دنیا کا سب سے بڑا اجتماع:چہلم امام حسینؑ

کعبہ میں کربلا کے مقابلہ میں 80 ٪ کم لوگ ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔

16 ملین لوگ تھے اس سال یوٹیوب پر آپ لوگ سرچ کر سکتے ہیں پروف کے لیے۔۔۔یا وکی پیڈیا پر سرچ کر سکتےہیں۔۔۔

کیوں نہ ہو میرے حسین ( علیہ سلام ) کو چاہنے والے
آخر کعبہ کو بھی تو بچایہ حسین ( علیہ سلام) نے ہے۔۔۔
 

عسکری

معطل
کعبہ میں کربلا کے مقابلہ میں 80 ٪ کم لوگ ہوتے ہیں۔۔۔ ۔۔۔

16 بلین لوگ تھے اس سال یوٹیوب پر آپ لوگ سرچ کر سکتے ہیں پروف کے لیے۔۔۔ یا وکی پیڈیا پر سرچ کر سکتےہیں۔۔۔

کیوں نہ ہو میرے حسین ( علیہ سلام ) کو چاہنے والے
آخر کعبہ کو بھی تو بچایہ حسین ( علیہ سلام) نے ہے۔۔۔
جہاں تک مجھے یاد ہے دنیا کی آبادی 8 بلین ہے یہ باقی کیا دوسرے سیاروں سے منگوائے گئے تھے :laugh:
 

طالوت

محفلین
ایک اور مزیدار دھاگہ ، بقول ساجد کہ لُچ تلنے سے باز نہ آنا:)
ویسے میں بھی متفق ہوں کہ یہ معاملہ ایسا نہیں جیسا بیان کیا جاتا ،میرے نزدیک " گیم آف پاور" ہی اس کی درست تشریح ہو سکتی ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
سماجی اعتبار سے خاص چالیس دن ہی کو کیوں اہمیت حاصل ہے کوئی تو عقلی توجیہ ہوگی اس کی ؟؟؟؟
میرا ذاتی خیال ہے کہ رسوم و رواج جہاں بنتے ہیں، وہاں کوئی عقلی توجیہہ نہیں رہ جاتی۔ آپ کو یاد ہوگا کچھ دن قبل ایک کارٹون پوسٹ ہوا تھا، بندر، کیلے، سیڑھی اور پانی والا۔ زیادہ تر رسوم و رواج مجھے ایسے ہی دکھائی دیتے ہیں کہ ہم اس لئے کرتے ہیں کہ جی ہمارے والدین اور ان کے والدین اور ان کے والدین نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ کیوں کیا تھا، اس بارے راوی خاموش ہے
 

شمشاد

لائبریرین
جہاں تک دین اسلام میں ہے، مرنے والے کا سوگ تین دن ہوتا ہے اور بس۔ اس میں نہ جمعراتوں کی گنجائش ہے نہ دسویں ، چالیسویں اور نہ ہی سالانہ عرس کی۔

اور آپ تو شہید ہوئے تھے اور شہید کا کیا درجہ ہے اور ان کا کیا مقام ہے اس میں کسی قسم کی بحث کی ضرورت ہی نہیں۔
 

نگار ف

محفلین
ایک اور مزیدار دھاگہ ، بقول ساجد کہ لُچ تلنے سے باز نہ آنا:)
ویسے میں بھی متفق ہوں کہ یہ معاملہ ایسا نہیں جیسا بیان کیا جاتا ،میرے نزدیک " گیم آف پاور" ہی اس کی درست تشریح ہو سکتی ہے۔

میرا ذاتی خیال ہے کہ رسوم و رواج جہاں بنتے ہیں، وہاں کوئی عقلی توجیہہ نہیں رہ جاتی۔

اور آپ تو شہید ہوئے تھے اور شہید کا کیا درجہ ہے اور ان کا کیا مقام ہے اس میں کسی قسم کی بحث کی ضرورت ہی نہیں۔

شمشاد بھائی، شہید کا کیا درجہ ہے اور ان کا کیا مقام ہے آپ نے خود ہی بیان فرمایا ہے، شہید زندہ ہوتا ہے اور امام حسین ع اس کی زندہ و جاوید مثال ہے جو رہتی دنیا تک جاری رہے گی، واقعہ کربلا کو آپ رسوماتی سوگ مت سمجھئے۔ فلسفہ کربلا عظیم درسگاہ ہے، تاريخ اسلام و مسلمين کا ايک اہم واقعہ، کربلا کا دردناک حادثہ ہے جس نے مسلمانوں کي تاريخ پر گہرے اثرات چھوڑے ہيں اور اسلامي معارف کا ايک نيا باب رقم کيا ہے- 61 ھ ميں يہ واقعہ رونما ہو نے کے بعد سے اب تک مسلمانوں کي ايک بڑي تعداد اس واقعہ عظميٰ کي ياد منا رہي ہے اور اسے مسلمانوں کي آئندہ سياسي و اجتماعي حکمت عملي اور ظلم و ستم کے خلاف قيام کے لئے نمونہ عمل قرار ديتي ہے - يہاں تک کہ اسي واقعہ کے اثرات کے نتيجے ميں مسلمانوں کي سياسي و اجتماعي زندگي ميں عظيم تحولات رونما ہوئے ہيں اور مسلمانوں نے شہدائے کربلا کي سيرت و روش پر عمل کرتے اور ظلم و استبداد کے خلاف عَلَم بلند کرتے ہوئے عدل و انصاف کے حصول کي کامياب تحريکيں چلائي ہيں - جس کي تازہ مثال ہمارا معاصر تاريخي واقعہ ہے کہ جسے ہم انقلاب اسلامي ايران کے نام سے ياد کرتے ہيں - جس کو گذرے ہوئے 3٥ سال ہو چکے ہيں اور اس انقلاب کے نتيجے ميں ايک مضبوط اسلامي حکومت وجود ميں آچکي ہے -
اگر اس انقلاب کي اجتماعي و سياسي بنيادوں کا گہرا مطالعہ کيا جائے تو اس کي بازگشت واقعہ کربلا ہي کي طرف ہوتي ہے اور واضح ہو جاتا ہے کہ اگر تاريخ اسلام ميں واقعہ کربلا اور روز عاشور امام حسين (ع) اور اُن کے فدا کار اصحاب کي جان نثاري نہ ہوتي اور مسلمانوں کي تاريخ ميں ظلم واستبداد کے خلاف نواسہ رسول (ص) کا يہ قيام نہ ہوتا تو نہ تو کوئي اور اسلامي تحريک چلتي اور نہ ايران کا اسلامي انقلاب برپا ہوتا - اسي طرح اگر ايرانيوں کا واقعہ کربلا کے ساتھ گہرا اعتقادي اور جذباتي لگاۆ نہ ہوتا اور امام حسين [ع] کي سيرت اُن کے سامنے نہ ہوتي تو يہ انقلاب کسي بھي صورت رونما نہ ہوتا اور عالمي سياسي و طاغوتي قوتوں کے خلاف ايراني مسلمانوں کي يہ تحريک کبھي بھي کامياب نہ ہوتي - اگر دوسرے عوامل کي وجہ سے کامياب ہو بھي جاتي تو لمبے عرصے تک قائم نہ رہ سکتي -آج انقلاب اسلامي ايران کے دوام کي سب سے بڑا سبب کربلا کا يہي عظيم واقعہ ہے اور اس واقعہ کے بارے ميں ايرانيوں کا درست ادراک ہے -
ان حقائق کي روشني ميں ديکھا جائے تو اگر ايرانيوں کے لئے يہ تاريخي واقعہ تعريف شدہ صورت ميں پيش کيا جاتا اور اس کے حقائق بيان کئے جانے کے بجائے اس واقعہ کے حوالے سے خرافات و خيالات پر مبني چيزيں عوام تک پہنچائي جاتيں تو ايراني قوم پر بھي اس کے اثرات مرتب نہ ہوتے اور وہ شاہي استبداد اور يزيد وقت کے خلاف کبھي بھي قيام کرنے کے لئے آمادہ نہ ہوتي -يہ کارنامہ ہے اُن اہل قلم و محققين اور اہل منبر و خطباء کا کہ جنہوں نے اپني قوم کے سامنے اس واقعہ عظميٰ کو تحقيقي انداز ميں پيش کيا اور اس واقعہ کے تربيتي پہلوئوں سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے قو م کو ظلم و استبداد کے خلاف قيام کرنے اور شہدائے کربلا کي طرح اپنا شرعي فريضہ ادا کر نے کے لئے آمادہ کيا -
اسي واقعہ کي ياد سالہا سال سے ہماري قوم ميں بھي منائي جارہي ہے اور ہر سال اس کے اوپر جاني و مالي سرمايہ کاري جاتي ہے ليکن کربلا کي ياد ہمارے ہاں وہ اثرات نہيں دکھاتي جو دوسري قوموں خصوصاً ايراني قوم ميں ديکھے جارہے ہيں - اس کي وجہ يہي ہے کہ ہمارے ہاں کربلا کے بارے ميں تحقيقي مواد پيش نہيں کيا جاتا ہے جس کي وجہ سے ہمارے عوام واقعہ عاشورا کے متعلق تاريخي ادراک پيدا نہيں رکھتے اور نہ ہم اس واقعہ عظميٰ کے سياسي واجتماعي اور تربيتي پہلوئوں کو سمجھ رہے ہيں - لہذا ہم نہ فقط ظلم و استبداد کے خلاف قيام کي سکت نہيں رکھتے بلکہ اسي ظلم و استبداد کے تعاون سے واقعہ کربلا کي ياد منانے ميں بھي عار محسوس نہيں کرتے - لہذ اہم امام حسين (ع) اور شہدائے کربلا جيسا عظيم سرمايہ رکھنے کے باوجود ظلم وستم کو کھلے دل سے قبول کر ليتے ہيں - يہ اس بات کي دليل ہے کہ ہم ابھي تک واقعہ کربلا کے حقائق کا ادراک نہيں کر سکے چونکہ ہمارے سامنے اس واقعہ کي تاريخ ، تحقيقي انداز ميں پيش نہيں کي جاتي - ہم اسے فقط ايک اسطورے (روايتي اور افسانوي واقعہ) کے طور پر مناتے ہيں اور اس کے تربيتي و سياسي پہلوئوں سے بالکل غافل ہيں - لہذا ہم اس واقعہ کے تربيتي اثرات سے محروم ہيں اور شہدائے کربلا کي سيرت و طريقے سے ناآشنا ہيں -
اس سلسلے ميں ہمارے اہل قلم ، محققين اور خصوصاً ديني وعلمي مدارس و مراکز کي سنگين ذمہ داري بنتي ہے کہ وہ اس واقعہ کے بارے ميں تحقيقي مواد فراہم کريں تاکہ اس کے افسانوي رنگ کو ختم کرنے کے لئے اس کے نمونہ عمل پہلوئوں کو روشن کيا جاسکے اور قوم کو ظلم و استبداد کے چنگل سے نجات دلانے کے لئے اس واقعہ سے بھر پور فائدہ اُٹھاتے ہوئے ''امام حسين (ع) کے سفينہ نجات ہونے'' کا صحيح مفہوم اُجاگر ہو سکے - اس وقت ہماري مجالس عزا ء ميں اور ہمارے منبر سے کربلا اور عاشورا کے حوالے سے جو کچھ پيش کيا جا رہا ہے اُس ميں تربيتي اور تحقيقي پہلو بہت ہي کمزور ہے چونکہ خرافاتي اور خيالاتي چيزوں سے تربيت نہيں ہو سکتي؛ تربيت کے لئے حقائق بيان ہو نے ضروري ہيں - لہذا ہميں سيرت معصومين کي روشني ميں لوگوں کو اس واقعہ کي ياد منانے کي اہميت بتاني چاہيے اور عزاداري امام حسين کے اہداف و مقاصد سے آگاہ کرنا چاہيے تاکہ دين اور اوليائے دين کے بارے ميں عوام کا شعور بلند ہو سکے اور وہ حقيقي معنوں ميں ان ذوات مقدسہ کي پيروي کر سکيں -
 

حسینی

محفلین
امام حسین رض عالی مقام کا مرتبہ اپنی جگہ لیکن آپ کو شاید غلط فہمی ہوئی ہے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا اجتماع ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا اجتماع کنبھ کا میلا ہے جس میں اندازاً دس کروڑ سے زیادہ شرکاء ہوتے ہیں

جناب اب یہ لنک دیکھیے اور اپنی رائے دیجیے۔
دنیا کا سب سے بڑا ا پر امن اجتماع چہلم امام حسین علیہ السلام:
http://en.wikipedia.org/wiki/List_of_largest_peaceful_gatherings_in_history
سلام یا حسین علیہ السلام
 

عسکری

معطل
ایک اور مزیدار دھاگہ ، بقول ساجد کہ لُچ تلنے سے باز نہ آنا:)
ویسے میں بھی متفق ہوں کہ یہ معاملہ ایسا نہیں جیسا بیان کیا جاتا ،میرے نزدیک " گیم آف پاور" ہی اس کی درست تشریح ہو سکتی ہے۔

میں نے کب لچ تلا ہے ؟ بندہ اب پوسٹ بھی نا کرے ؟:rolleyes:
 

قیصرانی

لائبریرین
جناب اب یہ لنک دیکھیے اور اپنی رائے دیجیے۔
دنیا کا سب سے بڑا ا پر امن اجتماع چہلم امام حسین علیہ السلام:
http://en.wikipedia.org/wiki/List_of_largest_peaceful_gatherings_in_history
سلام یا حسین علیہ السلام

آپ میرے والے لنک پر کلک کیجئے گا جہاں یہ الفاظ موجود ہیں

The festival is billed as the biggest religious gathering in the world. In 2001, more than 40 million people gathered on the main bathing day at Allahabad, breaking a world record for the biggest human gathering.[1]
کنبھ میں جب 2001 میں چار کروڑ سے زیادہ افراد ایک ہی دن ایک جگہ اشنان کے لئے جمع ہوئے تھے تو اس کے بعد اکیس ملین یعنی دو کروڑ دس لاکھ کا عدد پھر بھی چھوٹا رہ جاتا ہے :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
میرا ذاتی خیال ہے کہ رسوم و رواج جہاں بنتے ہیں، وہاں کوئی عقلی توجیہہ نہیں رہ جاتی۔ آپ کو یاد ہوگا کچھ دن قبل ایک کارٹون پوسٹ ہوا تھا، بندر، کیلے، سیڑھی اور پانی والا۔ زیادہ تر رسوم و رواج مجھے ایسے ہی دکھائی دیتے ہیں کہ ہم اس لئے کرتے ہیں کہ جی ہمارے والدین اور ان کے والدین اور ان کے والدین نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ کیوں کیا تھا، اس بارے راوی خاموش ہے
میں آجکل اس پریزینٹیشن کا اردو ترجمہ کر رہا ہوں۔ پہلے دو صفحے تیار ہو گئے ہیں۔ :D
 

قیصرانی

لائبریرین
شمشاد بھائی، شہید کا کیا درجہ ہے اور ان کا کیا مقام ہے آپ نے خود ہی بیان فرمایا ہے، شہید زندہ ہوتا ہے اور امام حسین ع اس کی زندہ و جاوید مثال ہے جو رہتی دنیا تک جاری رہے گی، واقعہ کربلا کو آپ رسوماتی سوگ مت سمجھئے۔ فلسفہ کربلا عظیم درسگاہ ہے، تاريخ اسلام و مسلمين کا ايک اہم واقعہ، کربلا کا دردناک حادثہ ہے جس نے مسلمانوں کي تاريخ پر گہرے اثرات چھوڑے ہيں اور اسلامي معارف کا ايک نيا باب رقم کيا ہے- 61 ھ ميں يہ واقعہ رونما ہو نے کے بعد سے اب تک مسلمانوں کي ايک بڑي تعداد اس واقعہ عظميٰ کي ياد منا رہي ہے اور اسے مسلمانوں کي آئندہ سياسي و اجتماعي حکمت عملي اور ظلم و ستم کے خلاف قيام کے لئے نمونہ عمل قرار ديتي ہے - يہاں تک کہ اسي واقعہ کے اثرات کے نتيجے ميں مسلمانوں کي سياسي و اجتماعي زندگي ميں عظيم تحولات رونما ہوئے ہيں اور مسلمانوں نے شہدائے کربلا کي سيرت و روش پر عمل کرتے اور ظلم و استبداد کے خلاف عَلَم بلند کرتے ہوئے عدل و انصاف کے حصول کي کامياب تحريکيں چلائي ہيں - جس کي تازہ مثال ہمارا معاصر تاريخي واقعہ ہے کہ جسے ہم انقلاب اسلامي ايران کے نام سے ياد کرتے ہيں - جس کو گذرے ہوئے 3٥ سال ہو چکے ہيں اور اس انقلاب کے نتيجے ميں ايک مضبوط اسلامي حکومت وجود ميں آچکي ہے -
اگر اس انقلاب کي اجتماعي و سياسي بنيادوں کا گہرا مطالعہ کيا جائے تو اس کي بازگشت واقعہ کربلا ہي کي طرف ہوتي ہے اور واضح ہو جاتا ہے کہ اگر تاريخ اسلام ميں واقعہ کربلا اور روز عاشور امام حسين (ع) اور اُن کے فدا کار اصحاب کي جان نثاري نہ ہوتي اور مسلمانوں کي تاريخ ميں ظلم واستبداد کے خلاف نواسہ رسول (ص) کا يہ قيام نہ ہوتا تو نہ تو کوئي اور اسلامي تحريک چلتي اور نہ ايران کا اسلامي انقلاب برپا ہوتا - اسي طرح اگر ايرانيوں کا واقعہ کربلا کے ساتھ گہرا اعتقادي اور جذباتي لگاۆ نہ ہوتا اور امام حسين [ع] کي سيرت اُن کے سامنے نہ ہوتي تو يہ انقلاب کسي بھي صورت رونما نہ ہوتا اور عالمي سياسي و طاغوتي قوتوں کے خلاف ايراني مسلمانوں کي يہ تحريک کبھي بھي کامياب نہ ہوتي - اگر دوسرے عوامل کي وجہ سے کامياب ہو بھي جاتي تو لمبے عرصے تک قائم نہ رہ سکتي -آج انقلاب اسلامي ايران کے دوام کي سب سے بڑا سبب کربلا کا يہي عظيم واقعہ ہے اور اس واقعہ کے بارے ميں ايرانيوں کا درست ادراک ہے -
ان حقائق کي روشني ميں ديکھا جائے تو اگر ايرانيوں کے لئے يہ تاريخي واقعہ تعريف شدہ صورت ميں پيش کيا جاتا اور اس کے حقائق بيان کئے جانے کے بجائے اس واقعہ کے حوالے سے خرافات و خيالات پر مبني چيزيں عوام تک پہنچائي جاتيں تو ايراني قوم پر بھي اس کے اثرات مرتب نہ ہوتے اور وہ شاہي استبداد اور يزيد وقت کے خلاف کبھي بھي قيام کرنے کے لئے آمادہ نہ ہوتي -يہ کارنامہ ہے اُن اہل قلم و محققين اور اہل منبر و خطباء کا کہ جنہوں نے اپني قوم کے سامنے اس واقعہ عظميٰ کو تحقيقي انداز ميں پيش کيا اور اس واقعہ کے تربيتي پہلوئوں سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے قو م کو ظلم و استبداد کے خلاف قيام کرنے اور شہدائے کربلا کي طرح اپنا شرعي فريضہ ادا کر نے کے لئے آمادہ کيا -
اسي واقعہ کي ياد سالہا سال سے ہماري قوم ميں بھي منائي جارہي ہے اور ہر سال اس کے اوپر جاني و مالي سرمايہ کاري جاتي ہے ليکن کربلا کي ياد ہمارے ہاں وہ اثرات نہيں دکھاتي جو دوسري قوموں خصوصاً ايراني قوم ميں ديکھے جارہے ہيں - اس کي وجہ يہي ہے کہ ہمارے ہاں کربلا کے بارے ميں تحقيقي مواد پيش نہيں کيا جاتا ہے جس کي وجہ سے ہمارے عوام واقعہ عاشورا کے متعلق تاريخي ادراک پيدا نہيں رکھتے اور نہ ہم اس واقعہ عظميٰ کے سياسي واجتماعي اور تربيتي پہلوئوں کو سمجھ رہے ہيں - لہذا ہم نہ فقط ظلم و استبداد کے خلاف قيام کي سکت نہيں رکھتے بلکہ اسي ظلم و استبداد کے تعاون سے واقعہ کربلا کي ياد منانے ميں بھي عار محسوس نہيں کرتے - لہذ اہم امام حسين (ع) اور شہدائے کربلا جيسا عظيم سرمايہ رکھنے کے باوجود ظلم وستم کو کھلے دل سے قبول کر ليتے ہيں - يہ اس بات کي دليل ہے کہ ہم ابھي تک واقعہ کربلا کے حقائق کا ادراک نہيں کر سکے چونکہ ہمارے سامنے اس واقعہ کي تاريخ ، تحقيقي انداز ميں پيش نہيں کي جاتي - ہم اسے فقط ايک اسطورے (روايتي اور افسانوي واقعہ) کے طور پر مناتے ہيں اور اس کے تربيتي و سياسي پہلوئوں سے بالکل غافل ہيں - لہذا ہم اس واقعہ کے تربيتي اثرات سے محروم ہيں اور شہدائے کربلا کي سيرت و طريقے سے ناآشنا ہيں -
اس سلسلے ميں ہمارے اہل قلم ، محققين اور خصوصاً ديني وعلمي مدارس و مراکز کي سنگين ذمہ داري بنتي ہے کہ وہ اس واقعہ کے بارے ميں تحقيقي مواد فراہم کريں تاکہ اس کے افسانوي رنگ کو ختم کرنے کے لئے اس کے نمونہ عمل پہلوئوں کو روشن کيا جاسکے اور قوم کو ظلم و استبداد کے چنگل سے نجات دلانے کے لئے اس واقعہ سے بھر پور فائدہ اُٹھاتے ہوئے ''امام حسين (ع) کے سفينہ نجات ہونے'' کا صحيح مفہوم اُجاگر ہو سکے - اس وقت ہماري مجالس عزا ء ميں اور ہمارے منبر سے کربلا اور عاشورا کے حوالے سے جو کچھ پيش کيا جا رہا ہے اُس ميں تربيتي اور تحقيقي پہلو بہت ہي کمزور ہے چونکہ خرافاتي اور خيالاتي چيزوں سے تربيت نہيں ہو سکتي؛ تربيت کے لئے حقائق بيان ہو نے ضروري ہيں - لہذا ہميں سيرت معصومين کي روشني ميں لوگوں کو اس واقعہ کي ياد منانے کي اہميت بتاني چاہيے اور عزاداري امام حسين کے اہداف و مقاصد سے آگاہ کرنا چاہيے تاکہ دين اور اوليائے دين کے بارے ميں عوام کا شعور بلند ہو سکے اور وہ حقيقي معنوں ميں ان ذوات مقدسہ کي پيروي کر سکيں -
محترم، اصل سوال وہیں کا وہیں ہے کہ کیا شہید کا ماتم کرنا چاہیئے یا نہیں۔ اس کا جواب دے دیجئے۔ فلسفہ پر بعد میں بات کرتے ہیں
 

سید ذیشان

محفلین
جہاں تک دین اسلام میں ہے، مرنے والے کا سوگ تین دن ہوتا ہے اور بس۔ اس میں نہ جمعراتوں کی گنجائش ہے نہ دسویں ، چالیسویں اور نہ ہی سالانہ عرس کی۔

اور آپ تو شہید ہوئے تھے اور شہید کا کیا درجہ ہے اور ان کا کیا مقام ہے اس میں کسی قسم کی بحث کی ضرورت ہی نہیں۔

یہاں پر ہر کوئی علامہ بنا ہوا ہے۔ ہر کوئی یہی کہتا نظر آتا ہے "جہاں تک دین اسلام کی بات ہے۔۔۔"۔ تو یہ جو لاکھوں لوگ چہلم کے لئے پہنچے ہوئے یہ کس دین کے پیروکار ہیں؟ ان کے مطابق تو چہلم میں شرکت عین دین اسلام ہے۔
تو دین اسلام وہ نہیں ہے جو فقط آپ سمجھتے ہیں۔ اس لئے ایسی general سٹیمینٹ دینے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ سب کے سب مسلمان آپ کے فرقے کے نہیں ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہو سکتے ہیں جو آپ سے مختلف سوچتے ہوں۔ کچھ تو انسان کو tolerance پیدا کرنی چاہیے۔
جب انتظامیہ ایسے سوچتی ہے تو باقی ممبران کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔
Utterly disappointed!
 

سید ذیشان

محفلین
ایک اور بات کرتا چلوں کہ کعبہ میں 3-4 ملین لوگ اس لئے ہوتے ہیں کہ سعودی حکومت نے اس تعداد کو ریگولیٹ کیا ہوا ہے۔ اور ہر ملک کا اپنا quota ہے جس کے حساب سے لوگ جاتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو انتے لوگ پہنچ جائیں کہ ان کو سنبھالنا مشکل ہو جائے۔

جہاں تک 21 ملین کی تعداد ہے تو یہ مجھے exaggeration لگتی ہے۔ عراق کی اپنی آبادی 31 ملین ہے۔ تو اتنے سارے لوگوں کو accommodate کرنا ناممکن نہ سہی مشکل ضرور ہے۔ یہ تعداد شائد ایک دن کی نہ ہو بلکہ کئی ہفتوں کی ہو۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دنیا کا سب سے بڑا اجتماع:چہلم امام حسینؑ
٢٠ صفر المظفر کو پوری دنیا میں حضرت امام حسینؑ کی عظیم قربانی کی یاد کرتے ہوئے امام عالی مقام کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے چہلم منایا جاتا ہے۔
کربلا میں اس موقع پر دنیا کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے۔ پوری دنیا سے اور مختلف ممالک سے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ کربلا کے محافظ (گورنر) کے مطابق پچھلے سال١٨ ملیون زائرین کربلا میں جمع تھے۔ اس سال بھی دہشت گردی کے خطرات کے باوجود اس موقع پر کم از کم ایک کروڑ لوگ کربلا میں جمع ہیں۔​
سلام یا حسین علیہ السلام
ابد واللہ یا زھراء ما ننسی حسیناہ!

اس سال میں بہت سے ٹی وی چینلز پر فالو کرنے کی کوشش کی تھی جتنے بھی چینلز پر محرم الحرام کی نشریات پیش کی جا رہی تھیں لیکن مجھے انٹرنیٹ کا نہیں معلوم تھا کہ یہاں بھی دستیاب ہیں آج اس ربط کا معلوم ہوا ہے اس پہ لائیو دکھایا جا رہا ہے شاید کربلا سے ۔ اس کا مطلب انٹرنیٹ پر اور بھی روابط دستیاب ہوں گے۔
 

نگار ف

محفلین
محترم، اصل سوال وہیں کا وہیں ہے کہ کیا شہید کا ماتم کرنا چاہیئے یا نہیں۔ اس کا جواب دے دیجئے۔ فلسفہ پر بعد میں بات کرتے ہیں
مکتب تشیّع میں گریہ کرنے ماتم کرنے کا ثواب بیان ہوا ہے اور امام سجّاد ع، امام محمد باقر ع، امام جعفر صادق ع سے بہت ساری روایات اور سیرت ائمہ مروی ہیں۔۔۔۔
اسکے علاوہ بہت ساری روایات اس حوالے سے دور رسول اللہ :pbuh: کے ملتے ہیں۔۔۔

١۔ سیرت پیغمبر ۖ

تاریخ اور روایات یہ بتلاتی ہیں کہ پیغمبر اکرم ۖ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ا ورتابعین مرنے والوں اورشہداء و... پر گریہ کیا کرتے اور دوسروں کو بھی نہ صرف عزاداری کا موقع دیتے بلکہ انہیں اس عمل پر تشویق بھی کیا کرتے جیسا کہ حضرت عائشہ نے رسول اکرم ۖ کی وفات پر اپنے منہ اور سینہ پر پیٹا ۔(سیرة النبوة ٦: ٧٥؛ مسند احمد ٦: ٢٧٤.(

پیغمبر اکرم ۖ نے اپنے فرزند ابراہیم ، اپنے دادا حضرت عبد المطلب ، اپنے چچا حضرت ابوطالب اور حضرت حمزہ ، اپنی مادر گرامی حضرت آمنہ بنت وہب ، حضرت علی کی مادر گرامی حضرت فاطمہ بنت اسد ، عثمان بن مظعون و... کی موت پر گریہ کیا، جس کے چند نمونے یہاں پر ذکرکررہے ہیں:

١( حضرت عبد المطلب پر گریہ کرنا:

جب آنحضرت ۖ کے جدّ بزرگوار حضرت عبد المطلب کی وفات ہوئی تو آپ ۖ نے ان کے فراق میں گریہ کیا ۔حضرت امّ ایمن رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :

((أنا رأیت رسول اللہ یمشی تحت سریرہ وھویبکی))

میں نے رسول اللہ ( ۖ ( کو دیکھا وہ ان کے جنازے کے ہمراہ روتے ہوئے چل رہے تھے ۔

( تذکرة الخواص : ٧.)

٢( حضرت ابو طالب پر گریہ کرنا:

حامی پیغمبر ۖ ، مومن آل قریش ،سردار عرب حضرت ابوطالب کی وفات پیغمبر ۖ پر سخت ناگوار گذری اس لئے کہ یہ وہ شخصیت تھے جنہوں آنحضرت ۖ کی پرورش کے علاوہ بھی ہر مقام پر ان کی مدد و نصرت کی جس سے دین اسلام کا بول بالا ہو ااور مشرکین مکّہ کو ان کی زندگی میں یہ جرأت نہ ہوسکی کہ آنحضرت ۖ کو نقصان پہنچا سکیں ۔یہی وجہ ہے کہ جب ایسے شفیق چچا کی وفات کی خبر ملی تو حضرت علی علیہ السّلام سے فرمایا:

((اذھب فاغسلہ و کفّنہ ووارہ غفراللہ لہ ورحمہ ))

(الطبقات الکبرٰی ،ابن سعد ١:١٢٣.)

جاؤ انہیں غسل و کفن دو اور ان کے دفن کا اہتمام کرو ،خداان کی مغفرت کرے اور ان پر رحمت نازل فرمائے ۔

٣( حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا پر گریہ کرنا :

مؤرخین نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ رسالت مآب ۖ اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کی قبر کی زیارت کیلئے ابواء کے مقام پر پہنچے جیسے ہی ماں کی قبر کے پاس گئے اس قدر روئے کہ ساتھیوں نے بھی گریہ کرنا شروع کردیا ۔

( المستدرک ١:٣٥٧؛ تاریخ المدینہ ،ابن شبّہ ١:١١٨.)

٤( اپنے فرزند ابراہیم پر گریہ کرنا:

خدا وند متعال نے رسول خدا ۖ کو ایک بیٹا عطا کیا تھا جس کا نام ابراہیم رکھا ۔آنحضرت ۖ اس سے شدید محبت کرتے لیکن ایک سال کی عمر میں اس کی وفات ہوگئی جس سے آنحضرت ۖ کو انتہائی صدمہ پہنچا اور اس کے فراق میں گریہ کرنا شروع کیا تو صحابہ کرام نے اس کی وجہ پوچھی تو جواب میں فرمایا:((تدمع العینان ویحزن القلب ولا نقول مایسخط الربّ))( العقد الفرید ٣:١٩.)

آنکھوں سے اشک جاری ہیں اور دل غمگین ہے لیکن ہم ایسی بات نہیں کہتے جو خد ا وند متعال کی ناراضگی کا باعث بنے ۔

٥( حضرت فاطمہ بنت اسد پر گریہ کرنا :

حضرت فاطمہ بنت اسد ،حضرت علی علیہ السّلام کی ماں اور حضرت ابوطالب کی زوجہ محترمہ ،رسول خدا ۖ کے ہاں بہت مقام رکھتی تھیں یہاں تک کہ آنحضرت ۖ انہیں اپنی ماں سمجھتے تھے جب تیسری ہجری میں ان کی وفات ہوئی توآپ سخت اندوہناک ہوئے اور گریہ کیا ۔مؤرخین لکھتے ہیں :

((صلّی علیھا وتمرغ فی قبرھا وبکٰی))

آنحضرت ۖ نے ان پر نماز پڑھی، ان کی قبر میں لیٹے اور ان پر گریہ کیا . ( ذخائر العقبٰی :٥٦.)

٦(حضرت حمزہ پر گریہ کرنا :

آنحضرت ۖ کے چچا حضرت حمزہ جنگ احد میں شہید ہوئے جس سے آپ ۖ کوبہت صدمہ ہو ا اور ان پر گریہ کیا ۔سیرہ حلبیہ میں لکھا ہے :

((لمّا رأی النبّی حمزة قتیلا بکٰی ، فلمّا رأی مامثّل بہ شھق))(السیرة الحلبیة ٢:٢٤٧.)

جب پیغمبر ( ۖ ) کو حضرت حمزہ شہید دیکھا تو ان پر گریہ کیا اور جب ان کے بدن کے اعضاء کو کٹا ہوا دیکھا تو دھاڑیں مار کر روئے ۔

امام احمدبن حنبل نقل کرتے ہیں:

جنگ احد کے بعد پیغمبر اکرم ۖ نے اپنے شوہروں پر گریہ کرنے والی انصار کی عورتوں سے فرمایا:

(( ولکن حمزة لا بواکی لہ ))

لیکن حمزہ پر گریہ کرنے والا کوئی نہیں ۔

روای کہتاہے : پیغمبر اکرم ۖ نے تھوڑی دیر آرام کے بعد دیکھا توعورتیں حضرت حمزہ پر گریہ کررہی تھیں۔

ابن عبدالبر کہتے ہیں : یہ رسم اب تک موجود ہے اور لوگ کسی مرنے والے پر گریہ نہیں کرتے مگر یہ کہ پہلے حضرت حمزہ پر آنسو بہاتے ہیں۔ (الاستیعاب ١: ٣٧٤.)

٧( اپنے نواسے پر گریہ کرنا :

اسامہ بن زید کہتے ہیں : پیغمبر اکرم ۖ اپنے نواسے کی موت کی خبر سننے کے بعد بعض صحابہ کرام کے ہمراہ اپنی(منہ بولی ) بیٹی کے گھرپہنچے ۔ میت کو ہاتھو ں پر اٹھایا جبکہ آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور کچھ کہہ کررہے تھے ۔ (سنن نسائی ٤: ٢٢.)

٨(حضرت عثمان بن مظعون پر گریہ کرنا :

آنحضرت ۖ کے بعض صحابہ کرام کا اس دنیا سے جانا بھی آپ پر سخت ناگوار گذرا اور آپ سے صبر نہ ہوسکا ،انہیں اصحاب باوفا میں سے ایک عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ہیںان کی وفات کے بارے میں لکھا ہے :

((انّ النبّیۖ قبّل عثمان بن مظعون وھو میّت وھویبکی ))(المستدرک علی الصحیحین ١:٢٦١؛ السنن الکبرٰی ٣:٤٠٧.)

حاکم نیشاپوری اس بارے میں یوں نقل کرتے ہیں ؛

ایک دن رسول خدا ۖ تشییع جنازہ کیلئے باہر تشریف لائے جبکہ عمر بن خطاب بھی ہمراہ تھے ۔ عورتوں نے گریہ کرنا شروع کیا تو عمر نے انہیں روکا اور سرزنش کی ۔ رسول خدا ۖ نے فرمایا:

((یا عمر دعھن فان العین دامعة والنفس مصابة والعھد قریب ((

اے عمر ! انہیں چھوڑ دے ۔ بے شک آنکھیںگریہ کناں ہیں ،دل مصبیت زدہ اور زمانہ بھی زیادہ نہیں گزرا (المستدرک علی الصحیحین ١: ٣٨١، مسند احمد ٢: ٤٤٤.)

ان روایات کی بناپر واضح ہے کہ یہ عمل سنت پیغمبر اکرم ۖ میں حرام نہیں تھا ۔ اوریہ عمر تھے جس نے اس سنت کی پرواہ نہ کی اور عورتوں کو اپنے عزیزوں پر گریہ کرنے پر سرزنش کی ۔

مذید جاننے کیلیے یہ مضمون پڑھئے
 
Top