شفیق خلش :::::خواہشِ دل دبائے رکّھا ہے:::::Shafiq -Khalish

طارق شاہ

محفلین


1.jpg

غزل
خواہشِ دل دبائے رکّھا ہے
اُن سے کیا کیا چُھپائے رکّھا ہے

ڈر نے ہَوّا بنائے رکّھا ہے
کہنا کل پر اُٹھائے رکھا ہے

مُضطرب دِل نے آج پہلے سے
کُچھ زیادہ ستائے رکّھا ہے

مِل کے یادوں سے تیری، دِل نے مِرے
اِک قیامت اُٹھائے رکّھا ہے

تیری آمد کے اِشتیاق نے پِھر
دِیدۂ دِل بچھائے رکّھا ہے

از سَرِ نَو تُمھارے وعدے نے
میرے دِل کو لُبھائے رکّھا ہے

ولوَلہ دِل میں اُن کو پانے کا
مُفلسی نے دبائے رکّھا ہے

دردِ فُرقت پہ اِختیار کہاں
صُبح ہی سے رُلائے رکّھا ہے

جان لَیوا سی یاسیّت نے،خَلِشؔ!
خُونِ دِل تک سُکھائے رکّھا ہے

شفیق خلشؔ

 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم !

طارق شاہ صاحب جزاک اللہ - شفیق خلش سے تعارف آپ کے توسط سے ہوا - ان کے کلام میں 'آپ کی آج کی پیشکش سمیت ' زبان و بیان کی کمزوریاں محسوس ہوئیں -مندرجہ بالا غزل میں تو تذکیر و تانیث کی نمایاں اغلاط ہیں -مثلا
خواہشِ دل دبائے رکّھا ہے
یہاں" خواہشِ دل دبائے رکھی ہے" کا محل ہے -خواہش مونث ہے-فرہنگ آصفیہ میں دیکھ سکتے ہیں -نہ صرف خواہش بلکہ اس قبیل کے دیگر الفاظ جیسے رنجش 'سفارش 'گزارش 'پیچش 8) وغیرہ سب مونث ہیں -
اِک قیامت اُٹھائے رکّھا ہے
اسی طرح یہاں بھی "اِک قیامت اُٹھائے رکّھی ہے"کا موقعہ ہے کہ قیامت بھی مونث ہے -

یہ میری رائے ہے -کسی کو اختلاف ہے تو میری رائے درست کر دے -
 
Top