یاز
محفلین
چنگا پھڑیا جے ۔آپ کہیں اپنے ممتحن کا بدلہ تو نہیں لے رہے۔![]()
چنگا پھڑیا جے ۔آپ کہیں اپنے ممتحن کا بدلہ تو نہیں لے رہے۔![]()
اگر ایک انسان نے ساری عمر صرف خدائی حکم کے مطابق رشتوں میں بہتری کمانے میں صرف کردی اور اسی کوشش میں خوش ہوتا رہا نتائج کی پرواہ کیے بغیر کہ واقعی رشتوں میں بہتری آئی یا نہیں (جو شاید آسان نہیں) تو وقت گذرنے کے ساتھ اسے کسی چیز کےچھوٹ جانے کا احساس نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے اپنی کوشش کا احساس ہی مکمل خوشی کا باعث ہوگا۔کیا کوئی انسان جس نے زندگی بھر رشتوں میں بہتری ہی کمائی ہو اس کو بھی وقت گزرنے کے بعد یہی احساس ہوگا یا وہ سوچےگا کہ مال کچھ کما لیتا تو آج کچھ بہتر حالوں میں ہوتا اور پیچھے رہنے والوں کو چھوڑ کر جاتا؟ یعنی کیا وقت گزرنے کے ساتھ انسان پہ اس چیز کی اہمیت کا ادراک ہوتا ہے جو اس سے چھوٹ چکی ہوتی ہے یا نہیں؟
جب میں نے یہ سوال حل کیا کہآپ کہیں اپنے ممتحن کا بدلہ تو نہیں لے رہے۔![]()
ایک سوال ذہن میں اور آتا ہے، سوچا مناسب زمرے میں پوچھوں:آپ کے اندر دنیا کی ہر قسم کی positivity جمع ہوگئی ہے جس کی وجہ سے آپ گرے ایریا میں رہتی ہیں ۔۔ you should accept things as they are ۔۔ اسکے بعد بدلاؤ کا عمل ہوگا یا پھر آپ clearly ریجیکٹ کریں یہ بات بھی بدلاؤ کا باعث ہے ۔۔ انسانی ذہن کو push, shock and trigger ان تین عوامل سے لازماً تحریک ملتی ہے
شمس الدین عظیمی یادآگیا ۔ نہ جانےکیوں ۔اس لڑی سے متاثر ہو کر ایک کتاب آرڈر کر دی ہے
![]()
Shamanism: The Timeless Religion
From a brilliant, young, Harvard-trained anthropologist…www.goodreads.com
آپ کے سوالات بہت اہم اور قابلِ غور ہیں، اور ایسے سوالات ان مفروضات کی جڑوں تک پہنچنے کی دعوت دیتے ہیں۔ جن پر کئی معاشرے صدیوں سے اپنی سوچ اور نظام قائم کرتے آ رہے ہیں۔چونکہ میرے پاس رات بہت ہوچکی ہے ۔ اس لیئے کل دن میں اپنی بساط کے مطابق میں ان سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کروں گا ۔ایک اور سوال کچھ دن سے ذہن میں آ رہا تھا یہاں پوچھنے کےلیے:
کچھ کونسیپٹس ہمارے ہاں غلط العام ہیں۔ ان کو شروع کرنے کی ذمہ داری کیا تاریخ میں کسی لکھاری یا حکمران یا کلچر وغیرہ کی ہے؟ مثلا:
1) انسان اشرف المخلوقات ہے۔
2) شوہر مجازی خدا ہے۔
3) عورت ناقص العقل ہے۔
وغیرہ وغیرہ۔۔۔
اگرچہ یہ یونیورسل ٹروتھس کی طرح معاشروں میں چل رہے ہیں مگر یہ کہا کس نے تھا اور اس نے ثابت کیسے کیا تھا؟ یا یہ اس لیے چل رہے ہیں کہ اس میں معاشرت کا مفاد ہے؟
خواجہ شمس الدین عظیمی کی تو بات نہیں کر رہے آپ ؟شمس الدین عظیمی یادآگیا ۔ نہ جانےکیوں ۔![]()
جی جی بالکل وہی۔۔ قلندر بابا اولیاء والے ۔خواجہ شمس الدین عظیمی کی تو بات نہیں کر رہے آپ ؟
میں ان سے مل چکا ہوں ۔ مجھے اس زمانے میں نئے نئے تجربات کرنے کا شوق تھا ۔ خصوصا تصوف کے بارے میں ۔جی جی بالکل وہی۔۔ قلندر بابا اولیاء والے ۔
ارے واہ ۔۔۔میں ان سے مل چکا ہوں ۔ مجھے اس زمانے میں نئے نئے تجربات کرنے کا شوق تھا ۔ خصوصا تصوف کے بارے میں ۔
فجر میں بمشکل گھنٹہ باقی ہے ۔ سو چا کہ آپ کے سوالات پر طبع آزمائی کرلی جائے ۔ لیکن آپ کی یہ بات کہ کچھ کونسیپٹس ہمارے ہاں غلط العام ہیں۔ایک اور سوال کچھ دن سے ذہن میں آ رہا تھا یہاں پوچھنے کےلیے:
کچھ کونسیپٹس ہمارے ہاں غلط العام ہیں۔ ان کو شروع کرنے کی ذمہ داری کیا تاریخ میں کسی لکھاری یا حکمران یا کلچر وغیرہ کی ہے؟ مثلا:
1) انسان اشرف المخلوقات ہے۔
2) شوہر مجازی خدا ہے۔
3) عورت ناقص العقل ہے۔
وغیرہ وغیرہ۔۔۔
اگرچہ یہ یونیورسل ٹروتھس کی طرح معاشروں میں چل رہے ہیں مگر یہ کہا کس نے تھا اور اس نے ثابت کیسے کیا تھا؟ یا یہ اس لیے چل رہے ہیں کہ اس میں معاشرت کا مفاد ہے؟
ان کا روشنی اور رنگوں سے علاج بھی کافی مشہور ہوا تھا ۔ارے واہ ۔۔۔
میں کالج کے زمانے میں میں ان کی تحریروں اور کتب سے کافی دلچسپی رکھتا تھا ۔
اس زمانے میں کچھ یوگا کی کتب اور پریکٹس بھی کافی لگن سے کی ۔
نہیں نہیں۔ میں اوپن ہوں کہ جواب کچھ بھی نکل سکتا ہے۔ آپ شروع کریں!فجر میں بمشکل گھنٹہ باقی ہے ۔ سو چا کہ آپ کے سوالات پر طبع آزمائی کرلی جائے ۔ لیکن آپ کی یہ بات کہ کچھ کونسیپٹس ہمارے ہاں غلط العام ہیں۔
اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آپ نے تحقیق کر رکھی ہے کہ یہ تمام تصورات قطعی طور پر غلط ہیں ۔ تو کچھ اس بارے میں فرما دیں ۔ تاکہ مجھے اپنے جواب کی رینج اور سطح کو تعین کرنے میں آسانی ہو ۔
جہاں تک میں سمجھا ان کی کور فلاسفی در اصل ذہنی یکسوئی کے ذریعے حاصل ہونے والی قوت پر تھی جو انسان کی قوت ارادی پر کافی اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ان کا روشنی اور رنگوں سے علاج بھی کافی مشہور ہوا تھا ۔
اس سے ایک اور سوال جس نے جنم تو عرصہ پہلے لیا مگر لکھ آج رہی ہوں۔ کیا ذہنی یکسوئی کی مشقیں اورذہن کو غیر فطری انداز میں چلانا مفید ہے یا اس کے لانگ ٹرم نقصانات بہت زیادہ ہیں؟جہاں تک میں سمجھا ان کی کور فلاسفی در اصل ذہنی یکسوئی کے ذریعے حاصل ہونے والی قوت پر تھی جو انسان کی قوت ارادی پر کافی اثر انداز نے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔
روشنیاں ، ماہ بینی، شمع بینی وغیرہ ، یہ سب کی مشقیں سن ذہنی یکسوئی کی قوت کو جگانے کے لیے ہی تھیں ۔اس عمر میں یہ بہت سحر انگیز حد تک دلچسپ تھا ۔
جہاں تک ذہنی قوتوں کے غیر فطری انداز میں استعمال کا تعلق ہے تو یہ ذہن کا کام نہیں اس کے لیے آپ کو ایک درجہ ذہن کی گہری تہہ میں اترنا ہو گا جہاں آپ کی اخلاقیات کی بنیادیں ہوتی ہیں ۔کیا ذہنی یکسوئی کی مشقیں اورذہن کو غیر فطری انداز میں چلانا مفید ہے یا اس کے لانگ ٹرم نقصانات بہت زیادہ ہیں؟