کچھ شخصیات کا کسی خاص ہائیر فریکوئنسی پر ہونا یا کائنات میں کچھ خاص فریکوئنسیز کو رسیو کر پانا اکثر سننے میں آتا ہے۔ مزید برآں کسی دوسرے انسان سے ہم آہنگی کو بھی بعض اوقات فریکوئنسی میچ ہونے سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ کیا یہ محض ایک تشبیہہ ہی ہے یا ہم سب ایک طرح کے ٹیوننگ فورک ہیں؟ اور یہ پراسیس کس طرح کام کرتا ہے؟
ٹیوننگ فورک سے یاد آیا کہ یہ فریکوئنسی والا معاملہ اکثر شاعروں کے ہاں بھی پایا جاتا ہے۔ ان کے دماغ کے ٹیوننگ فورک سے جو خیال مرتعش ہوتے ہیں، کبھی کبھار ان پر کچھ الفاظ “ غالب” آ جاتے ہیں جنہیں وہ آمد کا نام دے دیتے ہیں۔

مختلف افراد کے مابین ذہنی ہم آہنگی کا سبب ایک قسم کی سلیکٹو اٹینشن بھی ہو سکتی ہے۔ ارسطو کا قول ہے کہ
“Nature -abhors-a-vacuum” اگر اسکا اطلاق انسانی فطرت پر کیا جائے تو انسان اس شے کی طرف لازماً متوجہ ہو گا جو اسکے تجسس اور شوق کے خلا کو پُر کر سکے۔ اب اسے فریکوئنسی میچ کہیں، کسی انسان کے اوور آل Aura کے مقناطیسی فیلڈ کا اثر سمجھیں، یا پھر لا آف اٹریکشن کا کوئی عمل دخل جانیں ۔ بہر صورت کہیں نہ کہیں، کچھ نہ کچھ ایسا ضرور موجود ہے جس کی طرف انسان بے اختیار کھنچا چلا جاتا ہے۔
اصل میں غیر مادی اشیا کی توضیح اور تشریح کا کوئی ہمہ گیر اصول بھی تو متعین نہیں کیا جا سکتا۔ اب وہ چاہے جذبات ہوں، خیالات ہوں یا احساسات، ہر ایک پر اسکا اثر جداگانہ ہوتا ہے۔ مزید براں انسانی ذہن کی ساخت بھی بہت پچیدہ ہے۔ اسکی کارکردگی کے پیچھے بیشتر حیاتیاتی، نفسیاتی ، طبیعاتی اور سماجی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ سو حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اکثر ادراک محض فریکوئنسی الوژن کا نتیجہ ہوتے ہیں۔آیا کوئی مخصوص ہائر فریکوئنسی، کسی طور کشف، الہام یا ایسی کسی صورت کو ممکن بنا سکتی ہے اسے مابعدالطبیعاتی تناظر میں ہی دیکھا جا سکتا ہے۔