حالاتِ حاضرہ کی کہانی، شعروں کی زبانی

فرقان احمد

محفلین
صاحبو! شاعرانہ منطق اگر کوئی شے ہے تو لاجواب ہے۔ کیا آپ نے کبھی محسوس کیا کہ بحث مباحثے کے دوران اپنی دلیل کے حق میں کوئی شعر مل جائے تو بات میں خواہ مخواہ اک وزن سا پیدا ہو جاتا ہے۔ تقریری مقابلے تو موضوع کی موافقت میں برمحل شعر کے بغیر روکھے پھیکے لگتے ہیں۔ اگر کوئی مقرر موضوع کی مناسبت سے کوئی زبردست شعر سنا دے تو ہال تا دیر تالیوں سے گونجتا رہتا ہے۔ ہر شاعر کی اپنی اک دنیا ہوتی ہے اور بڑا شاعر تو اپنے اندر جہانِ معنی رکھتا ہے اور بسا اوقات اس کا سالہا سال بلکہ صدیوں پہلے کا کہا ہوا شعر عصر حاضر سے اپنا تعلق جوڑ لیتا ہے اور نہایت متعلقہ اور بامعنی محسوس ہوتا ہے۔ اس لڑی میں بھی ایسے اشعار کی شراکت کی جائے گی جو فی زمانہ پیش آنے والے واقعات سے موافقت و مطابقت رکھتے ہوں۔ ہمیں مسرت ہو گی کہ کوئی شعر آپ بھی سنائیں جو حالات حاضرہ پر صادق آتا ہو۔ اس بہانے شاعر کا بھی تذکرہ ہو جائے گا اور چائے خانے کی رونق بھی شاید کسی حد تک بحال ہو جائے۔
 

فرقان احمد

محفلین
چچا غالب آج عورت مارچ کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے تو انہیں ایک پوسٹر پر یہ نعرہ درج دکھائی دیا،
"Man of quality will never be afraid of equality"

چچا نے سر نیہوڑا لیا اور آگے بڑھ گئے کہ انہیں اپنا کہا ہوا شعر ہی یاد آ گیا،

غافل ان مہ طلعتوں کے واسطے
چاہنے والا بھی اچھا چاہیے!
 

میم الف

محفلین
چچا نے سر نیہوڑا لیا اور آگے بڑھ گئے کہ انہیں اپنا کہا ہوا شعر ہی یاد آ گیا،

غافل ان مہ طلعتوں کے واسطے
چاہنے والا بھی اچھا چاہیے!
لگتا ہے انھیں اپنا شعر مشکل سے یاد آیا تھا جو آپ نے باریک فانٹ استعمال کی ہے۔۔
 

فرقان احمد

محفلین
اکبر الٰہ آبادی مارچ میں بوجوہ شریک نہ ہوئے تاہم ردداد سننے پر یوں گویا ہوئے،

ہمارے ملک میں ہوتا ہے کیا تعلیمِ نسواں سے
بہ جُز اس کے کہ باوا اور بھی گھبرائیں اماں سے
 

فرقان احمد

محفلین
فیض نے تو بس یہی کہا تھا کہ مجمع کو گویا آگ لگ گئی،
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے!
خواتین تو گویا فیض کی گرویدہ ہو گئیں!
 

فرقان احمد

محفلین
پروین شاکر مرحومہ کی ایک نظم،

وہ چہرہ
بہارکے پھول کی طرح تازہ تھا
اور آنکھیں
پہلی محبت کی طرح شفاف!
لیکن اس کے ہاتھ میں
ترکاری کاٹتے رہنے کی لکیریں تھیں
اور ان لکیروں میں
برتن مانجھنے والی راکھ جمی تھی
اس کے ہاتھ
اس کے چہرے سے بیس سال بڑے تھے!

(عورت مارچ سے قطع نظر کبھی کبھار ہم مردوں کو کم از کم عورتوں کا اس حوالے سے تو خیال رکھنا چاہیے۔ خیال رہے کہ یہ اشعار مظلوم مردوں کے لیے نہ ہیں، ان کے لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کیری آن)
 

فرقان احمد

محفلین
مجاز بھی عورت مارچ کے حامی نکلے!

وہ اک مضراب ہے اور چھیڑ سکتی ہے رگ جاں کو
وہ چنگاری ہے لیکن پھونک سکتی ہے گلستاں کو
وہ بجلی ہے جلا سکتی ہے ساری بزم امکاں کو
ابھی میرے ہی دل تک ہیں شرر سامانیاں اس کی
زباں پر ہیں ابھی عصمت و تقدیس کے نغمے
وہ بڑھ جاتی ہے اس دنیا سے اکثر اس قدر آگے
مرے تخیل کے بازو بھی اس کو چھو نہیں سکتے
مجھے حیران کر دیتی ہے نکتہ دانیاں اس کی
 
ہم بہت دور نکل آئے ہیں چلتے چلتے
اب ٹھہر جائیں کہیں، شام کے ڈھلتے ڈھلتے

اب غمِ زیست سے گھبرا کے کہاں جائیں گئے
عمر گزری ہے اسی آگ میں جلتے جلتے

رات کے بعد سحر ہو گی مگر کس کے لیے
ہم ہی شاید نہ رہیں رات کے ڈھلتے ڈھلتے
٭٭٭
سلیم احمد
 
آخری تدوین:
آوارگی میں حد سے گزر جانا چاہیے
لیکن کبھی کبھار تو گھر جانا چاہیے

جب ڈوبنا ہی ٹھہرا تو پھر ساحلوں پہ کیوں
اس کے لیے تو بیچ بھنور جانا چاہیے

(حسن عباس رضا)
 

فرقان احمد

محفلین
بند پڑے ہیں شہر کے سارے دروازے
۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیسا آسیب اب گھر گھر لگتا ہے

کرشن کمار طورؔ


 
آخری تدوین:
Top