خیالِ شبِ غم سے گھبرا رہے ہیں - ریاض خیر آبادی

کاشفی

محفلین
غزل
(ریاض خیر آبادی)

خیالِ شبِ غم سے گھبرا رہے ہیں
ہمیں دن کو تارے نظر آرہے ہیں

دم وعظ کیسے مزے میں ہیں واعظ
بھرے جام کوثر کے چھلکا رہے ہیں

لگا دو ذرا ہاتھ اپنی گلے میں
جنازہ لئے دل کا ہم جارہے ہیں

یہ اُلجھے ہیں رندوں سے کیا شیخ صاحب
بڑھاپے میں کیوں ڈاڑھی رنگوارہے ہیں

قیامت بچھی جاتی ہے ہر قدم پر
یہ کون آرہا ہے، وہی آرہے ہیں ؟

دعا دے رہا ہوں یہ دیوانگی میں
چُنیں پھول تِنکے جو چُنوارہے ہیں

سیدھی کرتے ذرا میکدے میں
عصا ٹیکتے کیا ریاض آرہے ہیں
 

کاشفی

محفلین
غزل
(ریاض خیر آبادی)

خیالِ شبِ غم سے گھبرا رہے ہیں
ہمیں دن کو تارے نظر آرہے ہیں

وہ کچھ غیر سے وعدہ فرما رہے ہیں
مرے سر کی سچی قسم کھا رہے ہیں
یہ ہیں شوخیاں اپنی تصویر دے کر
شب وعدہ ہم کو وہ بہلا رہے ہیں
نہ افتادگی کچھ پیش آئے الہٰی
ذرا ہم چمن کی ہوا کھا رہے ہیں
دم وعظ کیسے مزے میں ہیں واعظ
بھرے جام کوثر کے چھلکا رہے ہیں

یہ انسان بن جائیں کچھ ساتھ رہ کر
فرشتوں کو ہم راہ پر لارہے ہیں
نہ لوں راہ میخانہ کس طرح واعظ
یہ بادل جو سر پر مرے چھا رہے ہیں
لگا دو ذرا ہاتھ اپنی گلی میں
جنازہ لئے دل کا ہم جارہے ہیں
یہ اُلجھے ہیں رندوں سے کیا شیخ صاحب
بڑھاپے میں کیوں ڈاڑھی رنگوارہے ہیں
قیامت بچھی جاتی ہے ہر قدم پر
یہ کون آرہا ہے، وہی آرہے ہیں ؟
دعا دے رہا ہوں یہ دیوانگی میں
چُنیں پھول تِنکے جو چُنوارہے ہیں
کمر سیدھی کرنے ذرا میکدے میں
عصا ٹیکتے کیا ریاض آرہے ہیں
 

کاشفی

محفلین
رانا صاحب، عائشہ عزیز صاحبہ، صائمہ شاہ صاحبہ اور شمشاد بھائ آپ تمام محفلین کا غزل کی پسندیدگی کے لیئے بیحد شکریہ۔۔خوش رہیئے سب۔
 
Top