جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا تو سہی

کیا کوئی انسان جس نے زندگی بھر رشتوں میں بہتری ہی کمائی ہو اس کو بھی وقت گزرنے کے بعد یہی احساس ہوگا یا وہ سوچےگا کہ مال کچھ کما لیتا تو آج کچھ بہتر حالوں میں ہوتا اور پیچھے رہنے والوں کو چھوڑ کر جاتا؟ یعنی کیا وقت گزرنے کے ساتھ انسان پہ اس چیز کی اہمیت کا ادراک ہوتا ہے جو اس سے چھوٹ چکی ہوتی ہے یا نہیں؟
اگر ایک انسان نے ساری عمر صرف خدائی حکم کے مطابق رشتوں میں بہتری کمانے میں صرف کردی اور اسی کوشش میں خوش ہوتا رہا نتائج کی پرواہ کیے بغیر کہ واقعی رشتوں میں بہتری آئی یا نہیں (جو شاید آسان نہیں) تو وقت گذرنے کے ساتھ اسے کسی چیز کےچھوٹ جانے کا احساس نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے اپنی کوشش کا احساس ہی مکمل خوشی کا باعث ہوگا۔
لیکن ایک انسان ساری عمر رشتوں میں بہتری کمانے میں لگا رہا اور اس انتظار میں رہا کہ اس کی کوشش سے دوسری طرف سے بھی ویسا ہی خلوص اور ویسی ہی گرم جوشی اسے بھی ملے گی اور عمر کے کسی حصے میں اسے احساس ہوا کہ دوسری طرف سے ویسی گرم جوشی اور خلوص پیدا نہ ہوسکے تو پھر ظاہر ہے اسے بہت کچھ کھودینے کا احساس ہوگا۔
 
آپ کہیں اپنے ممتحن کا بدلہ تو نہیں لے رہے۔ :)
جب میں نے یہ سوال حل کیا کہ
صفر + صفر + صفر = صفر
تو ممتحن نے مجھے 100 میں سے 100 نمبر دیے۔ :)
کچھ لوگ اس سادہ سے سوال کا جواب بھی نہیں دے پاتے۔:)
 
آخری تدوین:
آپ کے اندر دنیا کی ہر قسم کی positivity جمع ہوگئی ہے جس کی وجہ سے آپ گرے ایریا میں رہتی ہیں ۔۔ you should accept things as they are ۔۔ اسکے بعد بدلاؤ کا عمل ہوگا یا پھر آپ clearly ریجیکٹ کریں یہ بات بھی بدلاؤ کا باعث ہے ۔۔ انسانی ذہن کو push, shock and trigger ان تین عوامل سے لازماً تحریک ملتی ہے
ایک سوال ذہن میں اور آتا ہے، سوچا مناسب زمرے میں پوچھوں:
مثال کے طور پر کوئی انسان کسی حد تک پوزیٹیو ہے، اور اس کے لیے یہ ورک کرتا ہے! تو وہ چیزوں کو کلئیرلی ریجیکٹ کیوں کرے اور بدلاؤ کس بہتری کے لیے لائے جو کہ یقینا کم پوزیٹیو ہوگی؟اور پش شاک اینڈ ٹریگر سے کیا کری ایٹوٹی زیادہ ہوتی ہے، پروکراسٹینیشن کم ہوتی ہے یا کس طرف اشارہ ہے؟
 
ایک اور سوال کچھ دن سے ذہن میں آ رہا تھا یہاں پوچھنے کےلیے:
کچھ کونسیپٹس ہمارے ہاں غلط العام ہیں۔ ان کو شروع کرنے کی ذمہ داری کیا تاریخ میں کسی لکھاری یا حکمران یا کلچر وغیرہ کی ہے؟ مثلا:

1) انسان اشرف المخلوقات ہے۔
2) شوہر مجازی خدا ہے۔
3) عورت ناقص العقل ہے۔
وغیرہ وغیرہ۔۔۔

اگرچہ یہ یونیورسل ٹروتھس کی طرح معاشروں میں چل رہے ہیں مگر یہ کہا کس نے تھا اور اس نے ثابت کیسے کیا تھا؟ یا یہ اس لیے چل رہے ہیں کہ اس میں معاشرت کا مفاد ہے؟
 

ظفری

لائبریرین
ایک اور سوال کچھ دن سے ذہن میں آ رہا تھا یہاں پوچھنے کےلیے:
کچھ کونسیپٹس ہمارے ہاں غلط العام ہیں۔ ان کو شروع کرنے کی ذمہ داری کیا تاریخ میں کسی لکھاری یا حکمران یا کلچر وغیرہ کی ہے؟ مثلا:

1) انسان اشرف المخلوقات ہے۔
2) شوہر مجازی خدا ہے۔
3) عورت ناقص العقل ہے۔
وغیرہ وغیرہ۔۔۔

اگرچہ یہ یونیورسل ٹروتھس کی طرح معاشروں میں چل رہے ہیں مگر یہ کہا کس نے تھا اور اس نے ثابت کیسے کیا تھا؟ یا یہ اس لیے چل رہے ہیں کہ اس میں معاشرت کا مفاد ہے؟
آپ کے سوالات بہت اہم اور قابلِ غور ہیں، اور ایسے سوالات ان مفروضات کی جڑوں تک پہنچنے کی دعوت دیتے ہیں۔ جن پر کئی معاشرے صدیوں سے اپنی سوچ اور نظام قائم کرتے آ رہے ہیں۔چونکہ میرے پاس رات بہت ہوچکی ہے ۔ اس لیئے کل دن میں اپنی بساط کے مطابق میں ان سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کروں گا ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میں ان سے مل چکا ہوں ۔ مجھے اس زمانے میں نئے نئے تجربات کرنے کا شوق تھا ۔ خصوصا تصوف کے بارے میں ۔
ارے واہ ۔۔۔
میں کالج کے زمانے میں میں ان کی تحریروں اور کتب سے کافی دلچسپی رکھتا تھا ۔
اس زمانے میں کچھ یوگا کی کتب اور پریکٹس بھی کافی لگن سے کی ۔
 

ظفری

لائبریرین
ایک اور سوال کچھ دن سے ذہن میں آ رہا تھا یہاں پوچھنے کےلیے:
کچھ کونسیپٹس ہمارے ہاں غلط العام ہیں۔ ان کو شروع کرنے کی ذمہ داری کیا تاریخ میں کسی لکھاری یا حکمران یا کلچر وغیرہ کی ہے؟ مثلا:

1) انسان اشرف المخلوقات ہے۔
2) شوہر مجازی خدا ہے۔
3) عورت ناقص العقل ہے۔
وغیرہ وغیرہ۔۔۔

اگرچہ یہ یونیورسل ٹروتھس کی طرح معاشروں میں چل رہے ہیں مگر یہ کہا کس نے تھا اور اس نے ثابت کیسے کیا تھا؟ یا یہ اس لیے چل رہے ہیں کہ اس میں معاشرت کا مفاد ہے؟
فجر میں بمشکل گھنٹہ باقی ہے ۔ سو چا کہ آپ کے سوالات پر طبع آزمائی کرلی جائے ۔ لیکن آپ کی یہ بات کہ کچھ کونسیپٹس ہمارے ہاں غلط العام ہیں۔
اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آپ نے تحقیق کر رکھی ہے کہ یہ تمام تصورات قطعی طور پر غلط ہیں ۔ تو کچھ اس بارے میں فرما دیں ۔ تاکہ مجھے اپنے جواب کی رینج اور سطح کو تعین کرنے میں آسانی ہو ۔
 

ظفری

لائبریرین
ارے واہ ۔۔۔
میں کالج کے زمانے میں میں ان کی تحریروں اور کتب سے کافی دلچسپی رکھتا تھا ۔
اس زمانے میں کچھ یوگا کی کتب اور پریکٹس بھی کافی لگن سے کی ۔
ان کا روشنی اور رنگوں سے علاج بھی کافی مشہور ہوا تھا ۔
 
فجر میں بمشکل گھنٹہ باقی ہے ۔ سو چا کہ آپ کے سوالات پر طبع آزمائی کرلی جائے ۔ لیکن آپ کی یہ بات کہ کچھ کونسیپٹس ہمارے ہاں غلط العام ہیں۔
اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آپ نے تحقیق کر رکھی ہے کہ یہ تمام تصورات قطعی طور پر غلط ہیں ۔ تو کچھ اس بارے میں فرما دیں ۔ تاکہ مجھے اپنے جواب کی رینج اور سطح کو تعین کرنے میں آسانی ہو ۔
نہیں نہیں۔ میں اوپن ہوں کہ جواب کچھ بھی نکل سکتا ہے۔ آپ شروع کریں!
میں نے غلط العام اس لیے کہا کیونکہ عام طور پر ہم کسی قوٹیشن کی صحت تبھی سمجھتے ہیں اگر اسے بتانے والے کے اخلاق و کردار یا غیر معمولی صلاحیتوں کا پتہ ہو۔ جب کہ میرا نہیں خیال اس طرح کی باتوں کو شروع کرنے کی ذمہ داری کسی نے لی؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ان کا روشنی اور رنگوں سے علاج بھی کافی مشہور ہوا تھا ۔
جہاں تک میں سمجھا ان کی کور فلاسفی در اصل ذہنی یکسوئی کے ذریعے حاصل ہونے والی قوت پر تھی جو انسان کی قوت ارادی پر کافی اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔
روشنیاں ، ماہ بینی، شمع بینی وغیرہ ، یہ سب کی مشقیں سن ذہنی یکسوئی کی قوت کو جگانے کے لیے ہی تھیں ۔اس عمر میں یہ بہت سحر انگیز حد تک دلچسپ تھا ۔
 
آخری تدوین:
جہاں تک میں سمجھا ان کی کور فلاسفی در اصل ذہنی یکسوئی کے ذریعے حاصل ہونے والی قوت پر تھی جو انسان کی قوت ارادی پر کافی اثر انداز نے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔
روشنیاں ، ماہ بینی، شمع بینی وغیرہ ، یہ سب کی مشقیں سن ذہنی یکسوئی کی قوت کو جگانے کے لیے ہی تھیں ۔اس عمر میں یہ بہت سحر انگیز حد تک دلچسپ تھا ۔
اس سے ایک اور سوال جس نے جنم تو عرصہ پہلے لیا مگر لکھ آج رہی ہوں۔ کیا ذہنی یکسوئی کی مشقیں اورذہن کو غیر فطری انداز میں چلانا مفید ہے یا اس کے لانگ ٹرم نقصانات بہت زیادہ ہیں؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کیا ذہنی یکسوئی کی مشقیں اورذہن کو غیر فطری انداز میں چلانا مفید ہے یا اس کے لانگ ٹرم نقصانات بہت زیادہ ہیں؟
جہاں تک ذہنی قوتوں کے غیر فطری انداز میں استعمال کا تعلق ہے تو یہ ذہن کا کام نہیں اس کے لیے آپ کو ایک درجہ ذہن کی گہری تہہ میں اترنا ہو گا جہاں آپ کی اخلاقیات کی بنیادیں ہوتی ہیں ۔
ذہنی قوت تو آپ کے لیے زندگی میں میسر دیگر عقل و فہم کی قوت کی طرح ایک قوت ہی ہے اس کےاستعمال کا فیصلہ اخلاقیاتی نظام ہی کرے گا یہ آپ کی روحانی انا کے قریب تر ہو تا ہے ۔
اگر چہ عقل محض ایک پیچیدہ تصور ہے جو اپنے اپنے نظریات اور قلبی واردات کے مطابق مختلف تعبیرات رکھ سکتا ہے لیکن عموما یہ انسان کی روحانی اور اخلاقیاتی انا کے لیے سطحی روشنی فراہم کرنے کا ذریعہ ہے ۔ ااس کو ڈاکٹر اقبال نے ایک جگہ بال جبریل میں انتہائی عمدگی سے بیان کیا ہے ۔

خرد سے راہرو روشن بصر ہے!
خرد کیا ہے ؟ چراغ رہگزر ہے !
درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا ؟
چراغ رہگزر کو کیا خبر ہے ؟؟؟
 
Top