلم کا کوئی تصور ملتا ہے؟
 

نگار ف

محفلین
اتنی طویل پوسٹ کرنے کا بے حد شکریہ

اس ساری پوسٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یہ بات ہرگز ثابت نہیں کہ سینہ پیٹا جائے یا منہ پیٹا جائے۔ حضرت عائشہ رض کا مقام اپنی جگہ، لیکن ان کے فعل کو آپ سنت کا نام نہیں دے سکتے۔ اپنوں کی وفات پر رونا یا غم کا اظہار کرنا فطری عمل ہے۔ اس سے کبھی نہیں منع کیا گیا۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ
کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی کے ماتم میں اپنا چہرہ اور سینہ پیٹا یا نہیں؟
دوسرا سوال بھی لگے ہاتھوں جو ابھی تک تشنہ ہے، کیا پیغمبر اسلام کی سنت سے ہمیں چہلم کا کوئی تصور ملتا ہے؟
دیکھئے جناب میں کوئی عالمہ نہیں ہوں کہ قران و حدیث سے ثابت کردوں کہ رونا، سینہ پیٹنا جائز ہے یا نہیں، لیکن مکتب اہلبیت علیھم السّلام کے مجتھدین عظام بلکل جائز قرار دیتے ہیں جو مجھ سے زیادہ جانتے ہیں جنھوں نے اپنی عمریں علوم اسلامی میں گزاریں ہیں۔۔۔
اسکے علاوہ ہمارے سامنے بہت ساری مثالیں رونے کے حوالے سے ہے، حضرت آدم علیہ السّلام کا حوا کیلیے رونا، حضرت یعقوب ع کا حضرت یوسف کیلئے رونا۔۔۔۔
جہاں تک چہلم کا سوال ہے، اسلام میں پورے سال کا بھی تصور موجود ہے تمام تواریخ میں درج ہے کہ جس سال ام المومنین حضرت خدیجہ اور حضرت ابوطالب کا انتقال ہوا اس سال کو حضور پاک ص نے "عام الحزن" غم کا سال قرار دیا تھا۔۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
دیکھئے جناب میں کوئی عالمہ نہیں ہوں کہ قران و حدیث سے ثابت کردوں کہ رونا، سینہ پیٹنا جائز ہے یا نہیں، لیکن مکتب اہلبیت علیھم السّلام کے مجتھدین عظام بلکل جائز قرار دیتے ہیں جو مجھ سے زیادہ جانتے ہیں جنھوں نے اپنی عمریں علوم اسلامی میں گزاریں ہیں۔۔۔
اسکے علاوہ ہمارے سامنے بہت ساری مثالیں رونے کے حوالے سے ہے، حضرت آدم علیہ السّلام کا حوا کیلیے رونا، حضرت یعقوب ع کا حضرت یوسف کیلئے رونا۔۔۔ ۔
جہاں تک چہلم کا سوال ہے، اسلام میں پورے سال کا بھی تصور موجود ہے تمام تواریخ میں درج ہے کہ جس سال ام المومنین حضرت خدیجہ اور حضرت ابوطالب کا انتقال ہوا اس سال کو حضور پاک ص نے "عام الحزن" غم کا سال قرار دیا تھا۔۔۔ ۔
محترمہ میرا سوال وہیں کا وہیں ہے

اسلامی اعتبار سے چہلم کا کوئی تصور ہے یا نہیں

جہاں تک مکتب اہل بیت کی بات ہے، تو محترم جہاں سنت کے مقابل کوئی روایت یا رواج آئے گا تو میں سنت کو ہی ترجیح دوں گا۔ اگر نبی پاک صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم سے سینا پیٹنا جائز ہے تو بتائیے ورنہ بات ختم کر دیجئے

واضح رہے کہ میں نے یہاں رونے یا غم کرنے کے بارے نہیں بلکہ سینہ پیٹنے کے بارے بات کی ہے یا سر پیٹنے کی۔ کچھ عرصہ قبل اسی موضوع پر بات ہوئی تھی۔ آپ کو میں اپنی بات نہیں سمجھا سکا تھا کہ

رونا اور غم کرنا اسلامی سہی لیکن سینہ اور چہرہ پیٹنا، چھریوں اور برچھیوں سے خود کو زخمی کرنا جہالت کے دور کی نشانی ہے

تاہم ابھی بھی میں تہہ دل سے معذرت کرنے اور اپنی رائے سے رجوع کرنے کو تیار ہوں اگر آپ سنت نبوی صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم سے اسے ثابت کر دیں
 

حسینی

محفلین
جہاں تک دین اسلام میں ہے، مرنے والے کا سوگ تین دن ہوتا ہے اور بس۔ اس میں نہ جمعراتوں کی گنجائش ہے نہ دسویں ، چالیسویں اور نہ ہی سالانہ عرس کی۔

اور آپ تو شہید ہوئے تھے اور شہید کا کیا درجہ ہے اور ان کا کیا مقام ہے اس میں کسی قسم کی بحث کی ضرورت ہی نہیں۔
جناب شہید واقعی زندہ ہوتا ہے۔ یہ قرآن کا فیصلہ ہے۔​
آپ کے ہاں چالیسویں کی کوئی گنجائش نہ ہو تو الگ بات ہے۔ ہمارے ہاں بہت تاکید ہے اس کی۔ ہوتا کیا ہے اس میں؟؟​
رقص وسرود تو نہیں ہوتا نا؟؟ اچھے کام ہی ہوتے ہیں۔ قرآن خوانی، فاتحہ خوانی، زیارت، تجدید عہد وغیرہ کے کام ہوتے ہیں۔​
خود عدد چالیس کے اپنے خواص ہیں جن کو لکھنے کے لیے ایک پورا مقالہ چاہیے۔​
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ّ ّکی حدیث کے مطابق مومن کی ُ پانچ علامات میں سے ایک علامت چہلم پر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنا ہے۔​
امام کی زیارت کر کے ان کی قربانی کو یاد کر کے خود کو بھی اسلام پر قربان ہونے کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔​
 

حسینی

محفلین
آپ میرے والے لنک پر کلک کیجئے گا جہاں یہ الفاظ موجود ہیں

کنبھ میں جب 2001 میں چار کروڑ سے زیادہ افراد ایک ہی دن ایک جگہ اشنان کے لئے جمع ہوئے تھے تو اس کے بعد اکیس ملین یعنی دو کروڑ دس لاکھ کا عدد پھر بھی چھوٹا رہ جاتا ہے :)

بھائی جی۔ ویکیپیڈیا والا شاید جھوٹ بول رہا ہے۔مجھے نہیں پتا۔
یا آپ۔ ۔ نہیں مان رہا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
جناب شہید واقعی زندہ ہوتا ہے۔ یہ قرآن کا فیصلہ ہے۔​
آپ کے ہاں چالیسویں کی کوئی گنجائش نہ ہو تو الگ بات ہے۔ ہمارے ہاں بہت تاکید ہے اس کی۔ ہوتا کیا ہے اس میں؟؟​
رقص وسرود تو نہیں ہوتا نا؟؟ اچھے کام ہی ہوتے ہیں۔ قرآن خوانی، فاتحہ خوانی، زیارت، تجدید عہد وغیرہ کے کام ہوتے ہیں۔​
خود عدد چالیس کے اپنے خواص ہیں جن کو لکھنے کے لیے ایک پورا مقالہ چاہیے۔​
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ّ ّکی حدیث کے مطابق مومن کی ُ پانچ علامات میں سے ایک علامت چہلم پر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنا ہے۔​
امام کی زیارت کر کے ان کی قربانی کو یاد کر کے خود کو بھی اسلام پر قربان ہونے کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔​
یعنی نعوذ باللہ خلفاء راشدین اور حضرت علی اور حضرت فاطمہ (نبی پاک ص کو چھوڑ کر) کیا مومن کی ایک علامت پوری نہ کرنے کی وجہ سے کم درجہ ہو گئے ہیں؟ استغفراللہ کچھ سوچ سمجھ کر لکھا کریں۔ ایسے ہی لکھتے رہے تو عقل پتہ نہیں کہاں کھڑی دکھائی دیتی رہے گی۔ حضرت امام عسکری کی حدیث کیا ہے؟ کیا وہ نبی کے درجے پر ہیں کہ ان کے کہے کو حدیث بنا رہے ہیں؟
 

حسینی

محفلین
اتنی طویل پوسٹ کرنے کا بے حد شکریہ

اس ساری پوسٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یہ بات ہرگز ثابت نہیں کہ سینہ پیٹا جائے یا منہ پیٹا جائے۔ حضرت عائشہ رض کا مقام اپنی جگہ، لیکن ان کے فعل کو آپ سنت کا نام نہیں دے سکتے۔ اپنوں کی وفات پر رونا یا غم کا اظہار کرنا فطری عمل ہے۔ اس سے کبھی نہیں منع کیا گیا۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ
کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی کے ماتم میں اپنا چہرہ اور سینہ پیٹا یا نہیں؟
دوسرا سوال بھی لگے ہاتھوں جو ابھی تک تشنہ ہے، کیا پیغمبر اسلام کی سنت سے ہمیں چہلم کا کوئی تصور ملتا ہے؟

آپ کیا مجھے کہیں سے ان چیزوں کی ممانعت ثابت کر سکتے ہیں؟؟
ہر وہ کام جائز ہے جس کی اسلام میں ممانعت نہ ہو۔
پھر بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ شیعوں کے ِ نزدیک سنت کا سلسلہ 260 ہجری تک پھیلا ہوا ہے۔ وہ اپنے اماموں کے فعل کو بھی سنت مانتے ہیں۔ اور اس بات پر ان کے ہاں ادلہ موجود ہیں۔
 

حسینی

محفلین
یعنی نعوذ باللہ خلفاء راشدین اور حضرت علی اور حضرت فاطمہ (نبی پاک ص کو چھوڑ کر) کیا مومن کی ایک علامت پوری نہ کرنے کی وجہ سے کم درجہ ہو گئے ہیں؟ استغفراللہ کچھ سوچ سمجھ کر لکھا کریں۔ ایسے ہی لکھتے رہے تو عقل پتہ نہیں کہاں کھڑی دکھائی دیتی رہے گی۔ حضرت امام عسکری کی حدیث کیا ہے؟ کیا وہ نبی کے درجے پر ہیں کہ ان کے کہے کو حدیث بنا رہے ہیں؟

جی ہاں ہمارے نزدیک امام حسن عسکری علیہ السلام کے قول و افعال بھی حجت اور سنت ہے۔
اب آپ پر ضروری تو نہیں کہ آپ بھی ہماری طرح ہو جائیں!
اور آپ کیا سمجھتے ہیں حضور َپاک، امام علی، حضرت فاطمہ علیہم السلام وغیرہ نے امام حسین کی زیارت نہیں کی۔ ان کے دور میں تو حسین زندہ تھے۔
اور یہ حسین علیہ السلام کی شان تھی کہ حضور (ص) نے نماز پر ّ حسین علیہ السلام کو مقدم کیا۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
میرے خیال میں آپکا سوال ادھورا رہے گا اور یہ بحث ختم ہو جانی چاہیے۔ جب انھوں نے کہ دیا کہ ان کے فقہ میں یہ سب جائز ہے تو بات ختم، ہاں اگر ان کے فقہ کو چیلنج کر کے ایک لا حاصل بحث شروع کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے فقہ میں کیوں حلال ہے اور کس نے حلال کیا تو الگ بات ہے۔;)
 

عسکری

معطل
مزہب اپنے رنگ دکھا رہا ہے اور میں سوچ رہا ہوں کہ شکر ادا کر رہا ہوں اناکسا غورث کا جس نے سب سے پہلے مذہب سے جان چھڑائی اور آزادی کی راہ اپنائی :laugh:
 

منصور مکرم

محفلین
یہ کم حقدار کون تھے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
مصالحت کیسے ہو سکتی تھی؟؟؟؟ کیا سراپا حق سراپا َ باطل، نفاق، جھوٹ، َ ظالم، فاسق کی بیعت کر سکتا تھا؟؟
اگر مصالحت ممکن نہ ہوتی تو حضرت حسین :abt: عبید اللہ ابن زیاد سے شرائط کی بات نہ کرتے،جہاں تک مجھے یا د ہے اسمیں تین شرائط تھی،1) یہ کہ مجھے مدینے واپس جانے دیا جائے
2)مجھے اسلامی سرحدات کی حفاظت کیلئے بطور ایک جانثار سپاہی بھیجا جائے۔
3)مجھے یزید کے پاس لے جایا جائے ،تاکہ میں براہراست اسکے ہاتھ پر بیعت کروں۔

لیکن عبید اللہ ابن زیاد نے یزید کے سامنے اپنے نمبر بنانے کیلئے کسی ایک شرط کو بھی ماننے سے انکار کیا۔
دوسری بات یہ کہ کوفہ والوں نے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سفیر اور نمائندے مسلم ابن عقیل کو شھید کیا ،اور جب عبید اللہ ابن زیاد کے لشکریوں میں ان لوگوں کو دیکھا گیا جو کہ مدینہ خطوط لکھنے والے تھے،تو سب اہل کوفہ نے ان خطوط سے انکار کیا،ار عبید اللہ کی لشکر کا ساتھ دیتے رہے۔

مسئلہ کفر و اسلام کا نہیں کا ،بلکہ مسئلہ خلافت کی اہلیت کا تھا، حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ یزید کو خلافت کا اہل نہیں سمجھتے تھے ،اور اسکو اپنا حق جان کر اپنے حق کے حصول کیلئے نکلے تھے۔جبکہ یزید کسی صورت خلافت سے دست بردار نہیں ہو رہے تھے، بلکہ مخالفین خلافت سے اعلان جنگ کیا تھا۔اور بالاخر ال رسول :pbuh: کی شھادت کا عظیم سانحہ رونما ہوگیا۔اور اہل رسول:pbuh: پر ظلم کے پہاڑ توڑئے گئے۔

کسی کتاب کا حوالہ فی الحال نہیں دئے پا رہا، بلکہ جہاں تک میں نے مطالعہ کیا ہے مجھے تو یہی سبب معلوم ہوا ہے۔

اگر کفر و اسلام کی جنگ ہوتی تو اس زمانے میں ال رسول کے علاوہ بھی مسلم امت موجود تھی،لیکن واقعہ کربلا کی طرف ہم دیکھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ کفر و اسلام کی لڑائی نہیں تھی،ورنہ سب امت مسلمہ پہلے بھی اسلامی لڑائیوں کیلئے نکلی ہے اور اس واقعے کے بعد بھی۔
 

عسکری

معطل
غلو ہر مذہب میں ایک نہایت اہم ستوں کی طرح بن چکا ہے ہر سو سال بعد سٹوری میں مزید مرچ مصالحے لگتے جاتے ہین ;)
 

شمشاد

لائبریرین
یہاں پر ہر کوئی علامہ بنا ہوا ہے۔ ہر کوئی یہی کہتا نظر آتا ہے "جہاں تک دین اسلام کی بات ہے۔۔۔ "۔ تو یہ جو لاکھوں لوگ چہلم کے لئے پہنچے ہوئے یہ کس دین کے پیروکار ہیں؟ ان کے مطابق تو چہلم میں شرکت عین دین اسلام ہے۔
تو دین اسلام وہ نہیں ہے جو فقط آپ سمجھتے ہیں۔ اس لئے ایسی general سٹیمینٹ دینے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ سب کے سب مسلمان آپ کے فرقے کے نہیں ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہو سکتے ہیں جو آپ سے مختلف سوچتے ہوں۔ کچھ تو انسان کو tolerance پیدا کرنی چاہیے۔
جب انتظامیہ ایسے سوچتی ہے تو باقی ممبران کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔
Utterly disappointed!
زیش بھائی سب سے پہلے یہ بات کہ انتظامیہ ایسا بالکل نہیں سوچتی جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ یہ میری ذاتی رائے ہے جو کہ ایک محفلین کی طرح ہے۔

رہی بات یہ کہ کون کس دین کا پیرو کار ہے تو ہر کوئی اپنے دین کا اور اپنے قول و فعل کا جواب دہ ہے۔ میں نہ تو مفتی ہوں اور نہ ہی میں نے فتویٰ جاری کیا ہے۔

دین اسلام میں tolerance نہیں ہے۔ جو حدیں مقرر ہو چکی ہیں ان میں کوئی رد و بدل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ان میں کسی tolerance کی گنجائش ہے۔
 

سویدا

محفلین
دیکھئے جناب میں کوئی عالمہ نہیں ہوں کہ قران و حدیث سے ثابت کردوں کہ رونا، سینہ پیٹنا جائز ہے یا نہیں، لیکن مکتب اہلبیت علیھم السّلام کے مجتھدین عظام بلکل جائز قرار دیتے ہیں جو مجھ سے زیادہ جانتے ہیں جنھوں نے اپنی عمریں علوم اسلامی میں گزاریں ہیں۔۔۔
اسکے علاوہ ہمارے سامنے بہت ساری مثالیں رونے کے حوالے سے ہے، حضرت آدم علیہ السّلام کا حوا کیلیے رونا، حضرت یعقوب ع کا حضرت یوسف کیلئے رونا۔۔۔ ۔
جہاں تک چہلم کا سوال ہے، اسلام میں پورے سال کا بھی تصور موجود ہے تمام تواریخ میں درج ہے کہ جس سال ام المومنین حضرت خدیجہ اور حضرت ابوطالب کا انتقال ہوا اس سال کو حضور پاک ص نے "عام الحزن" غم کا سال قرار دیا تھا۔۔۔ ۔
عام الحزن کا قرار دینا بالکل درست ہے لیکن یوم الاربعین تو اس سے ثابت نہیں ہوسکتا
میرا سوال یہ تھا کہ چہلم یا چالیسویں کا کیا پس منظر ہے خواہ کسی بھی شخصیت کا ہو اور میرا یہ سوال فرقہ وارانہ تناظر میں نہیں ہے اپنے سمجھنے کے لیے پوچھ رہا ہوں
آپ نے جو دلیل دی وہ عام الحزن کی دی یعنی خاص اس ایک سال کو حضور نے غم کا سال قرار دیا
 

سویدا

محفلین
چہلم صرف اہل تشیع کے ہاں ہی نہیں سنیوں کے ہاں بھی کیا جاتا ہے میرا سوال عمومی ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
پھر بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ شیعوں کے ِ نزدیک سنت کا سلسلہ 260 ہجری تک پھیلا ہوا ہے۔ وہ اپنے اماموں کے فعل کو بھی سنت مانتے ہیں۔ اور اس بات پر ان کے ہاں ادلہ موجود ہیں۔
چونکہ آپ نے اپنی بات کی وضاحت کر دی۔ اس لئے اب مجھے مزید کچھ نہیں کہنا۔ جیتے رہیئے اور خوش رہیئے۔ اس موضوع پر دوبارہ آپ کو تکلیف نہیں دوں گا :)
 
جناب اب یہ لنک دیکھیے اور اپنی رائے دیجیے۔
دنیا کا سب سے بڑا ا پر امن اجتماع چہلم امام حسین علیہ السلام:
http://en.wikipedia.org/wiki/List_of_largest_peaceful_gatherings_in_history
سلام یا حسین علیہ السلام
وکی پیڈیا ایک ایک ایسا انسائیکلوپیڈٰیا ہے جس میں کوئی کچھ بھی شامل کر سکتا ہے یا موجود مواد کی تدوین کر سکتا ہے لہذا کسی آزاد ذریعے کی تصدیق ایسے معاملات میں لازمی ہے۔اب اسی حوالے کو دیکھ لیجئے اس میں اب تعداد اکیس ملین نہیں جیسا کہ قیصرانی بھائی نے بتایا بلکہ اب پچیس ملین کی تعداد درج ہے۔ جب اس دعوی کا حوالہ دیکھیے فٹ نوٹ میں تو کیا کہنے دونوں حوالے ایک سال پرانے یعنی 2012 کے اربعین کے ہیں، اور ان دونون میں تعداد پندرہ ملین درج ہے۔
دوسری بات یہ کہ کسی بھی مستند ذریعے سے اتنی تعدا دکی تصدیق نہیں ہوتی اس وقت انٹر نیت پر پریس ٹی جو کہ ایران کا سرکاری ادارہ ہے وہ صوبائی گورنر کے حوالے سے اٹھارہ ملین تعداد بیان کر رہا ہے لیکن مزے کی بات یہ ہےکہ انڈین ایکسپریس والے ان ہی گورنر کے حوالےسے پندرہ ملین کی تعداد بتا رہے ہیں اور انٹر نیت پر یہ دونوں بیانات موجو ہیں نیز ان میں تقریبا چھ سے ساڑھے سا ت لاکھ افراد عراق سے باہر کے تھے اور بقیہ عراقی۔
پریس ٹی وی
انڈین ایکسپریس
یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ عراق کی کل آبادی تین کروڑ گیارہ لاکھ کی ہے اب اگر ساڑھے سات لاکھ افراد باہر سے آئے تو تقریبا دو کروڑ بیالیس لاکھ پچاس افراد عراقی تھے۔ یعنی عراق کی 78فیصد آبادی گویا کربلا میں سمائی ہوئی تھی؟ یا للعجب کیا ایسا ممکن ہے؟ یعنی 25 ملین والی بات تو بالکل گپ ہے۔اور اٹھارہ ملین والی بات بھی کچھ ایسی زیادہ قابل قبول نہیں ۔
مزید یہ کہ اربعین کا اجتماع یقنا بہت بڑے اجتماعات میں سے ایک ہے لیکن ایسے معاملات میں جذبات حقیقی بات یا حقیقی تعداد کو بہت بڑہا چڑھا دیتے ہیں جیسا کہ کچھ دنوں پہلے جناب طاہر القادری کے اجتماع کے حؤالے سے کہا گیا کہ وہ دو ملین کا اجتماع تھا حالانکہ اس مقام پر شاید دو ملین افراد سما بھی نہ سکیں۔لہذا اس بات کو تسلیم کر لینے میں کوئی حرج نہیں کہ اربعین کا اجتماع دنیا کے بہت بڑے اجتماعات میں سے ہے لیکن تعداد کی جب تک آزاد ذرائع تصدیق نہیں کرتے (جو شاید ان حالات میں ممکن نہ وہ) مبالغہ آرائی سے پرہیزہی بہتر ہے۔
 

حسینی

محفلین
مزہب اپنے رنگ دکھا رہا ہے اور میں سوچ رہا ہوں کہ شکر ادا کر رہا ہوں اناکسا غورث کا جس نے سب سے پہلے مذہب سے جان چھڑائی اور آزادی کی راہ اپنائی :laugh:

مذہب کوئی لباس نہیں کہ جب چاہے ٰ پہن لے اور جب چاہے اتار لیں۔
جو بھی مذہب سے جان چھڑانے کی بات کرتا ہے وہی سب سے زیادہ مذہبی ہوتا ہے۔
آپ نکاح، طلاق، موت وغیرہ جیسے موقعوں پر دیکھیے۔
 
Top