جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا تو سہی

سید عاطف علی

لائبریرین
اب شاید ہم ہی میں برداشت کی عادت بہت بہتر ہوئی ہے۔
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ معطل ہونے والوں کو نکال کے باقی ماندہ ہمخیال محفلین کے بارے میں گمان کیا جا رہا ہو ۔ (اس کوذرا کم سنجیدہ کمنٹ سمجھا جائے :) )
 

سید عاطف علی

لائبریرین
غیرمتفق کی ریٹنگ کام نہیں کرتی اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اس حوالےسے میں آپ سے شدید اختلاف کرتا ہوں۔ آپ محفل یا کسی اور فورم سے محض کسی بھی علم کی سطح کو چھو سکتے ہیں۔ اگر آپ سیکھنا اور جاننا چاہتے ہیں تو آپ کو اس فیلڈ کے ایکسپرٹس کی آؤٹ پٹ پڑھنی پڑے گی۔ یہ کتب بھی ہو سکتی ہیں، پیپر بھی اور لیکچر بھی۔
اگر چہ آپ کی بات کے پیچھے ایک صحتمند اور مثبت اصول صاف نظر آتا ہے ۔ لیکن جب موضوع اتنا حساس اور اعلی دقتِ نظر کا متقاضی ہو تو آپ کو چاہیے(یعنی آپ کے شایاں ہے ) کہ اپنے مطالعے اور اپنی فکری گہرائی سے اس نکتے کے متعلقہ علمی نچوڑ کو پیش کریں، کیوں کہ جب آپ کی سوچ کا طریقہ کار اور آپ کے اخذ کردہ نتائج آپ کے ا لفاظ کے ذریعے ہم تک پہنچیں گے تو اس سے ہمارے یا مخاطب کے مستفید ہونے کا امکان بھی زیادہ ہو گا ۔بحث کا مقصد اپنے نقطہء نظر سے کسی کی سوچ کو یا اس کی سوچ کے کسی گوشے کو روشن کرنا ہوتا ہے ۔
کسی موضوع پر اس موضوع کے ایکسپرٹ سے اختلاف کرنا ضروری نہیں کہ ہمیشہ غلط ہی ہو،، دو ایکسپرٹس آپس میں بھی مختلف ہوتے ہیں خصوصا مذہب کے تصورات (بقول آپ کے اعلی مذہب) محض آپ کی فکر پر ہی مبنی نہیں ہوتے اس میں آپ کے قلبی واردات یا ان کے خلا کی چھاپ بھی ہوتی ہے ) ۔
مجھے (ذاتی طور پر)ایسا محسوس ہوا کہ آپ اپنا نقطہ نظر کھل کر پیش نہیں کر رہے ہیں اور اس کے پیچھے کچھ مصلحتیں ہو سکتی ہیں (یا واضح اسباب ) ۔
 

یاز

محفلین

La Alma

لائبریرین
کچھ شخصیات کا کسی خاص ہائیر فریکوئنسی پر ہونا یا کائنات میں کچھ خاص فریکوئنسیز کو رسیو کر پانا اکثر سننے میں آتا ہے۔ مزید برآں کسی دوسرے انسان سے ہم آہنگی کو بھی بعض اوقات فریکوئنسی میچ ہونے سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ کیا یہ محض ایک تشبیہہ ہی ہے یا ہم سب ایک طرح کے ٹیوننگ فورک ہیں؟ اور یہ پراسیس کس طرح کام کرتا ہے؟
ٹیوننگ فورک سے یاد آیا کہ یہ فریکوئنسی والا معاملہ اکثر شاعروں کے ہاں بھی پایا جاتا ہے۔ ان کے دماغ کے ٹیوننگ فورک سے جو خیال مرتعش ہوتے ہیں، کبھی کبھار ان پر کچھ الفاظ “ غالب” آ جاتے ہیں جنہیں وہ آمد کا نام دے دیتے ہیں۔ :)
مختلف افراد کے مابین ذہنی ہم آہنگی کا سبب ایک قسم کی سلیکٹو اٹینشن بھی ہو سکتی ہے۔ ارسطو کا قول ہے کہ
‏“Nature -abhors-a-vacuum” اگر اسکا اطلاق انسانی فطرت پر کیا جائے تو انسان اس شے کی طرف لازماً متوجہ ہو گا جو اسکے تجسس اور شوق کے خلا کو پُر کر سکے۔ اب اسے فریکوئنسی میچ کہیں، کسی انسان کے اوور آل Aura کے مقناطیسی فیلڈ کا اثر سمجھیں، یا پھر لا آف اٹریکشن کا کوئی عمل دخل جانیں ۔ بہر صورت کہیں نہ کہیں، کچھ نہ کچھ ایسا ضرور موجود ہے جس کی طرف انسان بے اختیار کھنچا چلا جاتا ہے۔
اصل میں غیر مادی اشیا کی توضیح اور تشریح کا کوئی ہمہ گیر اصول بھی تو متعین نہیں کیا جا سکتا۔ اب وہ چاہے جذبات ہوں، خیالات ہوں یا احساسات، ہر ایک پر اسکا اثر جداگانہ ہوتا ہے۔ مزید براں انسانی ذہن کی ساخت بھی بہت پچیدہ ہے۔ اسکی کارکردگی کے پیچھے بیشتر حیاتیاتی، نفسیاتی ، طبیعاتی اور سماجی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ سو حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اکثر ادراک محض فریکوئنسی الوژن کا نتیجہ ہوتے ہیں۔آیا کوئی مخصوص ہائر فریکوئنسی، کسی طور کشف، الہام یا ایسی کسی صورت کو ممکن بنا سکتی ہے اسے مابعدالطبیعاتی تناظر میں ہی دیکھا جا سکتا ہے۔
 
چار پانچ دن قبل دفتری مصروفیات کے سبب بستر پر پہنچتے دو بج گئے لیکن باوجود کوشش کے نیند ندارد۔ آخر مجھے یہ لڑی کھولنا پڑی ۔۔۔۔۔۔۔
 
Top