حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
با آن که دلم از غمِ هجرت خون است
شادی به غمِ تواَم ز غم افزون است
اندیشه کنم هر شب و گویم: "یا رب،
هجرانْش چنین است، وصالش چون است؟"

(رودکی سمرقندی)
باوجود اِس کے کہ میرا دل تمہارے ہجر کے غم سے خون ہے، پھر بھی تمہارے غم کے سبب مجھے خوشی غم سے زیادہ ہے؛ میں ہر شب فکر کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ "یا رب! اُس کا ہجر ایسا ہے، اُس کا وصال کیسا ہو گا؟"
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
درست فرمایا آپ نے، اساتذہ کا کلام معنی آفرینیوں سے خالی نہیں ہوتا۔ تقابل کے لحاظ سے ایک شعر استادِ سخن سعدی شیرازی کا بھی دیکھیے۔

سارباں آہستہ رو، آرامِ جاں در محمل است
اشتراں را بار بر پشت است و ما را بر دل است


شیخ سعدی شیرازی

اے ساربانو، آہستہ چلو کہ ہمارا آرامِ جاں، ہمارا محبوب محمل میں ہے، اُونٹوں کی تو پشت پر بوجھ ہے اور ہمارے دل پر بوجھ ہے۔
کیا بات ہے !!! سبحان اللہ ، سبحان اللہ ! وارث بھائی بہت خوب انتخاب ہے !
یہ لوگ اپنی زندگی اور اپنے ماحول سے شاعری کشید کیا کرتے تھے۔ فارسی اور عربی شعرا ء نے فطرت اور ماحول کے تمام عناصر کو عموما اپنی شاعری کا جز بنایاہے ۔ لیکن نمعلوم کیوں اردو شعراء نے اپنی غزل کے لوازمات کو بس ایک خاص دائرے میں محدود کرکے رکھ دیا۔ حد یہ ہے کہ غزل کی لفظیات بھی مخصوص و محدود ہو کر رہ گئی ہیں ۔ اب اردو غزل میں شتر گربہ تو عام مل جائے گا لیکن کسی تنِ تنہا اونٹ کا ملنا محال ہے ۔ یہ بات صرف فارسی اور عربی ہی میں ملے گی ۔ :)
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
آمد برِ من، که؟ یار، کَی؟ وقتِ سحر
ترسنده ز که؟ ز خصم، خصمش که؟ پدر
دادمْش دو بوسه، بر کجا؟ بر لبِ تر
لب بُد؟ نه، چه بُد؟ عقیق، چون بُد؟ چو شکر

(رودکی سمرقندی)
میرے نزدیک آیا۔ کون؟ یار۔ کب؟ سحر کے وقت۔ کس سے ترساں؟ مالک سے۔ اُس کا مالک کون؟ باپ۔ میں نے اُسے دو بوسے دیے۔ کہاں پر؟ لبِ تر پر۔ لب تھا؟ نہیں۔ کیا تھا؟ عقیق۔ کیسا تھا؟ شَکَر کی طرح۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
محال است آنکه افتد دولتِ وصلت به دستِ ما
که گنجِ حُسنِ تو ماری چو گیسو پاسبان دارد

(سید مستان شاہ کابلی)
یہ محال ہے کہ تمہارے وصل کی دولت ہمارے ہاتھ میں آ جائے کیونکہ تمہارے حُسن کے خزانے پر (تمہاری) زلف جیسا سانپ پاسبانی کے لیے موجود ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جرمِ من است، پیشِ تو گر قدرِ من کم است
خود کردہ ام پسند خریدار خویش را


نظیری نیشاپوری

اگر تیری نظروں میں میری قدر و قیمت کم ہے تو یہ میرا ہی جرم ہے، کیونکہ میں نے اپنے لیے خریدار بھی تو خود ہی پسند کیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کرده‌ام اِشکسته بت‌ها را همه از طاقِ دل
من خلیل‌اللهِ عشقم از بت و لاتم مپرس

(سید مستان شاه کابلی)
میں نے (اپنے) دل کے طاق سے تمام بتوں کو توڑ پھینکا ہے؛ میں عشق کا خلیل اللہ ہوں، مجھ سے بتوں اور لات وغیرہ کے بارے میں مت پوچھو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(گمشده)
آیینه را به دست گرفتم
تا حُسنِ خویش را به تماشا بنشینم
اما به جایِ عکسِ جمالِ من
در آینه، جمالِ تو پیدا بود
آنگاه ای عزیز،
دانستم این حقیقتِ شیرین را
کآنقدر در تو حل شده‌ام،
کاینسان
از خویشتن تهی شده و تو شده‌ام
آری!

(شفیقه یارقین)

(گمشدہ)
میں نے ہاتھ میں آئینہ اٹھایا
تاکہ اپنے حُسن کے تماشے میں مشغول ہو سکوں
لیکن میرے جمال کے عکس کی بجائے
آئینے میں تمہارا جمال ظاہر تھا
اُس وقت، اے عزیز،
میں جان گئی اِس شیریں حقیقت کو
کہ اِس قدر تم میں حل ہو چکی ہوں،
کہ اِس طرح
اپنے آپ سے تہی ہو کر 'تم' ہو چکی ہوں
ہاں!
(شفیقہ یارقین)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
از لبِ جانان شنیدستم سماعی در ازل
می‌رسد در گوشِ جان آواز زان سازم هنوز

(سید مستان شاه کابلی)
میں نے لبِ جاناں سے ازل میں ایک نغمہ سنا تھا۔۔۔ مجھے (اپنے) گوشِ جاں میں اُس ساز سے ابھی تک آواز آتی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ہزار جرعۂ فیض است در قرابۂ عشق
خوش آں حریف کہ ایں بادہ را تمام کشید


بابا فغانی شیرازی

عشق کی صراحی میں فیض کے ہزاروں جرعے ہیں، مرحبا وہ ہم پیشہ و ہمکار کہ جو یہ بادہ تمام کا تمام کھینچ گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
بالابلندِ عشوه‌گرِ نقش‌بازِ من
کوتاه کرد قصهٔ زهدِ درازِ من

(حافظ شیرازی)
میرے بلند قامت و عشوہ گر و حیلہ باز محبوب نے میرے زہد کے قصۂ دراز کو کوتاہ کر دیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
آنکه در حسن کنون شهرهٔ شهر است تویی
وانکه در عشقِ تو رسوای جهان است منم

(هلالی جغتایی)
وہ جو اس وقت حُسن میں شہرۂ شہر ہے، تم ہو؛ اور وہ جو تمہارے عشق میں رسوائے جہاں ہے، میں ہوں۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
مقیمِ دشتِ جنوں پاسباں نمی خواہد
کہ آہوانِ حرم را حرم شباں باشد


میر غلام علی آزاد بلگرامی

دشتِ جنوں کے مقیم کو کسی پاسباں کی ضرورت نہیں ہوتی کہ آہوانِ حرم کے لیے حرم خود ہی گلہ بان (پاسبان) ہوتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
جوابِ شکوہ کے اس شعر کا ترجمہ فرمادیں
خودگدازی نمِ کیفیتِ صہبایش بود
خالی از خویش شدن صورتِ مینایش بود
اُس کی شراب کی کیفیت کا جوہر خودگدازی تھا جبکہ اپنے آپ سے خالی ہونا اُس کے مینا کی طرز تھی۔
یعنی ابتدائی مسلمانوں کی توصیف کی گئی ہے کہ وہ ایثار کے پیکر تھے۔
علامہ اقبال نے در اصل میرزا بیدل کے مندرجۂ ذیل شعر کو ذرا سی تبدیلی کے ساتھ اقتباس کیا ہے:
خودگدازی نمِ کیفیتِ صهبای من است
خالی از خویش شدن صورتِ مینای من است
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
غالب از خاکِ کدورت‌خیزِ هندم دل گرفت
اصفهان هی، یزد هی، شیراز هی، تبریز هی

(میرزا غالب دهلوی)
اے غالب! میرا دل ہند کی خاکِ کدورت خیز سے ملول ہو گیا ہے۔۔۔ ہائے اصفہان! ہائے یزد! ہائے شیراز! ہائے تبریز!

(ہائے سمرقند! ہائے بخارا! ہائے ہرات! ہائے بلخ!)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ترکِ یاری کردی و من همچنان یارم تو را
دشمنِ جانی و از جان دوست‌تر دارم تو را

(هلالی جغتایی)
تم نے یاری ترک کر دی جبکہ میں اُسی طرح تمہارا یار ہوں؛ تم دشمنِ جاں ہو جبکہ میں تمہیں جان سے زیادہ محبوب رکھتا ہوں۔
 

اکمل زیدی

محفلین
برائے مہربانی کا اس ترجمہ کردیں .....

ای کہ مثل گل ز گل بالیدہ ئی

تو ھم از بطن خودی زائیدہ ئی
از خودی مگذر بقا انجام باش
قطرہ ئی می باش و بحر آشام باش
تو کہ از نور خودی تابندہ ئے
گر خودی محکم کنی پایندہ ئی
سود در جیب ہمین سوداستی
خواجگی از حفظ این کالاستی
ہستی و از نیستی ترسیدہ ئی
ای سرت گردم غلط فہمیدہ ئی
چون خبر دارم ز ساز زندگی
با تو گویم چیست راز زندگی
غوطہ در خود صورت گوہر زدن
پس ز خلوت گاہ خود سر بر زدن
زیر خاکستر شرار اندوختن
شعلہ گردیدن نظرہا سوختن
خانہ سوز محنت چل سالہ شو
طوف خود کن شعلہ ی جوالہ شو
زندگی از طوف دیگر رستن است
خویش را بیت الحرم دانستن است
پر زن و از جذب خاک آزاد باش
ہمچو طایر ایمن از افتاد باش
تو اگر طایر نہ ئی ای ہوشمند
بر سر غار آشیان خود مبند
ای کہ باشی در پی کسب علوم
با تو می گویم پیام پیر روم
’’علم را بر تن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود‘‘
آگہی از قصہ ی آخوند روم
آنکہ داد اندر حلب درس علوم
پای در زنجیر توجیہات عقل
کشتیش طوفانی ’’ظلمات‘‘ عقل
موسی بیگانہ ی سینای عشق
بیخبر از عشق و از سودای عشق
از تشکک گفت و از اشراق گفت
وز حکم صد گوہر تابندہ سفت
عقدہ ہای قول مشائین گشود
نور فکرش ہر خفی را وانمود
گرد و پیشش بود انبار کتب
بر لب او شرح اسرار کتب
پیر تبریزی ز ارشاد کمال
جست راہ مکتب ملا جلال
گفت این غوغا و قیل و قال چیست
این قیاس و وہم و استدلال چیست
مولوی فرمود نادان لب ببند
بر مقالات خردمندان مخند
پای خویش از مکتبم بیرون گذار
قیل و قال است این ترا با وی چہ کار
قال ما از فہم تو بالاتر است
شیشہ ی ادراک را روشنگر است
سوز شمس از گفتہ ی ملا فزود
آتشی از جان تبریزی گشود
بر زمین برق نگاہ او فتاد
خاک از سوز دم او شعلہ زاد
آتش دل خرمن ادراک سوخت
دفتر آن فلسفی را پاک سوخت
مولوی بیگانہ از اعجاز عشق
ناشناس نغمہ ہای ساز عشق
گفت این آتش چسان افروختی
دفتر ارباب حکمت سوختی
گفت شیخ ای مسلم زنار دار
ذوق و حال است این ترا با وی چہ کار
حال ما از فکر تو بالاتر است
شعلہ ی ما کیمیای احمر است
ساختی از برف حکمت ساز و برگ
از سحاب فکر تو بارد تگرگ
آتشی افروز از خاشاک خویش
شعلہ ئی تعمیر کن از خاک خویش
علم مسلم کامل از سوز دل است
معنی اسلام ترک آفل است
چون ز بند آفل ابراہیم رست
در میان شعلہ ہا نیکو نشست

علم حق را در قفا انداختی
بہر نانی نقد دین در باختی
گرم رو در جستجوی سرمہ ئی
واقف از چشم سیاہ خود نہ ئی
آب حیوان از دم خنجر طلب
از دہان اژدہا کوثر طلب
’’ق‘‘
سنگ اسود از در بتخانہ خواہ
نافہ ی مشک از سگ دیوانہ خواہ
سوز عشق از دانش حاضر مجوی
کیف حق از جام این کافر مجوی
مدتی محو تک و دو بودہ ام
رازدان دانش نو بودہ ام
باغبانان امتحانم کردہ اند
محرم این گلستانم کردہ اند
گلستانی لالہ زار عبرتی
چون گل کاغذ سراب نکہتی
تا ز بند این گلستان رستہ ام
آشیان بر شاخ طوبی بستہ ام
دانش حاضر حجاب اکبر است
بت پرست و بت فروش و بتگر است
پا بزندان مظاہر بستہ ئی
از حدود حس برون نا جستہ ئی
در صراط زندگی از پا فتاد
بر گلوی خویشتن خنجر نہاد
آتشی دارد مثال لالہ سرد
شعلہ ئی دارد مثال ژالہ سرد
فطرتش از سوز عشق آزاد ماند
در جہان جستجو ناشاد ماند
عشق افلاطون علت ہای عقل
بہ شود از نشترش سودای عقل
جملہ عالم ساجد و مسجود عشق
سومنات عقل را محمود عشق
این می دیرینہ در میناش نیست
شور ’’یارب‘‘ ، قسمت شبہاش نیست

قیمت شمشاد خود نشناختی
سرو دیگر را بلند انداختی
مثل نے خود را ز خود کردی تہی
بر نوای دیگران دل می نہی
ای گدای ریزہ ئی از خوان غیر
جنس خود می جوئی از دکان غیر
بزم مسلم از چراغ غیر سوخت
مسجد او از شرار دیر سوخت
از سواد کعبہ چون آہو رمید
ناوک صیاد پہلویش درید
شد پریشان برگ گل چون بوی خویش
ای ز خود رم کردہ باز آ سوی خویش
ای امین حکمت ام الکتاب
وحدت گمگشتہ ی خود بازیاب
ما کہ دربان حصار ملتیم
کافر از ترک شعار ملتیم
ساقی دیرینہ را ساغر شکست
بزم رندان حجازی بر شکست
کعبہ آباد است از اصنام ما
خندہ زن کفر است بر اسلام ما
شیخ در عشق بتان اسلام باخت
رشتہ ی تسبیح از زنار ساخت
پیر ہا پیر از بیاض مو شدند
سخرہ بہر کودکان کو شدند
دل ز نقش لاالہ بیگانہ ئی
از صنم ہای ہوس بتخانہ ئی
می شود ھر مو درازی خرقہ پوش
آہ ازین سوداگران دین فروش
با مریدان روز و شب اندر سفر
از ضرورت ہای ملت بی خبر
دیدہ ہا بی نور مثل نرگس اند
سینہ ہا از دولت دل مفلس اند
واعظان ہم صوفیان منصب پرست
اعتبار ملت بیضا شکست
واعظ ما چشم بر بتخانہ دوخت
مفتی دین مبین فتوی فروخت
چیست یاران بعد ازین تدبیر ما
رخ سوی میخانہ دارد پیر ما
 

حسان خان

لائبریرین
اکمل زیدی صاحب، اگر ایک یا دو اشعار ہوتے تو ضرور اُن کا ترجمہ کرنے کی کوشش کرتا، لیکن اس طویل نظم کا ترجمہ میری استطاعت سے باہر ہے۔ معذرت خواہ ہوں۔
 
آخری تدوین:
Top