حسین رات کی رنگین ملاقات

سید عمران

محفلین
موبائل کی گھنٹی بجی۔ اسکرین پر نیا نمبر جگمگا نے لگا۔ نمبر نیا ہو یا پرانا ہم کسی سے نہیں گھبراتے۔ نیا نمبر مس کال دے کر بند ہوجائے تو گھر تک اس کا پیچھا کرتے ہیں۔ ان ہی گوناگوں خصوصیات کی بنا پر ہم نے نیا نمبر اٹھا لیا۔ نئے نمبر پر پرانے آدمی تھے یعنی ٹرومین بھائی۔

بھائی صاحب حج سے واپس لوٹ کر ہمیں گفتگو سے نواز رہے تھے۔ ہم نے ٹرومین بھائی کو حج کی مبارک باد دی تو کہنے لگے کہ فلسفی بھائی نے آپ کے اور عدنان بھائی کے لیے ہدیہ بھجوایا ہے، آپ تک کیسے پہنچاؤں؟ ہم نے ’’ابھی بتاتے ہیں‘‘ کہہ کر فون بند کردیا۔ فون بند کرکے عدنان بھائی کو ملایا اور ساری صورتِ حال بتائی۔ تحفہ کا نام سن کر عدنان بھائی کی بانچھیں کھل گئیں۔ اور کھل گئیں تو کم کہا دراصل چِر گئیں۔ کہنے لگے ٹرومین بھائی حج کرکے آئے ہیں اس لیے ان کے اعزاز میں دعوت رکھتے ہیں۔

یہ ہیں ہمارے عدنان بھائی۔ کہاں تو ہمیں چائے کی ایک پیالی کے لیے آٹھ ماہ سے ترسا رہے ہیں، کہاں تحفہ کا نام سن کر جھٹ رال ٹپکانے لگے۔ کھانے تک کی دعوت دے ڈالی۔ کنجوس مکھی چوس بھیا کی اتنی خطرناک آفر پر ہمارا منہ کُھل گیا اور دماغ بند ہوگیا۔ عدنان بھائی کے وعدوں پر یقین نہ کرنے کے باوجود ہم نے ٹرومین بھائی کو حُسین آباد آنے کی دعوت دے دی۔

گزشتہ رات بیس ستمبر دو ہزار انیس پونے نو بجے عدنان بھائی کا فون آیا کہ میں نکل رہا ہوں آپ بھی آجائیے۔ ہم نے جواب دیا کہ آپ پہنچیں اور جب تک ہم نہیں پہنچ جاتے آپ وہیں مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر ہمارا انتظار کریں۔ امید ہے اس دوران اتنی ریزگاری اکٹھی کرلیں گے کہ دعوت کا خرچہ بآسانی نکل جائے گا۔ عدنان بھائی نے جواب دیا فکر نہ کریں، آپ کی امیدوں سے بڑھ کر جمع کرلوں گا۔

نو بجے ہم حسین آباد پہنچے تو عدنان بھائی مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھے مل گئے۔ ہمیں دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ اب ٹرومین بھائی کا انتظار تھا۔ فون ملایا تو بتایا کہ راستے میں ہوں۔ ٹرومین بھائی کے آتے ہی ایک ریسٹورینٹ کا رخ کیا۔ عدنان بھائی نے سارا ملبہ ہمارے سر ڈالنے کی کوشش کی۔ ہم نے پوچھا کھانے کے لیے کیا منگوائیں، کہنے لگے جو آپ کھلائیں، ہم تو مہمان ہیں۔ ہم چیختے رہ گئے، ہائیں عدنان بھائی آپ کہاں کے مہمان؟ عین وقت پر یہ کیسی دھوکہ بازی؟ مہمان ٹرومین بھائی ہیں جو حرمین کی زیارت کرکے آئے ہیں، آپ نے کیا کوئٹہ کے زیارت کی زیارت کی ہے جو مہمان بن بیٹھے؟ مگر وہ پُراسرار سی مسکراہٹ کے ساتھ زبردستی کے مہمان بنے رہے۔ عدنان بھائی کی اس ہوشیاری کو ٹرومین بھائی نے خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور خود ہی کھانے کا آرڈر دیا۔ چکن ملائی بوٹی، بیف بوٹی، چکن چرغہ، نان، چپاتی، سلاد اور رائتہ اور ہاں منرل واٹر بھی۔

آج صرف ہم تین تھے۔ خوب کھل کر باتیں ہوئیں۔ راز و نیاز کے عجیب پردے اٹھے۔ کہی ان کہی بیان ہوئی۔ ٹرومین بھائی بار بار فلسفی بھائی کی محبتوں کا ذکر کرتے رہے۔ انہوں نے بتایا کہ فلسفی بھائی بذریعہ فلائٹ سینکڑوں کلومیٹرز کا فاصلہ طے کرکے ہم سے ملنے ریاض سے مدینہ منورہ آئے اور صرف ایک دن بعد واپس چلے گئے۔ فلسفی بھائی کی اس ہمت، محبت اور مشقت پر داد تو بنتی ہے۔ ٹرومین بھائی نے مزید بتایا کہ فلسفی بھائی آپ کا اور عدنان بھائی کا بار بار ذکر خیر کرتے تھے۔ خیر ہمارا ذکر خیر تو بنتا ہے لیکن یہ بھیا کا ذکر خیر کرنے کی کیا تُک تھی؟ ہم فلسفی بھائی سے ضرور پوچھیں گے۔ ٹرومین بھائی نے تقریباً ساری گفتگو کو آف دی ریکارڈ قرار دے کر یار لوگوں کو خیالی گھوڑے دوڑانے کی کھلی چھوٹ دے دی۔

کھانے کے بعد بیرا آیا بل لایا جسے ٹرومین بھائی نے پھرتی سے چکایا۔ ہم ہائیں ہائیں کرتے رہ گئے۔ عدنان بھائی سے یہ بھی نہ ہوسکا۔ اب ہمیں ساری بات سمجھ میں آنے لگی کہ ہمارے کنجوس مکھی چوس بھیا فراخ دلی سے کھانے کی دعوت کیوں دے رہے تھے۔

کھانے کے بعد آئس کریم پارلر گئے۔ وہاں بیٹھ کر آہستہ آہستہ آئس کریم کھائی تاکہ باقی ماندہ باتوں کا کوٹہ پورا ہوسکے۔ باہر نکل کر ٹرومین بھائی نے بھیا کی غیرت کو جھنجوڑنا چاہا کہ عمران بھائی کو چائے پلا کر اپنی ازلی ابدی کنجوسی سے جان چھڑائیں مگر بھیا نے الٹے سیدھے بہانے بنا کر صاف انکار کردیا۔

اس دوران ٹرومین بھائی نے فلسفی بھائی کا اور اپنا تحفہ پیش کیا جسے بھیا نے جھٹ سے لے کر فٹ سے قبول کرلیا۔ بھیا لاکھ کنجوس سہی مگر ان کاموں میں کنجوسی سے کام نہیں لیتے۔ آخر میں بھیا نے سب کو ایک ایک پان کھلا کر فیاضی کے وہ دریا بہائے کہ قریب تھا سارا کراچی اس دریا میں بہہ جاتا۔

پان کے رنگ سے منہ سرخ کرکے سب کوچۂ یار سے سرخروئی کے ساتھ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔

اس حسین رات کو رنگین بنانے پر ٹرومین بھائی کا شکریہ۔ اور اتنی محبتیں بانٹنے پر، ہمیں اتنا یاد رکھنے پر فلسفی بھائی کا بھی شکریہ!!!
 
آخری تدوین:

ٹرومین

محفلین
زبردست تحریر:great:
ہمیں اندازہ نہ تھا کہ آپ مختصر سی ملاقات میں بھی اتنا باریکیاں نوٹ کرلیں گے۔:):zabardast1:
بہت عمدہ احوال پڑھ کے واقعی مزہ آگیا۔ :)
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
تحریر عمدہ ہے۔

ہاں عنوان اور اس کی بعد کی کہانی نے وہی کام کیا جو کبھی بچپن میں ہم بک اسٹالز پر دیکھا کرتے تھے۔ اسی طرح کا رنگین عنوان ہوتا تھا ہوشربا قسم کا، کتاب پلاسٹک کے کور میں بند کہ کوئی ایک لفظ بھی نہ دیکھ سکے اور خرید ہی کر پڑھے۔ خرید کر پڑھتے تھے تو اندر سے اسی طرح کی کہانی نکلتی تھی، رہے نام اللہ کا۔ مفتی صاحب آپ کو تو کسی آن لائن اخبار میں ہونا چاہیئے تھا۔ :)
 

اے خان

محفلین
موبائل کی گھنٹی بجی۔ اسکرین پر نیا نمبر جگمگا نے لگا ۔ نمبر نیا ہو یا پرانا ہم کسی سے نہیں گھبراتے۔ نیا نمبر مس کال دے کر بند ہوجائے تو گھر تک اس کا پیچھا کرتے ہیں۔ ان ہی گوناگوں خصوصیات کی بنا پر ہم نے نیا نمبر اٹھا لیا۔ نئے نمبر پر پرانے آدمی تھے یعنی ٹرومین بھائی۔

بھائی صاحب حج سے واپس لوٹ کر ہمیں گفتگو سے نواز رہے تھے ۔ہم نے ٹرومین بھائی کو حج کی مبارک باد دی تو کہنے لگے کہ فلسفی بھائی نے آپ کے اور عدنان بھائی کے لیے ہدیہ بھجوایا ہے، آپ تک کیسے پہنچاؤں؟ ہم نے ’’ابھی بتاتے ہیں‘‘ کہہ کر فون بند کردیا۔ فون بند کرکے عدنان بھائی کو ملایا اور ساری صورتِ حال بتائی۔ تحفہ کا نام سن کر عدنان بھائی کی بانچھیں کھل گئیں۔ اور کھل گئیں تو کم کہا دراصل چِر گئیں۔ کہنے لگے ٹرومین بھائی حج کرکے آئے ہیں اس لیے ان کے اعزاز میں دعوت رکھتے ہیں۔

یہ ہیں ہمارے عدنان بھائی۔ کہاں تو ہمیں چائے کی ایک پیالی کے لیے آٹھ ماہ سے ترسا رہے ہیں، کہاں تحفہ کا نام سن کر جھٹ رال ٹپکانے لگے۔ کھانے تک کی دعوت دے ڈالی۔ کنجوس مکھی چوس بھیا کی اتنی خطرناک آفر پر ہمارا منہ کُھل گیا اور دماغ بند ہوگیا۔عدنان بھائی کے وعدوں پر یقین نہ کرنے کے باوجود ہم نے ٹرومین بھائی کو حسین آباد آنے کی دعوت دے دی۔

گزشتہ رات بیس ستمبر دو ہزار انیس پونے نو بجے عدنان بھائی کا فون آیا کہ میں نکل رہا ہوں آپ بھی آجائیے۔ ہم نے جواب دیا کہ آپ پہنچیں اور جب تک ہم نہیں پہنچ جاتے آپ وہیں مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر ہمارا انتظار کریں۔ امید ہے اس دوران اتنی ریزگاری اکٹھی کرلیں گے کہ دعوت کا خرچہ بآسانی نکل جائے گا۔ عدنان بھائی نے جواب دیا فکر نہ کریں، آپ کی امیدوں سے بڑھ کر جمع کرلوں گا۔

نو بجے ہم حسین آباد پہنچے تو عدنان بھائی مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھے مل گئے۔ ہم دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ اب ٹرومین بھائی کا انتظار تھا۔ فون ملایا تو بتایا کہ راستے میں ہوں۔ ٹرومین بھائی کے آتے ہی ایک ریسٹورینٹ کا رخ کیا۔ عدنان بھائی نے سارا ملبہ ہمارے سر ڈالنے کی کوشش کی۔ ہم نے پوچھا کھانے کے لیے کیا منگوائیں، کہنے لگے جو آپ کھلائیں، ہم تو مہمان ہیں۔ ہم چیختے رہ گئے، ہائیں عدنان بھائی آپ کہاں کے مہمان؟ عین وقت پر یہ کیسی دھوکہ بازی؟ مہمان ٹرومین بھائی ہیں جو حرمین کی زیارت کرکے آئے ہیں، آپ نے کیا کوئٹہ کے زیارت کی زیارت کی ہے جو مہمان بن بیٹھے؟مگر وہ پُراسرار سی مسکراہٹ کے ساتھ زبردستی کے مہمان بنے رہے۔ عدنان بھائی کی اس ہوشیاری کو ٹرومین بھائی نے خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور خود ہی کھانے کا آرڈر دیا۔ چکن ملائی بوٹی، بیف بوٹی، چکن چرغہ، نان ، چپاتی، سلاد اور رائتہ اور ہاں منرل واٹر بھی۔

آج صرف ہم تین تھے۔ خوب کھل کر باتیں ہوئیں۔ راز و نیاز کے عجیب پردے اٹھے۔ کہی ان کہی بیان ہوئی۔ ٹرومین بھائی بار بار فلسفی بھائی کی محبتوں کا ذکر کرتے رہے۔ انہوں نے بتایا کہ فلسفی بھائی بذریعہ فلائٹ سینکڑوں کلومیٹرز کا فاصلہ طے کرکے ہم سے ملنے ریاض سے مدینہ منورہ آئے اور صرف ایک دن بعد واپس چلے گئے۔ فلسفی بھائی کی اس ہمت، محبت اور مشقت پر داد تو بنتی ہے۔ ٹرومین بھائی نے مزید بتایا کہ فلسفی بھائی آپ کا اور عدنان بھائی کا بار بار ذکر خیر کرتے تھے۔ خیر ہمارا ذکر خیر تو بنتا ہے لیکن یہ بھیا کا ذکر خیر کرنے کی کیا تُک تھی؟ ہم فلسفی بھائی سے ضرور پوچھیں گے۔ ٹرومین بھائی نے تقریباً ساری گفتگو کو آف دی ریکارڈ قرار دے کر یار لوگوں کو خیالی گھوڑے دوڑانے کی کھلی چھوٹ دے دی۔

کھانے کے بعد بیرا آیا بل لایا جسے ٹرومین بھائی نے پھرتی سے چکایا۔ ہم ہائیں ہائیں کرتے رہ گئے۔ عدنان بھائی سے یہ بھی نہ ہوسکا۔ اب ہمیں ساری بات سمجھ میں آنے لگی کہ ہمارے کنجوس مکھی چوس بھیا فراخ دلی سے کھانے کی دعوت کیوں دے رہے تھے۔

کھانے کے بعد آئس کریم پارلر گئے۔ وہاں بیٹھ کر آہستہ آہستہ آئس کریم کھائی تاکہ باقی ماندہ باتوں کا کوٹہ پورا ہوسکے۔ باہر نکل کر ٹرومین بھائی نے بھیا کی غیرت کو جھنجوڑنا چاہا کہ عمران بھائی کو چائے پلا کر اپنی ازلی ابدی کنجوسی سے جان چھڑائیں مگر بھیا نے الٹے سیدھے بہانے بنا کر صاف انکار کردیا۔

اس دوران ٹرومین بھائی نے فلسفی بھائی کا اور اپنا تحفہ پیش کیا جسے بھیا نے جھٹ سے لپک کر فٹ سے قبول کرلیا۔ بھیا لاکھ کنجوس سہی مگر ان کاموں میں کنجوسی سے کام نہیں لیتے۔ آخر میں بھیا نے سب کو ایک ایک پان کھلا کر فیاضی کے وہ دریا بہائے کہ قریب تھا سارا کراچی فیاضی کے دریا میں بہہ جاتا ۔

پان کے رنگ سے منہ سرخ کرکے سب کوچۂ یار سے سرخروئی کے ساتھ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔

اس حسین رات کو رنگین بنانے پر ٹرومین بھائی کا شکریہ۔ اور اتنی محبتیں بانٹنے پر، ہمیں اتنا یاد رکھنے پر فلسفی بھائی کا بھی شکریہ!!!
زبردست پان میٹھا تھا؟ مجھے کراچی میں پان بہت پسند ہے. اگرچہ اور بھی بہت کچھ کراچی کا پسند ہے. لیکن رات کو کراچی کی سڑکوں پر منہ میں پان رکھ کر آوارہ گردی کرنے کا الگ مزہ ہے. کچھ تصاویر کھینچی یا وہی پرانی روش؟
فلسفی بھائی کی محبت کی واقعی داد بنتی ہے.
 

اے خان

محفلین
تحریر عمدہ ہے۔

ہاں عنوان اور اس کی بعد کی کہانی نے وہی کام کیا جو کبھی بچپن میں ہم بک اسٹالز پر دیکھا کرتے تھے۔ اسی طرح کا رنگین عنوان ہوتا تھا ہوشربا قسم کا، کتاب پلاسٹک کے کور میں بند کہ کوئی ایک لفظ بھی نہ دیکھ سکے اور خرید ہی کر پڑھے۔ خرید کر پڑھتے تھے تو اندر سے اسی طرح کی کہانی نکلتی تھی، رہے نام اللہ کا۔ مفتی صاحب آپ کو تو کسی آن لائن اخبار میں ہونا چاہیئے تھا۔ :)
جی میرے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے ایک کتاب تھی پیرس کی حسین راتیں اس طرح کچھ نام تھا. لیکن اندر کہانی صرف دن کی تھی
 
Top