حسان خان

لائبریرین
سلطان محمود غزنوی کے لیے ایک دعائیہ بیت:
سرِ تو ز شادی همه ساله پُر
سرِ دشمنِ تو ز غم پُرخُمار

(فرُّخی سیستانی)
تمہارا سر تمام سال شادمانی سے پُر رہے، اور تمہارے دُشمن کا سر غم سے پُرخُمار رہے!

× خُمار = نشہ و مستی زائل ہونے کے بعد لاحق ہونے والی کیفیتِ سر درد و کسالت؛ ہینگ اوور
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دل و تن فدا کردم آن ماه را
نه دل مانْد با من کُنون و نه تن

(فرُّخی سیستانی)
مین نے اُس ماہ کو [اپنا] دل و تن فدا کر دیا۔۔۔ اب میرے پاس نہ دل [باقی] رہا، اور نہ تن۔
 

حسان خان

لائبریرین
سلطان محمود غزنوی کی مدح میں کہی گئی ایک بیت:
گَردِ سپاهِ تو کجا بِگْذرد
چشمِ مسلمانان را توتیاست

(فرُّخی سیستانی)
تمہاری سِپاہ کی گَرد جہاں سے گُذرے، وہ مسلمانوں کی چشم کے لیے سُرمہ ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ملِک زادہ مسعود بن محمود غزنوی کی مدح میں کہے گئے قصیدے سے ایک بیت:
همچون پدر بُزُرگ و جهان‌دار و بختیار
همچون پدر کریم و مسلمان و پاک‌دین

(فرُّخی سیستانی)
وہ [اپنے] پدر کی مانند عظیم و جہاں دار و بختیار ہے۔۔۔ وہ [اپنے] پدر کی مانند کریم و مسلمان و پاک دین ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
مونس همه شب خیالِ دل‌جویِ تو بود
در چنگ نه زُلفِ غالیه‌بویِ تو بود
هرچند شبی سیه‌تر از مویِ تو بود
اُمّید به آفتابِ چون رویِ تو بود

(مسعود سعد سلمان لاهوری)
تمہارا خیالِ دلجو تمام شب [میرا] مونِس تھا۔۔۔ [میرے] دست میں تمہاری زُلفِ مُشک بُو نہ تھی۔۔۔۔ اگرچہ [وہ] شب تمہارے بالوں سے زیادہ سیاہ تھی۔۔۔ لیکن [مجھے] تمہارے چہرے جیسے آفتاب کی اُمید تھی۔
 

حسان خان

لائبریرین
غزنوی دور کے فارسی شاعر مسعود سعد سلمان لاہوری نے اپنی جائے تولُّد لاہور کے نام لکھے گئے ایک قصیدے، جو اُنہوں نے زندان میں لکھا تھا، کی ایک بیت میں خود کو فرزندِ شہرِ لاہور کہا ہے:
ناگاه عزیز فرزند از تو جدا شده‌ست
با دردِ او به نوحه و شیون چگونه‌ای

(مسعود سعد سلمان لاهوری)
[اے شہرِ لاہور!] تمہارا عزیز فرزند ناگاہ تم سے جدا ہو گیا ہے۔۔۔ اُس کے درد کے ساتھ، اور نوحہ و شیون کرتے ہوئے تم کس حال میں ہو؟
 
ای که نشناسی خفی را، از جلی هشیار باش
ای گرفتار ابوبکر و علی هشیار باش


اقبال لاہوری کے اس شعر میں کوئی ایک مصرعہ رومی سے کیا منسوب ہے ؟ مجھے فضائے مجازی (انٹرنیٹ) پر نہیں ملا
 

حسان خان

لائبریرین
ای که نشناسی خفی را، از جلی هشیار باش
ای گرفتار ابوبکر و علی هشیار باش


اقبال لاہوری کے اس شعر میں کوئی ایک مصرعہ رومی سے کیا منسوب ہے ؟ مجھے فضائے مجازی (انٹرنیٹ) پر نہیں ملا
میرے خیال سے اِس بیت کے ہر دو مصرعے علّامہ اقبال ہی کے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سوختم در آرزویش، کاش اے صورتگراں
گَردۂ تصویرِ اُو سازید از خاکسترم


میر واحد بلگرامی

میں اُس کی آرزو میں جل کر راکھ ہوگیا، کاش اے صورت گرو، تُم اُس کی تصویر کا خاکہ میری راکھ سے بنا دو۔
 

حسان خان

لائبریرین
ما لبِ آلوده بهرِ توبه بِگْشاییم، لیک
بانگِ عِصیان می‌زند ناقوسِ استغفارِ ما

(عُرفی شیرازی)
ہم توبہ [کرنے] کے لیے [اپنا] لبِ آلودہ کھولتے ہیں، لیکن ہمارے استغفار کا ناقوس بانگِ عِصیاں بجاتا ہے۔
(یعنی ہمارے استغفار کے ناقوس سے عِصیان و سرکَشی کی نوا نکلتی ہے۔)

عُثمانی شاعر سُلیمان نظیف نے عُرفی شیرازی کی مندرجۂ بالا بیت کا منظوم تُرکی ترجمہ یوں کیا تھا:

توبه قصدېیلا لبِ آلوده‌یی آچدېق فقط
بانگِ عصیان وورمادا ناقوسِ استغفارېمېز

(سُلیمان نظیف)
ہم نے توبہ کے قصد سے [اپنا] لبِ آلودہ کھولا، لیکن ہمارا ناقوسِ استغفار بانگِ عِصیاں بجا رہا ہے۔
(یعنی ہمارے استغفار کے ناقوس سے عِصیان و سرکَشی کی نوا نکل رہی ہے۔)

Tevbe kasdıyla leb-i âlûdeyi açtık fakat
Bang-i isyan vurmada nâkus-ı istiğfârımız
 
آخری تدوین:
زندگی بر دوشِ ما بارِ گرانی بیش نیست
عمرِ جاویدان عذابِ جاودانی بیش نیست
(رهی معیری)

زندگی ہمارے دوش پر بارِ گراں سے زیادہ نہیں ہے ( یعنے بسیار وزنی ہے). عمرِ ابد ہمیشہ کے عذاب سے زیادہ نہیں ہے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ز سیرِ عالمِ دل غافل ایم ورنہ حباب!
سرے اگر بہ گریبانِ فرو بُرد دریاست
بیدل
ہم اپنے دل کی دنیا کی پہنائیوں کی سیر سے غافل ہیں ۔
ورنہ اگر ہم سر بگریباں ہوجائیں تو یہ حباب دریا ہے ۔
 

حسان خان

لائبریرین
رُخسارِ من از دوریِ رُخسارِ تو سرد است
ای بادِ بهاری مددی دل همه درد است

(شهریار شریف‌زاده 'شب')
تمہارے رُخسار کی دوری سے میرا رُخسار سرد ہے۔۔۔ اے بادِ بہاری! ذرا مدد [کرو کہ میرا] کُل دِل درد ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
عیبِ من گر می‌کند ناصح چه غم
کاو ندارد فهمی از اعجازِ عشق

(شهریار شریف‌زاده 'شب')
اگر ناصح میری سرزنِش کرتا ہے تو کیا غم؟۔۔۔ کہ وہ عشق کے مُعجِزے کا ذرا فہم نہیں رکھتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
به خونم زد رقم، تا با قلم شد آشنا دستش
پری‌رُویی که می‌بُردم به مکتب من کتابش را

(صائب تبریزی)
جس پری رُو [کو لکھنا سِکھوانے کے لیے] مَیں اُس کی کتاب کو مکتب لے جایا کرتا تھا [اور وہاں جا کر، سیکھنے کے لیے اُس کو وہ کتاب دیتا تھا]، اُس کا دست جیسے ہی قلم سے آشنا ہوا تو اُس نے میرے [ہی] خُون سے تحریر لکھ دی۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
مشو برائے کبابے بہ آتشے محتاج
چو سنگ از جگرِ خویشتن شرار طلب


محمد عارف بلگرامی

اپنے دل و جسم و جان کو جلانے کے لیے کسی (بیرونی) آگ کا محتاج مت بن، بلکہ پتھر کی طرح (کہ جس کے اندر چنگاری چھپی ہوتی ہے) اپنے جگر سے شرارہ پکڑ۔
 

حسان خان

لائبریرین
تو آفتابِ مُنیری و دیگران انجُم
تو روحِ پاکی و ابنایِ روزگار اجسام

(سعدی شیرازی)

تم خورشیدِ مُنیر ہو جب کہ دیگر افراد سِتارے ہیں۔۔۔ تم رُوحِ پاک ہو جبکہ اَبنائے زمانہ [محض] اجسام ہیں۔
 
آخری تدوین:

شامل بخاری

محفلین
گہے بر سر گہے بر دل،گہےدر دیدہ جا دارد
غبار راہ جولان تو ، بامن کارہا دارد
بیدل۔
ک
ترجمہ: کبھی سر پر کبھی دل کبھی آنکھ میں جھہ بناتا ہے۔ تری رہگزر کا غبار مجھ سے بہت کام رکھتا ہے۔
(از نغز بیدل)
 

محمد وارث

لائبریرین
در جہاں امروز از بس قدرِ اہلِ زر بُوَد
می زند پہلو بہ عیسیٰ ہر کہ صاحب خر بُوَد


نظام الدین احمد صانع بلگرامی

اِس دنیا میں آج کل از بس کہ صرف مالدار لوگوں ہی کی قدر ہوتی ہے، لہذا ہر وہ کہ جو صاحبِ خر ہے (گدھے کا مالک ہے یا کچھ حیثیت رکھتا ہے) وہ حضرت عیسیٰ کی برابری کرنے لگتا ہے۔
 
Top