فارسی زبان کے تمام عاشقانِ صادق کے نام حافظ شیرازی کا یہ شعر:
پری روئے کہ رخسارش چو ماہست
ہزارش عاشقِ شیدا چو ما ہست

وہ پری رو، جس کا رخسار چاند کی طرح ہے، ہم جیسے اس کے ہزاروں عاشقِ شیدا ہیں۔

پہلے شعر میں ما ہست= ما است
دوسرے شعر میں ماہست= ماہ است

بلاشبہ ہمارے لئے زبانِ فارسی ایک مہِ تاباں کی حیثیت رکھتی ہے یا جامِ مے کی، کہ جس کے نشے سے مےخواراں مست و رقصاں رہتے ہیں اور جس کا اثرِ بے حد و نہایت اپنے پینے والے کو مدہوش و بے خود کردیتی ہے۔
ہمارا اس سلسلے کا پیرِ مغاں بلاشبہ حسان خان بھائی ہیں۔:)
 
لیکن ماہ کا ترجمہ تو نہیں کیا آپ نے ؟



؟

میں نے اوپر ترجمے میں یہ شامل کیا ہے:
وہ پری رو جس کا رخسار چاند کی طرح ہے۔

ترجمہ تو غالبا ً ”ما“ ہی کا کیا گیا ؟
چو ما کا مطلب ہے: ہماری طرح
فارسی میں ماہ کا مطلب چاند بھی ہے۔ اردو میں ماہتاب میں دراصل یہی چاند والا ماہ مستعمل ہے۔
 

کاشف اختر

لائبریرین
شیخ سعدیؒ کا ایک قطعہ مع اردو ترجمہ حاضر ِ خدمت ہے

شنیدم کہ مردانِ راہِ خدا
دلِ دشمناں را نہ کردند تنگ
ترا کہ میسر شود ایں مقام ؟
کہ بادوستانت خلافست و جنگ


ترجمہ: سنا ہے کہ راہِ خدا کے جواں
عدو کو بھی اپنے نہ کرتے ہیں تنگ
ملے تجھ کو کیسے بھلا یہ مقام ؟
کہ ہے دوستوں سے سدا تیری جنگ


 
مولانا ابوالکلام آزاد کے یومِ وفات پر، جو گذشتہ روز تھا، ایک شعر مکرر :
ز ہر چمن کہ گذشتم، بہ ہر گلے کہ رسیدم​
بہ آبِ دیدہ نوشتم کہ یار جائے تو خالیست​

میں جس چمن سے بھی گزرا، جس پھول کے پاس پہنچا، میں نے اپنے آنسووں سے لکھا کہ اے دوست تیری جگہ خالی ہے(تیری کمی محسوس ہوتی ہے)۔​
 

حسان خان

لائبریرین
گذشتہ صدی کے ایرانی شاعر سہراب سپہری کی نظم 'صدای پای آب' سے ایک اقتباس:

من مسلمانم.
قبله‌ام یک گلِ سرخ.
جانمازم چشمه، مُهرم نور.
دشت سجادهٔ من.
من وضو با تپشِ پنجره‌ها می‌گیرم.
در نمازم جریان دارد ماه، جریان دارد طَیف.
سنگ از پشتِ نمازم پیداست:
همه ذراتِ نمازم متبلور شده‌است.
من نمازم را وقتی می‌خوانم
که اذانش را باد، گفته باشد سرِ گلدستهٔ سرو.
من نمازم را پیِ 'تکبیرة الاحرامِ' عَلَف می‌خوانم،
پیِ 'قد قامتِ' موج.

کعبه‌ام بر لبِ آب،
کعبه‌ام زیرِ اقاقی‌هاست.
کعبه‌ام مثلِ نسیم، می‌رود باغ به باغ، می‌رود شهر به شهر.

'حجرالاسودِ' من روشنیِ باغچه است.

(سهراب سپهری)


ترجمہ:
میں مسلمان ہوں۔
میرا قبلہ ایک گلِ سرخ۔
میری جانماز چشمہ، میری تُربت نور۔
دشت میرا سجّادہ۔
میں وضو کھڑکیوں کی دھڑکن کے ساتھ کرتا ہوں۔
میری نماز میں بہتا ہے چاند، بہتا ہے طَیف۔
پتھر میری نماز کی پشت سے ظاہر ہے:
میری نماز کے تمام ذرات متبلور ہو گئے ہیں۔
من اپنی نماز اُس وقت پڑھتا ہوں
جب اُس کی اذان ہوا، کہہ چکتی ہے سرو کے مینار پر سے۔
میں اپنی نماز گھاس کی 'تکیبرۃ الاحرام' کے بعد پڑھتا ہوں،
موج کی 'قد قامت' کے بعد۔

میرا کعبہ نہر کے کنارے پر،
میرا کعبہ اقاقیاؤں کے نیچے ہے۔
میرا کعبہ بادِ نسیم کی مانند، جاتا ہے باغ بہ باغ، جاتا ہے شہر بہ شہر۔

میرا 'حجرالاسود' باغیچے کی روشنی ہے۔

(سہراب سپہری)

× مُہر یا تُربت اُس مٹی کی ٹکیا کو کہتے ہیں جس پر اہلِ تشیع سجدہ کرتے ہیں۔
× طَیف = "مختلف رنگین دھاریوں کا ایک سلسلہ جو کسی منشور [prism] سے سفید روشنی گذرنے سے پیدا ہو، پردے یا دیوار پر مختلف رنگوں کی ترتیب۔" انگریزی میں spectrum کہتے ہیں۔
× بلور = کرسٹل
× متبلور (مُ تَ بَ لْ وِ رْ) = بلوری شدہ، crystallized؛ (مجازاً) شفّاف، واضح، روشن، آشکار، نمایاں
× ایرانی فارسی میں گلدستہ مسجد کے مینار کو بھی کہا جاتا ہے۔
× اقاقیا = ایک درخت کا نام، جسے انگریزی میں acacia کہتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از شیخ فخرالدین عراقی

بے روئے تو عاشقَت رُخِ گُل چہ کند
بے بوئے خوشت ببوئے سنبل چہ کند
آنکس کہ ز جامِ عشقِ تو سرمست است
انصاف بدہ بہ مستیِ مُل چہ کند


تیرے دیدار کے بغیر، تیرا عاشق رُخِ گُل کو کیا کرے؟ اور تیری خوشبو کے بغیر سنبل کی خوشبو کو کیا کرے؟ وہ کہ جو تیرے عشق کے جام سے سرمست ہے، انصاف سے بتا کہ وہ شراب کی مستی کو کیا کرے؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یک نگہ، یک خندۂ دُزدیدہ، یک تابندہ اشک
بہرِ پیمانِ محبت نیست سوگندے دِگر
اقبال
ایک نگاہ، ایک زیرِ لب تبسم اورایک چمکتا آنسو، محبت کے پیمان کے لیے اس کے علاوہ اور کسی قِسم کی قَسم کی ضرورت نہیں ۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
دی محتسب آمد و بسی تُند نشست
ماتم‌زده بود، دادمش شیشه به دست
بشکست و نیافت قصدم آن جاهلِ مست
بایست که توبه بشکند، شیشه شکست

(عرفی شیرازی)
کل محتسب آیا اور بہت غضب ناکی کے ساتھ بیٹھا؛ وہ ماتم زدہ تھا، میں نے اُس کے ہاتھ میں شیشہ تھما دیا؛ اُس جاہلِ مست نے (شیشہ) توڑ دیا اور وہ میرا قصد نہ سمجھ پایا؛ اُسے توبہ توڑنی چاہیے تھی، اُس نے شیشہ توڑ دیا۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
یک سر و صد گونہ سودائے نہانے داشتم
یادِ آں روزے کہ من با خود جہانے داشتم


علامہ شبلی نعمانی

اِس ایک سر میں (عشق کے) سو سو قسم کے چُھپے ہوئے جنون رکھتا تھا، (ہائے) اُن دنوں کی یاد کہ میں اپنے ساتھ ایک (اپنا ہی) جہان رکھتا تھا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بسکہ غیرت می بَرَم از دیدۂ بیناے خویش
از نگہ بافَم ، بہ رخسارِ تو رُوبندے دِگر

اقبال ،
چونکہ تیرے نظارے پر اپنی ہی آنکھ سے مجھے غیرت آرہی ہے۔
اس لیے میں نظرسے تیرے رخسار پر ایک نقاب بُن دیتا ہوں۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
خارِ ناچیزم مرا در بوستاں مقدار نیست
اشکِ بے قدرم ز چشمِ آشنا افتادہ ام


رھی معیری

میں ناچیز کانٹا ہوں، گلستان میں میری کوئی قدر و قیمت و منزلت و مرتبہ نہیں ہے، میں بے قدر اشک ہوں اور آشنا کی آنکھ سے گرا ہوا ہوں۔
 
خارِ ناچیزم مرا در بوستاں مقدار نیست
اشکِ بے قدرم ز چشمِ آشنا افتادہ ام


رھی معیری

میں ناچیز کانٹا ہوں، گلستان میں میری کوئی قدر و قیمت و منزلت و مرتبہ نہیں ہے، میں بے قدر اشک ہوں اور آشنا کی آنکھ سے گرا ہوا ہوں۔
جناب میں بھی آج کل تھوڑی بہت فارسی سیکھ رہا ہوں میرے حساب سے تو پہلے مصرعے کا ترجمہ ایسے ہونا چاہیے
میں ناچیز خار ہوں مجھ کو گلستاں میں کوئی قیمت نہیں ہے جو کہ کوئی معنی نہیں دیتا۔ کیا مرا میرا یا میری کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
جناب میں بھی آج کل تھوڑی بہت فارسی سیکھ رہا ہوں میرے حساب سے تو پہلے مصرعے کا ترجمہ ایسے ہونا چاہیے
میں ناچیز خار ہوں مجھ کو گلستاں میں کوئی قیمت نہیں ہے جو کہ کوئی معنی نہیں دیتا۔ کیا مرا میرا یا میری کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے؟
میرا نہیں خیال کہ "را" کا ترجمہ ہر جگہ "کو" ہی ہو۔ یہ کثیر المعنی ہے کسی قواعد کی کتاب میں صحیح تفصیل ملے گی آپ کو۔ فی الحال یہ ربط دیکھیے۔
 

حسان خان

لائبریرین
جناب میں بھی آج کل تھوڑی بہت فارسی سیکھ رہا ہوں میرے حساب سے تو پہلے مصرعے کا ترجمہ ایسے ہونا چاہیے
میں ناچیز خار ہوں مجھ کو گلستاں میں کوئی قیمت نہیں ہے جو کہ کوئی معنی نہیں دیتا۔ کیا مرا میرا یا میری کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے؟
اس شعر میں 'رائے مفعولی' نہیں، بلکہ 'رائے فکِّ اضافہ' استعمال ہوا ہے۔ :)
یعنی یہاں لفظِ 'را' کوئی مفعول بیان نہیں کر رہا، بلکہ ترکیبِ اضافی کا کام انجام دے رہا ہے۔ یہ 'را' جب استعمال ہوتا ہے تو اضافی ترکیب کے اجزا یعنی مضاف اور مضافٌ‌ الیہ کی جگہ مقلوب ہو جاتی ہے اور یہ 'را' اُن دونوں اجزا کے درمیان جدائی ڈال دیتا ہے۔ مثال دے کر بات واضح کرتا ہوں:
'میدانِ حرص' ایک اضافی ترکیب ہے جس میں مُضاف 'میدان' ہے، جبکہ مضافٌ‌ الیہ 'حرص'۔ اور دونوں کو علامتِ اضافت یعنی زیر نے آپس میں جوڑا ہوا ہے۔
جس طرح اردو میں مندرجۂ بالا ترکیب کو 'حرص کا میدان' میں بدلا جا سکتا ہے، اُسی طرح فارسی میں بھی اس ترکیب کو 'رائے فکِّ اضافہ' یعنی علامتِ اضافت کو حذف کر دینے والے را کی مدد سے 'حرص را میدان' میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یہاں 'حرص' کوئی مفعول نہیں، بلکہ مضافٌ‌ الیہ ہے۔ اردو میں اس ترکیب کا سادہ و مناسب ترجمہ 'حرص کا میدان' ہو گا۔
"بس فراخ است حرص را میدان"
(حرص کا میدان بہت فراخ ہے۔)
حرص را میدان = میدانِ حرص
لہٰذا وارث صاحب کے درج کردہ شعر میں مرا مقدار (= من را مقدار) در حقیقت 'مقدارِ من' کا ہم معنی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
قدرِ حسنت جامیِ صاحب‌نظر دانست و بس
قیمتِ گوهر کسی نشناسد الّا گوهری
(عبدالرحمٰن جامی)

تمہارے حُسن کی قدر جامیِ صاحب نظر ہی نے جانی اور بس۔۔۔ گوہر کی قیمت کو بجز گوہری کے کوئی نہیں پہچانتا۔
 
Top